مودی کی حمایت یافتہ شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ: 'افغانستان میں جو امریکہ کے ساتھ ہوا وہی ڈھاکہ میں انڈیا کے ساتھ ہوا'
بنگلہ دیش میں تقریباً 300 حکومت مخالف مظاہرین کی ہلاکت اور وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو کر ملک سے فرار ہونا پڑا تو وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی
تھی۔
وہ ڈھاکہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا کے شہر اگرتلہ پہنچیں اور پھر ایک فوجی طیارے کے ذریعے دلی کے نواح میں انڈین فضائیہ کے ہینڈن فضائی اڈے پر اتریں۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل طور پر قیام کریں گی یا کچھ دنوں کے بعد کسی اور ملک چلی جائیں گی۔
بعض خبروں کے مطابق ڈھاکہ کی انتہائی کشیدہ اور مشتعل صورتحال کے پیش نظر انھوں نے برطانیہ میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ تاہم بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کے پیش نظر انڈین اسٹیبلشمنٹ یہی چاہے گی کہ وہ کسی اور ملک میں
پناہ لے لیں۔
بعض خبروں میں یہ بھی کہا گیا ہے وہ کہیں اور جانے سے پہلے دلی میں کچھ دن قیام کر سکتی ہیں۔
جس وقت ان کا طیارہ انڈیا کی فضائی حدود میں داخل ہوا اس وقت لاکھوں مظاہرین ڈھاکہ اور ملک کے دوسرے شہروں میں ان کے فرار ہونے کا جشن منا رہے تھے۔
ملک کا نظم و نسق فوج نے اپنی کمانڈ میں لے لیا ہے اور مسلح افواج کے سربراہ جنرل وقارالزماں سبھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک عبوری حکومت قائم کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔
دلی میں شیخ حسینہ کے پہنچنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کی رہائش گاہ پر بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک اہم میٹنگ ہوئی ہے جس میں انڈیا کے وزیر خارجہ، وزیر دفاع ، وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور قومی سلامتی کے مشیر شریک ہوئے۔
شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ پارٹی سے انڈیا کا
گہرا رشتہ
![]() |
بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ جب انڈیا میں ہینڈن کے فضائی اڈے پر پہنچیں تو ان کے استقبال کے لیے ملک کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال اور وزارت خارجہ کے اعلی اہلکار بھی موجود تھے۔
انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور 1971 میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی عوامی لیگ پارٹی کو انڈیا کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے۔ سابق خارجہ سکریٹری ہرش وردھن شرینگلہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ شیخ حسینہ کے تعلقات صرف حکومت سے ہی نہیں انڈیا کی سیاسی قیادت سے بھی بہت گہرے ہیں۔
1975 میں جب ان کے والد شیخ مجیب الرحمن اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت شیخ حسینہ یورپ میں تھیں۔ وہاں سے وہ دلی آئیں اور یہاں کئی برس مقیم رہیں۔
Follow my TikTok CLICK HERE
اس وقت حسینہ کے شوہر جو ایک سائنسدان تھے انھیں ایک سرکاری ادارے میں ملازمت بھی دی گئی تھی۔ شیخ حسینہ کے شوہر ڈاکٹر واجد میاں ایک سائنسدان تھے جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا حصہ رہ چکے تھے اور سقوط ڈھاکہ سے قبل کراچی نیوکلیئر پلانٹ کے چیف سائنسدان بھی تھے لیکن پھر حالات خراب ہونے کے بعد ان کی سکیورٹی کلیئرنس ختم کر دی گئی تھی۔
شيخ حسینہ تقریباً 21 برس بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہ چکی ہیں۔ وہ گذشتہ 16 برس سے مسلسل وزیراعظم کے عہدے پر فائز تھیں۔ مودی حکومت کے قیام کے بعد انھوں نے انڈیا سے پانی کی تقسیم کا سمجھوتہ کیا، نئے نئے تجارتی راستے کھولے، بنگلہ انکلیو کے تبادلے اور امن معاہدہ کیا۔
If you want to earn money daily 80$ CLICK HERE
او پی جندل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا امور کی پروفیسر ڈاکٹر شری رادھا دتا کہتی ہیں کہ شیخ حسینہ سے پہلے 'بی این پی کی خالدہ ضیا کی حکومت کے درمیان بنگلہ دیش میں انتہا پسند طاقتوں کو شہ ملی اور وہاں کئی تنظیمیں تشدد پر اتر آئیں۔ اںڈیا بھی ان انتہا پسندوں کی پرتشدد کاروائیوں کی زد میں آیا اور انڈیا کے تعلقات خالدہ ضیا کی حکومت سے خراب ہوتے گئے۔ لیکن شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ملکوں کے رشتے بہت گہرے ہو گئے۔'
شیخ حسینہ کی حکومت کا خاتمہ انڈیا کے لیے ویسا ہی
دھچکا ہے جیسا امریکہ کے لیے افغانستان ثابت ہوا'
بنگلہ دیش کے ماہر اقتصادیات محمد یونس نے نے دو روز قبل اںڈین میڈیا کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بنگلہ دیش میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر انڈیا کی خاموشی پر دبے لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا 'بنگلہ دیش کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور ملک میں جمہوری آزادی کے خاتمے کے سبب یہ دو تہائی نوجوان کبھی ووٹ نہیں ڈال سکے، بنگلہ دیش میں جو بے چینی پھیل رہی ہے اس کا اثر اںڈیا پر بھی پڑے گا۔
کولکتہ میں مقیم سیاسی تجزیہ کار سوبحیت باگچی کہتے ہیں کہ 'انڈیا کی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی غلطی یہ رہی کہ اس نے بنگلہ دیش میں اپنا سارا داؤ شیخ حسینہ اور ان کی پارٹی عوامی لیگ پر لگا دیا اور شیخ حسینہ کی شدید مخالفت کے سبب انڈین اسٹیبلشمنٹ نے اپوزیشن بی این پی اور جماعت اسلامی سے اپنا رابطہ توڑ لیا۔'
See full video about Bangladesh. CLICK HERE
باگچی کہتے ہیں کہ 'حسینہ کی پارٹی تیزی سے عوام میں غیر مقبول ہوتی جا رہی تھی، جمہوری ادارے ختم ہوتے جارہے تھے اور حکومت سے عوام کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ چونکہ انڈیا شیخ حسینہ کا سب سے بڑا حمایتی تھا اسی لیے وہاں کی عوام انڈیا سے بھی اتنی ہی نفرت کرنے لگی۔'
وہ کہتے ہیں کہ 'یہی نہیں انڈیا امریکہ، برطانیہ اور پوری دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ اگر عوامی لیگ ہار گئی تو بنگلہ دیش انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔
'
'انڈیا کو یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ شیخ حسینہ کی آمرانہ حکومت سے عوامی نفرت اس حد تک پہنچ جائے گی کہ انھیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑ سکتا ہے۔ یہ انڈیا کے لیے ویسا ہی بڑا دھچکا ہے جیسا امریکیوں کے لیے افغانستان ثابت ہوا۔'
اںڈیا کا اگلا قدم کیا ہو گا؟
بنگلہ دیش میں اب ایک عبوری حکومت کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ عوام کی شدید محالفت کے سبب عوامی لیگ کو اس نئی حکومت میں شامل کیا جائے یا نہیں، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
سوبحیت باگچی کا خیال ہے کہ انڈیا اب بی این پی اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں سے بھی بات چیت شروع کرے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ 'انڈیا اب افغانستان کی طالبان حکومت سے بات چیت کر رہا ہے تو پھر بی این پی اور جماعت اسلامی سے تعلقات بنانے میں کیا مشکل ہے۔'
'دوسری اہم بات یہ ہے کہ عوامی لیگ جماعت اسلامی کی طرح ایک ملک گیر سطح پر منظم جماعت ہے جس کے لاکھوں کارکنان ہیں اور یہ جماعت پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگرچہ اس کے خلاف اس وقت بے چینی ہے لیکن اگر اپوزیشن اقتدار میں آںے کے بعد اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تو مستقبل میں عوامی لیگ کے واپس آنے کے امکان کو خارج نہیں کیا جا سکتا ۔'
پروفیسر شری رادھا دتا کہتی ہیں کہ 'انڈیا کے بنگلہ دیش سے تعلقات اتنے گہرے ہیں اور اس کا انحصار انڈیا پر اتنا زیادہ ہے کہ بی این پی اور جماعت اسلامی بھی انڈیا سے تعلقات خراب کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ تجارتی تعلقات اتنا بڑھ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت خراب تعلقات نہیں چاہے گی۔ بنگلہ دیش کی کپڑے کی صنعت کا سارا خام مال انڈیا سے جاتا ہے۔'
No comments:
Post a Comment