میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں، آپ لوگ ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں‘: جب جنرل ضیاالحق بینجمن سسٹرز کا گیت سن کر غصے میں آ گئے
اختر وقار عظیم کے مطابق صدر ضیا کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی ہر تقریر کے بعد نیا نغمہ نشر ہو
پاکستان ٹیلیویژن سینٹر کراچی میں اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق موجود ہیں کہ ملی نغمہ ’خیال میں ایک روشنی ہے‘ نشر کیا جانے لگا۔ اس نغمے کی ویڈیو دیکھتے ہی صدر اچانک غصے میں آگئے اور کہنے لگے ’میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں اور آپ لوگ یہ کیا ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں۔‘
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر اختر وقار عظیم نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں جہاں پی ٹی وی میں ریکارڈ کیے جانے والے مشہور ملی نغموں کا پس منظر بیان کیا ہے وہیں اس واقعے کو بھی تفصیل سے لکھا ہے۔
IF YOU WANT TO EARN DAILY 77$ CLICKHERE
وہ اس واقعے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قوم سے خطاب میں جنرل ضیاالحق نے ملک میں اسلامی نفاذ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تو سب کو یہ فکر ہوگئی کہ اس تقریر کے بعد کون سا قومی نغمہ نشر کیا جائے۔
’آغا ناصر مینجنگ ڈائریکٹر تھے انھیں متعلقہ محکمے کے سربراہ نے کئی نغمے دکھائے لیکن کچھ نغمے گلوکاروں کے لباس اور کچھ ایسے اشعار کی وجہ سے جنھیں مختلف معنی پہنائے جا سکتے تھے، آغا صاحب کو پسند نہیں آئے۔
اختر وقار کے مطابق وہ پی ٹی وی کراچی سینٹر پر جنرل مینیجر تھے اور خود ان کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ تقریر کے بعد ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد‘ کی دھن نشر کردی جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور شام بخیریت گزر گئی لیکن اگلی صبح صدر کے ملٹری سیکریٹری ان کے دفتر آن پہنچے اور بتایا کہ صدر گذشتہ روز اپنی تقریر کے بعد نشر کی جانے والی شام کی ٹرانسمیشن کی ریکارڈنگ دیکھنے کے خواہشمند ہیں اس لیے انتظامات کر لیے جائیں۔
اختر وقار مزید لکھتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد صدر تشریف لے آئے، حسب روایت سب سے مسکرا مسکرا کر ہاتھ ملایا، خیریت دریافت کی اور بیٹھ گئے۔ جب صدر صاحب کو تقریر کی ریکارڈنگ دکھائی جانے لگی تو انھوں نے کہا کہ اسے چھوڑیے، آگے دکھائیے۔ سوہنی دھرتی کی دھن بجنے لگی تو صدر اور دیگر افراد بھی نغمے کے بول گنگنانے شروع کر دیے۔ دھن ختم ہوئی تو اس کے بعد اشتہارات اور پھر خبرنامے کی باری آئی۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ آدھے گھنٹے کے خبرنامے میں 20 منٹ صدر کی تقریر اور باقی دس منٹ دوسری خبروں کو دیے گئے تھے اور جیسے ہی خبرنامے کے بعد بینجمن سسٹرز کی آواز میں نغمہ نشر ہوا تو وہ ناراض ہوئے اگلے روز اس وقت کے ایم ڈی پی ٹی وی آغا ناصر سمیت تمام افسران کو تبدیل کر دیا گیا۔
آخر اس نغمے میں ایسا کیا تھا؟
یہ 1980 کی دہائی تھی اور مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تین بہنیں نریسا، بینا اور شبانہ بینجمن سسٹرز کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے منفرد اندازِ گائیکی کی وجہ سے کافی مقبول تھیں۔ ’خیال میں ایک روشنی ہے‘ نامی یہ گیت بھی انھی بہنوں نے گایا تھا اور اس کی ویڈیو میں انھیں ہاتھوں میں چراغ لیے سیڑھیاں چڑھتے دکھایا گیا تھا۔
یہ ویڈیو دیکھ کر جنرل ضیا الحق ایک دم غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ ’میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں اور آپ لوگ یہ کیا ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ان لڑکیوں کا لباس بھی مناسب نہیں۔کوئی میری بات، میری سوچ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔‘
جب جنرل ضیاالحق نے مولانا ظفر علی خان کے شعر کو مسدسِ حالی کا حصہ بنا دیا
جنرل ضیاالحق کے مارشل لا سے لے کر ان کے دورِ صدارت تک اختر وقار عظیم پی ٹی وی میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں میں الیکٹرانک میڈیا میں تفریح اور خبروں کے لیے واحد ذریعہ پی ٹی وی ہی تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ صدر ضیا کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی ہر تقریر کے بعد نیا نغمہ نشر ہو۔ 'بعض اوقات وہ خود ہی کلام کی نشاندھی کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ شعر اپنی تقریر میں استعمال کیا
Get more update CLICK HERE
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
تقریر ختم کرنے کے بعد حکم دیا کہ مسدس حالی میں سے یہ شعر اور اس کے آگے پیچھے کے کچھ شعر لے کر اچھے سے گلوکار کی آواز میں تقریر کے بعد نشر کردیا جائے۔'
اختر وقار کے مطابق انھوں نے مسدس چھان مارا، شعر وہاں ہوتا تو ملتا۔ ایم ڈی پی ٹی وی ضیا جالندھری کو اطلاع دی انھوں نے جواب دیا میں نے صدر کا حکم پہنچا دیا اب آگے آپ جانیں۔ تلاش بسیار کے بعد یہ شعر مولانا ظفر علی خان کی ایک غزل میں ملا اور اس کے آگے اور پیچھے کے شعر موقع کی مناسبت سے بالکل غیر موزوں تھے اگر ریکارڈنگ ہوتی تو سنسر کی زد میں آجاتے۔
اس گتھی کو سلجھانے کے لیے اختر وقار کے بقول نامور شاعر قتیل شفائی سے مدد طلب کی گئی اور ان سے گزارش کی گئی کہ اس شعر میں اضافہ کر دیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ 'قتیل شفائی نے جواب دیا کہ اس میں کیا اضافہ کروں گا۔ اس کو دوہے کے انداز میں پڑھوا کر میرے ترانے کے ساتھ جوڑ دینا۔'
اس شعر کے بعد قتیل شفائی کا نغمہ نشر ہوا
اے میرے دیس کے پیارے لوگو
دیس کی شان بڑھائے رکھنا
ان کا کہنا ہے کہ یہ گیت نشر ہونے کے دوسرے روز ایوانِ صدر سے مبارک باد کا پیغام آیا۔
اختر وقار عظیم نے اپنی کتاب میں جہاں جنرل ضیا کی اپنی تقاریر کے بعد نشر ہونے والے نغموں میں ان کی دلچسپی کو تفصیل سے بیان کیا ہے وہیں ایسے ملی نغموں کی تیاری کا بھی ذکر کیا ہے جو زبان زدِ عام ہو گئے۔
وہ لکھتے ہیں کہ قوم سے خطاب کے بعد ایک موقع پر صدر ضیا نے فرمائش کی کہ تقریر کے فوری بعد کلام اقبال میں سے منتخب حصے خصوصاً یہ شعر 'خودی کا سرِّ نہاں، لا الہ الا اللہ' نشر کیا جائے۔
'حکم ہوا کہ صدر کے ارشاد کی تعمیل کی جائے۔ اس وقت دوپہر کے دو بجے تھے اور تقریر ساڑھے سات بجے نشر ہونا تھی۔ وقت کم تھا اس لیے اشعار کا انتخاب کر کے موسیقار خلیل احمد کو دے دیے تاکہ دھن تیار کی جائے۔
'انھوں نے مشورہ دیا کہ اخلاق احمد کو بلایا جائے۔ نائب قاصد کو انھیں بلانے بھیجا، وہ تو نہیں ملے مگر نائب قاصد واپسی پر شوکت علی کو ان کے گھر سے لیتے آئے اور یوں شوکت علی نے یہ گیت گایا۔'
مہدی حسن نے 'یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے' کیسے ریکارڈ کروایا
مہدی حسن نے پی ٹی وی پر بہت سے قومی نغمے اور جنگی ترانے گائے جن میں سے 'یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے' انھوں نے کھڑے ہوکر ہارمونیم بجا کر گایا۔
اختر وقار اس گیت کی ریکارڈنگ کا پس منظر بتاتے ہیں کہ 'دسمبر کا دوسرا نصف چل رہا تھا۔ یوم قائداعظم میں ایک دو روز ہی باقی تھے۔۔۔ کلیم عثمانی کا لکھا ہوا نغمہ لے کر موسیقار نثار بزمی کے حوالے کیا گیا۔ مہدی حسن بھی ان دنوں لاہور میں تھے، جب انھوں نے دھن سنی اور بول دیکھے تو راضی ہوگئ
online earning 7 ways CLICKHERE
اختر وقار کے مطابق مہدی حسن کے ساتھ ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے چھ بجے کا وقت طے ہوا اور سیٹ اس مناسبت سے لگایا گیا تھا کہ گلوکار کھڑے ہو کر نغمہ ریکارڈ کروائے گا۔
'مہدی حسن آئے تو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تھکن تھی یا جہاں کہیں سے ہوتے ہوئے آئے تھے وہاں کی میزبانی کا اثر تھا، مہدی حسن کے لیے کھڑے ہو کر ریکارڈنگ کروانے میں مشکل پیش آرہی تھی چناچہ مسئلے کا حل یوں نکالا گیا کہ ایک اونچے سے سٹول پر ہارمونیم رکھ کر مہدی حسن صاحب اس کے ساتھ تقریبا ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور پھر ایک ہی مرتبہ میں ریکارڈنگ مکمل کر لی۔
'اس دوران جہاں کہیں مہدی حسن کے الفاط کے مطابق ہونٹ نہیں ہلے وہاں نغمے کی آخری تدوین میں بچوں کی تصویروں سے کام لیا گیا اور یوں ایک چیز مقبول ہوگئی۔'
نوجوان ابصار احمد نے ملی نغموں پر تحقیق کے بعد 'پاکستان کے قومی نغمات' کے نام سے کتاب مرتب کی ہے جس میں انھوں 'جیوے جیوے پاکستان' کے پس منظر کی کہانی بیان کی ہے۔
یہ نغمہ جمیل الدین عالی نے تحریر کیا تھا۔ ابصار احمد بتاتے ہیں کہ 'جیوے جیوے پاکستان' سب سے پہلے پی آئی اے کے جِنگل کے طور پر بنا تھا جسے طاہرہ سید نے اُس طرز پر گایا جس پر جمیل الدین عالی پڑھتے تھے۔
اس کا پہلا شعر اس طرح تھا 'پی آئی اے، لے جائے سندیسے اور سندیسے لائے، سننے والے سنیں تو ان میں ایک ہی دھن لہرائے۔'
1971ء کی جنگ کے بعد اس نغمے کو سہیل رعنا نے نئی اور پرجوش طرز میں ڈھالا جس میں عالی نے ترمیم کرتے ہوئے شعر یوں کر دیا 'من پنچھی جب پنکھ ہلائے کیا کیا سر بکھرائے، سننے والے سنیں تو ان میں ایک ہی دھن تھرائے۔'
اس نغمے کے بارے میں ایک انٹرویو میں جمیل الدین عالی کا کہنا تھا کہ انھوں نے1971میں لندن میں اس وقت یہ نغمہ تحریر کیا جب تقسیمِ پاکستان کے بعد ملک کے حالات بہت دگرگوں تھے۔
' سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے'
مشہور پاکستانی ملی نغمے ' سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے' کو کون نہیں جانتا۔ یہ نغمہ 1971 میں پاکستان کی تقسیم سے قبل تیار کر کے پی ٹی وی سے نشر کیا گیا تاکہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں اتحاد اور یکہجتی کا اظہار دکھایا جا سکے۔
ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی شہناز بیگم نے اس گیت کو گایا تھا جبکہ سہیل رانا نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ گیت ملک کی سویلین اور فوجی قیادت دونوں میں مقبول رہا ہے۔
جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں جب فوج نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار حاصل کرلیا اور جنرل پرویز مشرف نے آدھی شب کو قوم سے خطاب کیا تو اس وقت بھی 'سوہنی دھرتی اللہ رکھے' ہی بجایا گیا۔
اختر وقار عظیم لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی تقریر کی ریکارڈنگ نشر ہونے سے پہلے نغمے نشر کیے جانے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مواقع کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن میں نغموں کی ایک ایسی فہرست بنائی گئی ہے جن کے اشعار میں ذومعنویت کی گنجائش نہ ہو۔ یہ فہرست اور یہ نغمے سبھی مراکز پر موجود رہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس رات بھی جو نغمے کراچی سینٹر سے نشر ہوئے ان میں شہناز بیگم کی آواز میں 'سوہنی دھرتی'، مہدی حسن کی آواز میں 'یہ وطن تمہارا ہے'، شوکت علی کا 'خودی کا سر نہاں' اور نیرہ نور کا 'ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم' شامل تھے۔
'چن میں نے تین نغمے ریکارڈ کرائے ہیں، تسی آٹھ بجے ریڈیو پر سن لینا'
پاکستان میں جنگی ترانے زیادہ تر میڈم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے جن کے مداح صدر یحییٰ خان بھی تھے۔
ریڈیو پاکستان سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک وابستہ رہنے والے براڈ کاسٹر جمیل زبیری اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب 'ریڈیو پاکستان میں 25 سال' میں لکھتے ہیں کہ 'پچھلی جنگ (1965) کا تجربہ قوم کے سامنے تھا مگر اس مرتبہ لوگوں میں نہ وہ جذبہ تھا نہ کوئی جستجو۔ البتہ ریڈیو پاکستان نے اسی طرح پروگرام نشر کرنے شروع کر دیے تھے جس میں قومی اور ملی نغمے شامل تھے۔'
ان کے مطابق جس وقت لڑائی جاری تھی وہ نغمے تیار کرنے میں مصروف تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'مادام نور جہاں ایک روز لندن سے کراچی واپسی کے بعد ریڈیو سٹیشن آن پہنچیں۔ ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا گیا اور اسی وقت انتظامات کرکے ان کی آواز میں تین نغمے ریکارڈ کروا لیے گئے۔'
جمیل زبیری کے مطابق 'نغمے ریکارڈ کروا کے وہ سٹوڈیو سے نکلیں اور سٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ کے کمرے میں آ کر ان سے کہنے لگیں کہ ٹیلیفون یحٰیی خان سے ملوائیں اور ان کی بات کرائیں۔ وہ ذرا گھبرائے تو بولیں آپ ڈریں نہیں رنگ کریں اور ٹیلیفون مجھے دے دیں۔ چنانچہ ٹیلیفون ملوایا گیا شاید پہلے صدر کے سیکریٹری ہوں گے پھر جب وہ خود فون پر آ گئے تو نور جہاں نے کہا 'چن میں نے کراچی میں تین نغمے آج ہی ریکارڈ کرائے ہیں، تسی رات کو آٹھ بجے ریڈیو پر سن لینا' اور یہ کہہ کر انھوں نے ریسیور رکھ دیا۔
جمیل زبیری لکھتے ہیں کہ 'ہم لوگوں کے چھکے چھوٹ گئے کہ نور جہاں نے خود ہی نغمے نشر ہونے کا وقت بھی مقرر کر دیا اور صدر کو بتا بھی دیا۔ پریشانی یہ تھی کہ اس وقت پر خبریں نشر ہوتی تھیں، جنگ ہو رہی تھی اور نغموں کے لیے خبروں کا وقت تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا طاہر شاہ نے ڈی جی سے بات کی انھوں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں، میں صدر کے سیکریٹری سے بات کر لوں گا۔'
ملی نغموں سے جذباتی وابستگی مذہب سے بالاتر تھی
پاکستان کے قومی نغموں پر تحقیق کرنے والے ابصار احمد کے مطابق مذہب سے بالاتر ہو کر پاکستانی گلوکاروں کی قومی گیتوں کے ساتھ جذباتی وابستگی رہی ہے۔
آنجہانی گلوکار سلیم رضا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے جنگ ستمبر میں سب سے زیادہ ملی نغمے گائے۔ ابصار احمد کا کہنا ہے کہ '13 ستمبر کو جب سیالکوٹ میں جنگ جاری تھی تو کشور ناہید کا تحریر کردہ نغمہ اے اہل سیالکوٹ تم کو میرا سلام، سلیم رضا کو ملا جسے وہ ریکارڈ کروانے جا رہے تھے مگر ان کا جواں سالہ بیٹا بھی بستر مرگ پر تھا۔ سلیم رضا نے اپنے بیٹے پر وطن کو فوقیت دی اور وہ نغمہ ریکارڈ کروانے لاہور ریڈیو آ گئے۔ جب ان کی واپسی ہوئی تو بیٹے کا انتقال ہو چکا تھا مگر سلیم رضا نے جب اپنا ترانہ سنا تو وہ بیٹے کا غم بھول کر دوبارہ ریڈیو سٹیشن میں تھے۔'
یاد رہے کہ سلیم رضا امرتسر کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے تھے بعد میں انھوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا تھا۔
مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تین بہنیں نریسا، بینا اور شبانہ کے علاوہ دیگر غیر مسلم گلوکاروں نے بھی پاکستان سے محبت کے اظہار کے لیے ملی اور قومی نغمے گائے۔
ابصار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی پہلی ہندو گلوکارہ جنھوں نے ملی نغمہ گایا وہ جھونو بھومک تھیں جنھوں نے 1950 میں ڈھاکہ ریڈیو سے علامہ محمد اقبال کی نظم 'بر تراز اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی' کے علاوہ بنگالی ملی نغمہ 'شونار مونیر دیش پاکستان' بھی گایا۔
13 اگست 1950 کو ایس بی جون نے کراچی ریڈیو سے اقبال کی نظم 'ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارہ، اس دشت سے بہتر ہے دلٌی نہ بخارہ' پڑھی تو وہ منفرد اعزاز کے حامل بن گئے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر تو یہودی آبادی موجود نہیں تاہم 1980 تک یہودی کمیونٹی پاکستان میں رہتی تھی۔ یہودی گلوکارہ ڈیبورا ڈینیئل نے 1959 میں ریڈیو پاکستان کراچی پر علامہ محمد اقبال کا ملٌی کلام 'سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات' گایا جسے پاکستان کے تناظر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔
No comments:
Post a Comment