حقائق
واضح اور شفاف تھے، میں نے حکومتی. ناجائ. دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو چاہتی تھی کہ بچے کو مستند مجرموں کیساتھ بند کر دیا جائے
![]() |
Abdul Qayyum |
میں نے اس سے استدعا کی وہ مجھے اسمعاملے کے متعلق بتائے۔
میرے اس دوست نے جواب دیا: "مجھے یاد ہے کہ اس معاملے میں حقائق نہایت ہی واضح اور شفاف تھے۔ وہ لڑکا جس کی عمر بمشکل16 سال تھی، اس کے پاس سے میری جوانا (Merijuana) کی کافی مقدار برآمد ہوئی تھی اور اسے اسی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کا جرم بہت واضح تھا اور اس کو سزا سنانے کے لیے کافی شہادت موجود تھی۔ اس زمانے میں ججوں پر کافی دباؤ ہوتا تھا کہ منشیات کے عادی افراد کو ہر قیمت پر سزا دی جائے۔"
If you want to earn daily $40. click here
میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھی: "مجھے یہ نوجوان بہت پسند تھا لیکن مجھے اسے2 سال سزا سنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن مجھے امید تھی کہ وہ 6 ماہ بعد پیرول پر رہا ہو جائے گا۔"
"لیکن اس سے پہلے کہ اس نوجوان کو سزا سنائی جاتی، میری ملازمت کا سب سے عجیب و غریب واقع رونما ہوا۔ اس نوجوان کا وکیل میرے پاس آیا او رکہنے لگا: اس سے پہلے کہ آپ اسے سزا سنائیں، میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ خط میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔"
وہ اٹھا اور فائلوں والی الماری کی طرف گیا، وہاں سے ایک خط نکالا اور یہ کہتے ہوئے میرے حوالے کر دیا "تم اسے پڑ ھ لو۔"
اس خط میں لڑکے کے باپ نے اپنے بیٹے کے فعل کا وفاع کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اس کی بجائے اس نے اپنے بیٹے کے غلط فعل کی مکمل ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس خط کے کچھ حصوں کی عبارت یوں تھی:
"اگر جم کو سزا ہو جاتی ہے تو جج کو کہئے کہ وہ جم کو جیل بھیجنے کے بجائے مجھے جیل بھیج دے۔ کیونکہ، اگر میں ایک بہتر اور اچھا باپ ہوتا تو وہ اس تکلیف میں مبتلا نہ ہوتا۔ لہٰذا جم کی بجائے میں سزا کا مستحق ہوں۔"
اب میں نے اپنے دوست سے پوچھا "تم نے سزا کا یہ معاملہ کیسے طے کیا۔ حالانکہ اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی بجائے جیل جانے کی پیشکش کی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص کی بجائے دوسرا شخص اس کی سزا نہیں بھگت سکتا۔"
جج نے جواب دیا: "میں نے اس نوجوان کو6 ماہ کی عارضی سزا دی۔ اس پر مجھے اوپر سے کافی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا لیکن میرا استدلال یہ تھا کہ اگر اس 16سالہ نوجوان کا باپ، اپنے بیٹے کے اس فعل کی ذمہ داری محسوس کر سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی بچے کو وہ توجہ دینی چاہیے جس کی سے ضرورت ہے۔"
میں نے کہا: "مجھے یہ معلوم کرنے کی جستجو ہے کہ کیا تم نے کبھی یہ دیکھا کہ اس بچے نے اپنے آپ کو کیسے تبدیل کیا؟"
جج نے جواب دیا: "اصل معاملہ اب یہ ہے کہ گذشتہ موسم گرما میں میری ملاقات اس نوجوان کے وکیل سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس لڑکے نے پہلے تو کالج سے تعلیم حاصل کی، امتحانوں میں اعلی پوزیشن حاصل کی اور اب اس وقت وہ کامیاب پراپرٹی ڈیلر (Property Vendor) ہے۔"
جج نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میں اس معاملے میں خدا تعالیٰ کا دو چیزوں کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔"
میں نے پھر پوچھا: "وہ 2 چیزیں کیا ہیں؟"
اس نے جواب دیا: "پہلے یہ کہ مجھے یقین تھا کہ اس کا باپ بہت اعلیٰ احساس ذمہ داری کا مالک ہے اور اس کے اس روئیے کا باعث ایک مثبت اور تعمیری زندگی یقینی ہے۔ اس کا باپ اس قدر ذہین ہے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے۔ دوسرے، یہ کہ میرے سر پر یہ بوجھ نہیں کہ میں نے غیر ضروری طور پر فضول زندگی گزاری ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ میں نے حکومتی ناجائز دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو یہ چاہتی تھی کہ اس بچے کو مستند مجرموں کے گروہ کے ساتھ بند کر دیا جائے
No comments:
Post a Comment