بنام چیف جسٹس آف پاکستان

 


 ۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان اگلے روز اخبار میں آپ کے ریمارکس اور بیان پڑھا کہ "مقدمات کو طوالت دینا وتیرہ، عدالتی نظام تباہ"


یہ حقیقت ہے لیکن جناب چیف جسٹس صاحب آپ کی خدمت میں آرمینیا کے ایک دانشور کی شاعری، جو عربی میں ہے، کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔


٭ واعظ نصیحت کر رہا تھا مگر بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا۔


٭ گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا تھا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں۔


جناب جسٹس صاحب، میں نے 21 سال کی عمر میں وکالت شروع کر دی تھی، درمیان میں امریکہ چلا گیا۔ واپس آیا تو 1989 میں ہائی کورٹ کا وکیل بن گیا۔ جس پر مجھے محکمہ نے کسٹم کے پینل برائے کورٹ میں لے لیا۔2008 سے کالم نگار بھی ہوں۔


ایک نجی کمپنی جو موٹرسائیکل کا سامان درآمد کر کے موٹرسائیکل بناتی ہے۔ اس کی 6 اپیلوں میں محکمہ نے مجھے اپنے پینل پر لیا۔


جناب چیف جسٹس صاحب اس کے بعد اپیل کنندہ کی طرف سے کوشش کر کے تین سے زائد سپیشل بینچ بنائے گئے جن میں جبار قریشی ممبر جوڈیشل اور شیخ امتیاز ممبر ٹیکنیکل دونوں کراچی سے لاہور آئے۔ اس دوران ایک Indistinguishable Allure نمبر 599/18 جو دوسری کمپنی کی ہے وہ بینچ ون لاہور سے مسترد ہو چکی تھی اور یاد رہے کہ متذکرہ بالا 6 اپیلوں کی اپیل کنندہ کمپنی دو کروڑ کے قریب ریکوری سادہ آبزرویشن پر جمع کرا چکی ہے بہرحال میں نے بنچ کو اس قدر مطمئن کیا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد واپس بھیج دیا گیا۔ وجہ معلوم نہیں، سنا ہے 50 لاکھ سے زائد وولٹیج مہیا کرنے کے باوجود وہ چمک پیدا نہ ہو سکی جو سچائی کو جھٹلاتی، پھر ایک اور بنچ بنا دیا گیا جس میں امتیاز شیخ اور جناب حافظ انصار ممبر جوڈیشل بنچ تھے فیصلہ محفوظ ہوا مگر نہ سنایا گیا کہ حافظ صاحب نے گند میں ہاتھ رنگنے سے معذرت کر لی۔


جناب چیف صاحب اس میں ایک دو اور بنچ بھی بنے۔ مگر اب کی بار چیئرمین نے تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ لاہور میں بنچ ون اور ٹو دونوں کام کر رہے ہیں ایک بنچ سے شریف اور پڑھا لکھا مہذب ممبر

ٹیکنیکل لے لیا جناب احمد رضا خان دوسرے بنچ ون سے ممبر جوڈیشل جس کی "شہرت" کے چرچے چار سُو ہیں۔ اور یوں ایک سپیشل بنچ بنا دیا گیا۔ جس پر PCA کے ڈائریکٹر لاہور نے بذریعہ کونسل چیئرمین کو درخواست دی کہ اس مقدمہ کو آدھی درجن سے زیادہ لوگ سن اور انکار کر چکے ہیں اس کے لیے 3 یا 5 رکنی فل بنچ بنا دیں۔ اُس پر تحریری یا زبانی فیصلہ نہیں آیا تھا کہ ممبر جوڈیشل ڈاکٹر نوید الحق نے ڈے ٹو ڈے حتیٰ کہ اپنے چیمبر میں سماعت شروع کر دی۔ محکمہ کے وکیل نے اس کو چیمبر میں اپیل کنندہ کے وکیل کی موجودگی میں دونوں درخواستیں دیں کہ جناب ان کا فیصلہ آنا ہے دیکھیں چیئرمین صاحب کیا فیصلہ کرتے ہیں۔


مگر اس نے ایک روز پہلے بھی یکطرفہ کارروائی شروع کر دی اور اُس روز مورخہ 5 تاریخ کو بھی پھر 7 نومبر کو سماعت رکھ لی۔ محکمہ کے دونوں وکلا کو ڈائریکٹر پی سی اے تیمور کمال ملک نے دفتر بلایا اور بنچ بنانے کی درخواست پر زور دینے کو کہا اور پھر کہا کہ اگر ممبر جوڈیشل نہ مانے تو اس بنچ کو مقدمہ نہیں سناناجب تک چیئرمین صاحب کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے۔ اس دوران سما ٹی وی چیئرمین کو دی گئی درخوست، نوید الحق پر عدم اعتماد کی خبریں چلاتا رہا۔ بہرحال 7 نومبر کو پھر سماعت شروع ہو گئی ممبر جوڈیشل نوید الحق جس کے لیے عام ہے کہ قومی خزانہ کا مقدمہ قلم نہیں کرپان سے کرتا ہے۔وہ ایک دن نہیں ایک لمحے میں مقدمہ اپیل منظور کر کے سننا چاہتا تھا۔ محکمہ کے وکیل سے کہنے لگا کہ آپ سما ٹی وی پر خبریں چلاتے ہیں؟ اس نے کہا کہ سر اُن کی ذمہ داری ہے، بیٹ ہوتی ہے اور کام رپورٹنگ ہے۔ پھر نوید الحق کہنے لگا کہ آپ ہائی کورٹ ریفرنس میں چلے جائیے گا۔ بٹ صاحب آپ کو تو جنجوعہ صاحب نے سپر سیڈ کیا ہے، اس پر جنجوعہ صاحب نے کہا کہ یہ میرے سینئر ہیں اور میں ان کو اسسٹ کرتا ہوں،آپ اس طرح ان کی تضحیک نہ کریں۔ عبدالقدیر جنجوعہ نے سپریم کورٹ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حوالہ دیا تو انوار الحق کہنے لگا کہ یہاں پر سپریم کورٹ کی باتیں نہ کریں۔ دل کی کہوں تو میں سوچ رہا تھا کہ کس گناہ کی سزا میں مجھے اس شخص کے سامنے قومی خزانہ بچانے کے لیے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو مقدمہ پڑھتا نہیں تولتا ہے۔


ممبرز عدالت بند کر کے چیمبرز میں جا چکے تھے۔ اگلے روز مجھے علم ہوا کہ سینے پر ہاتھ مار کر کہنے والے ڈائریکٹر صاحب 15 کے بجائے 14 منٹ میں پہنچے اور نہ جانے کیا ہوا کہ معافی منت کے ساتھ ساتھ ہم دو وکلا کو جن میں سے مجھے تو دو ڈھائی سال کئی بنچوں کے سامنے پیش ہونا پڑا، کئی بار ممبران کے ارمانوں پر اوس پڑی اور مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوا۔ ڈائریکٹر صاحب نے ایک سیکنڈ میں دونوں وکلا کو خوف و ہراس میں واپس لے لیا اور ایک نئے وکیل صاحب کو مقرر کیا۔ میں نے کہا کہ عدالت کی دنیا میں ایسا واقعہ نہیں ہوا چلیں یہ تو اعزاز ہے کہ جب تک میں وکیل رہا مقدمہ کا فیصلہ محکمہ کے خلاف نہ آ سکا۔ سنا کرتے تھے گن پوائنٹ پر فلاں کام ہو گیا، گردن پر گوڈا رکھ کر (گھٹنا رکھ کر) بازو مروڑ کر کام کرا لیا مگر عدالتی یا ٹربیونل کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ ممبر جوڈیشل نے قلم کے زور پر ڈائریکٹر سے دونوں وکلا کو Supplant کیا اور یوں تیسرا وکیل اپنی مرضی کا مقرر کرا لیا۔


تاریخ ساز چیف جسٹس فائز عیسیٰ واعظ کر رہے تھے مگر ماتحت عدلیہ اور کسٹم ٹربیونلز کے بعض ممبران کا دھیان تر نوالہ قسم کے مقدمات کی طرف ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غم ہے ان مقدمات کا جو بے انصافی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان ممبران کو پچھتاوا ہے ان مقدمات کا جن سے یہ چمک حاصل نہ کر سکے۔ دراصل یہ جو بنچ بنتے اور فیصلے نہ کرتے رہے وقت کے اس زیاں کا کون ذمہ دار ہو گا۔ مجھے کچھ ذاتی مفاد نہ ہے سوائے قومی خزانے کو لٹتے دیکھ میری روح چیخ اٹھتی ہے۔ اس خزانے کو بچانے کے لیے میں ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں۔ 2007 کی اپیلیں التوا میں ہیں اور 2019 والی کے لیے خصوصی اور غیر فطری بنچ بن گئے مگر فیصلہ پھر بھی نہیں ہوا۔ بنچ کے دو ممبران میں سے اگر کوئی ایک اختلافی نوٹ لکھ دے تو تیسرا ریفری ممبر صرف سٹپنی کے طور پر کام کرتے ہوئے ناانصافی میں حصہ دار بن جاتا ہے۔مجھے ممبر جوڈیشل نوید الحق نے کہا کہ اگر آپ کا کوئی ذاتی یا فیملی کا کیس ہوتا تو اور بات تھی آپ محکمہ کے لیے اتنے سنجیدہ ہیں؟ کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے۔ آپ کے پاس کتنے کیس ہیں؟ جناب چیف صاحب میں اس کو کیا بتاتا لیکن دوستوں نے کہا کہ یہ آپ کی وکالت تباہ کر دے گا۔ اس کے سامنے حق بات کہنا سر اوکھلی میں دینے کے مترادف ہے۔

No comments:

Post a Comment