Punjab Government Pakistan Rozgar Scheme پنجاب حکومت پاکستان روزگر سکیم
Bahauddin Zakariya College (BZU) Multan: An Exhaustive Overview
**Bahauddin Zakariya College (BZU) Multan: An Exhaustive Overview**
1. **Introduction**
- IF YOU WANT TO EARN DAILY 66$ CLICK HERE
2. **History and Establishment**
3. **Academic Projects and Faculties**
BZU offers a broad scope of scholastic projects across its different resources, taking special care of the requirements of understudies seeking after professions in assorted fields. The college has resources in the accompanying regions:
FOR MORE UPDATE CLICK HERE
**Faculty of Expressions and Social Sciences**
**Faculty of Sciences**
The Workforce of Sciences incorporates divisions like Physical science, Science, Science, Zoology, and Ecological Sciences. These offices underscore both hypothetical information and down to earth abilities, planning understudies for vocations in scholarly world, industry, and examination.
**Faculty of Agrarian Sciences and Technology**
Given the farming meaning of the locale, BZU has a devoted personnel for horticultural investigations, zeroing in on regions like yield science, soil science, plant pathology, and agronomy. The college's examination in this field upholds Pakistan's agrarian area by creating maintainable cultivating practices and yield improvement methods.
**Faculty of Designing and Technology**
The designing workforce offers programs in common, electrical, mechanical, and PC designing. With an emphasis on functional applications and industry importance, this workforce produces engineers who are exceptional to address the difficulties of current innovation and framework improvement.
**Faculty of Business Organization and Economics**
BZU's business and financial matters programs are exceptionally respected for their far reaching educational plan and exploration situated approach. The college offers degrees in business organization, trade, and financial aspects, encouraging future business pioneers and market analysts.
**Faculty of Islamic Examinations and Languages**
This workforce centers around Islamic religious philosophy, Arabic, Urdu, and other provincial dialects. Its projects are intended to protect the rich social and strict legacy of Pakistan while advancing exploration and grant in Islamic examinations.
4. **Research and Development**
**Institute of Biotechnology**
**Institute of Unadulterated and Applied Biology**
**Institute of Social and Social Studies**
**Institute of Substance Sciences**
5. **Campus Life and Understudy Facilities**
**Libraries**
The college has a focal library that houses large number of books, diaries, and computerized assets. The library is outfitted with current IT offices, empowering understudies to get to a great many scholarly materials and examination information bases.
**Sports and Extracurricular Activities**
BZU urges understudies to partake in sports and extracurricular exercises to advance actual prosperity and collaboration. The college has sports offices for cricket, football, tennis, and ball, as well as exercise rooms and wellness focuses.
**Student Social orders and Clubs**
The college has an assortment of understudy run social orders and clubs that take special care of various interests, like discussion, show, and innovation. These social orders assume a key part in upgrading understudies' social and authority abilities.
6. **International Coordinated efforts and Trade Programs**
BZU is effectively participated in building global associations with colleges and exploration establishments all over the planet. These coordinated efforts include understudy trade programs, joint examination undertakings, and staff advancement drives. The college's worldwide effort endeavors mean to furnish understudies with worldwide openness and potential chances to team up with scientists from assorted social and scholastic foundations.
Through its global associations, BZU understudies can partake in return programs with colleges in nations like the US, the Unified Realm, China, and Malaysia. These projects permit understudies to encounter different schooling systems and societies, widening their points of view and upgrading their intellectual and expert abilities.
7. **Alumni Organization and Vocation Opportunities**
BZU has major areas of strength for an organization that traverses different enterprises, the scholarly community, and government areas. The college's alumni have proceeded to make progress in different fields, like business, governmental issues, regulation, designing, and human expression. Large numbers of BZU's graduated class stand firm on unmistakable footings in both public and global associations, adding to the college's standing as a maker of exceptionally talented experts.
The college likewise has a committed vocation directing and situation office that helps understudies in getting temporary positions and occupation situations. Through its industry organizations and graduated class associations, BZU guarantees that its alumni are good to go for the gig market and outfitted with the abilities expected to prevail in their picked professions.
8. **Challenges and Future Prospects**
VISIT MORE BLOG'S CLICK HERE
لاہور میں انسٹاگرام سے شروع ہونے والے مبینہ ریپ کے غیرمصدقہ واقعے نے کیسے پُرتشدد مظاہروں کو جنم دیا؟
لاہور میں انسٹاگرام سے شروع ہونے والے مبینہ ریپ کے غیرمصدقہ واقعے نے کیسے پُرتشدد مظاہروں کو جنم دیا؟
پاکستان میں بہت عرصے سے خواتین کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہر روز ہم ہراسانی، ریپ اور تشدد کے کیسز دیکھتے ہیں۔ پنجاب کالج کے (مبینہ) واقعے نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے لیکن حکومت تعلیمی اداروں میں لاکھوں لڑکیوں کو مطمئن کرنے کے بجائے صرف اِن الزامات کی تردید کرنے میں مصروف ہے۔'
If you want to earn $80 per day, click here
سوشل میڈیا پر ایک صارف کی جانب سے حال ہی میں پوسٹ کی گئی اِس تحریر کا مقصد کسی قسم کا پروپیگنڈا یا ڈِس انفارمیشن پھیلانا نہیں ہے۔ یہ پوسٹ بھی اُن دیگر ہزاروں صارفین کی پوسٹس جیسی ہی ہے جنھیں لاہور کے ایک نجی کالج میں ایک طالبہ کے مبینہ ریپ کی غیرمصدقہ اطلاعات سوشل میڈیا جبکہ حکومتی تردیدوں اور وضاحتوں کی اطلاعات گذشتہ ایک ہفتے سے زائد سے نجی چینلز کے ذریعے موصول ہو رہی ہیں اور وہ ان پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اگرچہ نجی کالج کی انتظامیہ، پنجاب کی صوبائی حکومت، پنجاب پولیس اور ایف آئی اے سمیت دیگر تحقیقاتی ادارے ایسے کسی بھی مبینہ واقعے کے رونما ہونے کی تردید کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ناصرف لاہور بلکہ راولپنڈی اور گوجرانوالہ سمیت متعدد شہروں میں طلبا نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا جس کے دوران اُن کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں اور متعدد طلبا کو گرفتار کیا گیا۔
ذرائع نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر کالج میں مبینہ ریپ کی غیرمصدقہ اطلاعات کیسے پھیلنا شروع ہوئیں جو آگے چل کرپرتشدد احتجاج میں بدل گئیں؟
IF YOU WANT TO BUY ONLINE ITEM, CLICK HERE
انسٹاگرام کا استعمال
سوشل میڈیا سے شروع ہونے والی اِس 'غیرمصدقہ مہم' کا مقدمہ پنجاب کالج کیمپس کی پرنسپل کے مدعیت میں 16 اکتوبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل میں درج کروایا گیا تھا۔
سائبر کرائم سرکل میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 'سوشل میڈیا پر اس جھوٹی مہم' کی ابتدا 12 اکتوبر کو ہوئی تھی۔
ذرائع کو اس واقعے کی تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ اس مبینہ واقعے کی غیرمصدقہ اطلاع سب سے پہلے ٹوئٹر یا فیس بُک کے بجائے انسٹاگرام کے ذریعے پوسٹ کی گئی۔
ایف آئی اے کی جانب سے درج کروائے گئے مقدمے میں بھی 13 انسٹاگرام اکاؤنٹس کا ذکر ہے جہاں سے سب سے پہلے اس نوعیت کی غیرمصدقہ اطلاعات پوسٹ کی گئیں اور انھیں شیئر کیا گیا۔
اِن 13 اکاؤنٹس میں سے بیشتر اکاؤنٹ اب 'ڈی ایکٹویٹ' (غیرفعال) ہو چکے ہیں یا معطل کر دیے گئے ہیں تاہم کچھ اب بھی متحرک ہیں۔ ایسا ہی ایک اکاؤنٹ 'ساکازم' ہے اور اس اکاؤنٹ کے ذریعے اب بھی طلبا کو احتجاج کی کالیں دی جا رہی ہیں۔
If you want to earn $80 per day, click here
پنجاب کالج کی انتظامیہ کی ایک رُکن نے ذرائع کو بتایا کہ جب سب سے پہلے اس حوالے سے انسٹاگرام پر ایک نامعلوم اکاؤنٹ نے 'ڈس انفارمیشن پر مبنی پوسٹ لگائی' تو انتظامیہ نے سوچا کہ اگر اس پر ایکشن لیا گیا تو یہ اس 'گمراہ کُن بات کے مزید پھیلاؤ کا ذریعہ بنے گا۔'
انتظامیہ کے اُس رُکن کے مطابق اُن کا یہ ڈر حقیقت کا روپ اس وقت اختیار کرگیا جب یہ ابتدائی پوسٹس ایک 'منظم مہم' کی شکل اختیار کر گئیں۔
یاد رہے کہ پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے صوبائی چیف سیکریٹری کی سربراہی میں سات رُکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 'کالج کی انتظامیہ صورتحال کو پیشہ وارانہ طریقے' سے ہینڈل کرنے میں ناکام رہی۔
تاہم پنجاب گروپ آف کالجز کے ڈائریکٹر آغا طاہر اعجاز نے ذرائع کو بتایا کہ اُن کے کالج کے اساتذہ نے اس معاملے کو احسن انداز میں ہینڈل کیا۔ انھوں نے کہا کہ 'جب 12 اکتوبر کو اس طرح کی پہلی رپورٹ ہمارے سامنے آئی تو سب سے پہلے ہم نے تحقیقات کیں کہ کہیں ایسا کچھ ہوا تو نہیں؟ ہم نے ہسپتالوں میں پوچھ گچھ کی، ایمبولینس والوں سے پوچھا اور پولیس کے ساتھ مل کر سی سی ٹی وی ویڈیوز بھی دیکھیں، لیکن ہمیں ایسے کسی واقعے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔'
یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین صورت اختیار کر گیا جب پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات نے احتجاج کرتے طلبا کے درمیان کھڑے ہو کر دعویٰ کیا کہ 'کالج انتظامیہ نے ویڈیو ثبوت ضائع کیے، اس کے بعد سی سی ٹی وی کیمرے بند کیے گئے۔۔۔'
بعدازاں صحافی منصور علی خان سے بات کرتے ہوئے رانا سکندر نے کہا کہ ان کی بات چیت کئی منٹ طویل تھی جس میں کچھ حصہ کاٹ کر دکھایا گیا، انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے وہ کہہ چکے تھے کہ وہ جو بات کر رہے ہیں وہ طلبا کا مؤقف ہے نہ کہ اُن کا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کالج کی رجسٹریشن منسوخی اور گارڈ کو حراست میں صرف اس لیے لیا گیا کیونکہ الزامات سامنے آنے کے بعد یہ شفافیت کو یقینی بنانے کا تقاضہ تھا۔
IF YOU WANT TO MORE UPDATE CLICK HERE
ذرائع نے کالج انتظامیہ کے علاوہ احتجاج میں حصہ لینے والے طلبا، اُن کے والدین اور اس کیس سے منسلک تحقیقاتی اداروں کے اہلکاروں سے بات کی ہے۔
پنجاب کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے متعدد طلبا نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اس معاملے کی تفصیلات 'صرف دیگر طلبا سے سُنی ہیں' اور یہ کہ انھوں نے خود سے کچھ نہیں دیکھا۔
پنجاب کالج کے ایک کیمپس کے ایک طالبعلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'ہمیں سب کچھ سوشل میڈیا سے پتا چل رہا تھا۔ اس کے بعد کیمپس 10 کی طالبات نے ہی سب سے پہلے واٹس ایپ گروپس میں ویڈیوز شیئر کی تھیں کہ انھیں ٹیچرز تنگ کر رہے ہیں اور اس معاملے پر بولنے سے روک رہے ہیں۔'
اس طالب علم کی جانب سے ذرائع کو کچھ ویڈیوز بھی مہیا کی گئیں جو ابتدائی طور پر طلبا کے ایک واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی تھیں۔ یہ ویڈیوز انسٹاگرام سے ڈاؤن لوڈ کر کے واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی گئی تھیں۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تفتیش کے دوران ان دونوں لڑکیوں نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے جو کچھ کہا وہ دیگر طلبا سے سُنا تھا۔
لاہور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ان میں سے ایک لڑکی کا کہنا تھا کہ 'ہمارا انسٹاگرام پر ایک گروپ بنا ہوا تھا جس کا نام تھا 'وی وانٹ جسٹس فار ہر' اس میں سب بچیاں شیئر کر رہی تھیں۔۔۔ یہ باتیں مجھے بھی پتا چلیں اور میں نے بھی آگے شیئر کر دیں بنا تحقیق کیے۔'
ایف آئی اے نے غلط خبریں پھیلانے پر متعدد افراد کو حراست میں لیا تھا۔ تاہم پنجاب کی وزیر اطلاعات اعظمیٰ بخاری کے مطابق 'ان میں سے زیادہ تر کو عدالتوں نے رہا کر دیا۔'
ان کے مطابق 'ایک تو وہ بچے ہیں جو اس سارے جلاؤ گھیرو اور تمام چیزوں میں ملوث تھے ان میں سے کچھ کو گرفتار کیا گیا ایف آئی آرز ہوئیں اور ان کونو مئی کے واقعات کی طرز پر ریمانڈز کے دوران رہا کیا گیا۔'
'جوغلط معلومات یا فیک نیوز پھیلانے والےجن میں کچھ یو ٹیوبر اور صحافی کہنے والے شامل ہیں ان میں سے کچھ پر تو ایف آیی آر ہوئی ہیں لیکن ان میں سے کسی کو بھی اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔'
احتجاجی مظاہرے کیسے پھیلے؟
پنجاب کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا نے بی بی سی کو بتایا کہ جب مبینہ ریپ کی غیرمصدقہ اطلاعات سوشل میڈیا پر پھیل گئیں تو طلبا تنظیمیں بھی اس معاملے پر متحرک ہو گئیں۔
واٹس ایپ گروپس میں باقاعدہ احتجاج کی کالیں دی گئیں، ان گروپس میں بھیجے جانے والے پیغامات کے سکرین شاٹس بھی بی بی سی اردو کو مہیا کیے گئے ہیں۔
لاہور کے طلبا حلقوں میں انتہائی متحرک ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ 'اس حوالے سے جو پہلا احتجاج ہوا وہ پُرامن تھا، لیکن پولیس نے وہاں طلبا پر تشدد کیا جس کے سبب ان احتجاجی مظاہروں میں دیگر طلبا تنظیمیں اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا بھی شامل ہوگئے۔'
FOR READ MORE BLOGS. CLICK HERE
اس کے پس پردہ وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں گذشتہ دنوں ایک لڑکی نے خود کشی کی تھی جبکہ ایک اور ادارے میں ایک لڑکی کو ہراساں کیا گیا تھا۔ یہ سب اطلاعات طلبا کے پاس پہلے سے تھیں اور وہ غصے میں تھے اور پھر جب پنجاب کالج والے معاملے کی خبریں پھیلیں تو انھیں اپنا غصہ نکالنے کا موقع مل گیا۔'
یاد رہے کہ پاکستان میں ہر برس ریپ کے سینکڑوں کیسز درج ہوتے ہیں۔ سسٹین ایبل سوشل ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2023 میں ملک بھر میں 6624 ریپ کے واقعات درج ہوئے تھے، جن میں سے 721 لاہور میں درج کیے گئے تھے۔ اس حوالے سے فی الحال سرکاری سطح پر ڈیٹا دستیاب نہیں ہے