جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی کی جائے : سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ
جب یروشلم کی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت پگڑی والے ہندوستانی فوجی کر رہے تھے‘: اسرائیل میں مدفون پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی داستان
جب یروشلم کی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت پگڑی والے ہندوستانی فوجی کر رہے تھے‘: اسرائیل میں مدفون پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی داستان
لائل پور کے پال سنگھ، پٹیالہ کے آسا سنگھ، اجنالہ کے مگھر سنگھ، گوالیار انفنٹری کے سیتا رام اور غازی آباد کے بشیر خان کی قبریں یا آخری یادگاریں ان کی جائے پیدائش سے ہزاروں میل دور یروشلم کے ایک مقبرے میں موجود ہیں۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ایسے سینکڑوں فوجی جو برطانوی فوج کا حصہ تھے مشرق وسطیٰ میں مارے گئے۔
اس وقت فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں موجودہ اسرائیل میں واقع چار قبرستانوں میں بنائی گئی تھیں۔
یہی نہیں بلکہ ان کی یاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے ناموں کے ساتھ پتھر بھی نصب کیے گئے تھے۔ برطانوی فوج کا ایک بڑا حصہ ہندوستانی فوجیوں پر مشتمل تھا۔
یہ فوجی غیر منقسم پنجاب کے ساتھ ساتھ موجودہ انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔
ان کے نام اسرائیل کے تل ابیب میں ہندوستان کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ کتابچہ ’اسرائیل میں ہندوستانی فوجیوں کی یادگار‘ میں بھی درج ہیں۔
یہ کتابچہ اسرائیل میں اس وقت کے ہندوستانی سفیر نوتیج سنگھ سرنا کے دور میں چھپا تھا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے۔
حماس کی طرف سے اسرائیل میں دراندازی اور اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی جوابی کارروائی میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ تناؤ اب بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
سوشل میڈیا اور اخبارات بھی اس جنگی مسئلے کی تاریخ پر بحث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
20ویں صدی کے آغاز میں موجودہ اسرائیل میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کی تصاویر کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
مسجد اقصیٰ کے باہر پگڑی والے فوجی بھی تعینات تھے
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں پگڑی والے ہندوستانی فوجی بھی موجودہ اسرائیل میں مسجد اقصیٰ یا ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے باہر تعینات دکھائی دے رہے ہیں۔
نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ یا ٹیمپل ماؤنٹ یہودی اور عرب دونوں برادریوں کے لوگوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت بھی عرب اور یہودی برادریوں کے درمیان تناؤ تھا۔ کبھی مسلح حملے اور بم دھماکے ہوتے تھے۔
اس وقت یہ علاقہ برطانوی قبضے میں تھا۔ انڈین فوجیوں کو غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا، اس لیے انھیں یہاں تحفظ کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ یہ فوجی یہاں آنے والے لوگوں کی تلاشی لیتے تھے۔
پنجابی سپاہیوں کا کردار
فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ برطانوی فوج میں غیر منقسم ہندوستان کے مختلف حصوں کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ غیر منقسم پنجاب کے فوجی بھی شامل تھے۔
یہاں کے سپاہیوں نے جنگ حیفہ اور بہت سی دوسری لڑائیوں میں حصہ لیا۔
مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ اس وقت زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑی والے تھے اور بعض اوقات یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ زیادہ تر فوجی پنجابی یا سکھ تھے۔
تاہم سکھوں نے اپنی آبادی کے لحاظ سے اس میں بڑا حصہ ڈالا۔ سکھوں نے سینائی-فلسطین مہم میں بھی اہم کردار ادا کیا، ان کا کردار مغربی محاذ، عراق (اس وقت میسوپوٹیمیا کہلاتا تھا) میں بھی نمایاں تھا۔
دوسری عالمی جنگ تک زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑیاں پہنتے تھے۔ ہندوستانی فوجیوں کے لباس میں تبدیلی دوسری عالمی جنگ کے دوران شروع ہوئی تھی۔
چند سال قبل اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ نہ صرف سکھ فوجیوں کے اعزاز میں بلکہ تمام ہندوستانی فوجیوں کے اعزاز میں ہے۔
مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ یہاں لڑی جانے والی ’بیٹل آف حیفہ‘ پہلی عالمی جنگ کی بہت اہم جنگ تھی۔
ہندوستانی فوجیوں نے سنہ 1918 کی جنگ حیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ حیفہ کی جنگ برطانوی فوج اور سلطنت عثمانیہ کی فوج کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔
برطانوی سلطنت کے لیے لڑنے والی فوج میں گھڑ سواروں کی بڑی تعداد تھی۔ انھوں نے ترک افواج کو شکست دی۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت برطانوی فوج میں ہندوستانی ریاستی افواج کے یونٹ شامل تھے، انھیں ’امپیریل سروس ٹروپس‘ بھی کہا جاتا تھا۔
حیفہ کی جنگ میں جودھ پور، لانسر اور میسور لانسرز نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔
ان یونٹس کا تعلق جودھ پور خاندان اور میسور خاندان سے تھا۔
مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ پٹیالہ خاندان سے تعلق رکھنے والے پٹیالہ لانسر ’جنگ حیفہ‘ کے دوران فوج کا حصہ تھے، لیکن انھوں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔
حیفہ کی جنگ میں پنجابی فوجیوں کے کردار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں کہ اس میں سکھ فوجی ملوث تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فخر کی بات ہے کہ عالمی جنگوں میں پنجابی یا ہندوستانی فوجیوں نے بڑا کردار ادا کیا لیکن حیفہ کی جنگ میں سکھوں کی شمولیت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔
بابا فرید سے جڑی جگہ
نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فلسطین میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔ نوتیج سرنا کتاب ’دی ہیروڈز گیٹ-اے یروشلم ٹیل‘ کے مصنف ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہندوستانی فوجی لیبیا، لبنان، مصر اور دیگر علاقوں سے آرام اور صحت یابی کے لیے یروشلم آتے تھے۔
انھوں نے انڈین ہاسپیس میں آرام کیا جسے بابا فرید ہاسپیس بھی کہا جاتا ہے۔ بابا فرید (حضرت فرید الدین گنج شکر) 1200 میں اس مقام پر تشریف لائے۔
ہندوستانی فوجی پہلی جنگ عظیم کے دوران فلسطینی علاقوں میں کئی اہم لڑائیوں کا حصہ تھے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی فوج کے میجر دلپت سنگھ کو آج بھی حیفہ کی جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق ’غیر منقسم ہندوستان کے فوجیوں نے مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطین میں ہونے والی دونوں عالمی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔‘
ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق تقریباً 1,50,000 ہندوستانی فوجیوں کو موجودہ مصر اور اسرائیل بھیجا گیا تھا۔
یہاں کے فوجیوں نے ستمبر اکتوبر 1918 کی فلسطین مہم میں حصہ لیا۔
’کامن ویلتھ وار گریز کمیشن‘ کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں 1,302,394 ہندوستانی فوجی شامل تھے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔
فلسطین میں ہندوستانی فوجیوں کی آمد
فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ نے نشاندہی کی کہ فلسطین ایک اہم جگہ تھی جہاں برطانوی افواج نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ لڑی۔
سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں سینا، شام، اردن تک پھیلی ہوئی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ بیلفور اعلامیہ اسی جنگ کے دوران جاری کیا گیا جس نے موجودہ اسرائیل کی بنیاد ڈالی۔
نوتیج سرنا نے کہا کہ جب برطانوی جنرل ایلنبی نے سنہ 1917 میں یروشلم پر قبضہ کیا تو ہندوستانی فوجی ایلنبی کی فوج کا حصہ تھے۔
نوتیج سرنا نے کہا کہ حیفہ کے لوگ میجر دلپت سنگھ کے اعزاز میں مجسمہ بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کا ساتھ دیا۔
اس لیے 23 ستمبر کو ’یوم حذیفہ‘ کے موقع پر سالانہ تقریب کا آغاز کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ حیفہ قبرستان میں حیفہ کی جنگ میں شامل فوجیوں کی یادگار نہیں بلکہ دوسرے فوجیوں کی یادگار ہے۔
انھوں نے کہا کہ جن فوجیوں کی یادگار حیفہ قبرستان میں نصب ہے، اس دن انھیں یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ’جنگ حیفہ‘ میں شامل فوجیوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔
اب اس کا دورہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندے بھی کرتے ہیں۔
نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ اگرچہ وقت گزرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ فوجیوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔
’اب بھی جو لوگ حیفہ میں آباد ہیں وہ ان سپاہیوں کو یاد کرتے ہیں جو ’حیفہ کی جنگ‘ میں لڑے تھے۔ حیفہ ہسٹوریکل سوسائٹی بھی ہے، جو ان پر کام کرتی ہے۔‘
انڈین فوجیوں کی قبریں کہاں ہیں؟
اسرائیل میں ایسے چار قبرستان ہیں جہاں انڈین فوجیوں کو دفن کیا گیا ہے یا ان کے لیے یادگاری پتھر لگائے گئے ہیں۔
’یروشلم انڈین وار سیمیٹری‘ میں جولائی 1918 سے جون 1920 کے درمیان دفن 79 ہندوستانی فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے ایک کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔
’حیفہ انڈین وار سیمیٹری‘ میں پنجاب، اتر پردیش، اوڈیشہ، حیدرآباد میں رہنے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں بھی ہیں۔
رم اللہ جنگی قبرستان‘ میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی تدفین کی گئی ہے۔ اس قبرستان میں 528 قبریں ہیں۔ پہلی عالمی یادگار بھی یہاں قائم ہے۔
’خیات بیچ وار قبرستان‘ سنہ1941 میں قائم کیا گیا تھا، اس میں دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے 691 فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے 29 ہندوستانی تھے۔
نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کی یادگاریں ’کامن ویلتھ گریز کمیشن‘ نے قائم کی تھیں۔
انھوں نے کہا کہ ان قبرستانوں میں حیفہ ایک اہم قبرستان ہے۔
حیفہ کی جنگ سنہ 1918 میں ہوئی۔ میسور، جودھ پور، بیکانیر لانسر یونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ یہ ان یونٹوں کی یاد میں نیو دہلی میں تین مجسموں کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں۔
یہ ضروری نہیں کہ فوجی اسی علاقے میں مرے یا انھیں یہیں دفن کیا گیا ہو۔ کبھی کبھی فوجیوں کی یادگار کے طور پر ان قبروں میں ان کے نام کے پتھر نصب کیے جاتے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ان فوجیوں کا تعلق ہندو، مسلم اور سکھ مذاہب سے تھا۔
’ہم نے ان جگہوں کی نشاندہی کی، معلومات اکٹھی کیں، تصویریں لیں اور کتابچہ کو اس طرح شائع کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے دولت مشترکہ کے جنگی قبروں سے متعلق قائم کیے گئے کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا اور اب جب بھی ہندوستانی حکومت کے نمائندے وہاں جاتے ہیں تو وہ احترام کے طور پر ان مقامات کا دورہ بھی کرتے ہیں۔‘
فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ سنگھ باجوہ نے کہا کہ کامن ویلتھ وار گریز کمیشن تقریباً 60 ممالک میں بنی برطانوی سلطنت کے فوجیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔
انڈیا بھی ان اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
برطانیہ میں فلسطین کے حق میں لاکھوں انسانوں کا سیلاب امڈ آیا
لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے
لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، فوٹو: بی بی سی
لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، فوٹو: بی بی سی
لندن: برطانیہ میں فلسطینیوں کے حق اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب اور زبان بولنے والے 3 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ پر بمباری کے خلاف لندن کے شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے جس میں عالمی قوتوں اور بین الااقوامی تنظیموں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ریلی کے شرکا نے لہولہان زخمی فلسطینی بچوں کی تصاویر بھی اُٹھا رکھی تھیں جب کہ کچھ نے عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
یہ برطانیہ کی اب تک سب سے بڑی ریلی تھی جس میں شہری فوجی یادگار سینوٹاف پر جمع ہوئے اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور برطانیہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد بھی منائی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس جنگی یادگار کے قریب کچھ مظاہرین کی طرف سے جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جس پر 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس مڈ بھیڑ میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
وزیراعظم رشی سوناک نے پولیس پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کی تاہم برطانیہ کی بھارتی نژاد وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مظاہرین کو طاقت سے نہ کچلنے پر پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیر داخلہ کی اس بیان پر برطانیہ کے معتدل رہنماؤں اور اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا جب کہ حکمراں جماعت کے اکثر ارکان نے بھی وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔
جس پر آج برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے وزیر داخلہ سے استعفیٰ لے لیا اور موجودہ سیکرٹری داخلہ جیمز کلیورلی کو وزارت کا عہدہ سونپ دیا جب کہ آج ہی سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو وزیر خارجہ مقرر کردیا گیا۔
افغان مہا جرین اورپھر سے دہشت گردی
قارئین کرام، انتہا ئی دکھے دل کے ساتھ آپ کو محض چند روز پہلے کی خبر یا دکروا رہا ہوں جس کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل سمیت چار جوان شہید ہوگئے۔ اس سے قبل میانوالی ایئربیس پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں سیکورٹی فورسز نے تمام دہشت گرد ہلاک کر دیے تھے جن کی تعداد 9تھی۔دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی کارروائیاں کی تھیں' افغانستان میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں' پاکستان میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں حالانکہ اشرف غنی اور اس سے قبل حامد کرزئی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کم تھے۔ پاکستان میںرواں برس فوج اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کی تعداد، گزشتہ آٹھ برس میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز چاہتے ہیں کہ پاکستان کو جتنا ہوسکے اتنا نقصان پہنچایا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی سیکورٹی تنصیبات اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے مختلف گروپ پاکستان میں انتشار، بد امنی اور خوف پیدا کرکے ریاستی ڈھانچے کو زمین بوس کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت کے بااثر عہدیداروں کے حالیہ بیانات نے ان حقائق کو عیاں کردیا ہے جو پہلے عوام سے اوجھل تھے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کی سوچ، رویہ، پالیسی اور عزائم بھی واضح ہوچکے ہیں۔ خود کو پاکستانی ظاہر کرنے والے ان لوگوں نے افغانستان کا آلہ کار بن کر اپنا ایجنڈا آشکار کردیا ہے۔
دہشت گرد گروہ پاکستان کے صوبے خیبرپختو نخوا اور بلوچستان میں زیادہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ پاک فوج کو ٹارگٹ بنائیں۔ گزرے چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغان باشندے تھے جب کہ باقی کا تعلق سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے تھا۔کسے معلوم نہیں کہ پاکستان نے افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو کھلے دل سے پناہ دی،ان پناہ گزینوں کا مقدمہ ہر عالمی اور مقامی فورم پر لڑا لیکن اس کا بدلہ کیا ملا؟اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان نے مجبور ہوکر غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے حالیہ فیصلے کی بنیاد اقتصادی، سیکیورٹی چیلنجز پر قابو پانا اور مزید مہاجرین اور خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کی پاکستان میں آمد کو روکنا ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں مسلسل قیام ملکی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ افغانستان کی ہر حکومت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرتی آئی ہے جب کہ پنجاب،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہے۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اسی پالیسی پر کاربند ہے، پاکستان کے سادہ لوح عوام اس دہری پالیسی کا شکار ہو کر افغانستان کو ہمیشہ شک کا فائدہ دیتے ہیں۔لیکن اب یہ دہری پالیسی بے نقاب ہوگئی ہے۔ افغانستان افغان مہاجرین کے ایک حصے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے، متعدد سادہ لوح پاکستانی بھی نادانستگی میں استعمال ہورہے ہیں۔ دہشت گردوںکے ماسٹر مائنڈ اور اسٹریٹجسٹ افغان مہاجرین کو بطور لانچ پیڈ استعمال کررہے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوںکو پناہ دینا، ان کا اسلحہ اورخود کش جیکٹس وغیرہ محفوظ مقامات میں چھپانا، ٹارگٹ کی معلومات فراہم کرنا اور دہشت گردوں کو ان کے ٹارگٹس تک پہنچانے کی سہولت کاری کرنا، جیسے کام پاکستان میں برسوں سے رہنے والے باشندے ہی کرسکتے ہیں۔ بیشتر افغان مہاجر پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور قتل جیسے جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ سیکورٹی اِداروں کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے اپنے شہریوں کے ذہنوں کو پاکستان کے بارے میں آلودہ کیا ہے۔وہاں کے تعلیمی نصاب میں بھی پاکستان کے بارے میں منفی مواد شامل رہا ہے۔
آج چار عشروں سے سرحدوں پر دی گئی نرمی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہر جگہ غیر ملکی دندناتے اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن امن و امان ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان شہریوں کا وطن واپس جانے کے بجائے یہاں براجمان رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اور نہ ہی افغانستان کی حکومت اپنے شہریوں کو وطن واپس آنے سے روک سکتی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پاکستان میں قیام پذیر رکھنے کا مطالبہ کرے۔
دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد و رفت کے راستے بند کرنا اس کا حق ہے۔پاکستان میں موجود ایسے لوگ جو پاکستانی عوام اور ریاست کے مفادات کے خلاف کام کر رہے یا ان میں ملوث ہیں یا سہولت کار ہیں، فنانسرز ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی پاکستان کا حق ہے۔ لہٰذا ملک کے اندر ان کالعدم تنظیموں کے ہم خیالوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں سانحات سے بچا جاسکے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں موجود غیرملکی شہریوںکے انخلا کو یقینی بنایا جائے، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہمیشہ کی طرح شانہ بشانہ کھڑے رہیں اورکسی بھی مشکوک پہلو کی بروقت نشاندہی کر کے سیکیورٹی فورسز کو ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کرنے میں مدد فراہم کریں۔ ان حالات میں حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ، سویلین اداروں اور سیاسی جماعتوں کے قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ومتفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔ افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے' افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور سات دیا.ں
لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیئے رکھی ہے' ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ'چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو'چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہویا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو'ان کی پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔ تاریخی حقائق کو اپنی من پسند عینک سے دیکھ کر ان کی خود ساختہ تشریح کرنا' درست نہیں ہے۔ سرحدوں پر حفاظتی انتظامات کرنا'ٹرانزٹ ٹریڈ کو قانون اور ضوابط کے دائرہ کار میں لانا اور اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کرنا'دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے'افغانستان کی طالبان حکومت کو اس وقت ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
الیکٹیبلز,جمہوریت اور عوامی موڈ
خبر چھپی ہے مسلم لیگ (ن) نے الیکٹیبلز کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس خبر کو پڑھ کر وہ پیر یاد آتاہے جس نے جنت کا ٹکٹ دینے کی منادی کرائی تھی، صبح سویرے لوگ اس کے دروازے پر پہنچ گئے تھے اور دروازہ کھلتے ہی ایسے اندر داخل ہوئے تھے جیسے سیلابی ریلا داخل ہوتا ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تو مسلم لیگی قیادت کے بیانات سے یہی لگ رہا تھا کہ انہیں الیکشن جیتنے کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں اور پرانے مسلم لیگی امیدواروں کو ہی میدان میں اتارا جائے گا۔ لیکن اب منتخب ہونے کی مہارت رکھنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول کر مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کر لیا ہے حالات اتنے بھی ساز گار نہیں۔ بہت عرصہ پہلے آصف زرداری نے یہ بیان دیا تھا کہ جنوبی پناب سے الیکٹیبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوں گے اور ان کی وجہ سے ہم پنجاب سے خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے حکومت بنائیں گے۔ اس وقت آصف علی زرداری کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ کیونکہ الیکٹیبلز بھی کچھ دیکھ کے اور کسی کے اشارے پر جماعت بدلتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے الیکٹیبلز کے لئے پر کشش بن سکے مگر لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال میں ہر کوئی چوکنا ہے زمینی حالات ایسے ہیں کہ عوام کا موڈ بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہا۔ ہر سروے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ دواسری طرف یہ بھی حقیقت ہے تحریک انصاف آزادی سے اپنی مہم بھی نہیں چلا پا رہی۔ گویا الیکٹیبلز کے لئے اس میں رہنا یا اس میں جانا دشوار عمل ہے۔ بہت سے نامی گرانی الیکٹیبلز تو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب سے شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، اسی بنیاد پر جہانگیر ترین یہ دعویٰ کرتے ہیں آئی پی پی جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکٹیبلز کے لئے باقاعدہ دروازے کھلنے کے بعد اب گویا کھینچا تانی شدید ہو جائے گی۔ پروانہ ادھر جاتا ہے یا اُدھر کی صورت حال پیدا ہو گی۔ نواز شریف اب ملک کے مختلف حصوں کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔ امکان یہی ہے ہر شہر میں الیکٹیبلز کو بڑی تعداد میں شامل کرنے کا ٹارگٹ پورا کیا جائے گا۔ یہ غالباً اس لئے بھی ضروری ہے کہ جیت کا تاثر دینے کے لئے ہیوی ویٹ امیدواروں کی موجودگی ضروری ہے۔ یعنی نظریہ وغیرہ کی بات اب بہت بے معنی ہو کر پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ دعوے بھی ہوا ہو گئے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ پر کی جائے گی اور پرانے نظریاتی لوگوں کو اہمیت ملے گی۔ اندر کے ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کے لئے درخواستیں مانگیں تو مقررہ مدت میں بہت کم درخواستیں موصول ہوئیں۔ جس کے بعد دس روز کی مدت اور بڑھائی گئی۔
موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ الیکٹیبلز کیا واقعی اپنی سیٹ جیب میں ڈال کر پھرتے ہیں۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں اور منتخب کرتے ہیں۔
نہیں صاحب یہ معاملہ اتنا بھی سادہ اور آسان نہیں۔ہم نے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹتے دیکھے ہیں اور الیکٹیبلز کو عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ایک خاص فضا ہوتی ہے، جس میں الیکٹیبلز کی فصل کارآمد ثابت ہو کر پروان چڑھتی ہے اس لئے وہ بھی کچھ دیکھ کے کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی سب سے بڑی کمزوری تو یہ ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کس کے سر پر ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ غیبی اشارہ بھی انہیں فیصلہ کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ اس حوالے سے اس وقت حالات مسلم لیگ(ن) کے حق میں ہیں۔ اس قدر حق میں ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی اس بات پر واویلا کررہی ہیں کہ انہیں لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ نوازشریف کی طمطراق کے ساتھ وطن واپسی، مقدمات کے ضمن میں نرمی اور سرکاری میڈیا پر ان کے لئے کشادگی سب کو نظر آ رہی ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔ ایک خاکہ تیار ہو چکا ہے جس میں رنگ بھرنا باقی ہے۔ کیا رنگ پلان کے مطابق بھرا جا سکے گا؟ سب سے پیچیدہ سوال یہی ہے۔ رنگ بھرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو ہموار کیا جائے جو فی الوقت ہموار نہیں ہو رہے۔ اگر نگران حکومت کی طرف سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے صدر ملک کے اعلیٰ عہدیدار ہیں انہیں ایک جماعت کا ترجمان نہیں بننا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے اس خط نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔ صرف کہہ دینے سے بات نہیں بنتی عمل بھی ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے ریاست کا پلڑا کس طرف جھکا ہوا ہے، اس عمل سے پی ٹی آئی کے حق میں عوام کے اندر ایک ہمدردی جنم لے رہی ہے۔ ویسے بھی ایک بڑا لیڈر جیل میں ہو تو عوام کی توجہ اس کی طرف رہتی ہی ہے۔ الیکٹیبلز بہت ہوشیار مخلوق کا نام ہے۔ یہ اپنے حلقوں میں اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں۔ یہی وجہ تو ہے کہ ہمیشہ اپنی سیٹ جیت جاتے ہیں جن الیکٹیبلز کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ موجودہ حالات کی وجہ سے وہ تحریک انصاف میں رہ کر سیاست کر نہیں سکتے اور اگر اسے چھوڑ کر دوسری جماعت میں جاتے ہیں تو حلقے کے عوام کی ناراضی کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ پریس کانفرنسیں کرکے تحریک انصاف سے نکلنے والے اپنے حلقوں میں آزادی سے گھوم بھی نہیں سکتے، ووٹ ملنے کی اُمید تو بہت دور کی بات ہے البتہ وہ الیکٹیبلز بڑی آرام دہ پوزیشن میں ہیں جو آزاد حیثیت سے انتخابات لڑتے ہیں۔ ان کے لئے کسی بھی جماعت میں شامل ہونا دشوار مرحلہ نہیں۔