زہریلی پولرائزیشن، کمزور جمہوریت Toxic Polarization, Weak Democracy



پشاور سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے باپ نے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ بیٹے نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے آیا تھا، گھر پر اپنی پسند کی جماعت کا جھنڈا لگا دیا، باپ نے منع کیا، بحث و تکرار ہوئی تو والد نے طیش میں آکر بیٹے کو اپنے ریوالور سے گولی مار دی، اب بہت سے لوگ اسے ایک انفرادی واقعہ قرار دیں گے، لیکن صاحبو! یہ انفرادی واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے سیاسی پولرائزیشن جس نے ہمیں اوپر سے لے کر نیچے گھر گھر تک تقسیم کر دیا ہے۔ پھر عدم برداشت اتنی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف ہوتے ہیں، یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت اور معاشرتی تقسیم بڑی خوفناک ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسے روکا نہ گیا تو یہ چیز ہمارے داخلی سماج کو پارہ پارہ کر دے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بہت اچھی باتیں کر جاتے ہیں، مگر افسوس ان کی باتوں پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ اخبارات بھی ان کے بیان کو سنگل یا دو کالم سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو سیاستدان اپنے بیانات سے نفرتیں پھیلاتے ہیں انہیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ سراج الحق نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا  معاشرے میں زہریلی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے جس سے معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ بہت اہم بات ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر آج کے سیاسی ماحول میں کہیں سے لگتا ہے کہ سیاسی قوتوں کی یہ ترجیح ہو سکتی ہے جس بھی جماعت کے قائدین کو دیکھیں وہ تقسیم کررہا ہے، متحد کرنے پر اس کا دھیان ہی نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم ایشوز پر چلائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنا مشن اور لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ مستقبل کے اہداف اور ترجیحات بتاتی ہے جن کی بنیاد پر عوام انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار اور کرپٹ نہ کہہ لیں بات نہیں بنتی۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

 سیاست بھی ایسے کی جاتی ہے جیسے گلی محلے کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار تمیز سے نام تک لینا انہونی بات سمجھی جاتی ہے جب سیاسی پولرائزیشن لیڈرشپ کی سطح پر شروع ہوئی ہے تو اس کا  اثر نیچے تک آتا۔ اوپر کی سطح پر تو چونکہ لیڈروں میں میل ملاقات نہیں ہوتی اس لئے معاملہ اس عمل کشیدگی تک نہیں جاتا، جتنا گلی محلے میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے معاملات پر تشدد ہو جاتے ہیں۔

عوام جب دیکھتے ہیں اسمبلیوں کے اندر حتیٰ کہ ٹی وی پر گروپوں میں مار دھاڑ اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ اپنی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کا رویہ ہماری زندگیوں میں کیوں در آیا ہے؟ اس سوال کا جواب سیاستدان ہی دے سکتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں دیں گے جن کی سیاست کا دار و مدار ہی اس نکتے پر ہو کہ مخالفین پر ذاتی حملے کرکے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے، وہ بھلا کوئی شائستہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آج کل الیکشن مہمات کا دور ہے۔ اتفاق سے میرا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ایک کارنر میٹنگ میں خطاب کررہا تھا۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے مخالف امیدواروں کی کردارکشی کررہا تھا۔ کسی کو چوروں کا سرپرست، کسی کو جھوٹے مقدمات کا عادی اور کسی کو اجرتی قاتلوں کا حامی قرار دے کر باور کررہا تھا کہ اگر حلقے میں سکھ چین سے رہنا ہے تو اسے ووٹ دیں۔ یہ سن کر میں سوچ رہا تھا اس کے مخالف امیدوار بھی اپنے اپنے جلسوں میں یہی کہہ رہے ہوں گے اُن کی نظر میں تو یہ امیدوار بھی دو نمبر کا مجرم ہوگا۔ یہ نچلی سطح کی سیاست کا حال ہے۔ اوپر کی سطح پر دیکھیں تو الزامات کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا، پیپلزپارٹی اپنے تیرو تفنگ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس پر غضب سوشل میڈیا نے ڈھایا ہے۔ کسی کو پٹواری، کسی کو یوتھیا اور کسی کو جیالا کے خطاب دے کر نفرت بھرے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دو جماعتوں کے لیڈر آپس میں رسماً ہاتھ بھی ملا لیں تو خبر بن جاتی ہے، یہ تبصرے ہوتے ہیں دیکھو اندر سے یہ سب ایک ہیں، اوپر سے ہمیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، جب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سطح اتنی بلند ہو جاتی ہے تو جمہوریت کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے جب ایک بار کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتی ہے تو وہ صرف اس جماعت کی نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے اُسے پورے ملک کی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور سیاسی قوتیں بھی اس کے آئینی حق کو تسلیم کرکے اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی پولرائزیشن  الیکشن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے، بلکہ پہلے دن سے نئی حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے۔ افہام و تفہیم اور درگزر ایک ایسا خواب ہے، جو ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔


اس سیاسی پولرائزیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سیاست اور جمہوریت تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی قوتیں اپنی طاقت نہ منوا سکیں اور کٹھ پتلی بن کر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ آج بھی آپ دیکھیں ہر سیاسی جماعت عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے غیبی اشارے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں کسے اشارہ ملتا ہے اور وہ بھاگ کر اپنا کندھا پیش کرتی ہے جب اس ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی بڑی جماعتیں تھیں تو بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو نجانے یہ خیال کیسے آ گیا کہ ایک میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ میثاق ہوا مگر خوئے غلامی نہ بدلی،جونہی موقع ملا پھر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کئے گئے۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اُبھری، اسے اقتدار ملا تو بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے نعرے میں پھنس گئے جس نے سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کر دیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا وہ سیاستدانوں سے نہیں ملیں گے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے ساتھ ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ یوں ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی،جس نے سیاسی قوتوں کو کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ آج وہی رویہ نوازشریف نے اپنایا ہوا ہے۔ 

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

وہ عمران خان کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ نفرت کی سیاست کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ بات بلاول بھٹو تک آ گئی ہے، جو اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ نوازشریف کو چوتھی مرتبہ ہرگز وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ ایسی فضا میں عوام کیوں اثر قبول نہ کریں اور اس پولرائزیشن کا شکار نہ ہوں، جس میں عدم برداشت کا زہر گھل چکا 

No comments:

Post a Comment