یو اے ای کا پاکستان میں اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری کا اعلان

 


متحدہ عرب امارات کی رئیل سٹیٹ کمپنیوں کے گروپ نے ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز کے توسط اور باہمی شراکت سے پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں 20 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔عالمی میڈیا کے مطابق چیئرمین آباد نے تعمیراتی شعبے میں 20 سے 25 ارب ڈالرزکی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا اور آباد کے مکمل تعاون کی یقین دہائی کرائی ہے، جاری اعلامیہ کے مطابق حکومت پاکستان کے مشیر برائے گلف ممالک سردار قیصرحیات کی قیادت میں یو اے ای کی رئیل سٹیٹ کمپنیوں کے گروپ کے وفد نے آباد ہاؤس کا بھی دورہ کیا۔اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان کے مشیر برائے گلف ممالک سردار قیصر حیات کا کہنا تھا کہ یو اے ای کے رئیل سٹیٹ اداروں کی کراچی کی تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری سے نا صرف پاکستان کی معیشت کو ترقی ملے گی بلکہ پاکستان کے شہریوں کو عالمی معیار کی رہائشی سہولتیں بھی میسر آئیں گی۔سردار قیصر حیات نے کہا کہ اوور سیز پاکستانی 25 ارب ڈالرز سے بھی زیادہ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں،

  پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے ہرممکن سہولت اور تحفظ کی یقین دہانی کراتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ آباد پاکستان کے تمام بلڈرز اور ڈویلپرز کی وہ واحد جماعت ہے جو حکومت پاکستان کوملک میں تعمیراتی پالیسیاں بنانے میں بھی معاونت کرتی ہے، سردار قیصرحیات کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کیلئے بیرونی رئیل سٹیٹ کے سرمایہ کاروں کیلئے آباد جیسا ادارہ ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگا، آباد دبئی کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں ہرممکن مدد فراہم کرے گی۔اس موقع پر چیئرمین آباد آصف سم سم نے متحدہ عرب امارات کی رئیل سٹیٹ کمپنیوں کے گروپ کیجانب سے کراچی میں تعمیراتی شعبے میں 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری سے پاکستان کے تعمیراتی شعبے میں انقلاب برپا ہوگا، یو اے ای کی رئیل سٹیٹ کمپنی کو آباد کیجانب سے بھرپورتعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں۔آصف سم سم کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اربنائزیشن کے رحجانات سے تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کا سازگار ماحول پیدا ہوا ہے، پاکستان میں 12 ملین سے زائدرہائشی یونٹس کی کمی ہے جو سرمایہ کاروں کے لیے ایک بہترین موقع ہے۔

سی پیک کے تحت 10 برس کے دوران اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری،ملکی معیشت میں بہتری آئی،حکام

 


اسلام آباد۔14نومبر (اے پی پی):چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک ) کے تحت 10 برس کے دوران ملک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، معیشت و غربت میں کمی آئی اور نئے تجارتی راستے بنے۔سی پیک حکام کے مطابق چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)نے ترقیاتی کاموں کو فروغ دے کر خود کو پاکستان کے لیے اہم اقتصادی محرک کے طور پر ثابت کیا ہے جو اس کے بنیادی ڈھانچے، توانائی، برآمدات، تجارت، نقل و حمل، زراعت، روزگار، ادویات، آئی ٹی، موبائل ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں کو بہتر بنا ر ہاہے۔

گزشتہ 10 برس کے دوران 200,000 براہ راست اور بالواسطہ ملازمتیں پیدا کرنے والے 30 سے زائد منصوبے مکمل ہو چکے اور مزید ترقی کے مختلف مراحل میں ہیں جو پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ایک راستہ ہموار کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ 6000 میگاواٹ سے زائد بجلی نیشنل گرڈ میں ڈالی جا چکی، 809 کلومیٹر ہائی وے بنائی گئی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار 886 کلومیٹر ٹرانسمیشن لائنیں لگائی گئی ہیں۔


دس سال قبل اپنے قیام کے بعد سے سی پیک نے پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کے منظر نامے کو تبدیل کر دیا ہے، اکتوبر 2022 تک 6,370 میگاواٹ سے زیادہ صلاحیت کے 11 منصوبے مکمل اور 880 کلومیٹر طویل ایچ وی ڈی سی ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی گئی ہے، تقریبا 1,200 میگاواٹ کی گنجائش والے مزید تین منصوبے-24 2023 کے اندر مکمل ہونے کی امید ہے جبکہ حال ہی میں 1,320 میگاواٹ تھر کول بلاک ون نے کمرشل آپریشن شروع کیا ہے۔ سی پیک کے تحت مکمل ہونے والے منصوبوں کے علاوہ کئی دوسرے منصوبے بھی زیر عمل ہیں جو پاکستان کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو مزید فروغ دیں گے۔

Hamza

جنرل فیض حمید کے خلاف کارروائی کی جائے : سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ




اسلام آباد :  سپریم کورٹ  نے ٹاپ سٹی کی طرف سے  سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کیخلاف کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔ معیز احمد کی درخواست پر 8 نومبر کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کیا گیا۔

سپریم کورٹ کے مطابق درخواست گزار نے آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار فیض حمید سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔درخواست گزار کے مطابق ٹاپ سٹی پر قبضہ کیلئے انکو اور اہلخانہ کو اغوا کیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید پر رینجرز اور آئی ایس آئی حکام کے ذریعے درخواست گزار کے آفس اور گھر پر چھاپے کا الزام ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ فیض حمید پر درخواست گزار کے گھر کا سامان اور سوسائٹی کا ریکارڈ چوری کرنے کا بھی الزام ہے۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا سپریم کورٹ کے علاوہ کارروائی کیلئے کوئی متعلقہ فورم نہیں بنتا۔سپریم کورٹ  نے فیصلے میں لکھاایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں۔درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ درخواست گزار کے الزامات پر قانون کے مطابق کارروائی کی جائے ۔ درخواست گزار کے پاس فیض حمید سمیت دیگر فریقین کے خلاف دوسرے متعلقہ فورمز موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کیس کے میرٹس کو چھیڑے بغیر یہ درخواستیں نمٹاتی ہے۔

code

SEO Definition. SEO کی تعریف

 


Catchphrase Research:Identify important watchwords connected with your content.Use instruments like Google Watchword Organizer or other Web optimization tools.

On-Page Optimization:Optimize meta titles, meta portrayals, and header labels with pertinent keywords.Ensure content is top notch, drawing in, and incorporates significant keywords.Optimize pictures with clear alt text.

Content Creation:Regularly update your substance to keep it new and relevant.Create new, important substance that tends to client needs and interests.

Link Building:Build great backlinks from legitimate websites.Foster associations with powerhouses and other substance designers in your niche.

Technical SEO:Improve site speed and versatile responsiveness.Optimize webpage construction and route for better client experience.Create and present a sitemap to look through engines.

User Experience (UX):Ensure an easy to understand plan and simple navigation.Optimize for versatile devices.

Social Media Integration:Share your substance via virtual entertainment stages to expand visibility.Encourage social sharing to upgrade your substance's reach.

Analytics:Use instruments like Google Examination to follow site performance.Monitor key measurements like traffic, skip rate, and transformation rates.

Local SEO:If material, enhance your site for nearby searches.Claim and improve your Google My Business listing.

Stay Informed:Stay refreshed on Search engine optimization patterns and calculation changes.Join discussions and networks to gain from others in the field.Remember, Website optimization is a continuous cycle, and results might take time. Consistency and remaining informed about prescribed procedures are essential for progress.


کیچ فریز ریسرچ: اپنے مواد سے منسلک اہم واچ ورڈز کی شناخت کریں۔ گوگل واچ ورڈ آرگنائزر یا دیگر ویب آپٹیمائزیشن ٹولز جیسے آلات استعمال کریں۔


 آن پیج آپٹیمائزیشن: متعلقہ مطلوبہ الفاظ کے ساتھ میٹا ٹائٹلز، میٹا پورٹریلز، اور ہیڈر لیبلز کو بہتر بنائیں۔ یقینی بنائیں کہ مواد اعلی درجے کا ہے، اس میں ڈرائنگ، اور اہم کلیدی الفاظ شامل ہیں۔ واضح Alt متن کے ساتھ تصویروں کو بہتر بنائیں۔


 مواد کی تخلیق: اپنے مادہ کو نیا اور متعلقہ رکھنے کے لیے اسے باقاعدگی سے اپ ڈیٹ کریں۔ نیا، اہم مادہ تخلیق کریں جو کلائنٹ کی ضروریات اور دلچسپیوں کے مطابق ہو۔


 لنک بلڈنگ: جائز ویب سائٹس سے زبردست بیک لنکس بنائیں۔ اپنے مقام پر پاور ہاؤسز اور دیگر مادہ ڈیزائنرز کے ساتھ ایسوسی ایشن کو فروغ دیں۔


 تکنیکی SEO:سائٹ کی رفتار اور ورسٹائل ردعمل کو بہتر بنائیں۔ کلائنٹ کے بہتر تجربے کے لیے ویب پیج کی تعمیر اور راستے کو بہتر بنائیں۔ انجنوں کو دیکھنے کے لیے سائٹ کا نقشہ بنائیں اور پیش کریں۔


 صارف کا تجربہ (UX): ایک آسان منصوبہ اور آسان نیویگیشن کو یقینی بنائیں۔ ورسٹائل ڈیوائسز کے لیے آپٹمائز کریں۔


 سوشل میڈیا انٹیگریشن: مرئیت کو بڑھانے کے لیے ورچوئل تفریحی مراحل کے ذریعے اپنے مواد کا اشتراک کریں۔ اپنے مواد کی رسائی کو بڑھانے کے لیے سماجی اشتراک کی حوصلہ افزائی کریں۔


 تجزیات: سائٹ کی کارکردگی کی پیروی کرنے کے لیے گوگل ایگزامینیشن جیسے آلات کا استعمال کریں۔ اہم پیمائشوں جیسے ٹریفک، اسکیپ ریٹ، اور ٹرانسفارمیشن ریٹ کی نگرانی کریں۔


 مقامی SEO: اگر مواد ہے تو، قریبی تلاشوں کے لیے اپنی سائٹ کو بہتر بنائیں۔ دعوی کریں اور اپنی Google My Business کی فہرست کو بہتر بنائیں۔


 باخبر رہیں: سرچ انجن آپٹیمائزیشن کے پیٹرن اور حساب کی تبدیلیوں پر تازہ دم رہیں۔ فیلڈ میں دوسروں سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے بات چیت اور نیٹ ورکس میں شامل ہوں۔ یاد رکھیں، ویب سائٹ کی اصلاح ایک مسلسل سائیکل ہے، اور نتائج میں وقت لگ سکتا ہے۔  مستقل مزاجی اور تجویز کردہ طریقہ کار کے بارے میں باخبر رہنا ترقی کے لیے ضروری ہے۔

جب یروشلم کی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت پگڑی والے ہندوستانی فوجی کر رہے تھے‘: اسرائیل میں مدفون پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی داستان

جب یروشلم کی مسجد الاقصیٰ کی حفاظت پگڑی والے ہندوستانی فوجی کر رہے تھے‘: اسرائیل میں مدفون پاکستانی اور انڈین فوجیوں کی داستان


 لائل پور کے پال سنگھ، پٹیالہ کے آسا سنگھ، اجنالہ کے مگھر سنگھ، گوالیار انفنٹری کے سیتا رام اور غازی آباد کے بشیر خان کی قبریں یا آخری یادگاریں ان کی جائے پیدائش سے ہزاروں میل دور یروشلم کے ایک مقبرے میں موجود ہیں۔

پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران ایسے سینکڑوں فوجی جو برطانوی فوج کا حصہ تھے مشرق وسطیٰ میں مارے گئے۔

اس وقت فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے دیگر حصوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں موجودہ اسرائیل میں واقع چار قبرستانوں میں بنائی گئی تھیں۔

یہی نہیں بلکہ ان کی یاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے ناموں کے ساتھ پتھر بھی نصب کیے گئے تھے۔ برطانوی فوج کا ایک بڑا حصہ ہندوستانی فوجیوں پر مشتمل تھا۔

یہ فوجی غیر منقسم پنجاب کے ساتھ ساتھ موجودہ انڈیا اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔

ان کے نام اسرائیل کے تل ابیب میں ہندوستان کے سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ کتابچہ ’اسرائیل میں ہندوستانی فوجیوں کی یادگار‘ میں بھی درج ہیں۔

یہ کتابچہ اسرائیل میں اس وقت کے ہندوستانی سفیر نوتیج سنگھ سرنا کے دور میں چھپا تھا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ شروع ہوئے تقریباً ایک ماہ ہو چکا ہے۔

حماس کی طرف سے اسرائیل میں دراندازی اور اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی جوابی کارروائی میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے۔ یہ تناؤ اب بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

سوشل میڈیا اور اخبارات بھی اس جنگی مسئلے کی تاریخ پر بحث کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

20ویں صدی کے آغاز میں موجودہ اسرائیل میں تعینات ہندوستانی فوجیوں کی تصاویر کو لے کر سوشل میڈیا پر بھی حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

مسجد اقصیٰ کے باہر پگڑی والے فوجی بھی تعینات تھے

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر میں پگڑی والے ہندوستانی فوجی بھی موجودہ اسرائیل میں مسجد اقصیٰ یا ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے باہر تعینات دکھائی دے رہے ہیں۔


نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ یا ٹیمپل ماؤنٹ یہودی اور عرب دونوں برادریوں کے لوگوں کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت بھی عرب اور یہودی برادریوں کے درمیان تناؤ تھا۔ کبھی مسلح حملے اور بم دھماکے ہوتے تھے۔

اس وقت یہ علاقہ برطانوی قبضے میں تھا۔ انڈین فوجیوں کو غیر جانبدار سمجھا جاتا تھا، اس لیے انھیں یہاں تحفظ کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ فوجی یہاں آنے والے لوگوں کی تلاشی لیتے تھے۔

پنجابی سپاہیوں کا کردار

فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ برطانوی فوج میں غیر منقسم ہندوستان کے مختلف حصوں کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ غیر منقسم پنجاب کے فوجی بھی شامل تھے۔


یہاں کے سپاہیوں نے جنگ حیفہ اور بہت سی دوسری لڑائیوں میں حصہ لیا۔

مندیپ سنگھ باجوہ بتاتے ہیں کہ اس وقت زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑی والے تھے اور بعض اوقات یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ زیادہ تر فوجی پنجابی یا سکھ تھے۔

تاہم سکھوں نے اپنی آبادی کے لحاظ سے اس میں بڑا حصہ ڈالا۔ سکھوں نے سینائی-فلسطین مہم میں بھی اہم کردار ادا کیا، ان کا کردار مغربی محاذ، عراق (اس وقت میسوپوٹیمیا کہلاتا تھا) میں بھی نمایاں تھا۔

دوسری عالمی جنگ تک زیادہ تر ہندوستانی فوجی پگڑیاں پہنتے تھے۔ ہندوستانی فوجیوں کے لباس میں تبدیلی دوسری عالمی جنگ کے دوران شروع ہوئی تھی۔

چند سال قبل اسرائیلی حکومت کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے جاری کردہ ڈاک ٹکٹ نہ صرف سکھ فوجیوں کے اعزاز میں بلکہ تمام ہندوستانی فوجیوں کے اعزاز میں ہے۔


مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ یہاں لڑی جانے والی ’بیٹل آف حیفہ‘ پہلی عالمی جنگ کی بہت اہم جنگ تھی۔

ہندوستانی فوجیوں نے سنہ 1918 کی جنگ حیفہ میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ حیفہ کی جنگ برطانوی فوج اور سلطنت عثمانیہ کی فوج کے درمیان ایک فیصلہ کن جنگ تھی۔

برطانوی سلطنت کے لیے لڑنے والی فوج میں گھڑ سواروں کی بڑی تعداد تھی۔ انھوں نے ترک افواج کو شکست دی۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت برطانوی فوج میں ہندوستانی ریاستی افواج کے یونٹ شامل تھے، انھیں ’امپیریل سروس ٹروپس‘ بھی کہا جاتا تھا۔

حیفہ کی جنگ میں جودھ پور، لانسر اور میسور لانسرز نے اس جنگ میں اہم کردار ادا کیا۔

ان یونٹس کا تعلق جودھ پور خاندان اور میسور خاندان سے تھا۔

مندیپ سنگھ باجوہ کا کہنا ہے کہ پٹیالہ خاندان سے تعلق رکھنے والے پٹیالہ لانسر ’جنگ حیفہ‘ کے دوران فوج کا حصہ تھے، لیکن انھوں نے جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

حیفہ کی جنگ میں پنجابی فوجیوں کے کردار کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی غلط معلومات پھیلائی گئی ہیں کہ اس میں سکھ فوجی ملوث تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فخر کی بات ہے کہ عالمی جنگوں میں پنجابی یا ہندوستانی فوجیوں نے بڑا کردار ادا کیا لیکن حیفہ کی جنگ میں سکھوں کی شمولیت کا دعویٰ درست نہیں ہے۔

بابا فرید سے جڑی جگہ

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران فلسطین میں کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔ نوتیج سرنا کتاب ’دی ہیروڈز گیٹ-اے یروشلم ٹیل‘ کے مصنف ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ہندوستانی فوجی لیبیا، لبنان، مصر اور دیگر علاقوں سے آرام اور صحت یابی کے لیے یروشلم آتے تھے۔


انھوں نے انڈین ہاسپیس میں آرام کیا جسے بابا فرید ہاسپیس بھی کہا جاتا ہے۔ بابا فرید (حضرت فرید الدین گنج شکر) 1200 میں اس مقام پر تشریف لائے۔

ہندوستانی فوجی پہلی جنگ عظیم کے دوران فلسطینی علاقوں میں کئی اہم لڑائیوں کا حصہ تھے۔ یہاں تک کہ ہندوستانی فوج کے میجر دلپت سنگھ کو آج بھی حیفہ کی جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔

ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق ’غیر منقسم ہندوستان کے فوجیوں نے مشرق وسطیٰ بالخصوص فلسطین میں ہونے والی دونوں عالمی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔‘

ہندوستانی سفارت خانے کی طرف سے شائع کردہ کتابچے کے مطابق تقریباً 1,50,000 ہندوستانی فوجیوں کو موجودہ مصر اور اسرائیل بھیجا گیا تھا۔

یہاں کے فوجیوں نے ستمبر اکتوبر 1918 کی فلسطین مہم میں حصہ لیا۔

’کامن ویلتھ وار گریز کمیشن‘ کے مطابق پہلی جنگ عظیم میں 1,302,394 ہندوستانی فوجی شامل تھے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لینے والوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ گئی تھی۔

فلسطین میں ہندوستانی فوجیوں کی آمد

فوجی تاریخ دان مندیپ سنگھ باجوہ نے نشاندہی کی کہ فلسطین ایک اہم جگہ تھی جہاں برطانوی افواج نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ لڑی۔

سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں سینا، شام، اردن تک پھیلی ہوئی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ بیلفور اعلامیہ اسی جنگ کے دوران جاری کیا گیا جس نے موجودہ اسرائیل کی بنیاد ڈالی۔

نوتیج سرنا نے کہا کہ جب برطانوی جنرل ایلنبی نے سنہ 1917 میں یروشلم پر قبضہ کیا تو ہندوستانی فوجی ایلنبی کی فوج کا حصہ تھے۔

نوتیج سرنا نے کہا کہ حیفہ کے لوگ میجر دلپت سنگھ کے اعزاز میں مجسمہ بنانا چاہتے تھے۔ ہم نے ان کا ساتھ دیا۔

اس لیے 23 ستمبر کو ’یوم حذیفہ‘ کے موقع پر سالانہ تقریب کا آغاز کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ حیفہ قبرستان میں حیفہ کی جنگ میں شامل فوجیوں کی یادگار نہیں بلکہ دوسرے فوجیوں کی یادگار ہے۔

انھوں نے کہا کہ جن فوجیوں کی یادگار حیفہ قبرستان میں نصب ہے، اس دن انھیں یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ’جنگ حیفہ‘ میں شامل فوجیوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔




اب اس کا دورہ سیاحوں کے ساتھ ساتھ حکومتی نمائندے بھی کرتے ہیں۔

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ اگرچہ وقت گزرنے کی وجہ سے بہت سے لوگ فوجیوں کے بارے میں نہیں جانتے ہیں۔

’اب بھی جو لوگ حیفہ میں آباد ہیں وہ ان سپاہیوں کو یاد کرتے ہیں جو ’حیفہ کی جنگ‘ میں لڑے تھے۔ حیفہ ہسٹوریکل سوسائٹی بھی ہے، جو ان پر کام کرتی ہے۔‘

انڈین فوجیوں کی قبریں کہاں ہیں؟

اسرائیل میں ایسے چار قبرستان ہیں جہاں انڈین فوجیوں کو دفن کیا گیا ہے یا ان کے لیے یادگاری پتھر لگائے گئے ہیں۔

’یروشلم انڈین وار سیمیٹری‘ میں جولائی 1918 سے جون 1920 کے درمیان دفن 79 ہندوستانی فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے ایک کی شناخت نہیں ہوسکی ہے۔

’حیفہ انڈین وار سیمیٹری‘ میں پنجاب، اتر پردیش، اوڈیشہ، حیدرآباد میں رہنے والے فوجیوں کی آخری یادگاریں بھی ہیں۔



رم اللہ جنگی قبرستان‘ میں سب سے زیادہ ہندوستانی فوجیوں کی تدفین کی گئی ہے۔ اس قبرستان میں 528 قبریں ہیں۔ پہلی عالمی یادگار بھی یہاں قائم ہے۔

’خیات بیچ وار قبرستان‘ سنہ1941 میں قائم کیا گیا تھا، اس میں دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے 691 فوجیوں کی قبریں ہیں، جن میں سے 29 ہندوستانی تھے۔

نوتیج سرنا بتاتے ہیں کہ پہلی عالمی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کی یادگاریں ’کامن ویلتھ گریز کمیشن‘ نے قائم کی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ان قبرستانوں میں حیفہ ایک اہم قبرستان ہے۔

حیفہ کی جنگ سنہ 1918 میں ہوئی۔ میسور، جودھ پور، بیکانیر لانسر یونٹوں نے اس میں حصہ لیا۔ یہ ان یونٹوں کی یاد میں نیو دہلی میں تین مجسموں کی یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں۔

یہ ضروری نہیں کہ فوجی اسی علاقے میں مرے یا انھیں یہیں دفن کیا گیا ہو۔ کبھی کبھی فوجیوں کی یادگار کے طور پر ان قبروں میں ان کے نام کے پتھر نصب کیے جاتے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان فوجیوں کا تعلق ہندو، مسلم اور سکھ مذاہب سے تھا۔

’ہم نے ان جگہوں کی نشاندہی کی، معلومات اکٹھی کیں، تصویریں لیں اور کتابچہ کو اس طرح شائع کیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔‘

ان کے مطابق ’ہم نے دولت مشترکہ کے جنگی قبروں سے متعلق قائم کیے گئے کمیشن کے ساتھ مل کر کام کیا اور اب جب بھی ہندوستانی حکومت کے نمائندے وہاں جاتے ہیں تو وہ احترام کے طور پر ان مقامات کا دورہ بھی کرتے ہیں۔‘

فوجی تاریخ کے ماہر مندیپ سنگھ باجوہ نے کہا کہ کامن ویلتھ وار گریز کمیشن تقریباً 60 ممالک میں بنی برطانوی سلطنت کے فوجیوں کی قبروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

انڈیا بھی ان اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔



برطانیہ میں فلسطین کے حق میں لاکھوں انسانوں کا سیلاب امڈ آیا

 




لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے

لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، فوٹو: بی بی سی

لندن میں فلسطین کے حق میں اب تک کی سب سے بڑی ریلی نکالی گئی جس میں 3 لاکھ افراد شریک ہوئے، فوٹو: بی بی سی

لندن: برطانیہ میں فلسطینیوں کے حق اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف رنگ، نسل، مذہب اور زبان بولنے والے 3 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔


عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق غزہ پر بمباری کے خلاف لندن کے شہریوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ مظاہرین نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔


مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اُٹھا رکھے تھے جس میں عالمی قوتوں اور بین الااقوامی تنظیموں کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔


ریلی کے شرکا نے لہولہان زخمی فلسطینی بچوں کی تصاویر بھی اُٹھا رکھی تھیں جب کہ کچھ نے عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔


یہ برطانیہ کی اب تک سب سے بڑی ریلی تھی جس میں شہری فوجی یادگار سینوٹاف پر جمع ہوئے اور دو منٹ کی خاموشی اختیار کی اور برطانیہ کی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی یاد بھی منائی۔


پولیس کا کہنا ہے کہ اس جنگی یادگار کے قریب کچھ  مظاہرین کی طرف سے جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جس پر 100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس مڈ بھیڑ میں دو پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔


وزیراعظم رشی سوناک نے پولیس پر مظاہرین کے حملے کی مذمت کی تاہم برطانیہ کی بھارتی نژاد وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے مظاہرین کو طاقت سے نہ کچلنے پر  پولیس کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔


وزیر داخلہ کی اس بیان پر برطانیہ کے معتدل رہنماؤں اور اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا جب کہ حکمراں جماعت کے اکثر ارکان نے بھی وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔


جس پر آج برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے وزیر داخلہ سے استعفیٰ لے لیا اور موجودہ سیکرٹری داخلہ جیمز کلیورلی کو وزارت کا عہدہ سونپ دیا جب کہ آج ہی سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو وزیر خارجہ مقرر کردیا گیا۔