دیوار چین میں انسانی لاشیں. Human corpses in the Great Wall of China

 



دیوار چین قدیم چین میں تعمیر کی جانے والی ان دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے جسے تقریباپانچ سوسال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی لمبائی کے اندازے تقریبا 2400 کلومیٹر سے 8 ہزار کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے تھے، مگر 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوار چین کی کل لمبائی تقریبا 21ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے مگر اس کے بارے میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی موجود ہیں۔دی گریٹ وال آف چائنا کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن ِ تعمیر کے متعلق پانچ مفروضوں کے متعلق بتایا گیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی خاکہ نویس رابرٹ ریلے نے سب سے پہلے اس مفروضے کو عام کیا تھا کہ دیوار چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم بیلی واٹ اورناٹ میں انہوں نے دیوار چین کو انسان کا سب سے طاقتور کام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے 30 برس قبل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور سائنس سونائزیشن ان چائنہ کے مصنف جوزف دھم نے کہا کہ دیوار چین انسان کی واحد تعمیر ہے جسے مریخ کے ماہرین فلکیات تھی دریافت کر سکتے ہیں۔البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا گیا مگر 2003 میں چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلاباز بانگ لوئی نے اس مفروضے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔

 

ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کے بہت سے حصے ہیں اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تحقیق سے مشابہت رکھتے ہیں جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔ اس کے وہ حصے جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی ممانعت ہے ۔یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی اور یہ حصے آبی ذخائر میں جا ملتے ہیں۔ بہت سے حصوں پر یہ دیوار گہری تہہ حتی کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے دوسرے سے ملتے ہیں۔ دیوار چین کا جو حصہ آپ بیجنگ کے ارد گرد دیکھتے ہیں وہاں آثار قدیمہ کی نشانیاں ہیں جن میں سے کچھ دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔دیوار چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اس بادشاہ نے دیا تھا 

If you want to earn daily $40 click here 

جن کی وفات تقریبا 210 قبل مسیح میں ہوئی تھی یعنی منگولوں کے منظر عام پر آنے سے قبل کیوں کہ منگول تقریباً 800عیسوی کے قریب آئے تھے پھر چین کو خطرہ زنگوں سے ہوگا جو ممکنہ طور پرانہی کی آباو اجداد تھے، منگولوں کے ساتھ جنگ چودہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی جب بادشاہ مانگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔دیوار چین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوار چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔ان کہانیوں نے غالبا ًبان بادشاہت کی دور کے ایک اہم مورخ سیما گیان سے جنم لیا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیش رو سلطنت فن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس دیوار سے کبھی کوئی انسانی ڈھانچے یا ہڈیاں برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی شواہد ملے ہیں اور نہ ہی ان افواہوں کا آثار قدیمہ یا پرانی یادداشتوں میں کوئی ذکر ملتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوار چین کا ذکر نہیں کیا اور دیوار چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی دیوار چین نہیں گیا تھا ۔ اس وقت تیرہویں صدی کے آخر میں تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی اس لیے اس وقت دیوار بیکار ہو چکی ہوگی کیونکہ حملہ آوروں نے 50 سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔منگول جنہوں نے جنگ کے دوران دیوار چین کو نظر انداز کیا تھا انہیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مارکو پولو نے یقینا اسے بیجنگ سے شان گو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہوگا لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔

جسم کی چربی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ. The best way to eliminate body fat



Sound Eating regimen: Spotlight on devouring supplement thick food sources that give fundamental nutrients, minerals, and macronutrients without unreasonable calories. This incorporates a lot of natural products, vegetables, lean proteins (like chicken, fish, tofu), entire grains, and sound fats (like avocados, nuts, seeds). Keep away from or limit handled food varieties, sweet bites, and unhealthy beverages.


صوتی کھانے کا طریقہ: کھانے کے ضمیمہ کے موٹے ذرائع پر روشنی ڈالیں جو بنیادی غذائی اجزاء، معدنیات، اور میکرو نیوٹرینٹس کو غیر معقول کیلوریز کے بغیر دیتے ہیں۔  اس میں بہت ساری قدرتی مصنوعات، سبزیاں، دبلی پتلی پروٹین (جیسے چکن، مچھلی، ٹوفو)، سارا اناج، اور صوتی چکنائی (جیسے ایوکاڈو، گری دار میوے، بیج) شامل ہیں۔  سنبھالے ہوئے کھانے کی اقسام، میٹھے کاٹنے اور غیر صحت بخش مشروبات سے دور رہیں یا ان کو محدود کریں۔

Caloric Shortfall: To lose muscle versus fat, you want to eat less calories than your body uses. This can be accomplished by observing part estimates, following calorie admission, and being aware of energy-thick food sources. In any case, it's critical to keep a decent eating regimen and not unnecessarily limit calories, as this can prompt supplement lacks and metabolic slowdown.

If you want to earn daily $40           click here 

کیلوری کی کمی: چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کھونے کے لیے، آپ اپنے جسم کے استعمال سے کم کیلوریز کھانا چاہتے ہیں۔  یہ جزوی تخمینوں کا مشاہدہ کرکے، کیلوری کے داخلے کے بعد، اور توانائی سے بھرپور خوراک کے ذرائع سے آگاہی حاصل کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔  کسی بھی صورت میں، یہ ضروری ہے کہ کھانے پینے کا مناسب طریقہ اختیار کیا جائے اور کیلوریز کو غیر ضروری طور پر محدود نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سپلیمنٹ کی کمی اور میٹابولک سست روی کا سبب بن سکتا ہے۔

Regular Exercise: Integrate both cardiovascular activity and strength preparing into your everyday practice. Cardiovascular exercises like running, cycling, or swimming assist with consuming calories and further develop heart wellbeing, while strength preparing works out (like weightlifting or bodyweight works out) form bulk, which expands digestion and assists ignite with fatting even at rest.

باقاعدہ ورزش: اپنے روزمرہ کی مشق میں قلبی سرگرمی اور قوت تیاری دونوں کو ضم کریں۔  دوڑنا، سائیکل چلانا، یا تیراکی جیسی قلبی مشقیں کیلوریز کے استعمال میں مدد کرتی ہیں اور دل کی تندرستی کو مزید فروغ دیتی ہیں، جب کہ طاقت کی تیاری کام کرتی ہے (جیسے ویٹ لفٹنگ یا باڈی ویٹ ورک آؤٹ) بلک بنتی ہے، جو ہاضمہ کو بڑھاتی ہے اور آرام کے وقت بھی چکنائی کے ساتھ جلنے میں مدد دیتی ہے۔

Consistency and Tolerance: Losing muscle versus fat takes time and consistency. It's crucial for stay focused on your eating routine and exercise plan, in any event, when progress appears to be slow. Put forth reasonable objectives and spotlight on making manageable way of life changes as opposed to looking for convenient solutions or crash consumes less calories, which are many times incapable and impractical in the long term.

مستقل مزاجی اور رواداری: چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کھونے میں وقت اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔  یہ آپ کے کھانے کے معمولات اور ورزش کے منصوبے پر مرکوز رہنے کے لیے بہت ضروری ہے، کسی بھی صورت میں، جب پیش رفت سست دکھائی دے رہی ہو۔  مناسب حل تلاش کرنے یا کریش کم کیلوریز استعمال کرنے کے برخلاف زندگی کے قابل انتظام انداز میں تبدیلیاں کرنے پر معقول مقاصد اور روشنی ڈالیں، جو طویل مدتی میں کئی بار ناقابل عمل اور ناقابل عمل ہیں۔

Hydration and Rest: Drink a lot of water over the course of the day to remain hydrated, which can assist with controlling hunger and backing in general wellbeing. Hold back nothing long stretches of value rest each evening, as lacking rest can upset chemicals connected with craving and digestion, making it harder to lose body fat.

ہائیڈریشن اور آرام: ہائیڈریٹ رہنے کے لیے دن کے دوران بہت زیادہ پانی پئیں، جو بھوک کو کنٹرول کرنے اور عام صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔  ہر شام قدرے آرام کے طویل حصے کو نہ روکیں، کیونکہ آرام کی کمی خواہش اور ہاضمے سے جڑے کیمیکلز کو پریشان کر سکتی ہے، جس سے جسم کی چربی کھونا مشکل ہو جاتا ہے۔

Stress The executives: Constant pressure can add to weight gain and make it harder to lose muscle versus fat. Practice pressure lessening exercises like reflection, yoga, profound breathing activities, or investing energy in nature to assist with overseeing feelings of anxiety actually.

 

ایگزیکٹوز کا تناؤ: مسلسل دباؤ وزن میں اضافہ کر سکتا ہے اور چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کم کرنا مشکل بنا سکتا ہے۔  دباؤ کو کم کرنے کی مشقیں کریں جیسے عکاسی، یوگا، گہری سانس لینے کی سرگرمیاں، یا اصل میں پریشانی کے احساسات کی نگرانی کے لیے فطرت میں توانائی کی سرمایہ کاری کریں۔

سیاست کی آڑ میں

Abdul Qayyum 


 ہم جس خطے میں رہتے ہیں پاکستان یہ ببانگ دہل اپنی تاریخ کے خونی مناظر چیخ چیخ کر باور کرواتا ہے کہ میری بنیاد اسلام ہے۔ میرا مقصد اسلامی قوانین اور اصولوں کو باآسانی جہاں فروغ دیا جائے اس خطے کی پہچان ہے۔ میرا مقصد میرے وجود کو تسلیم کر کے جہاں ہر فرد آزادی کے ساتھ سکون کی سانسیں لے سکے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ارض پاک ہمارے قائد محترم اور ان کے چند ساتھیوں کی ہی ہمت کا نتیجہ ہے۔ یہ ارض پاک مسلمانان ہند اور اس خوبصورت ملک کی خوبصورت تصویر بنانے والے علامہ محترم اقبال صاحب کی علمی اور فکری صلاحیتوں ان کی سیاسی بصیرت اور ان کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنانے کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس وقت کے مسلمانوں کے نصب العین اور انقلاب آفرین فلسفوں میں بڑی جان تھی۔ مگر اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ابتدائی عزم ارادہ اور نیت جس کی بنا پر پاکستان بنا اس کے بعد سے آج تک اس ملک کے نظام میں انقلاب نہیں آیا۔ انسانی رویوں میں انسانی سوچوں میں اور ان کے ارد گرد کے ماحول میں انقلاب نہیں آیا۔ ہماری سیاست اور ایوانوں میں انقلاب نہیں آیا

۔ ہمارے اوپر مسلط رہنماوں کی رہنمائی نہیں کی گئی۔ ہماری مجلس آئین ساز جہاں دن رات قانون سازی کے راگ آلاپے جاتے ہیں جب ایوانوں سے باہر نکلتے ہیں قانون شکنی ثواب جان کر اپنے اپنے نامہ اعمال کو وسعت دے کر بالکل وہی عمل کرتے ہیں جو ہم مسلمان دن میں پانچ بار نمازوں میں کہتے ہیں کہ " اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں " اور پھر مسجدوں سے باہر نکل کر ہر کسی کو اپنا حاجت روا اور معبود سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم نہ شریعت میں مکمل اترے ہیں نہ ہی دنیاوی معاملات میں۔ہمارے ہر ادارے میں کرپشن اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ اس سے تعلق آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔ اندازہ کریں ہمارے سکول اور اساتذہ تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔

 

اپنے قیمتی وقت اور اپنے علم کو منتقل کرنے میں کرپشن کرتے ہیں۔ اور روائتی تعلیم میں اس قدر پیوست ہوچکے ہیں کہ رہنمائی تک خود سے نہیں کر سکتے۔ بچوں کے حوالے سے اساتذہ اور والدین بہت کمزور سوچ کے مالک ہیں۔ بعض والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں سے دو باتیں پیار محبت کی کر سکیں، وقت نکال کر اپنی طرف سے کچھ نصیحت ہی کر سکیں اور نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ سکول جاکر اپنے بچوں کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ استاد کی عزت ضرور کریں مگر ان پر اعتماد آپ کسی صورت بھی نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی ڈور ایک اجنبی استاد کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور پورے سال صرف رزلٹ (نتیجہ) کے دن کاہلی سے حاظری لگواتے ہیں

 

تو وہاں کے قابل اساتذہ بھی نااہل ہوجاتے ہیں آپ کے اس رویے کو دیکھ کر۔ پھر وہ بھی بچوں کے والدین کی طرح سست ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ پر والدین کا یہ اندھا اعتماد ان کے اپنے بچوں کیلئے اچھا نہیں ہوتا۔ آج کے بچوں کے مستقبل سے اساتذہ اور والدین دونوں مل کے کھیلتے ہیں۔ آپ کسی ایک کو دوشی نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہاں مافیا اور اشرافیہ کی حکمرانی ہے۔ یہاں جس کے پاس پیسہ ہے طاقت اسی کی ہے حیثیت اسی کی ہے قانون اسی کی زبان بولتا ہے۔ یہاں قانون کی ہوس صرف پیسہ ہے طاقت ہے۔ یہاں آپ کھل کر چند بد وضع کردار اور اداروں کے متعلق بات نہیں کر سکتے ان کی پالیسی کے متعلق سوال نہیں اٹھا سکتے ان کی کرپشن کو کرپشن کہنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی کرپشن کو آپ خدا کی غیبی مدد کہہ کر ان کو پر مسرت ضرور کر سکتے ہیں۔

If you want to earn daily $40 

 click here 

جہاں جس جگہ بات تنقید یا کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے آپ کہاں کے آزاد ہیں؟ کیا آزادی صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں بغیر کسی کی اجازت کے گھومنے پھرنے تک محدود ہو چکی ہے؟ بھئی ہماری زبان تک غلام ہے ہمارے کردار بلکہ ہمارے تخیلات تک میں اشرافیہ کی اسیری کے سائے منڈلاتے ہیں۔ ہمارا ہر فرد طبقاتی استحصال کا شکار ہے۔ کیا یہی پاکستان کا مقصد تھا کہ جس کے انصاف کے مقابلے میں اشرافیہ کی طاقت کے مظاہرے کیے جائیں کہ جس میں قوم کے اتحاد کو بغاوت کا نام دیکر غارت کیا جائے کہ جس میں قوم کی خیرت انگیز فلاح و بہبود کرنے والوں پر کوئی مقدمہ ڈال کر یا دہشتگرد کہہ کر مار دیا جائے۔

 

آپ موجودہ انتخابات سے ملک میں چند طاقت ور ترین نمائندوں کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جمہوریت کس طرف ہے اور لایا کس کو جارہا ہے۔ اس ارض پاک میں جس طرح حق بات اور تنقید براہ اصلاح پر پابندی ہے بالکل اسی طرح یوں لگتا ہے جیسے کہ اپنی اصلاح خود کرنے پر بھی کوئی پابندی ہے۔ لوگ (ادارے) خود کی اصلاح تک نہیں کرنا چاہتے اس بات کی اقبال نے جاوید نامہ میں کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے کہ چشم برحق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک آپ دیکھ لیجیے وہاں حق سچ اور انصاف بالکل آزاد ہیں۔ وہاں صحافت آزاد ہے۔ وہاں سوال آزاد گھومتا ہے۔ عوامی اظہار رائے کی قدر ہے عام عوام کی پہنچ سے کوئی بھی بڑی شخصیت دور نہیں۔ ان پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈالا جاتا ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور جواب دینا بھی وہ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

آزادی اظہار رائے کا مکمل حق سب کو حاصل ہے جس کا تصور بھی مسلم دنیا میں بالخصوص یہاں نہیں کیا سکتا۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ مسلم دنیا میں طویل المدت عرصے تک حکمرانی کے بعد جمہوریت یا شہنشایت کے ذریعے سلسلہ در سلسلہ خاندانی وراثت کو فروغ دینے میں دلچسپی لی جاتی ہے۔ آپ موجودہ پاکستان کی سیاست پر ہی ایک نظر ڈال لیں آپ کو ماضی دور تک کوئی نیا بندہ نظر نہیں آئے گا سب کے سب نسل در نسل اپنا حق سمجھ کر ملک کو لوٹ رہے ہیں اور نئے اور قابل لوگوں کو موقع ہی نہیں دیا جاتا اس ڈر سے کہ کہیں ملک ترقی کے راستوں میں گامزن ہوگیا تو ہم کہاں سے کھائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اختلاف یا تنقید کو عام طور پر بغاوت کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے اور پھر آپ کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے آپ ماجودہ سیاست اور ان کے کارناموں سے باخوبی واقف کار ہیں۔ ہمیں اپنی آزادی کیلئے اپنی عدالتیں۔ حق سچ۔ اور اختلافی رائے یا آزادی اظہار کا حق سب کو میسر کرنا ہوگا۔ ہم کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے اور ویسے بھی یہ ہم مسلمانوں کی فطرت ہے کہ اپنی ہی پیدہ کردہ کمزوریوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھے جرم پر دوسروں (یعنی) مغرب پر الزام ٹھونپ دیتے ہیں


ہر بات پر ایسا کہنا ہماری فطرت بن چکی ہے کہ اس میں ضرور مغرب کی سازش ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حقیقی مسائل خارجی نہیں بلکہ داخلی ہیں۔ ہم خود سارے کرپٹ ہوچکے ہیں چور ہو چکے ہیں ہم ایک کرسی کی خاطر نہیں دیکھتے کہ اس کو حاصل کرنے کیلئے کس کس کا خون بہے گا بہنے دیتے ہیں۔ کس کس کی تزلیل ہوگی ہونے دیتے ہیں۔ کس کس میں اختلاف ہوگا۔ 

مستحکم حکومت کی بنیاد


 


بلا کسی تبصرہ کے "نئی خبر آئی ہے مولانا عمران بھائی ہیں"۔ کچھ لوگ موجودہ پارلیمنٹ کو بھی ایک ہنگ اسمبلی کہہ رہے ہیں جس میں کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت نہیں ہے لیکن یہ ہنگ پارلیمنٹ گذشتہ سے بہتر ہے ۔ اس میں دو جماعتیں مل کر سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکتی ہیں اور پی ڈی ایم کی طرح نہیں کہ جس میں تیرہ جماعتیں تھیں اور کوئی ایک جماعت بھی حکومت چھوڑ دیتی تو حکومت اکثریت کھو دیتی ۔ اس لئے موجودہ حکومت میں اس طرح کی بلیک میلنگ نہیں ہو پائے گی بلکہ دونوں جماعتیںآپس میں ہی بلیک میل ہوں گی کسی تیسری جماعت سے بلیک میل نہیں ہوں گی اس لئے ہمارے خیال میں یہ ماضی کی اتحادی حکومتوں کی نسبت قدرے مستحکم حکومت ہو گی اور یہ بات بھی اہم ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی 2008کے بعد ہر حکومت نے پانچ سال پورے کئے ہیں اور اس میں زرداری صاحب کا بڑا کلیدی کردار ہے۔اس حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر سیاستدان کا اپنا اپنا ذہن ہوتا ہے کچھ کے نزدیک ایک ہی رات میں سب کچھ بدلا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں اور یہ کوئی دو چار سال کی بات نہیں ہے بلکہ پون صدی کا قصہ ہے تو دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں بھی ایسے حالات ہوتے ہیں وہاں پر کبھی ایک مختصر عرصہ میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس میں برسوں لگ جاتے ہیں اور کم از کم 35سے چالیس سال اور وہ بھی اس دوران اگر سیاسی قیادت نیک نیت رہے تو تب تبدیلی ممکن ہوتی ہے یہ نہیں کہ ایک طرف آپ اتنے بڑے انقلابی بن جائیں کہ 9مئی کر دیں اور دوسری جانب ساتھ دینے پر جنرل باجوہ کو تا حیات جنرل بنانے پر آمادہ ہو جائیں یا پھر مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں آئیں کہ جس میں عوامی حمایت کی پشت پناہی نہ ہو اور آپ سوچیں کہ آپ آئین میں دیئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ببر شیر بن کر

انقلاب لے آئیں گے ایسا نہیں ہوتا اس کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے اور زرداری صاحب کو اس کا ادراک ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے شروع میں اگر ہم اسمبلی کی مدت پوری کر لیں تو یہی کافی ہے اور اسی لئے جب سپریم کورٹ سے ایک غیر جمہوری روایت کی شروعات کی گئیں اور یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تو احتجاج کے بجائے اسمبلی کی مدت پوری کرنے کو ترجیح دی گئی تو امید ہے کہ یہ اسمبلی اور حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 CLICK HERE 

خیر بات ایک مستحکم حکومت کی ہو رہی تھی تو اب اگر آئینی ترامیم کے حوالے سے بات کریں تو مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اگر تحریک انصاف کو چھوڑ کر چند دیگر جماعتوں کو شامل کر لیا جائے تو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے ملنے کے بعد ان کے پاس امیدہے کہ دو تہائی اکثریت کا ہدف بھی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس پر کوئی قطعی بات مخصوص نشستوں کے بعد ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس میں بھی دو آراء پائی جاتی ہیں کہ تحریک انصاف کے آزاد ارکان اسمبلی جس جماعت کو جوائن کریں گے کیا وہ خواتین اور اقلیتوں کی اپنی ترجیحی لسٹ دے سکتی ہے یا نہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں جائے گا اور یہی نہیں بلکہ الیکشن نتائج کے حوالے سے بھی بہت سے امور سپریم کورٹ میں ہی طے ہونے کے امکانات ہیں کچھ لوگ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا تحریک انصاف خاموش ہو کر بیٹھ جائے گی توتحریک انصاف کی جنم پتری میں ایسا کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہوا کہ جس سے اس جماعت سے کسی شانت ماحول کی توقع کی جا سکے لہٰذا وہ اپنی پوری کوشش کرے گی کہ جس حد تک ہو ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے لیکن اب وہ پہلے والی بات نہیں ہو گی ۔ اب نہ تو2014ہے کہ جس میں دھرنوں کے لئے کسی کی آشیر باد ہو اور نہ ہی یہ 2022 اور 2023 ہے کہ جس میں خان صاحب خود بھی موجود تھے اور انھیں سو خون بھی معاف تھے اور ہم خیال ججز کی مدد بھی حاصل تھی اور ادھوری پارلیمنٹ کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ پائوں بھی بندھے ہوئے تھے ۔ دوسرا ہمیں اپنی اس رائے پر اصرار نہیں ہے لیکن جس طرح عدت والے کیس میں سزا کا عوامی سطح پر کوئی اچھا تاثر نہیں گیا تھا اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا بار بار تحریک انصاف سے اتحاد اور دوسری جانب سے مسلسل انکار اور صرف انکار نہیں بلکہ تضحیک آمیز انداز میں انکار اس سے بھی تحریک انصاف کے حوالے سے عوام میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا کہ جو جذبات کی حدت اور شدت دونوں میں اضافہ کا سبب بنے بلکہ اس سے عوام کے بھڑکے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی ۔

کچھ لوگ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں کہ مستحکم حکومت سے جن کے ایجنڈے پر زد پڑتی ہے لیکن امید ہے کہ انھیں منہ کی کھانا پڑے گی ۔ دوسرا مولانا فضل الرحمن کی ناراضی یقینا کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہے انھیں ہر صورت راضی کرنا پڑے گا اور یہ مشکل مرحلہ ہو گا اس لئے انھیں فوری طور پر بلوچستان حکومت کی گارنٹی دینا ہو گی اور اس کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ شاید دونوں تیار نہ ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی دونوں کی نشستیں اگر گیارہ گیارہ ہیں تو نواز لیگ کی بھی دس ہیں جبکہ آزاد بھی ہیں لہٰذا مولانا کی ضد انھیں ان دونوں جماعتوں سے دور لے جا سکتی ہے یا ہو سکتا ہے کہ وہاں پر تمام فریق کسی پاور شیئرنگ فارمولا پر متفق ہو جائیں لیکن مرکز میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اب چونکہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی تو کسی کو بھی احتجاج کی ایک حد تک چھوٹ ہو گی لیکن اس سے زیادہ نہیں توکچھ دن یقینا دھاندلی کا شور رہے گا لیکن پھر حالات شانت ہوتے چلے جائیں گے اور خان صاحب کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اب مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔

آزما کر تو دیکھیں اور اگر ملک نہیں چلے گا تو لوگ اپنی رائے تبدیل کر لیں گے‘ آپ انھیں موقع تو دیں




خواجہ سعد رفیق دو نسلوں سے سیاست دان ہیں' ان کے والد خواجہ محمد رفیق پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور پاکستان اتحاد پارٹی کے سربراہ تھے' یہ 20 دسمبر 1972 کو ائیرمارشل اصغر خان کی کال پر بھٹو حکومت کے خلاف یوم سیاہ کے جلوس کی قیادت کر رہے تھے تو انھیں پنجاب اسمبلی کے نزدیک گولی مار کر شہید کر دیاگیا تھا' خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق اس وقت اسٹوڈنٹ تھے۔
والدہ بیگم فرحت رفیق استاد اور سیاست دان تھیں' انھوں نے دونوں بھائیوں کو بڑی مشکل سے پروان چڑھایا' خواجہ برادران نے 1997 میں ن لیگ سے سیاست کا آغاز کیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کی پہلی صف میں پہنچ گئے' 8 فروری 2024کو خواجہ سعد رفیق نے این اے 122سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور یہ 39 ہزارووٹوں سے ہار گئے' سردار لطیف کھوسہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ان کے مدمقابل تھے' کھوسہ صاحب یہ الیکشن جیت گئے۔

اس الیکشن میں سعد رفیق پہلے سیاست دان تھے جنھوں نے فوری طور پر نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی بلکہ اپنے حریف سردار لطیف کھوسہ کو مبارک باد بھی پیش کی جب کہ باقی 99 فیصد امیدوار ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بھی 70حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کر دیا ہے' ان حالات میں خواجہ سعد رفیق نے شکست تسلیم کر کے اعلیٰ ظرفی اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور آپ اس کا نتیجہ ملاحظہ کر لیں' این اے 122میں کسی قسم کا فساد' لڑائی یا مزاحمت نہیں ہوئی' وہاں کوئی دھرنا چل رہا ہے' کوئی سڑک بند ہے اور نہ عوام کو کوئی تکلیف ہو رہی ہے جب کہ باقی حلقوں میں عوامی زندگی مفلوج ہوتی چلی جا رہی ہے' لاٹھی چارج اورآنسو گیس بھی چل رہی ہے'ہم اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خواجہ سعد رفیق کی اسپرٹ اور اعلیٰ ظرفی اپنانا ہو گی۔
ہمیں اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا' اپنی شکست ماننا ہو گی اور مخالف کو مبارک باد دے کر اس کا حق اسے سونپنا ہو گا اور مخالف کو بھی فتح کے بعد دشمن سے انتقام نہ لینے کا اعلان کرنا ہو گا' یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ یہ الیکشن خدانخواستہ ملک کا آخری الیکشن ثابت ہو گا اور اس بار عالمی طاقتیں پاکستان میں مارشل لاء لگوائیں گی' یہ کھل کر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو امداد اور تعاون دیں گی جس کے بعد ملک سے سیاسی جماعتوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا چناں چہ ہمارے لیے بہتر ہے ہم حالات کی نزاکت سمجھیں اور ہوش کے ناخن لیں۔

میں عمران خان کی طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود سمجھتا ہوں ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مل کر پی ٹی آئی کا راستہ روک کر دیکھ لیا' عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا' اسے سائفر' توشہ خانہ اور عدت میں نکاح کے جرم میں 31 سال قید اور ایک ارب 57کروڑ روپے جرمانہ بھی کر دیاگیا'خان پر 190 ملین پاؤنڈز اور نو مئی کے واقعات کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔

عمران خان کو ان میں بھی سزا ہو جائے گی جس کے بعد ان کی مجموعی سزا 50سال تک پہنچ جائے گی' ان کی پارٹی بھی توڑ دی گئی' لیڈرز جیل میں پھینک دیے گئے یا سیاست سے باہر کر دیے گئے یا پھر دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیے گئے' ان کی تصویر' آواز اور فوٹیج پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
ان سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا اور ان کی انتخابی کمپیئن پر بھی پابندی رہی مگر اس کے باوجود عمران خان نے بھرپور الیکشن لڑا اور عوام نے اسے ووٹ دیے' یہ اس وقت بھی بڑی سیاسی قوت ہے اور اگر اس کا صرف ایک بازو کھول دیا جائے تو یہ کے پی کے ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق میں حکومت بنا لے گا چناں چہ میں تمام تر مخالفت  اور  ناپسندیدگی کے باوجود
سمجھتا ہوں حکومت بنانا اب عمران خان کا حق ہے۔
عوام نے اگر اسے ووٹ دیے ہیں اور عوام اگر اسے حکمران دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اسے موقع ملنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں اور ریاست کو کھلے دل کے ساتھ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیے' ان نتائج کے بعد پی ٹی آئی کو نہ ماننا ملک اور جمہوریت کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی'ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے ملک کی پرانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کا جنازہ بھی نکال دیا تھا۔
آج اگرمیاں نواز شریف اکیلے کھیل کر بھی ہار گئے ہیںتو اس کی وجہ 16 ماہ کی خوف ناک سیاسی غلطیاں ہیں' یہ اگر 2022 میں عمران خان کو نہ ہٹاتے یا نئے الیکشنز کی طرف چلے جاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی لیکن بہرحال جب انسان کی عقل ماؤف ہو جائے تو پھر اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے' میاں صاحب اگر اب بھی مانگے تانگے کی حکومت بنا کر پی ڈی ایم کا تجربہ دہراتے ہیں تو اس بار نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ خوف ناک نکلے گا۔
عمران خان انھیں جیل میں بیٹھ کر چلنے نہیں دے گا' یہ اتحادیوں کو سنبھال سنبھال کر بھی تھک جائیں گے' ملک کا رہا سہا بیڑا بھی غرق ہو جائے گا اور آخر میں ان کی پارٹی بھی زیرو ہو جائے گی' یہ لوگ اس کے بعد بلدیاتی الیکشن بھی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے اگر یقین نہ آئے تو میاں صاحب صرف یہ دیکھ لیں ان کی پارٹی کا ہر وہ شخص جو عمران خان کے خلاف زیادہ بولتا تھا عوام نے اسے الیکشن بوتھ میں زندہ گاڑھ دیا اور جو بچ گئے ہیںاس کی وجہ ووٹرز کے بجائے ''سپورٹرز'' ہیں۔
میاں صاحب کو آراوز نے 20سیٹیں دی ہیں' یہ اگر ان حالات میں حکومت لے لیتے ہیں تو دو سال بعد ان سب کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی چناں چہ میاں صاحب کو چاہیے یہ ضد سے اپنا اور ملک کا مزید نقصان نہ کریں'یہ خواجہ سعد رفیق کی طرح کھلے دل کے ساتھ اپنی ہار مانیں' عمران خان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیں اور اسے حکومت بنانے کا موقع دیں' ملک اور ان کی ذات کی اسی میں فلاح ہے اور اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو پھر دو اڑھائی سال بعد دوبارہ الیکشن کرانے پڑیں گے اور ان میں عمران خان ستر فٹ کا بن کر نکلے گا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔
میں نے آج سے چند دن قبل دوستوفسکی کا ایک قول تحریر کیا تھا ''آپ جس عورت سے محبت کرتے ہیں' اسے بھولنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں ورنہ آپ تمام عمر اس سے محبت کرتے رہیں گے'' عوام نے ان الیکشنز میں عمران خان سے محبت کا اظہار کر دیا ہے' آپ اسے حکومت بنانے دیں تاکہ یہ محبت اپنے مکمل انجام کو پہنچ سکے اگر محبت سچی ہوئی اور عوام کا فیصلہ درست ہوا تو سسٹم اور ملک چل پڑے گا اور ہم 75 برس بعد رائیٹ ٹریک پر آ جائیں گے اور اگر یہ بت بھی مٹی کا تودا نکلا تو قوم کی خارش ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور لوگ اپنا سر پیٹ کرچپ بیٹھ جائیںگے یوں مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
دوسرا ہم اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا اور عوام نے عمران خان کے حق میں ووٹ دے دیا ہے اگر ہم اس کے بعد بھی یہ مینڈیٹ نہیں مانتے تو پھرہم ''جمہوری منافقت'' کا شکار ہیں اور منافقت کسی بھی فیلڈ میں ہو اس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکتالہٰذا ہم خود کو جمہوری ثابت کریں یا پھر جمہوریت کا راگ الاپنا بند کر دیں۔
ہمیں پھر اب جمہوریت کو سلام کر کے کھل کر ایک بار ہی ملک میں مکمل آمریت کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ عوام کی انتخابی خارش بھی ختم ہو جائے اور اربوں روپے بھی بچ جائیں' ہم ہر سال اسمبلیوں اور سینیٹ پر کھربوں روپے ضایع کرتے ہیں' قومی اسمبلی کی ایک منٹ کی کارروائی پر سوا دو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
یہ بھی بچ جائیں گے'کیا یہ تماشا نہیں قوم چار پانچ سال بعد الیکشن پر 100 ارب روپے ضایع کرتی ہے' سیاسی جماعتیں بھی اقتدارمیں آنے کے لیے اربوں روپے خرچ کردیتی ہیں لیکن اس ساری ایکسرسائز کے بعد آخر میں صرف وہ پارٹی حکومت بنا پاتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر مارچ کرتی رہتی ہیں چناں چہ اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ؟ ملک کا امن بھی گیا۔
ریاست پر یقین بھی کم ہوتا چلا گیا' عوام کا دل بھی ٹوٹ گیا' دنیا کو بھی ہماری جمہوریت پر اعتماد نہ رہا' اسٹیبلشمنٹ کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئیں اور قوم کا سرمایہ بھی ضایع ہو گیا' آخر اس نام نہاد جمہوری کھیل کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟ آپ کو اگر اس کھیل پر یقین نہیں ہے تو آپ اسے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟
آپ پانچ دس سال بعد دس بارہ لوگ بیٹھا کریں اور نئے پوپ کا فیصلہ کر لیا کریں' قوم کا وقت اور سرمایہ دونوں بچ جائیں گے اور آپ اگر یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر عوام کی رائے پر اعتماد کریں' لوگوں کا فیصلہ مان لیں' لوگوں کی رائے پر اگر ملک بن سکتا ہے تو یہ چل بھی سکتا ہے۔
آزما کر تو دیکھیں اور اگر ملک نہیں چلے گا تو لوگ اپنی رائے تبدیل کر لیں گے' آپ انھیں موقع تو دیں' دو اڑھائی سال میں کوئی قیامت نہیں آئے گی چناں چہ ہار مانیں' عوام کا مینڈیٹ تسلیم کریں اور عمران خان کو آنے دیں' تیسری مرتبہ مصنوعی حکومت کا ناکام تجربہ نہ کریں' اس کا نتیجہ اس مرتبہ بھی وہی نکلے گا جو 2022میں نکلا تھا کیوں کہ غلطیاں جب بھی حاملہ ہوتی ہیں یہ غلطیاں ہی جنم دیتی ہیں' ان کی کوکھ سے خیر پیدا نہیں ہوتی



That Food is most best in winter.


Winter carries with it a longing for food sources that warm the body as well as solace the spirit. One such culinary joy that impeccably embodies the substance of winter is the humble yet adaptable soup. Soup, in its heap structures, has been a staple across societies for a really long time, offering food and comfort during the colder months.What makes soup especially appropriate for winter is its capacity to be both sustaining and adaptable.

From generous vegetable stocks to velvety bisques and hot stews, the choices are just about as different as the people who appreciate them. Every spoonful offers an ensemble of flavors and surfaces, from the delicate pieces of vegetables to the rich, sweet-smelling stock that warms from within.


In expansion to its encouraging characteristics, soup likewise flaunts functional benefits in winter. Its warm temperature assists with combatting the chill in the air, while its supplement rich fixings give fundamental nutrients and minerals to sustain the body against occasional sicknesses. 

Moreover, the demonstration of planning and getting a charge out of soup can be a common encounter, uniting loved ones to share stories and chuckling around the feasting table.Beyond soup, other winter top choices incorporate good stews, slow-cooked dishes, and stove prepared goulashes. 

These dishes fulfill hunger as well as summon sensations of sentimentality and custom, helping us to remember occasions past and appreciated family recipes.In substance, the best food varieties for winter are those that sustain the body, warm the soul, and unite individuals in festival of the time's abundance. 

If you want to earn money daily $50 click here

Whether it's a steaming bowl of soup on a cold night or a consoling meal imparted to friends and family, winter food sources remain as a cherished memory to us and on our tables.

موسم سرما اپنے ساتھ کھانے کے ذرائع کی خواہش رکھتا ہے جو جسم کو گرما دینے کے ساتھ ساتھ روح کو بھی سکون بخشتا ہے۔  ایسی ہی ایک پاک خوشی جو سردیوں کے مادے کو معصومانہ طور پر ابھارتی ہے وہ ہے شائستہ لیکن موافقت پذیر سوپ۔  سوپ، اس کے ڈھیروں کے ڈھانچے میں، کافی عرصے سے معاشروں میں ایک اہم مقام رہا ہے، جو سرد مہینوں میں کھانا اور آرام فراہم کرتا ہے۔ جو چیز سوپ کو سردیوں کے لیے خاص طور پر موزوں بناتی ہے وہ اس کی پائیدار اور موافقت پذیر ہونے کی صلاحیت ہے۔

  فرحت بخش سبزیوں کے ذخیرے سے لے کر مخملی بسکس اور گرم سٹو تک، انتخاب اتنے ہی مختلف ہیں جتنے لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔  ہر چمچہ سبزیوں کے نازک ٹکڑوں سے لے کر بھرپور، میٹھی خوشبو والے ذخیرے تک ذائقوں اور سطحوں کا ایک مجموعہ پیش کرتا ہے جو اندر سے گرم ہوتا ہے۔ اپنی حوصلہ افزا خصوصیات کی توسیع میں، سوپ بھی سردیوں میں فعال فوائد کا اظہار کرتا ہے۔

  اس کا گرم درجہ حرارت ہوا میں ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے، جب کہ اس کے ضمیمہ سے بھرپور فکسنگ جسم کو کبھی کبھار ہونے والی بیماریوں کے خلاف جسم کو برقرار رکھنے کے لیے 

بنیادی غذائی اجزاء اور معدنیات فراہم کرتی ہے۔ 


 مزید برآں، منصوبہ بندی کا مظاہرہ اور سوپ سے چارج نکالنا ایک عام ملاقات ہو سکتی ہے، پیاروں کو کہانیاں بانٹنے کے لیے متحد کرنا اور کھانے کی میز کے ارد گرد ہنسنا۔  تیار goulashes.  یہ پکوان بھوک کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتیت اور رسم و رواج کے احساس کو بھی سمیٹتے ہیں، ماضی کے موقعوں کو یاد رکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور خاندانی پکوانوں کی تعریف کرتے ہیں۔ 

مادے میں، سردیوں کے لیے کھانے کی بہترین اقسام وہ ہیں جو جسم کو برقرار رکھتی ہیں، روح کو گرماتی ہیں اور تہوار میں افراد کو متحد کرتی ہیں۔  وقت کی کثرت کا۔  چاہے وہ سرد رات میں سوپ کا بھاپ کا پیالہ ہو یا دوستوں اور کنبہ والوں کو دیا جانے والا تسلی بخش کھانا، موسم سرما کے کھانے کے ذرائع ہمارے لیے اور ہماری میزوں پر ایک یادگار کے طور پر رہتے ہیں۔

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II"

 Title: "The Last Ottoman King: Abdul Hamid II"



Summary:

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II" is a charming narrative that digs into the life and reign of perhaps of the most fascinating figure in Ottoman history. Through a mix of recorded film, master interviews, and emotional reenactments, the narrative paints a clear representation of King Abdul Hamid II and his turbulent time.

The narrative starts by investigating Abdul Hamid II's initial life, following his excursion from a youthful sovereign to the leader of the immense Ottoman Realm. Watchers are submerged in the social and political scene of the late nineteenth hundred years, seeing the difficulties and changes confronting the Ottoman Domain during this urgent period.


As Ruler, Abdul Hamid II confronted a progression of overwhelming difficulties, including inside uprisings, outer dangers, and strain from European powers looking to apply impact over the realm. The narrative inspects how Abdul Hamid II explored these intricacies, utilizing both tact and tyrant measures to keep up with Ottoman sway.

Fundamental to the narrative is an investigation of Abdul Hamid II's dubious strategies, including his endeavors to modernize the domain while saving its Islamic character. Watchers gain knowledge into his changes, for example, the development of rail routes and transmit lines, as well as his endeavors to oppose European infringement through skillet Islamic fortitude.

Be that as it may, Abdul Hamid II's rule was additionally set apart by suppression and opposition. The narrative reveals insight into his utilization of mystery police and restriction to stifle contradict, as well as the development of patriot developments trying to oust Ottoman rule.

If you want to earn money daily $40 Click here

All through the narrative, master students of history give important setting and investigation, offering bits of knowledge into Abdul Hamid II's inspirations, methodologies, and heritage. Watchers gain a more profound comprehension of the intricacies of Ottoman history and the getting through effect of Abdul Hamid II's standard on the cutting edge Center East.

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II" is a convincing excursion through a vital part in world history, enlightening the life and tradition of a surprising pioneer whose rule proceeds to captivate and incite discussion right up to the present day.