live ENG VS IND CRICKET MATCH
live cricket match ENG VS IND
Live England vs India, 1st Test England tour of India ENG 161/7 (50.2 ov) Ben Stokes* 15(49) Tom Hartley 4(5) Jasprit Bumrah 1/20 (6.2 ov) Day 1 - Session 2: England chose to bat. Click here to view more @espncricinfo : https://www.espncricinfo.com/series/england-in-india-2023-24-1389386/india-vs-england-1st-test-1389399/live-cricket-score
قومی معیشت اور عوام National economy and people
ہمارا ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں
کچھ سال پہلے کی بات ہے 5 ہزار میں گھر کا ماہانہ راشن آجاتا تھا۔ اور آج اس 5 ہزار میں چند چیزیں آتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ وجہ ہماری معیشت کی تباہ حالی ہے۔
کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہوتے جیسے یہاں ہیں۔ امیر اس قدر امیر ہے کہ جیسے وہ کسی ریاست کے گدی نشین ہوں اور غریب اس قدر غریب ہیں کہ جیسے وہ لاوارث ہوں۔ جو درمیان کا طبقہ ہے جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں وہ تو ختم ہی ہوگئے ہیں یا ایسا کہہ سکتے ہیں کہ مڈل کلاس اب لوئر مڈل کلاس میں بدل چکی ہے کہ ان کو ضروریات زندگی کےلیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے ہار جاتا ہے۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت کو دیکھیں تو وہ بھی ملکی معیشت پر سنجیدہ نہیں لگ رہی۔ جس میں پٹرول کی قیمتوں کو ایک مہینے میں متعدد بار بڑھانا معاشی طور پرایک غیر سنجیدہ عمل تھا کیونکہ ہمارے ملک میں معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جس کا نقصان ہمارے ملک اور عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت بس معیشت پر سیاست کرتی ہے، حالانکہ معیشت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ معیشت کو سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں معیشت کو سنجیدگی سے لے کر چلنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جاتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ قرضے لیتی ہے اور ملک کو چلاتی ہے، جیسے ہم بھکاری ہوں۔ اور اس سے یہی لگتا ہے جیسے اقتدار میں تو آتے ہیں، پر ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے نہ تو کوئی پلان ہے نہ ہی روڑ میپ۔
جو بھی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے وہ ملک کی وزارت خزانہ کو اپنی کنیز سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کا بندہ اس اہم پوسٹ پر لگا دیتا ہے۔ جتنے بھی اس ملک میں وزیر خزانہ آئے ہیں، سب کے سب کسی نہ کسی مقصد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ کوئی آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے یا کوئی کسی کا منظور نظر بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے۔
حکومت میں کئی وزیر خزانہ آئے اور چلے گئے، لیکن ملک کا خزانہ ہمیشہ قرضوں کی زد میں رہا اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات میں دھنستا چلا گیا۔ ڈالر بڑھتا چلا گیا، چینی کی قیمت، پھر گندم، ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی اور سب بس خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، پٹرول کی قیمتیں بڑھیں، بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ساتھ میں روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی رہی۔ دیکھا جائے تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی مہنگائی رہی تھی لیکن ساتھ میں معیشت بہتری کی طرف بھی چل پڑی تھی۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دی اور حکومت سے آزاد کیا، ملک میں ریکارڈ ریمی ٹینس آئے، یعنی بیرون پاکستان لوگوں نے ملک میں بہت پیسہ بھیجا، کورونا کی وبا کے باجود پوری دنیا نے اقتصادی سروے کے مطابق مہنگائی کا 8 فیصد ہدف پورا نہ ہوا۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح 13 فیصد سے زیادہ رہی۔
اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ حکومت میں زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹر کے اہداف حاصل ہوئے، زراعت میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی، صنعت میں شرح نمو 7.2 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے میں شرح نمو 6.2 فیصد رہی، بڑی صنعتوں میں شرح نمو 10.5 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو 7. فیصد رہی جبکہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی اور ساتھ میں اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے رہی اور گیارہ ماہ میں ملکی برآمدات ریکارڈ 29 ارب ڈالر رہیں جبکہ تعلیمی شعبے میں شرح نمو 8.7 فیصد رہی۔
میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ یہ سب اگر ہوا ہے تو کہاں ہے؟ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ پھر ہر انسان پریشان کیوں ہے؟ مہنگائی کا جو جن پی ٹی آئی حکومت میں بے قابو ہوا تھا وہ ابھی تک قید نہیں ہوسکا۔ نہ تو اسے شہباز شریف قید کرسکے، نہ ہی نگران حکومت، تو آخر اس کا حل کیا ہے؟
غریب کی آواز سننے والا کون ہے یہاں؟ کبھی خیال آئے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک سروے کرنے کا موقع ملا، اس دوران ایک ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بیوہ خاتون ہیں، کرائے پر رہتی ہیں، ایک بیٹا ہے لیکن اب وہ دماغی طور پر معذور ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری۔ جب ایک جوان انسان کا جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہو اچانک نوکری چلی جائے، کوئی کام نہ ملے تو وہ پاگل ہی ہوجائے گا۔ ماں جی اپنے پاگل بیٹے کو پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی انکھیں اشکبار ہوگئیں۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
میرا سوال ہے حکومت وقت سے کہ کیا ہماری معیشت اس قدر بدحال ہوگئی ہے جو کسی غریب کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتی؟ ایک روتی سسکتی ماں کے آنسو نظر نہیں آتے؟ کیا یہاں کوئی بھی ایسا حکمران نہیں جو اس ماں کو دو وقت کا کھانا دے سکے؟ کیا پاکستان میں رہنا ایک سزا بن گیا ہے؟ اس حد تک نوبت آگئی ہے یا تو غریب مرجائے یا ملک بدر ہوجائے۔ ایک سوال میں سب کےلیے چھوڑ رہی ہوں، ہماری اشرافیہ جو ہر ماہ ورلڈ ٹور پر کروڑوں خرچ کرسکتی ہے کیا کسی غریب کو دینے کےلیے چند ہزار بھی نہیں؟
زہریلی پولرائزیشن، کمزور جمہوریت Toxic Polarization, Weak Democracy
پشاور سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے باپ نے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ بیٹے نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے آیا تھا، گھر پر اپنی پسند کی جماعت کا جھنڈا لگا دیا، باپ نے منع کیا، بحث و تکرار ہوئی تو والد نے طیش میں آکر بیٹے کو اپنے ریوالور سے گولی مار دی، اب بہت سے لوگ اسے ایک انفرادی واقعہ قرار دیں گے، لیکن صاحبو! یہ انفرادی واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے سیاسی پولرائزیشن جس نے ہمیں اوپر سے لے کر نیچے گھر گھر تک تقسیم کر دیا ہے۔ پھر عدم برداشت اتنی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف ہوتے ہیں، یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت اور معاشرتی تقسیم بڑی خوفناک ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسے روکا نہ گیا تو یہ چیز ہمارے داخلی سماج کو پارہ پارہ کر دے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بہت اچھی باتیں کر جاتے ہیں، مگر افسوس ان کی باتوں پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ اخبارات بھی ان کے بیان کو سنگل یا دو کالم سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو سیاستدان اپنے بیانات سے نفرتیں پھیلاتے ہیں انہیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ سراج الحق نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا معاشرے میں زہریلی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے جس سے معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ بہت اہم بات ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر آج کے سیاسی ماحول میں کہیں سے لگتا ہے کہ سیاسی قوتوں کی یہ ترجیح ہو سکتی ہے جس بھی جماعت کے قائدین کو دیکھیں وہ تقسیم کررہا ہے، متحد کرنے پر اس کا دھیان ہی نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم ایشوز پر چلائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنا مشن اور لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ مستقبل کے اہداف اور ترجیحات بتاتی ہے جن کی بنیاد پر عوام انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار اور کرپٹ نہ کہہ لیں بات نہیں بنتی۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
سیاست بھی ایسے کی جاتی ہے جیسے گلی محلے کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار تمیز سے نام تک لینا انہونی بات سمجھی جاتی ہے جب سیاسی پولرائزیشن لیڈرشپ کی سطح پر شروع ہوئی ہے تو اس کا اثر نیچے تک آتا۔ اوپر کی سطح پر تو چونکہ لیڈروں میں میل ملاقات نہیں ہوتی اس لئے معاملہ اس عمل کشیدگی تک نہیں جاتا، جتنا گلی محلے میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے معاملات پر تشدد ہو جاتے ہیں۔
عوام جب دیکھتے ہیں اسمبلیوں کے اندر حتیٰ کہ ٹی وی پر گروپوں میں مار دھاڑ اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ اپنی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کا رویہ ہماری زندگیوں میں کیوں در آیا ہے؟ اس سوال کا جواب سیاستدان ہی دے سکتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں دیں گے جن کی سیاست کا دار و مدار ہی اس نکتے پر ہو کہ مخالفین پر ذاتی حملے کرکے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے، وہ بھلا کوئی شائستہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آج کل الیکشن مہمات کا دور ہے۔ اتفاق سے میرا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ایک کارنر میٹنگ میں خطاب کررہا تھا۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے مخالف امیدواروں کی کردارکشی کررہا تھا۔ کسی کو چوروں کا سرپرست، کسی کو جھوٹے مقدمات کا عادی اور کسی کو اجرتی قاتلوں کا حامی قرار دے کر باور کررہا تھا کہ اگر حلقے میں سکھ چین سے رہنا ہے تو اسے ووٹ دیں۔ یہ سن کر میں سوچ رہا تھا اس کے مخالف امیدوار بھی اپنے اپنے جلسوں میں یہی کہہ رہے ہوں گے اُن کی نظر میں تو یہ امیدوار بھی دو نمبر کا مجرم ہوگا۔ یہ نچلی سطح کی سیاست کا حال ہے۔ اوپر کی سطح پر دیکھیں تو الزامات کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا، پیپلزپارٹی اپنے تیرو تفنگ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس پر غضب سوشل میڈیا نے ڈھایا ہے۔ کسی کو پٹواری، کسی کو یوتھیا اور کسی کو جیالا کے خطاب دے کر نفرت بھرے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دو جماعتوں کے لیڈر آپس میں رسماً ہاتھ بھی ملا لیں تو خبر بن جاتی ہے، یہ تبصرے ہوتے ہیں دیکھو اندر سے یہ سب ایک ہیں، اوپر سے ہمیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، جب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سطح اتنی بلند ہو جاتی ہے تو جمہوریت کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے جب ایک بار کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتی ہے تو وہ صرف اس جماعت کی نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے اُسے پورے ملک کی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور سیاسی قوتیں بھی اس کے آئینی حق کو تسلیم کرکے اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی پولرائزیشن الیکشن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے، بلکہ پہلے دن سے نئی حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے۔ افہام و تفہیم اور درگزر ایک ایسا خواب ہے، جو ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔
اس سیاسی پولرائزیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سیاست اور جمہوریت تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی قوتیں اپنی طاقت نہ منوا سکیں اور کٹھ پتلی بن کر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ آج بھی آپ دیکھیں ہر سیاسی جماعت عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے غیبی اشارے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں کسے اشارہ ملتا ہے اور وہ بھاگ کر اپنا کندھا پیش کرتی ہے جب اس ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی بڑی جماعتیں تھیں تو بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو نجانے یہ خیال کیسے آ گیا کہ ایک میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ میثاق ہوا مگر خوئے غلامی نہ بدلی،جونہی موقع ملا پھر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کئے گئے۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اُبھری، اسے اقتدار ملا تو بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے نعرے میں پھنس گئے جس نے سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کر دیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا وہ سیاستدانوں سے نہیں ملیں گے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے ساتھ ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ یوں ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی،جس نے سیاسی قوتوں کو کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ آج وہی رویہ نوازشریف نے اپنایا ہوا ہے۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
وہ عمران خان کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ نفرت کی سیاست کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ بات بلاول بھٹو تک آ گئی ہے، جو اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ نوازشریف کو چوتھی مرتبہ ہرگز وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ ایسی فضا میں عوام کیوں اثر قبول نہ کریں اور اس پولرائزیشن کا شکار نہ ہوں، جس میں عدم برداشت کا زہر گھل چکا
لوٹ لوٹ لوٹ--- آزاد امیدوار لوٹ Loot Loot Loot--- independent candidate Loot
تحریک انصاف کہتی ہے اس کے پاس مخالفوں کی ہر چال کا جواب ہے۔ ہر سیر کا سوا سیر ہے مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ احساس ہو رہا ہے کہ 75 برسوں سے ان "امیچور سیاستدانوں" سے نبٹنے والے "سیر نہیں سوا سیر" ہو چکے ہیں۔ وہ ہر چال چلنے سے پہلے جواب در جواب،بلکہ اس کے بھی جواب در جواب کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے "طاقتوروں" کے مقابلے میں اترنے والی کپتان کی ٹیم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد سے شروع ہونے والے جھٹکوں کی شدت زلزلے کے جھٹکوں کی طرح ریکٹر سکیل پر ناپی جائے تو پارٹی"بلے" کا انتخابی نشان چھینے جانے کا جھٹکا یقینا 6.5 سے کم نہیں تھا۔ اس جھٹکے کے آفٹر شاک ابھی تک جاری ہیں۔ تحریک انصاف اپنے آپ کو سونامی سے تشبیہ دیتی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے انتخابی نشان کا فیصلہ عام زلزلہ نہیں بلکہ سونامی تھا۔ اس جھٹکے نے پوری پارٹی کو بکھیر دیا ہے۔ تحریک انصاف نے دوسری کسی بھی مخالف جماعت سے زیادہ امیدوار کھڑے کئے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے نچلے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے امیدواروں کے انتخابی نشان جدا ہیں۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
اس کے باوجود کپتان کی ٹیم کو اُمید ہے کہ اس کا ہر کھلاڑی سنچری بنائے گا اور جو سنچری نہ بنا سکا وہ پانچ وکٹیں اُڑائے گا۔ سنچری بنانے والے اور وکٹیں اُڑانے والے کامیابی کے بعد "کس ٹیم" کا جھنڈا اٹھائیں گے اب یہ سوال دِلوں میں "وسوسے" ڈال رہا ہے۔ بلے کے بغیر لڑنے والے "آزاد" امیدواروں پر جال ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہزاروں ووٹ لینے والے ان 6-6 فٹ کے انسانوں کو "بٹیر یا مچھلی" سمجھ لیا گیا ہے کہ جال پھینکا اور ڈوری کھینچ کر شکار سے ٹوکری بھر لی۔ 2018ء میں اس وقت کے فاتح کپتان کے سینئر کھلاڑی جہانگیر ترین نے آزاد امیدواروں پر جس طرح جال پھینکے تھے اب اِس کھیل کو بڑے پیمانے پر کھیلنے کی تیاریاں ہیں۔
بٹیرے اور مچھلیاں پکڑنے والے "ماہرین" کو تیاری پکڑنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جیالوں کے ہر دلعزیز لیڈر، بی بی صاحبہ کے فرزند نے اپنی ناتجربہ کاری سے ایک ٹی وی انٹرویو میں جوش جذبات میں اپنے "ارادوں اور تیاریوں"کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ان کی اس "ناتجربہ کاری" کے بارے ان کے ایک سینئر جانثار سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ ہم میں یہ جرأت ہے کہ ہم یہ بات کہہ رہے ہیں مسلم لیگ (ن) اور تجربہ کار جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان تو پہلے ہی اس کی تیاری کر چکے ہیں۔ اس سینئر جیالے نے ازراہِ تفنن کہا کہ "جہازوں میں تیل" بھروایا جا چکا ہے، بس 9 فروری کا انتظار ہے پھر جہاز اپنے اپنے،"بریف کیس اور پیشکشیں"اپنی اپنی اور قسمت اپنی اپنی ہو گی۔ اس کھیل کو اس طرح کھیلا جائیگا یہ 13 جنوری کی رات فیصلہ سننے والوں کو فوری سمجھ نہیں آئی تھی، مگر طاقتوروں کی سرپرستی میں 2024ء کے انتخابی اکھاڑے میں اترنے والی دونوں "لاڈلی جماعتوں" مسلم لیگ (ن) اور استحکام پارٹی کے مدارالمہام کو پتہ تھا کہ یہ سہولت کاری بھی ان کے لئے ہی کی گئی ہے۔ جیالوں کے بزرگ اور مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری سے پہلے ان کے فرزند بلاول بھٹو نے اِس کھیل کو کھیلنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ مجھے یقین ہے پرانے جیالوں کو بلاول کو "زیادہ سمجھدار" کہنے پر اعتراض ہو گا، مگر یاد رکھیں "تخت و تاج" کے لئے دوڑ اپنی اپنی ہوتی ہے اگر بات سمجھ نہیں آئی تو اورنگزیب عالمگیر اور اس کے بھائیوں کی تاریخ پڑھ لیں میری بات سمجھ آ جائے گی۔
13 جنوری کی رات "عطا کئے گئے" انتخابی نشانوں بینگن، سبز مرچ، چینک، بوتل، چمٹا، فرائنگ پین، ریکٹ، ہینڈ پمپ، پیالہ، مور، وائلن اور گٹار، کلاک، دروازہ، ٹرائی سائیکل، ریڈیو، لیب ٹاپ، ڈھول، میڈل، میزائل، وکٹیں، میز کرسی، پیراشوٹ، بطخ، بیڈ (مسہری)، کیلکولیٹر، ڈولفن، ائیر کنڈیشنڈ، کیک، برش اور اس جیسے دوسرے نشانات کی اہمیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان انتخابی نشانوں نے مجھے پاکستان پر طویل ترین عرصہ حکومت کرنے والے حکمران آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی یاد تازہ کروا دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے "نجات" کے لئے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور ہر امیدوار کو اِسی طرح سبزیوں، پھل اور گھریلو، زرعی و صنعتی استعمال کی اشیاء پر مشتمل انتخابی نشان الاٹ کروائے۔ اگر میری یادداشت صحیح ہے تو جناب میاں نواز شریف کا انتخابی نشان ٹریکٹر تھا اور "اتفاق" کے بنائے ٹریکٹر حلقے میں گشت کیا کرتے تھے یا بہتر الفاظ میں راؤنڈ لگایا کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے ان انتخابی نشانوں پر جیتنے والوں کو "اکٹھا" کیا اور سندھ کے حروں کے پیر و مرشد پیر پگارو کے مشورے پر جناب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا۔ جنرل ضیا الحق خوش قسمت تھے طاقت کے بل بوتے پر دھڑلے سے جو چاہا کرلیا۔ آج کے "فیصلہ سازوں"کو پردے کے پیچھے سے سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ رنگ برنگے نشانوں پر آنیوالوں کو مرضی کے "خیموں" یعنی سیاسی جماعتوں میں کھپانا ہوگا۔ تحریک انصاف اس کھیل سے باہر ہو چکی ہے کہ ان کے پاس کوئی ہوائی جہاز والا نہیں ہے۔ 2018ء میں جہانگیر ترین کا طیارہ ان کو میسر تھا اب وہ طیارے والا لے بھی آئیں تو وہ کہاں سے اڑائیں گے۔ ائیر پورٹوں میں ان کا داخلہ تو منع ہے۔
اِن حالات میں تحریک انصاف کے "آزاد" ایم این ایز کی خریداری میں جناب جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی استحکام پارٹی کی "افرادی قوت" بڑھانے کے لئے ایک بار پھر جہانگیر ترین کا طیارہ فضاؤں میں گردش کرے گا، مگر اس بار میدان پنجاب تک محدود نہیں ہو گا بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی "پَر پھیلانے" ہوں گے۔ بلاول بھٹو کے لئے سابق گورنر پنجاب اور پی پی پی جنوبی پنجاب کے صدر جناب مخدوم سید احمد محمود کا طیارہ ہمیشہ کی طرح حاضر ہو گا۔ اب رہی بات جناب نواز شریف اور بی بی مریم نواز کی تو وہ ایسے ایک نہیں درجن بھر طیارے خرید سکتے ہیں،مگر انہیں بھی دوسروں کا طیارہ استعمال کرنے کی عادت ہے، مریم نواز شریف کے سمدھی کا طیارہ پہلے استعمال میں رہا ہے، یہ سہولت اب میسر ہوگی یا نہیں یہ پتہ چل ہی جائے گا، جنہوں نے لندن سے یہاں تک پہنچایا ہے وہ یہ مشکل بھی آسان کر ہی دیں گے۔ قیدی نمبر 804 کو پیشگی اطلاع ہم نے دیدی ہے۔ بلاول بھٹو نے تو گزشتہ روز ان کا پورا "چھابہ" ہی خالی کرکے 174 ایم این اے اپنے "ڈربے" میں اکٹھے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خان صاحب سے بلا کیوں لیا گیا اب سمجھ آرہا ہے۔ اب تو "بٹیروں" کو ہمت دکھانی ہوگی۔ کھیتوں میں آزادی سے دانہ دنکا ڈھونڈنا ہے یا بلاول، نواز شریف اور جہانگیر ترین یا علیم خان کے ڈربوں میں سے کوئی چننا ہے
دنیا کو تباہی سے بچانے والی فوج. An army to save the world from destruction
From the time of establishment of Pakistan, its security has been threatened by internal and external enemies. It has also resisted the challenges faced by the country's security through covert conspiracies and the face-to-face response to every "attack" carried out by the enemy. Contested.
The founder of Pakistan, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, founded the Pakistan Army on the spirit of sacrificing everything for the love of the country.
On the issue of Kashmir, first the refusal of the British leadership and then through the true patriotic military leadership, the achievements of the Pakistan Army began to be wrapped up with the liberation of half of Kashmir.
By removing every obstacle in the way of sustainable peace with the great intention, the vision of the security of humanity, Pakistan Army has created a new history of crushing terrorism.
Since then, the continuous successes made the Pakistan Army the best army in the world. The standard of training of the Pakistan Army remained the highest even in conventional warfare.
Defeating the aggressive intentions of the enemy every time, he won the hearts of the pacifists.
The combat skills, morale and fitness standards of the young men were recognized worldwide in the exercises.
The Pakistan Army, which is always ready to protect the country's borders, has never allowed the country's security to be compromised.
Defense of the country's land borders has been the main objective of the army, which is fighting against the internal and external enemies of the country.
The Pakistan Army was established in 1947 upon the independence of Pakistan.
It is a volunteer professional fighting force.
Active Manpower of Pakistan Army as of April 2013 according to International Institute of Strategic Studies
It was around 7,25,000.
In addition, reserve or inactive 5,50,000 (those serving up to the age of 45 years) manpower is estimated.
It reaches about 12,75,000 people.
Although there is a provision for conscription in the constitution of Pakistan, it has never been used.
Pakistan Army including Pakistan Navy and Pakistan Air Force is the seventh largest army in the world.
Since independence in 1947, Pakistan Army has performed the duty of defending the country in 4 wars with India and numerous border skirmishes.
قیام پاکستان کے وقت سے ہی اندرونی و بیرونی دشمنوں کی طرف سے اس کی سلامتی کو خطرات لاحق رہے ۔دشمن کے سامنے سے کئے جانے والے ہر "وار "کا منہ توڑ جواب اور درپردہ سازشوں کے ذریعے ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا ۔
بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاک فوج کی بنیاد ہی وطن سے محبت کے لیے ہر شے قربان کرنے کے جذبے پر رکھی ۔
کشمیر کے قضیے پر پہلے انگریز قیادت کے انکار اور پھر حقیقی حب الوطن عسکری قیادت کے ذریعے آدھے کشمیر کی آزادی سے پاک فوج کی کامیابیاں سمیٹنے کی شروعات ہوئیں ۔
عظیم قصد، انسانیت کی سلامتی کے ویژن سے پائیدار امن کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ دور کرکے پاک فوج نے دہشتگردی کچلنے کی نئی تاریخ رقم کردی ۔
اس کے بعد سے مسلسل کامیابیوں نے پاک فوج کو دنیا کی بہترین فوج بنا دیا۔روایتی جنگ میں بھی پاک فوج کی تربیت کا معیار اعلیٰ ترین رہا۔
دشمن کے جارحانہ عزائم کو ہر بار ناکام بناتے ہوئےامن پسندوں کے دل جیت لئے۔
مشقوں میں جوانوں کی جنگی مہارت ، مورال اور فٹنس کے معیار کی دنیا معترف ہوئی ۔
ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہنے والی پاک فوج نے ملکی سلامتی پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ۔
ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی فوج کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع رہا ہے۔
پاکستان کی فوج کا قیام 1947 میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔
یہ ایک رضاکار پیشہ ور جنگجو قوت ہے۔
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے مطابق اپریل 2013 میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت
تقریباً 7،25،000 تھی۔
اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال 5،50،000 افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سر انجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ
تقریباً 12،75،000 افراد تک پہنچ جاتا ہے۔
اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔
پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے۔
آزادی 1947ء کے بعد سے پاک فوج بھارت سے 4 جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY $70 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
Also notable for the military assistance of the allied Arab countries in the Arab-Israeli War, the Iraq-Kuwait War and the Gulf War
Perform services.
Recent major operations include Operation Black Thunderstorm, Operation Rah Rast and Operation Rah Najat.
Apart from the battles, the Pakistan Army has also been participating in the peace efforts of the United Nations.
A detachment of Pakistani forces, while part of the United Nations peacekeeping mission, rescued trapped American soldiers during Operation Gothic Serpent in Mogadishu, Somalia in 1993.
By saving lives, he left a mark on the world of his eternal bravery and professionalism
The motto of the Pakistan Army is: "Faith, piety and jihad have been in the way of Allah. The Pakistan Army has played a role in protecting the international community from barbaric terrorists."
They made eternal sacrifices to save the world from a terrible disaster, which has been acknowledged by the international community many times.
Inspite of all this, the miscreants propagated against the Pakistan Army.
The insidious enemy, who is always ready to destroy humanity, has insulted the Pakistan Army.
Pakistan Army has proved its ability to crush all kinds of terrorism to the world.
Conspiracy to spread chaos in the country through May 9 tragedy, very patient, steadfast
won the hearts of the entire nation by failing with endurance and patience
This is the reason that today the entire nation is standing by the side of Pakistan Army.
The patriotic people of Pakistan to bring the characters of May 9 tragedy to Kfir role
Looking forward with great impatience.
A similar external aggression was perpetrated by the Islamic brother country Iran.
On January 17, the sovereignty of the country was attacked, to which Pakistan reacted strongly
And he also announced to give a blunt answer.
The Pakistan Army made the country's defense impregnable, terrorists on Iranian soil the other day
Proved the superiority of his professional skills to the world by successfully targeting the hideouts of
Those plotting to endanger the integrity of Pakistan including India
The funerals of wishes went out.
On the other hand, the military leadership for the development and prosperity of the people along with national security
It has played an effective role to avoid economic crises.
The people used the economic conditions of the country as the basis and criticized the Pakistan Army unnecessarily
The narrative of the miscreants has been rejected.
General Syed Asim Munir, Chief of Army Staff of Pakistan Army, the axis of power and authority in Pakistan
For the purpose of establishing a new elected government by declaring the people
By showing determination to ensure timely conduct of transparent elections, the entire nation has been made hostage.
By coming on the same page as the military leadership with the real leadership elected in election 2024
The decisions that will be made keeping the country's interest first
Of course, he is stable, strong by opening all the ways for the development and prosperity of the people of Pakistan
And will move towards invincible Pakistan.
IF YOU WANT TO EARN DAILY $70 WITHOUT ANY INVESTMENT CLICK HERE
عرب اسرائیل جنگ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لیےبھی نمایاں
خدمات انجام دیں۔
حالیہ بڑی کارروائیوں میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات شامل ہیں۔
لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے۔
پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے 1993ء میں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کے دوران میں پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی
جانیں بچاکر دنیا میں اپنی لازوال بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کی دھاک بٹھا دی ۔ِ
پاک فوج کا نصب العین ہے: ''ایمان، تقویٰ اور ِجہاد فی سبیل اللہ رہا ہے ۔پاک فوج نے عالمی برادری کو وحشی دہشتگردوں سے بچانے کی خاطر کردار نبھایا ۔
دنیا کو خوفناک تباہی سے بچانے کیلئے لازوال قربانیاں دیں جس کا عالمی برادری نے کئی بار اعتراف کیا ہے ۔
ان سب کے باوجود شرپسندوں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ۔
ہمہ وقت انسانیت کی تباہی کے لیے تیار مکار دشمن نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی ۔
پاک فوج نے ہر طرح کی دہشتگردی کچلنے کی صلاحیت دنیا پر ثابت کردی ۔
ملک کے اندر سانحہ 9 مئی کے ذریعے انتشار پھیلانے کی سازش انتہائی صبر،ثابت قدمی
، برداشت اور تحمل سے ناکام بناکر پوری قوم کے دل جیت لئے
یہی سبب ہے کہ آج پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔
پاکستان کے محب وطن عوام سانحہ 9مئی کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے
بڑی بے صبری سے منتظر ہیں ۔
اسی طرح کی ایک بیرونی جارحیت کا ارتکاب برادر اسلامی ملک ایران سے سرزد کروایا گیا ۔
جنوری 17 کو ملک کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا جس پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا
اور اس کا منہ توڑ جواب دینے کا اعلان بھی کردیا ۔
پاک فوج نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہوئے دوسرے دن ایرانی سرزمین پر دہشتگردوں
کے ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے دنیا پر اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی برتری ثابت کردی
بھارت سمیت پاکستان کی سالمیت کو خطرات سے دوچار کرنے کی سازشیں رچانے والوں کی
خواہشوں کے جنازے نکل گئے۔
دوسری طرف عسکری قیادت نے ملکی سلامتی کے ساتھ عوام کی ترقی وخوشحالی کی خاطر
معاشی بحرانوں کو ٹالنے کے لئے موثر کردار نبھایا ہے ۔
عوام نے ملک کے معاشی حالات کو بنیاد بنا کر پاک فوج کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے والے
شرپسندوں کا بیانیہ مسترد کردیا ہے ۔
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان میں طاقت اور اختیار کا محور
عوام کو قرار دیتے ہوئے ان کی رائے سے نئی منتخب حکومت قائم کرنے کی خاطر
شفاف الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کرکے پوری قوم کو گرویدہ بنالیا ہے ۔
الیکشن 2024ء میں حقیقی قیادت منتخب ہونے کے ساتھ عسکری قیادت کے ایک صفحے پر آ کر
ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوے جو فیصلے ہوں گے
یقینا" وہ پاکستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے تمام راستے کھول کر مستحکم ،مضبوط
leave the world behind. دنیا کو پیچھے چھوڑ دو.
Sure, leaving the world behind can be interpreted in different ways. Here are a few approaches:
1. **Mental Escape:** Take time for introspection, meditation, or mindfulness. Disconnect from stressors by focusing on your thoughts or simply being present in the moment.
2. **Physical Escape:** Consider a change of scenery through travel or spending time in nature. Exploring new places can provide a fresh perspective and a break from routine.
3. **Digital Detox:** Reduce screen time and social media. Unplug periodically to avoid information overload and to foster real-world connections.
4. **Hobbies and Passion:** Immerse yourself in activities you love. Whether it's reading, art, sports, or music, engaging in your passions can create a sense of detachment from daily pressures.
5. **Social Detox:** Evaluate relationships and surround yourself with positive influences. Sometimes, distancing from toxic relationships can contribute to a healthier mindset.
Remember, leaving the world behind doesn't necessarily mean isolating yourself permanently; it's about finding balance and rejuvenating your mind and spirit.
If you want to earn daily $50 without any investment click here
یقینی طور پر، دنیا کو پیچھے چھوڑنے کی مختلف طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے۔ یہاں چند طریقے ہیں:
1. **ذہنی فرار:** خود شناسی، مراقبہ، یا ذہن سازی کے لیے وقت نکالیں۔ اپنے خیالات پر توجہ مرکوز کرکے یا صرف اس لمحے میں موجود رہ کر تناؤ سے منقطع ہوجائیں۔
2. **جسمانی فرار:** فطرت میں سفر یا وقت گزارنے کے ذریعے مناظر کی تبدیلی پر غور کریں۔ نئی جگہوں کی تلاش ایک تازہ نقطہ نظر اور معمول سے وقفہ فراہم کر سکتی ہے۔
3. **ڈیجیٹل ڈیٹوکس:** اسکرین ٹائم اور سوشل میڈیا کو کم کریں۔ معلومات کے زیادہ بوجھ سے بچنے اور حقیقی دنیا کے رابطوں کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ان پلگ کریں۔
4. **مشوق اور جنون:** اپنے آپ کو اپنی پسند کی سرگرمیوں میں غرق کردیں۔ چاہے یہ پڑھنا ہو، فن ہو، کھیل ہو یا موسیقی، اپنے شوق میں شامل ہونا روزمرہ کے دباؤ سے لاتعلقی کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔
5. **سوشل ڈیٹوکس:** رشتوں کا اندازہ لگائیں اور اپنے آپ کو مثبت اثرات سے گھیر لیں۔ بعض اوقات، زہریلے تعلقات سے دوری صحت مند ذہنیت میں حصہ ڈال سکتی ہے۔
یاد رکھیں، دنیا کو پیچھے چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود کو مستقل طور پر الگ تھلگ کر لیا جائے۔ یہ توازن تلاش کرنے اور آپ کے دماغ اور روح کو تازہ کرنے کے بارے میں ہے۔