امریکی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی نئی ویڈیو: ’میں 202 دنوں سے قید ہوں، یہاں صورتحال مشکل ہے اور اردگرد بہت سے بم ہیں‘
SEE FULL VIDEO CLICK HERE
IF YOU WANT TO EARN DAILY 90$ CLICK HERE
SEE FULL VIDEO CLICK HERE
IF YOU WANT TO EARN DAILY 90$ CLICK HERE
امریکی محکمہ خارجہ کے ذیلی ادارے ’بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے، ان کی تقاریر نشر کیے جانے پر پابندی اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس رپورٹ میں دنیا بھر کے تقریباً 200 ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اس رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2023 کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، حکومت اور اس کے نمائندوں کی جانب سے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیاں، صحافیوں کی بلا جواز گرفتاریاں اور گمشدگیاں، سینسرشپ، مجرمانہ ہتکِ عزت کے قوانین، توہینِ مذہب کے قوانین اور انٹرنیٹ پر پابندیوں جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ سنہ 2023 کے دوران پُرامن اجتماع کی آزادی، سیاسی بنیادوں پر قید اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا نہ ہونا بھی ملک کو درپیش اہم انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔
اس رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس مِیں شامل مواد ’نامناسب، غلط معلومات پر مبنی اور مکمل طور پر زمینی حقائق کے منافی ہے۔‘
غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے رپورٹ میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں عدالتی کارروائیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قانون حکومت کو دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں زیر حراست افراد کے کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY 45$ CLICK HERE
امریکی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان الزام لگاتے ہیں کہ اکثر حکام ہائی پروفائل کیسز کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ آیا ان مقدمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 22 رہنماؤں اور کارکنان بشمول سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بہنوں کے خلاف لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے الزام میں مجرم قرار دینے کا عمل شروع کیا گیا۔
ملک میں آن لائن میڈیا سمیت پریس پر پابندیوں سے متعلق صحافیوں کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کو ہدایات جاری کر کے ریاستی اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ سے گریز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
رپورت کے مطابق مارچ 2023 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی لاہور میں تقریر کے بعد ان کے میڈیا میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ انھیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے پیچھے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا۔
رپورٹ میں قطری میڈیا گروپ ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پابندی عائد ہونے کے تقریباً دو گھنٹے بعد پیمرا نے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر اے آر وائی نیوز کا لائسنس معطل کر دیا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگست 2023 میں پیمرا نے پی ٹی آئی کے حامیوں اور ہمدرد سمجھے جانے والے صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
سیاسی جماعتوں پر پابندیوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین بشمول پی ٹی آئی کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔
اس کے بعد، متعدد پی ٹی آئی رہنما پابندِ سلاسل رہے جبکہ حکومت اور فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود بارہا گرفتار کیا گیا اور عمران خان کی جماعت کو متعدد مواقع پر جلسوں کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔
سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ سمجھتے ہیں کہ سفارتی سطح پر اس رپورٹ سے پاکستانی ریاست کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا کوئی خاص امکان نہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نجم الدین شیخ نے کہا کہ ’امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ کا مقصد محض یہ ریکارڈ پر لانا ہے کہ کہاں کن حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تاہم یہ ضرور ہے کہ اس سے تحریکِ انصاف والوں کو ایک اور چیز ملی ہے جس کی بنا پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اب دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔‘
نجم الدین شیخ کے مطابق بین الاقوامی طور پر یہ تاثر ضرور پایا جا تا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات آزادنہ نہیں تھے اور پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی برتی گئی۔ ’یہ آپ کے امیج (تشخص) پر دھبہ ہے اور یہ دھبہ رہے گا۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا باہمی تعلقات پر کس حد تک پڑتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے کون سے پہلو زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ امریکہ اس وقت پاکستان میں استحکام چاہتا ہے۔ ’امریکہ کو اس وقت یوکرین کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کی ضرورت ہے۔‘
’اس کے علاوہ امریکہ اس وقت جنوبی ایشیا میں استحکام دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ انڈیا کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ کسی قسم کی کشیدگی اس پر اثر انداز ہو۔‘
پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کی رپورٹس کے پیچھے ایک ’دوغلاپن‘ نظر آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر غزہ میں 34 ہزار لوگ مر چکے ہیں، ان کے پاس پانی نہیں ہے، خوراک نہیں ہے، گیس اور بجلی نہیں ہے اور وہ وہاں سسک سسک کر مر رہے ہیں۔‘
اعزاز چوہدری کے مطابق غزہ میں ’مرنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔‘
’وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنا چاہیے لیکن وہاں ہمیں دوغلاپن نظر آتا ہے۔‘
یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان طویل عرصے تک امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ بعد ازاں، وہ اپنے مؤقف میں تبدیلی لے آئے جبکہ ان کی جماعت بھی امریکہ میں اپنے قائد اور کارکنان کی رہائی کے لیے لابنگ کرتی آئی ہے۔
Please Subscribe My Chennal Click Here
تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ پی ٹی آئی کی مؤثر لابنگ اور دباؤ کا نتیجہ تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون ڈونلڈ لو کو کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سامنے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا پڑا تھا۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے بطور وزیر اعظم روس کے دورے کے بعد امریکہ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اںھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
فروری 2024 میں پاکستات میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد امریکی کانگریس کے 31 ارکان نے صدر جو بائیڈن اور وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن کے نام ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نئی پاکستانی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات نہ کی جائیں۔
خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ ایسے تمام افراد کو رہا کیا جائے جنھیں سیاسی تقاریر کرنے یا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر حراست میں لیا گیا ہو۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ’سیاسی تعصب‘ پر مبنی ہے۔
دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک باعثِ تشویش بات ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ میں غزہ اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
’صرف سیاسی مقاصد کے لیے بنائی گئی رپورٹ ہی غزہ کی تشویشناک صورتحال اور 33 ہزار افراد کے قتلِ عام کو کو نظر انداز کر سکتی ہے۔‘
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ غزہ میں قتلِ عام پر امریکی خاموشی انسانی حقوق پر بنائی گئی رپورٹ کے مقاصد کو جھٹلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے اپنا نظام بہتر کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ چین ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو عمل میں لا کر اسے اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی سے باز رکھ سکتا ہے۔
چین کے دورے کے دوران امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا ہے کہ ان کے خیال میں بیجنگ مشرق وسطیٰ میں ایک ’تعمیری‘ کردار ادا کر سکتا ہے۔
بیجنگ میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ نے کہا کہ انھوں نے اپنے چینی ہم منصب پر یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ (چین) سرد جنگ کے زمانے سے یورپ کی سکیورٹی کو مزید سنگین خطرے سے دوچار رکھنے کے لیے مدد فراہم کر رہے ہیں۔
IF YOU WANT EARN DAILY 45$ CLICK HERE
انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ امریکہ کس قسم کے اقدامات اٹھانے کی تیاری کر رہا ہے۔ تاہم انتھونی بلنکن نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کچھ شعبوں میں اس حوالے سے پیش رفت کی گئی ہے۔ انھوں نے بیجنگ کی جانب سے امریکہ تک پہنچنے والی نشہ آور دوا 'فینٹینیل' کی سپلائی روکنے میں کوششوں کی تعریف کی۔
چین امریکہ کے لیے فینٹینیل فراہم کرنے والا بنیادی ذریعہ ہے، وائٹ ہاؤس نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس سے ملک بھر میں صحت عامہ کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ دس ماہ میں انتھونی بلنکن کا یہ دوسرا دورہ چین ان دونوں حریف طاقتوں کے درمیان بات چیت اور سفارت کاری میں نمایاں اضافے کا حصہ ہے، دونوں ممالک گذشتہ سال شدید تناؤ کے بعد تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تعلقات، تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین پر چین کے دعوؤں اور جدید ٹیکنالوجی کے حوالے سے امریکی برآمدات پر پابندی کے باعث تناؤ کا شکار ہیں۔ انھیں گذشتہ فروری میں جاسوسی غبارے پر پیدا ہونے والے تنازع سے مزید نقصان پہنچا تھا۔
امریکہ نے حال ہی میں ایک قانون پاس کیا جس کے تحت چینی ملکیت والی کمپنی ٹک ٹاک کو مقبول ویڈیو ایپ فروخت کرنے پر مجبور کیا جائے گا ورنہ امریکہ میں اس پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ تاہم انتھونی بلنکن کی چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات میں یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔
VISIT MORE EARNING SITE COURSE CLICK HERE
شی جن پنگ، جنھوں نے جمعے کی سہ پہر بیجنگ کے 'گریٹ ہال آف دی پیپل' میں انتھونی بلنکن سے ملاقات کی، اس بات سے اتفاق کیا کہ نومبر میں اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے ملاقات کے بعد سے دونوں فریقوں نے 'کچھ مثبت پیش رفت' حاصل کی ہے۔
نھوں نے مزید کہا کہ ممالک کو ’شراکت دار ہونا چاہیے، حریف نہیں۔ ان کے مطابق اگر امریکہ نے ’چین کی ترقی کے بارے میں مثبت نظریہ اختیار کیا‘ تو تعلقات ’حقیقت میں مستحکم، بہتر اور آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘
انتھونی بلنکن نے بی بی سی کو بتایا کہ چین اور امریکہ و یورپ کے درمیان ’بہتر تعلقات‘ کے لیے ایک اہم طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ بیجنگ ’یا اس کی کچھ کمپنیاں‘ روس کو ان ’اہم اشیا‘ کی فراہمی بند کر دیں جو اسے مزید ہتھیار بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ ان اشیا میں ’مشین ٹولز، مائیکرو الیکٹرانکس اور آپٹکس‘ جیسی اشیا شامل ہیں۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ سرد جنگ کے بعد سے (یورپ کے) عدم تحفظ کے لیے سب سے بڑے خطرے کو ہوا دینے میں مدد کر رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم نے پہلے ہی اس میں ملوث چینی اداروں کے خلاف کارروائی کی ہے اور میں آج واضح کرتا ہوں کہ اگر چین کارروائی نہیں کرتا ہے تو ہم کریں گے۔‘
بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں انتھونی بلنکن نے کہا کہ یہ دیکھنا ہو گا کہ آیا دونوں ممالک مصنوعی ذہانت اور فوجی مواصلات سمیت ’ان شعبوں میں جہاں ہماری باہمی دلچسپی ہے، زیادہ تعاون قائم کر سکتے ہیں۔‘
ایک ماں اپنے لاپتہ بچے کو تلاش کرنے کہیں بھی جائے گی اور جب تک اس کے جسم میں جان ہے، وہ نہیں رکے گی۔ اس کا بچہ زندہ ہے یا نہیں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
چار دن تک کریمہ الراس خان یونس کے النصر ہسپتال میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں میں تمام تر بدبو، مٹی اور آس پاس کے شور کے باوجود اپنے 21 سالہ بیٹے کو تلاش کرتی رہیں۔
احمد 25 جنوری کو خان یونس میں ہلاک ہو گیا تھا لیکن اس کی لاش اس وقت سے ہی لاپتہ تھی۔ اور پھر منگل کے دن کریمہ کو اپنا بیٹا مل گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ 'میں یہاں اس وقت تک آتی رہی جب تک مجھے اپنا احمد مل نہیں گیا۔ اس نے 12 سال کی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا تھا اور میں نے ہی اسے پالا۔'
قریب ہی دیگر خاندان بھی قبروں کے کونوں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ دنیا کے جنگ زدہ علاقوں میں ایسے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
ایک جانب بلڈوزر قبروں میں موجود لاشوں کو نکالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ زمین کے نیچے سے ایک بازو دکھائی دے رہا ہے۔ چند افراد نکلنے والی لاشوں کو دفنانے کے لیے نئے مقام کی شناخت کر رہے ہیں۔ اور لاپتہ افراد کے خاندان والے اس امید میں کھڑے ہیں کہ ان کے پیارے بھی یہیں کہیں ہوں گے۔
تاہم یہ تمام مناظر ایک جیسی وضاحت پیش نہیں کرتے۔ ہر اجتماعی قبر - چاہے وہ وسطی افریقہ میں ہو، مشرق وسطی میں یا کہیں اور - مقامی حالات کا نتیجہ ہوتی ہے۔
ایک ایسی جنگ میں، جو اب تک زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر 34 ہزار افراد کی جانیں لے چکی ہے، مرنے والوں کی تدفین ایک پیچیدہ اور اکثر خطرناک عمل بن جاتا ہے۔
چند قبرستان مکمل طور پر بھر چکے ہیں۔ جنگ کی وجہ سے چند تک رسائی ممکن نہیں۔ اور اسی دباؤ کی وجہ سے کئی لاشوں کو ایسے ہسپتالوں کی زمین میں دفنایا گیا جہاں اسرائیلی فوج کے مطابق وہ حماس سے لڑ چکی ہے۔
میں نے جن جنگوں کے دوران رپورٹنگ کی وہاں اکثر یہ بتانا ممکن تھا کہ مرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماہرین جائے وقوعہ پر جلد پہنچ جاتے ہیں اور صحافیوں کو بھی رسائی حاصل ہوتی ہے۔
غزہ کی پٹی کے موجودہ حالات میں جہاں اسرائیل اور مصر دونوں نے ہی بین الاقوامی صحافیوں کو اجازت دینے سے انکار کر رکھا ہے اور لڑائی کی وجہ سے ماہرین کے لیے کسی جگہ پہنچنا خطرے سے خالی نہیں، فوری طور پر یہ طے کرنا بہت بڑا چیلنج ہے کہ خان یونس کے النصر ہسپتال اور غزہ شہر کے الشفا ہسپتال میں موجود اجتماعی قبروں سے نکلنے والی لاشوں کی ہلاکت کی وجہ کیا تھی۔
کیا چند کو اسرائیلی فوجیوں نے مارا جیسا کہ حماس اور مقامی ریسکیو اہلکار دعوی کر رہے ہیں؟ یا پھر ان قبروں میں موجود سینکڑوں لاشیں فضائی حملوں اور اسی علاقے میں ہونے والی لڑائی کا نشانہ بنی تھیں؟ کیا اسرائیلیوں نے لاشوں کو ایک قبر سے نکال کر نئی قبر میں دفنایا؟
فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق آفس کے ڈائریکٹر اجیت سنگھے نے مجھے بتایا کہ ان قبروں کی آزادانہ فرانزک تفتیش ضروری ہے۔ منگل کے دن اقوام متحدہ کے ایک اور اہلکار کے مطابق چند ایسی لاشیں بھی ملیں جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔
اس سے قبل فلسطینی سول ڈیفینس کے ایک اہلکار کا بیان سامنے آیا تھا کہ 'کئی لاشوں کے ہاتھ بندھے ہوئے جبکہ چند کو سر میں گولی ماری گئی اور چند نے قیدیوں جیسے یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔'
ریم زیدان دو ہفتوں سے اپنے بیٹے نبیل کی لاش کی تلاش میں تھیں جو بدھ کی دوپہر کو ملی۔
ریم بتاتی ہیں کہ انھوں نے لاشوں پر تشدد کے نشانات دیکھے جن کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ 'ان کو قتل کیا گیا، چند کے ہاتھ اور پاؤں اکھٹے باندھے ہوئے تھے۔ یہ کب تک ایسے ہی چلے گا؟'
میں نے اجیت سنگھے سے سوال کیا کہ کیا ان کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ چند لاشوں کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے؟
انھوں نے جواب دیا کہ 'ہمارے پاس شواہد نہیں، معلومات ہیں اور ان معلومات کی مختلف ذرائع سے تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اسی لیے ہم ایک بین الاقوامی آزادانہ تفتیش چاہتے ہیں۔'
انھوں نے کہا کہ 'موجودہ ماحول میں جہاں ہم نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتے دیکھی ہیں جن میں سے اکثر جنگی جرائم کے ضمرے میں آتی ہیں، ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ صرف ایک چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے۔ ان خلاف ورزیوں کی شدت بہت بڑی ہے۔'
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ فلسطینی شہریوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیے جانے کی خبریں بے بنیاد ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ دعوی بھی کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اسی ہسپتال میں یرغمالیوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا تھا جس کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے دفنائی جانے والی لاشوں کا معائنہ کیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ ’ان لاشوں کا جائزہ محتاط طریقے سے صرف ان مقامات پر کیا گیا جہاں انٹیلیجنس نے یرغمالیوں کی ممکنہ موجودگی کی نشاندہی کی اور مردہ افراد کی عزت کو مدنظر رکھتے ہوئے لاشوں کا جائزہ لیا گیا جس کے بعد وہ لاشیں جو اسرائیلی یرغمالیوں کی نہیں تھیں، انھیں ان کے مقام پر لوٹا دیا گیا۔‘
اسرائیلی فوج کے مطابق ہسپتال پر چھاپے کے دوران 200 شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا جبکہ ایمونیشن اور اسرائیلی یرغمالیوں کے لیے مختص غیر استعمال شدہ ادویات بھی برآمد کی گئیں۔
سمیا کو بھی اپنے شوہر کی لاش اسی ہسپتال سے ملی اور وہ انھیں ایک قبرستان میں باقی خاندان کے ساتھ دفنانے میں کامیاب ہوئیں۔
تازہ کھودی ہوئی قبر کے قریب اور اپنی بیٹی ہند کے ساتھ بیٹھی تھیں جب انھوں نے مجھے بتایا کہ ’میری بیٹی نے باپ کی قبر پر آنے کا کہا اور میں اسے کہتی تھی کہ جیسے ہی ہم ان کو دفنا دیں گے تو ہم جائیں گے۔ شکر ہے خدا کا، حالات مشکل ہیں لیکن شاید ان کو دفنانے کے بعد ہمیں کچھ آرام مل جائے۔‘
If you want to earn daily 95$ Click here
ہند کی عمر پانچ سال ہے۔ ان کو یاد ہے کہ ان کے والد ان سے بہت محبت کرتے تھے۔ ’وہ میرے لیے چیزیں لایا کرتے تھے اور مجھے باہر گھمانے لے جاتے تھے۔‘