ایران کا اسرائیل پر حملہ Iran's attack on Israel

 

ایران نے اپنے سابقہ اتحادی اسرائیل پر حملہ کیوں کیا؟






اس سے پہلے ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ کئی سال تک ایک ’شیڈو وار‘ میں آمنے سامنے رہے جس میں وہ ایک دوسرے کے اثاثوں پر حملے کرتے رہے ہیں لیکن اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے۔

ان حملوں کی تعداد میں غزہ میں حالیہ جنگ کے دوران تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔

اس کے علاوہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کوشاں ہے لیکن ایران اس الزام کی تردید کرتا رہا ہے۔



اسرائیل کا الزام ہے کہ پاسدارانِ انقلاب شام کے راستے حزب اللہ کو ہتھیاروں اور ساز و سامان فراہم کرتے ہیں، جن میں میزائل بھی شامل ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ ان ترسیلات کو روکنے کے ساتھ ساتھ شام میں ایران کی فوجی پوزیشن کو مضبوط کرنے سے روکنے کی کوششیں کر رہا ہے۔



اسرائیل پر یہ حملہ غزہ میں جنگ چھڑنے کا سبب بنا جس سے ایران، اس کی پراکسیز اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی اتحادیوں کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی تاہم ایران سات اکتوبر کو ہونے والے حملے میں اپنے کسی بھی کردار سے انکار کرتا ہے۔

اسرائیل کو دشمن کے علاقے میں گہرائی تک حملے کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہے۔



تاہم جب سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور ایران پر پابندیوں کو بحال کیا تو اس کے بعد سے یہ معاہدہ تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔ اسرائیل نے جوہری معاہدے کی مخالفت کی تھی۔


امریکی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی نئی ویڈیو:

 

امریکی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی نئی ویڈیو: ’میں 202 دنوں سے قید ہوں، یہاں صورتحال مشکل ہے اور اردگرد بہت سے بم ہیں‘



اس ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ ان دونوں کی واپسی کے لیے کوششیں کرتے رہیں گے۔

سنیچر کے روز اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ باقی یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدے طے پا جانے کی صورت میں رفح میں اسرائیل کا زمینی حملے رک سکتا ہے۔

کیتھ کی دوسری بیٹی شر نے کہا: ’اگر آپ نے ویڈیو دیکھی ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ میرے والد جانتے ہیں کہ ہم سب ہر ہفتے ریلیوں میں جاتے ہیں اور ان سمیت تمام قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششیں رہے ہیں۔‘

IF YOU WANT TO EARN DAILY 90$  CLICK HERE   

’تمام اسرائیلی شہری اور دنیا بھر کے لوگ ناصرف خونریزی بلکہ ہم سب کے مصائب کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

Celtics' defense answers call in blowout of Heat in Game 3

 

Celtics' defense answers call in blowout of Heat in Game-THREE






Could Boston, after the head-scratching misfortune, bounce back and again look like the club that won the East by 14 games in the standard season? Or on the other hand had mentor Erik Spoelstra and his sketchy gathering found an equation it could rehash to play spoiler in the series briefly straight postseason?

The response, unequivocally, was the previous.


Game 4 is Monday in Miami.

If you want to earn daily 80$    CLICK HERE


Boston stars Jayson Tatum and Jaylen Brown said mentor Joe Mazzulla provoked them to play with more guarded force in the wake of watching Miami go off from somewhere down in Game 2.


"Might we at any point get going each game, basically, punching first as opposed to responding? That is a test we must be up for each and every evening."

The Celtics' reaction to Mazzulla's test was moment. Watch Jrue Occasion and his colleagues secured right on time against the Intensity's offense, giving up only three focuses through the initial 6 minutes, 46 seconds of play. Boston surrendered only 12 focuses on 5-for-21 shooting in the main quarter, which Mazzulla called "a physical, extreme ... rock battle."
Boston was glad to make such circumstances protectively by pushing up additional on that side of the ball. Brown, who got done with a game-high 23 focuses, said the Celtics came in with a small bunch of rules after Miami's exceptional appearing in Game 2.


The outcome: Miami completed 9-of-28 from 3-point range, a drastic contrast from the 23-of-43 execution three days sooner. Heat playmaker Tyler Herro - - who had one of the best rounds of his vocation in Game 2, with 24 places and 14 helps - - looked annoyed the entire evening, shooting only 5-of-16 for 15 places and four turnovers. He shot 0-for-5 on challenged looks, as indicated by ESPN Details and Data information.
The Intensity's 84 focuses were their least in a game the entire season (counting end of the season games).


Boston transformed its intensified protection into offense over and again Saturday, scoring 24 focuses off Miami's turnovers. The Intensity, conversely, scored only four focuses off the Celtics' miscues.
In the event that the Celtics keep on putting their foot on the pedal the manner in which they did in Game 3, Miami - - which took out Boston as the dark horse in last year's meeting finals - - could find it hard to mount a test this time. Star wing Jimmy Steward stays out with a MCL sprain while monitor Terry Rozier is sidelined with neck fits. It leaves the Intensity, who previously battled to score on occasion, with less hostile creation against one of the association's best safeguarding units.

عمران خان اور تحریکِ انصاف , امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ ' پاکستان کے لیے مشکلات

 

عمران خان اور تحریکِ انصاف کے بارے میں امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں کیا کہا گیا اور کیا یہ پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے؟




سابق وزیرِ اعظم عمران خان طویل عرصے تک امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے

امریکی محکمہ خارجہ کے ذیلی ادارے ’بیورو آف ڈیموکریسی، ہیومن رائٹس اینڈ لیبر‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت کو سیاسی بنیادوں پر نشانہ بنائے جانے، ان کی تقاریر نشر کیے جانے پر پابندی اور آزادانہ طور پر انتخابات میں حصہ لینے میں مشکلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس رپورٹ میں دنیا بھر کے تقریباً 200 ملکوں میں انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔

اس رپورٹ میں پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2023 کے دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں، تشدد، حکومت اور اس کے نمائندوں کی جانب سے لوگوں کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک، آزادی اظہار اور میڈیا کی آزادی پر سنگین پابندیاں، صحافیوں کی بلا جواز گرفتاریاں اور گمشدگیاں، سینسرشپ، مجرمانہ ہتکِ عزت کے قوانین، توہینِ مذہب کے قوانین اور انٹرنیٹ پر پابندیوں جیسے سنگین مسائل موجود ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کے علاوہ سنہ 2023 کے دوران پُرامن اجتماع کی آزادی، سیاسی بنیادوں پر قید اور منصفانہ عدالتی کارروائی کا نہ ہونا بھی ملک کو درپیش اہم انسانی حقوق کے مسائل میں شامل ہیں۔

اس رپورٹ پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ اس مِیں شامل مواد ’نامناسب، غلط معلومات پر مبنی اور مکمل طور پر زمینی حقائق کے منافی ہے۔‘



امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ عمران خان کے بارے میں کیا کہتی ہے؟

غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے رپورٹ میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کے خلاف بنائے گئے کیسز کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں عدالتی کارروائیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قانون حکومت کو دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ تشدد کے الزام میں زیر حراست افراد کے کیسز انسداد دہشت گردی کی عدالتوں (اے ٹی سی) میں چلانے کی اجازت دیتا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY 45$   CLICK HERE

امریکی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنان الزام لگاتے ہیں کہ اکثر حکام ہائی پروفائل کیسز کو تیزی سے نمٹانے کی غرض سے انسدادِ دہشتگردی کی عدالتوں میں چلانے کی کوشش کرتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ آیا ان مقدمات کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں۔

رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کی جانب سے پاکستان تحریکِ انصاف کے 22 رہنماؤں اور کارکنان بشمول سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی بہنوں کے خلاف لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کے الزام میں مجرم قرار دینے کا عمل شروع کیا گیا۔

ملک میں آن لائن میڈیا سمیت پریس پر پابندیوں سے متعلق صحافیوں کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ٹیلی ویژن چینلز اور دیگر ذرائع ابلاغ کے اداروں کو ہدایات جاری کر کے ریاستی اداروں پر تنقیدی رپورٹنگ سے گریز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

رپورت کے مطابق مارچ 2023 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی لاہور میں تقریر کے بعد ان کے میڈیا میں کوریج پر پابندی لگا دی گئی۔ اپنی تقریر میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ انھیں اقتدار سے ہٹائے جانے کے پیچھے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ہاتھ تھا۔

رپورٹ میں قطری میڈیا گروپ ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ پابندی عائد ہونے کے تقریباً دو گھنٹے بعد پیمرا نے عمران خان کی تقریر نشر کرنے پر اے آر وائی نیوز کا لائسنس معطل کر دیا۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگست 2023 میں پیمرا نے پی ٹی آئی کے حامیوں اور ہمدرد سمجھے جانے والے صحافیوں کے ٹی وی پر آنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔

سیاسی جماعتوں پر پابندیوں سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد حکومت نے کریک ڈاؤن کا آغاز کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین بشمول پی ٹی آئی کارکنان اور صحافیوں کو گرفتار کیا۔

اس کے بعد، متعدد پی ٹی آئی رہنما پابندِ سلاسل رہے جبکہ حکومت اور فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق کئی پی ٹی آئی رہنماؤں کو عدالتوں سے ضمانت ملنے کے باوجود بارہا گرفتار کیا گیا اور عمران خان کی جماعت کو متعدد مواقع پر جلسوں کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

’رپورٹ سے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا خاص امکان نہیں‘

سابق سیکریٹری خارجہ نجم الدین شیخ سمجھتے ہیں کہ سفارتی سطح پر اس رپورٹ سے پاکستانی ریاست کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا کوئی خاص امکان نہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نجم الدین شیخ نے کہا کہ ’امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ کا مقصد محض یہ ریکارڈ پر لانا ہے کہ کہاں کن حقوق کی پامالیاں ہو رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تاہم یہ ضرور ہے کہ اس سے تحریکِ انصاف والوں کو ایک اور چیز ملی ہے جس کی بنا پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے خلاف اب دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔‘

نجم الدین شیخ کے مطابق بین الاقوامی طور پر یہ تاثر ضرور پایا جا تا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات آزادنہ نہیں تھے اور پی ٹی آئی کے ساتھ مبینہ طور پر زیادتی برتی گئی۔ ’یہ آپ کے امیج (تشخص) پر دھبہ ہے اور یہ دھبہ رہے گا۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کا باہمی تعلقات پر کس حد تک پڑتا ہے، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے کون سے پہلو زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

نجم الدین شیخ کہتے ہیں کہ امریکہ اس وقت پاکستان میں استحکام چاہتا ہے۔ ’امریکہ کو اس وقت یوکرین کے معاملے میں پاکستان کی حمایت کی ضرورت ہے۔‘

’اس کے علاوہ امریکہ اس وقت جنوبی ایشیا میں استحکام دیکھنا چاہتا ہے کیونکہ وہ انڈیا کو چین کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ کسی قسم کی کشیدگی اس پر اثر انداز ہو۔‘

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ انھیں اس طرح کی رپورٹس کے پیچھے ایک ’دوغلاپن‘ نظر آتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مثال کے طور پر غزہ میں 34 ہزار لوگ مر چکے ہیں، ان کے پاس پانی نہیں ہے، خوراک نہیں ہے، گیس اور بجلی نہیں ہے اور وہ وہاں سسک سسک کر مر رہے ہیں۔‘

اعزاز چوہدری کے مطابق غزہ میں ’مرنے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔‘

’وہاں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنا چاہیے لیکن وہاں ہمیں دوغلاپن نظر آتا ہے۔‘

یاد رہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان طویل عرصے تک امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ بعد ازاں، وہ اپنے مؤقف میں تبدیلی لے آئے جبکہ ان کی جماعت بھی امریکہ میں اپنے قائد اور کارکنان کی رہائی کے لیے لابنگ کرتی آئی ہے۔

Please Subscribe My Chennal       Click Here

تجزیہ کاروں کی رائے میں یہ پی ٹی آئی کی مؤثر لابنگ اور دباؤ کا نتیجہ تھا کہ امریکی وزیرِ خارجہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون ڈونلڈ لو کو کانگریس کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سامنے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنا پڑا تھا۔

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے بطور وزیر اعظم روس کے دورے کے بعد امریکہ نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے اںھیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

فروری 2024 میں پاکستات میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد امریکی کانگریس کے 31 ارکان نے صدر جو بائیڈن اور وزیرِ خارجہ انتھونی بلنکن کے نام ایک خط لکھا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ نئی پاکستانی حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کریں جب تک انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات نہ کی جائیں۔

خط میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستانی حکام پر زور دیا جائے کہ ایسے تمام افراد کو رہا کیا جائے جنھیں سیاسی تقاریر کرنے یا سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر حراست میں لیا گیا ہو۔



پاکستان نے رپورٹ کو مسترد کردیا

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رپورٹ ’سیاسی تعصب‘ پر مبنی ہے۔

دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کے لیے یہ ایک باعثِ تشویش بات ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے جاری ہونے والی رپورٹ میں غزہ اور انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی ’انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ کو نظرانداز کیا گیا ہے۔

’صرف سیاسی مقاصد کے لیے بنائی گئی رپورٹ ہی غزہ کی تشویشناک صورتحال اور 33 ہزار افراد کے قتلِ عام کو کو نظر انداز کر سکتی ہے۔‘

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ غزہ میں قتلِ عام پر امریکی خاموشی انسانی حقوق پر بنائی گئی رپورٹ کے مقاصد کو جھٹلاتی ہوئی نظر آتی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان انسانی حقوق کی حفاظت کرنے کے لیے اپنا نظام بہتر کرنے کے لیے پُرعزم ہے۔