بہت سے شعبے ایسے ہیں جو ابھی بھی منتظر ہیں کہ ہماری طرف بھی دیکھا جائے اور ہمارے لئے اعلی کلاس کے سامان اور دیگر انتظامی امور کو چلانے کے لئے۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس سہولتیں فراہم ہوں تاکہ آنے والے سائل کو صاف ستھرے ماحول میں اس کے مسئلے کے مطابق اس کو وہ چیز فراہم کی جائے جس کی اسے آشد ضرورت ہے بھت سی جگہوں پر دیکھا گیا ھے جو ڈائریکٹ اپنے شھریوں سے وابستہ ھے وھاں پر اکثر دیکھا گیا ھے بلکہ بڑی شدت سے محسوس کیا گیا ھے کہ بحیثیت پاکستانی شھری ھمیں رسائ تو ملتی ھے
مختلف جگہوں پر چاھے وہ ٹوکن سے ملے سفارش سے یا لائن میں لگ کر اور کئی جگہوں پر ایسا بھی دیکھاکہ آوٹ آف پاور سائل کو ذہنی ٹارچر کیا جاتا ھے حالانکہ ریاست کے آئین میں کہیں ایسا درج نہیں ھے کہ کوئی بھی پاکستانی شھری اپنے مسئلے کے لئے کسی بھی ادارے میں جائے تو اسے خوار کیا جائے بلکہ اسے ھر صورت میں تمام وہ سھولتیں فراہم کی جائیں جو ایک معزز شھری کی ھوتی ھیں ایک سروے میں یہ بھی دیکھا گیاھےکہ عام عوام کے ساتھ نہایت ھی سخت اور نظر انداز کر دینے والا رویہ اپنایا جاتا ھے اور بڑے ھی تحکمانہ انداز میں مخاطب کیاجاتا۔ھے کہ جیسے کرسی پر بیٹھا ھوا پوری ریاست کا مالک ھو سادہ لوح اور پڑھے لکھے لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ آخر ایسا کیوں ؟ ھم اپنے ملکی ذمہ داروں سے اپنے حصے کے حقوق اور اپنے حصے کی سھولتیں لینے آتے ھیں اور ھمارے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ھے جاتا ۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $48 CLICK HERE
گذشتہ دنوں شناختی کارڈبنوانے کے سلسلے میں آفس جانا ھوا تو وھاں ایک تلخ تجربہ ھوا ایسا لگا کہ ھم کسی اور جھاں میں آگئے ھیں۔جس کے ھاتھ میں قلم ھے وھی عوام کے مقدرلکھنے میں مصروف ھے عوام جب مکمل ٹیکس ادا کرتی ھے تو اسے سھولتیں بھی مکمل ملنی چاہیئں ریاست تو اپنے شھریوں کے لئے تو اچھا ھی کرتی ھے اچھا ھی سوچتی۔ھے پر جو آگے کرسیوں پر بیٹھتے ھیں وہ اپنی مرضی کے مالک ھیں جس طرح چاھیئں کریں جب کہ ایسا نہیں ھونا چاھئے ۔ھونا تو یہ چاہیئے کہ عوام کو اپنے شھریوں کو ھر وہ سھولیت بالا ایمانداری سے دی جائے جس طرح ریاست نے سھولتیں عوام کےلئے۔ مختص کی ھوئی ھیں ۔بھت سی جگہوں پر بھت سے دفتروں میں لاتعداد ایسے مراکز نام لئے بغیر کہ وھاں پر کوئ ترتیب نہیں ناکافی سھولتیں ھیں افراتفری کا عالم ھے۔لیکن بیان تسلیاں اتنی ھیں کہ جیسے ھم یو ایس اے یا یوکےیا دیگر یورپین ممالک میں رہ کرانسانی حقوق کی یوٹیلائزیشن کے مزے لے رھے ھیں نہ کوئ یہاں طریقہ ھے نہ کوئ یہاں سلیقہ ھے بس یہ تیری ھے یہ میری ھے اور باقی ہیرا پھیری ھے فنڈز ملتے ھیں ریاست اپنا فرض ادا کرتی ھے لیکن فنڈز جاتے کہاں ھیں ۔یہ سمجھ نہں آتی وسائل کہاں جاتے ھیں اس کا تو ضرور پتہ ھونا چاھئے اب آپ کہیں بھی جائیں آپ اک نئے عالم المسائل کا سامنا کرتے ھیں جب عوام اور پوری قوم بھاری ٹیکس ادا کرتی ھے تو اس کے عوض عوام کو سھولتیں پوری ملنی چاہیئں نہ کہ در در کی ٹھوکریں ۔ یعنی عالم یہ ہے کہ ہم لوگ ہر طرح کا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتے ہیں اس کے عوض ہمیں صاف ستھرا پاکستان چاہیے
اگر ہم ہاسپٹل میں جائیں تو ہاسپٹل میں بہترین اعلی قسم کی سہولتیں ملنی چاہیے مریض بچ کر ائے نہ کہ بیمار ہو کر اس کی وجہ انکھوں دیکھا حال ہے گزشتہ دنوں ایک مریض کی عیادت کے لیے ہاسپٹل جانا پڑا ایک نہیں بلکہ دو ہاسپٹل میں گئے تو وہاں جو بیڈ ہیں ان کا تو مت پوچھیں نہ کوئی صفائی کا انتظام ہے وارڈوں میں تھوک پان کی پیک دیواریں گندی یہاں وہ بھی انتہائی یعنی خراب ایسا نہیں ہونا چاہیے اور نیچے دیکھا جو بیڈ کے نیچے حشرات چل رہے ہیں بدبو ہے جو ہمارے ٹیکس ہیں وہ اس طرح ہم پر لگتے ہیں کہ ہمیں ہاسپٹل صاف ستھرا چاہیے وہاں کی سہولتیں مثلا جہاں لوگوں کے ٹھہرنے کے لیے الگ جگہ ہو صاف ستھرا ماحول ہو کنٹین وہاں کی صاف ہو کھانے پینے کی چیزیں جو ملے وہ معیاری ہوں ریلیف ملے عوام کو پیسہ تو ہمارا ہی لگتا ہے اس کے عوض ہمیں کیا ملتا ہے ناک بند کر کے ہم ایسی جگہ پر جاتے ہیں جہاں ہم یہ توقع لے کر جاتے ہیں کہ وہاں ہمارا مریض بچ کر ائے گا بچنے کی بجائے وہ اور بیماریاں لے کر اتا ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تنقید کر رہے ہیں نہ ایسا ہرگز نہیں ہے ہاں مریض بچ کر بھی اتے ہیں پر لیکن زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ صفائی کا ناقص انتظام ہے جو ہمارے پیسے ہیں اس پیسے سے ان جگہوں کو صاف کریں یہاں سہولتیں دیں تو تب بہتر ہے
کیونکہ اگر ہم نے نسلیں تندرست رکھنی ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے ہسپتال شفا خانے اور ان سے وابستہ چیزیں صاف ستھری رکھنی ہیں کیونکہ پاس سے پیسہ تو لگتا نہیں ہے یہ سارا پیسہ عوام کا ہوتا ہے اور ارباب اختیار کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اعلی سہولتیں عوام تک پہنچ جائیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن اٹھ فروری 4202 کے بعد ایک نیا پاکستان نئے لوگ نیا سیٹ اپ کے عوام خوش ہو باہر سے لوگ جو آئیں وہ خوش ہوں یعنی کہ اٹھ فروری 2024کے بعد ہمیں ترقی یافتہ خوشحال صاف ستھرا پاکستان ملے یعنی کہ اٹھ فروری کے بعد وہ ابتدا ہو جائے جس کی ہم نے کئی دہائیاں پہلے پلاننگ کی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں پر عوام کو جانا پڑتا ہے یہ امید لے کر کہ ہم ایز اے پاکستانی شہری وہاں سے اپنے مسائل کا حل لے کر ائیں گے وہاں ہمیں بہت اچھی سہولت ملے گی لیکن وہاں بھی یہی حال کہ مت پوچھو یعنی ایک جگہ نہیں یعنی بہت سے مقامات ہیں جہاں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے سب سے پہلے قومیں ہوتی ہیں قوموں سے ملک بنتے ہیں اور ملک پھر دنیا میں نام بناتے ہیں
ترقی میں خوشحالی میں صفائی میں یعنی نئی ایجادات میں دنیا مثالیں دیتی ہے کہ وہ ملک کہ جس نے اپنی قوم کے لیے دن رات ایک کر کے اس کو زندگی کی تمام سہولتیں دی اس کو ہر ادارے میں صاف ستھرا ماحول دیا اس لیے بہت دیر غفلت میں رہیں اب ہمیں سوچنا ہے غفلت سے جاگنا ہے نسل نو کو بنانا ہے اور اس کے ہاتھ میں وطن عزیز کی باگ ڈور دینی ہے کیونکہ جہاں پر اگے دینے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے وہ ملک وہ قومیں ترقی خوشحالی کو ترستی ہیں اس لیے ہمیں چاہیے ذمہ داروں کو کہ اخر ایک نہ ایک دن ہم نے یہ چھوڑنا ہے کرسی کو چھوڑنا ہے اپنے ایکسپیرینس کو چھوڑنا ہے تو کیوں نہ ہم یہ چیز اپنے سے اگلوں کو منتقل کریں اگلے اگلوں کو منتقل کریں گے یہ ایک زنجیریں عمل ہے کہ میں اپ کو اپ دوسرے کو دوسرا تیسرے کو تو اس طرح زینہ در زینہ ترقی کے باپ کھلتے ہیں تعمیر نو کے باب کھلتے ہیں خوشحالی کے باپ کھلتے ہیں نسل نو کو یوٹیلائزیشن کرنے کے باب کھلتے ہیں اور تب جا کر ایک بہترین معاشرہ ایک بہترین ملک ایک بہترین قوم ایک بہترین جرنیشن بنتی ہے ہمیں نکلنا ہے اس دلدل سے اس بدحواسی سے ہمیں سوچنا ہے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اگر ہر چیز کو اپنی حد تک رکھنا ہے تو سبز ھلالی پرچم کیا ہے اس کو سمجھنا ہوگا سوچنا ہوگا۔ یہ ہماری شان ہے یہ ہم�
No comments:
Post a Comment