سچ کا سامنا کرو بھائی



  • سچ کا سامنا کرو بھائی



  •  چند ماہ ہوئے پیپلزپارٹی کے پرچی راہنماء لیول پلینگ فیلڈ کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ ان کے ذہن میں ہے مگر کھل کر بات نہیں کر رہے، اگر آسان فہم میں بات کی جائے تو پیپلزپارٹی مانگ رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کچھ انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملنا چاہیے، ابھی تو وہ تمام سیاسی جماعتیں سامنے ہی نہیں آئیں جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں، اگر دیوار کے پاس جھانکنا جائے پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو بھی موقع ملنا چاہیے اس کا مطلب ہوا پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ کے مقابلے میں آکر پیپلزپارٹی کے لیے راہ ہموار کرے۔ پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اسے چاہیے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر لے یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ‘ یوں سارامسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن پیپلز پارٹی یہ بھی نہیں چاہتی، وہ تو صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ کا راستہ روکا جائے۔ پیپلزپارٹی کو تھوڑا ابھی صبر سے کام لینا چاہیے اور پتا لگائے کہ گزشتہ سال کتنی نئی سیاسی جماعتیں الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں اور ان کے قیام کی کہانی کیا ہے؟
  • گزشتہ سال کم و بیش ڈیڑھ سو نئی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہوئی ہیں، ان تمام سیاسی جماعتوں کے نام سامنے آگئے تو پیپلزپارٹی کے سیاسی اوسان خطا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک کوئی بارہ تیرہ عام انتخابات ہوچکے ہیں، 1977 میں بھی ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے ان میں پیپلزپارٹی نے کسی سیاسی جماعت کے لیے راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ جہاں موقع ملا وہاں سے مخالف امیدوار اغواء کرلیا، لاڑکانہ سے مولانا جان محمد عباسی اغواء کیے گئے۔ ان انتخابات میں ایسی لیول پلینگ فیلڈ دی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو سمیت ان کی کابینہ کے تمام وزراء اور صوبوں کے وزراء اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہوئے، تاہم یہ پارلیمنٹ نہ چل سکی۔ بھٹو صاحب کے خلاف ایسی عوامی تحریک اٹھی کہ بھٹو صاحب کے لیے اپنا اقتدار بچانا اور حکومت کرنا ممکن نہ رہا‘ چلیے یہ تو ماضی بعید کا قصہ ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات تو کل کی بات ہے، ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مخالف سیاسی حریفوں کے لیے کتنی لیول پلینگ فیلڈ چھوڑی تھی؟ ذرا میدان میں آئیے اور عوام کو جواب دیجیے‘ کیا پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے لیے پولیس کے ذریعے ووٹ اکٹھے نہیں کیے گئے؟ اور پولیس صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں تھی؟ اور صوبے میں حکومت میں پیپلز پارٹی نہیں تھی؟ کیا اس نے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کا احساس کیا‘ کیا فنڈز کی یہ تقسیم منصفانہ ہوئی؟
  • لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ بہتر اور اچھا ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ پیپلزپارٹی اتنا ہی بولے جتنا ہضم ہوسکے۔ عوام نے حساب مانگ لیا تو مشکل ہوجائے گی۔ جہاں تک منصفانہ، آزادانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کا تعلق ہے یہ عوام کا حق ہے جو انہیں آئین نے دے رکھا ہے، عوام سے یہ حق چھینا نہیں جاسکتا۔ مگر جن لوگوں نے یہ حق چھینا کیا وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اگر آئین پر عمل نہ کیا جائے‘ کوئی رکاوٹ ڈالی جائے تو اس کی سزا آئین نے کیا رکھی ہے؟ آرٹیکل 6 صرف ایوب خان، ضیاء الحق اور پر ویز مشرف کے لیے نہیں ہے‘ ان سب کے لیے جو آئین پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ پیپلزپارٹی اس ملک کی ایک سیاسی جماعت ہے‘ لیکن پیپلزپارٹی کو بھی سمجھنا چاہیے اس ملک کا کوئی ایک آئین بھی ہے جس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ 1977 میں پیپلزپارٹی نے جس طرح اپنے ہامیوں میں فنڈز تقسیم کیے‘ سرکاری اداروں کو جس طرح پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے گئے کیا یہ سب کچھ لیول پلینگ فیلڈ تھا؟ اور جس طرح اس نے کراچی میں بلدیاتی انتخاب لڑا‘ کہاں تھی لیول پلینگ فیلڈ؟ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیا جائے۔ بہتر یہی ہے لیکن یہ اس بھی زیادہ بہتر ہے کہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا حقیقی مفہوم سمجھا جائے۔ ہاں اگر پیپلزپارٹی یہ چاہتی ہے کہ اب تحریک انصاف کے بعد اسے سیلیکٹ کیا جائے تو اور بات ہے۔
  • 2018 کے عام انتخابات سے قبل جس طرح محکمہ زراعت کام کر رہا تھا‘ جس طرح ایک فصل کاٹی جارہی تھی اور اس کی جگہ نئی فصل اگائی جارہی تھی‘ اس وقت بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی تو کندھا پیپلزپارٹی نے فراہم کیا تھا ڈنکے کی چوٹ پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرائی گئی اور سینیٹ انتخابات کے دوران سیاسی بندوبست کا حصہ کون بنا تھا؟ صادق سنجرانی کیسے چیئرمین سینیٹ بنے تھے‘ یہ سب کچھ کل کی بات ہے اب جس طرح کے صوبہ سندھ میں سیاسی حالت بن رہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی حریفوں کو بھی اب اس کے خلاف ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ ملے گی اور ملنی بھی چاہیے‘ اب تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

No comments:

Post a Comment