الیکٹیبلز,جمہوریت اور عوامی موڈ

 



خبر چھپی ہے مسلم لیگ (ن) نے الیکٹیبلز کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس خبر کو پڑھ کر وہ پیر یاد آتاہے جس نے جنت کا ٹکٹ دینے کی منادی کرائی تھی، صبح سویرے لوگ اس کے دروازے پر پہنچ گئے تھے اور دروازہ کھلتے ہی ایسے اندر داخل ہوئے تھے جیسے سیلابی ریلا داخل ہوتا ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تو مسلم لیگی قیادت کے بیانات سے یہی لگ رہا تھا کہ  انہیں الیکشن جیتنے کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں اور پرانے مسلم لیگی امیدواروں کو ہی میدان میں اتارا جائے گا۔ لیکن اب منتخب ہونے کی مہارت رکھنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول کر مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کر لیا ہے حالات اتنے بھی ساز گار نہیں۔ بہت عرصہ پہلے آصف زرداری نے یہ بیان دیا تھا کہ جنوبی پناب سے الیکٹیبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوں گے اور ان کی وجہ سے ہم پنجاب سے خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے حکومت بنائیں گے۔ اس وقت آصف علی زرداری کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ کیونکہ الیکٹیبلز بھی کچھ دیکھ کے اور کسی کے اشارے پر جماعت بدلتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے الیکٹیبلز کے لئے پر کشش بن سکے مگر لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال میں ہر کوئی چوکنا ہے زمینی حالات ایسے ہیں کہ عوام کا موڈ بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہا۔ ہر سروے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ دواسری طرف یہ بھی حقیقت ہے تحریک انصاف آزادی سے اپنی مہم بھی نہیں چلا پا رہی۔ گویا الیکٹیبلز کے لئے اس میں رہنا یا اس میں جانا دشوار عمل ہے۔ بہت سے نامی گرانی الیکٹیبلز تو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب سے شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، اسی بنیاد پر جہانگیر ترین یہ دعویٰ کرتے ہیں آئی پی پی جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکٹیبلز کے لئے باقاعدہ دروازے کھلنے کے بعد اب گویا کھینچا تانی شدید ہو جائے گی۔ پروانہ ادھر جاتا ہے یا اُدھر کی صورت حال پیدا ہو گی۔ نواز شریف اب ملک کے مختلف حصوں کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔ امکان یہی ہے ہر شہر میں الیکٹیبلز کو بڑی تعداد میں شامل کرنے کا ٹارگٹ پورا کیا جائے گا۔ یہ غالباً اس لئے بھی ضروری ہے کہ جیت کا تاثر دینے کے لئے ہیوی ویٹ امیدواروں کی موجودگی ضروری ہے۔ یعنی نظریہ وغیرہ کی بات اب بہت بے معنی ہو کر پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ دعوے بھی ہوا ہو گئے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ پر کی جائے گی اور پرانے نظریاتی لوگوں کو اہمیت ملے گی۔ اندر کے ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کے لئے درخواستیں مانگیں تو مقررہ مدت میں بہت کم درخواستیں موصول ہوئیں۔ جس کے بعد دس روز کی مدت اور بڑھائی گئی۔


موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ الیکٹیبلز کیا واقعی اپنی سیٹ جیب میں ڈال کر پھرتے ہیں۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں اور منتخب کرتے ہیں۔


نہیں صاحب یہ معاملہ اتنا بھی سادہ اور آسان نہیں۔ہم نے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹتے دیکھے ہیں اور الیکٹیبلز کو عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ایک خاص فضا ہوتی ہے، جس میں الیکٹیبلز کی فصل کارآمد ثابت ہو کر پروان چڑھتی ہے اس لئے وہ بھی کچھ دیکھ کے کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی سب سے بڑی کمزوری تو یہ ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کس کے سر پر ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ غیبی اشارہ بھی انہیں فیصلہ کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ اس حوالے سے اس وقت حالات مسلم لیگ(ن) کے حق میں ہیں۔ اس قدر حق میں ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی اس بات پر واویلا کررہی ہیں کہ انہیں لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ نوازشریف کی طمطراق کے ساتھ وطن واپسی، مقدمات کے ضمن میں نرمی اور سرکاری میڈیا پر ان کے لئے کشادگی سب کو نظر آ رہی ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں  ہیں۔ ایک خاکہ تیار ہو چکا ہے جس میں رنگ بھرنا باقی ہے۔ کیا رنگ پلان کے مطابق بھرا جا سکے گا؟ سب سے پیچیدہ سوال یہی ہے۔ رنگ بھرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو ہموار کیا جائے  جو فی الوقت ہموار نہیں ہو رہے۔ اگر نگران حکومت کی طرف سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے صدر ملک کے اعلیٰ عہدیدار ہیں انہیں ایک جماعت کا ترجمان نہیں بننا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے اس خط نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔ صرف کہہ دینے سے بات نہیں بنتی عمل بھی ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے ریاست کا پلڑا کس طرف جھکا ہوا ہے، اس عمل سے پی ٹی آئی کے حق میں عوام کے اندر ایک ہمدردی جنم لے رہی ہے۔ ویسے بھی ایک بڑا لیڈر جیل میں ہو تو عوام کی توجہ اس کی طرف رہتی ہی ہے۔ الیکٹیبلز بہت ہوشیار مخلوق کا نام ہے۔ یہ اپنے حلقوں میں اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں۔ یہی وجہ تو ہے کہ ہمیشہ اپنی سیٹ جیت جاتے ہیں جن الیکٹیبلز کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ موجودہ حالات کی وجہ سے وہ تحریک انصاف میں رہ کر سیاست کر نہیں سکتے اور اگر اسے چھوڑ کر دوسری جماعت میں جاتے ہیں تو حلقے کے عوام کی ناراضی کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ پریس کانفرنسیں کرکے تحریک انصاف سے نکلنے والے اپنے حلقوں میں آزادی سے گھوم بھی نہیں سکتے، ووٹ ملنے کی اُمید تو بہت دور کی بات ہے البتہ وہ الیکٹیبلز بڑی آرام دہ پوزیشن میں ہیں جو آزاد حیثیت سے انتخابات لڑتے ہیں۔ ان کے لئے کسی بھی جماعت میں شامل ہونا دشوار مرحلہ نہیں۔


وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور سیاسی روایات کتنی بدل گئی ہیں۔ایک وہ زمانہ تھا جب وفاداری تبدیل کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک جماعت چھوڑکر دوسری میں شامل ہو بھی جاتے تو انہیں اپنے دیرینہ کارکنوں اور رہنماؤں پر ترجیح نہ دی جاتی۔ مسلم لیگ ن تو اپنی جماعت میں نئے شامل ہونے والوں کو ٹکٹ دے کر منفی نتائج بھگت بھی چکی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، تحریک انصاف کے دور میں ملتان سے شحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے سلمان نعیم کو ضمنی انتخاب میں ٹکٹ دیا گیا تو انہیں صرف اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ مسلم لیگ (ن) کے اس حلقے میں پرانے امیدواروں نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس مسلسل انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی بھرمار ہے، جو کسی صورت اپنے حلقے سے کسی اور کو منتخب ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے میں الیکٹیبلز کو مسلم لیگ (ن) کیسے ایڈسٹ کرے گی۔ ایڈجسٹ کر بھی لیا تو انہیں منتخب کیسے کرائے گی حلقے میں مسلم لیگی ہی اس کے خلاف مہم چلا رہے ہوں گے۔ اس وقت ملک میں سیاسی شعور کی جو لہر موجود ہے، اسے دیکھتے ہوئے یقین سے نہیں کیا جا سکتا الیکٹیبلز کا سکہ اس بار چلے گا۔

No comments:

Post a Comment