زہریلی پولرائزیشن، کمزور جمہوریت Toxic Polarization, Weak Democracy



پشاور سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے باپ نے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ بیٹے نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے آیا تھا، گھر پر اپنی پسند کی جماعت کا جھنڈا لگا دیا، باپ نے منع کیا، بحث و تکرار ہوئی تو والد نے طیش میں آکر بیٹے کو اپنے ریوالور سے گولی مار دی، اب بہت سے لوگ اسے ایک انفرادی واقعہ قرار دیں گے، لیکن صاحبو! یہ انفرادی واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے سیاسی پولرائزیشن جس نے ہمیں اوپر سے لے کر نیچے گھر گھر تک تقسیم کر دیا ہے۔ پھر عدم برداشت اتنی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف ہوتے ہیں، یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت اور معاشرتی تقسیم بڑی خوفناک ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسے روکا نہ گیا تو یہ چیز ہمارے داخلی سماج کو پارہ پارہ کر دے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بہت اچھی باتیں کر جاتے ہیں، مگر افسوس ان کی باتوں پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ اخبارات بھی ان کے بیان کو سنگل یا دو کالم سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو سیاستدان اپنے بیانات سے نفرتیں پھیلاتے ہیں انہیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ سراج الحق نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا  معاشرے میں زہریلی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے جس سے معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ بہت اہم بات ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر آج کے سیاسی ماحول میں کہیں سے لگتا ہے کہ سیاسی قوتوں کی یہ ترجیح ہو سکتی ہے جس بھی جماعت کے قائدین کو دیکھیں وہ تقسیم کررہا ہے، متحد کرنے پر اس کا دھیان ہی نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم ایشوز پر چلائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنا مشن اور لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ مستقبل کے اہداف اور ترجیحات بتاتی ہے جن کی بنیاد پر عوام انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار اور کرپٹ نہ کہہ لیں بات نہیں بنتی۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

 سیاست بھی ایسے کی جاتی ہے جیسے گلی محلے کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار تمیز سے نام تک لینا انہونی بات سمجھی جاتی ہے جب سیاسی پولرائزیشن لیڈرشپ کی سطح پر شروع ہوئی ہے تو اس کا  اثر نیچے تک آتا۔ اوپر کی سطح پر تو چونکہ لیڈروں میں میل ملاقات نہیں ہوتی اس لئے معاملہ اس عمل کشیدگی تک نہیں جاتا، جتنا گلی محلے میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے معاملات پر تشدد ہو جاتے ہیں۔

عوام جب دیکھتے ہیں اسمبلیوں کے اندر حتیٰ کہ ٹی وی پر گروپوں میں مار دھاڑ اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ اپنی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کا رویہ ہماری زندگیوں میں کیوں در آیا ہے؟ اس سوال کا جواب سیاستدان ہی دے سکتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں دیں گے جن کی سیاست کا دار و مدار ہی اس نکتے پر ہو کہ مخالفین پر ذاتی حملے کرکے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے، وہ بھلا کوئی شائستہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آج کل الیکشن مہمات کا دور ہے۔ اتفاق سے میرا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ایک کارنر میٹنگ میں خطاب کررہا تھا۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے مخالف امیدواروں کی کردارکشی کررہا تھا۔ کسی کو چوروں کا سرپرست، کسی کو جھوٹے مقدمات کا عادی اور کسی کو اجرتی قاتلوں کا حامی قرار دے کر باور کررہا تھا کہ اگر حلقے میں سکھ چین سے رہنا ہے تو اسے ووٹ دیں۔ یہ سن کر میں سوچ رہا تھا اس کے مخالف امیدوار بھی اپنے اپنے جلسوں میں یہی کہہ رہے ہوں گے اُن کی نظر میں تو یہ امیدوار بھی دو نمبر کا مجرم ہوگا۔ یہ نچلی سطح کی سیاست کا حال ہے۔ اوپر کی سطح پر دیکھیں تو الزامات کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا، پیپلزپارٹی اپنے تیرو تفنگ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس پر غضب سوشل میڈیا نے ڈھایا ہے۔ کسی کو پٹواری، کسی کو یوتھیا اور کسی کو جیالا کے خطاب دے کر نفرت بھرے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دو جماعتوں کے لیڈر آپس میں رسماً ہاتھ بھی ملا لیں تو خبر بن جاتی ہے، یہ تبصرے ہوتے ہیں دیکھو اندر سے یہ سب ایک ہیں، اوپر سے ہمیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، جب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سطح اتنی بلند ہو جاتی ہے تو جمہوریت کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے جب ایک بار کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتی ہے تو وہ صرف اس جماعت کی نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے اُسے پورے ملک کی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور سیاسی قوتیں بھی اس کے آئینی حق کو تسلیم کرکے اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی پولرائزیشن  الیکشن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے، بلکہ پہلے دن سے نئی حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے۔ افہام و تفہیم اور درگزر ایک ایسا خواب ہے، جو ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔


اس سیاسی پولرائزیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سیاست اور جمہوریت تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی قوتیں اپنی طاقت نہ منوا سکیں اور کٹھ پتلی بن کر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ آج بھی آپ دیکھیں ہر سیاسی جماعت عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے غیبی اشارے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں کسے اشارہ ملتا ہے اور وہ بھاگ کر اپنا کندھا پیش کرتی ہے جب اس ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی بڑی جماعتیں تھیں تو بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو نجانے یہ خیال کیسے آ گیا کہ ایک میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ میثاق ہوا مگر خوئے غلامی نہ بدلی،جونہی موقع ملا پھر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کئے گئے۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اُبھری، اسے اقتدار ملا تو بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے نعرے میں پھنس گئے جس نے سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کر دیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا وہ سیاستدانوں سے نہیں ملیں گے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے ساتھ ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ یوں ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی،جس نے سیاسی قوتوں کو کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ آج وہی رویہ نوازشریف نے اپنایا ہوا ہے۔ 

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

وہ عمران خان کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ نفرت کی سیاست کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ بات بلاول بھٹو تک آ گئی ہے، جو اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ نوازشریف کو چوتھی مرتبہ ہرگز وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ ایسی فضا میں عوام کیوں اثر قبول نہ کریں اور اس پولرائزیشن کا شکار نہ ہوں، جس میں عدم برداشت کا زہر گھل چکا 

لوٹ لوٹ لوٹ--- آزاد امیدوار لوٹ Loot Loot Loot--- independent candidate Loot



تحریک انصاف کہتی ہے اس کے پاس مخالفوں کی ہر چال کا جواب ہے۔ ہر سیر کا سوا سیر ہے مگر ہر گزرتے لمحے کے ساتھ احساس ہو رہا ہے کہ 75 برسوں سے ان "امیچور سیاستدانوں" سے نبٹنے والے "سیر نہیں سوا سیر" ہو چکے ہیں۔ وہ ہر چال چلنے سے پہلے جواب در جواب،بلکہ اس کے بھی جواب در جواب کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے "طاقتوروں" کے مقابلے میں اترنے والی کپتان کی ٹیم کو مسلسل جھٹکے لگ رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد سے شروع ہونے والے جھٹکوں کی شدت زلزلے کے جھٹکوں کی طرح ریکٹر سکیل پر ناپی جائے تو پارٹی"بلے" کا انتخابی نشان چھینے جانے کا جھٹکا یقینا 6.5 سے کم نہیں تھا۔ اس جھٹکے کے آفٹر شاک ابھی تک جاری ہیں۔ تحریک انصاف اپنے آپ کو سونامی سے تشبیہ دیتی ہے، مگر سچ یہ ہے کہ سپریم کورٹ سے انتخابی نشان کا فیصلہ عام زلزلہ نہیں بلکہ سونامی تھا۔ اس جھٹکے نے پوری پارٹی کو بکھیر دیا ہے۔ تحریک انصاف نے دوسری کسی بھی مخالف جماعت سے زیادہ امیدوار کھڑے کئے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے نچلے صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے امیدواروں کے انتخابی نشان جدا ہیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT   CLICK HERE 

 اس کے باوجود کپتان کی ٹیم کو اُمید ہے کہ اس کا ہر کھلاڑی سنچری بنائے گا اور جو سنچری نہ بنا سکا وہ پانچ وکٹیں اُڑائے گا۔ سنچری بنانے والے اور وکٹیں اُڑانے والے کامیابی کے بعد "کس ٹیم" کا جھنڈا اٹھائیں گے اب یہ سوال دِلوں میں "وسوسے" ڈال رہا ہے۔ بلے کے بغیر لڑنے والے "آزاد" امیدواروں پر جال ڈالنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے ہزاروں ووٹ لینے والے ان 6-6 فٹ کے انسانوں کو "بٹیر یا مچھلی" سمجھ لیا گیا ہے کہ جال پھینکا اور ڈوری کھینچ کر شکار سے ٹوکری بھر لی۔ 2018ء میں اس وقت کے فاتح کپتان کے سینئر کھلاڑی جہانگیر ترین نے آزاد امیدواروں پر جس طرح جال پھینکے تھے اب اِس کھیل کو بڑے پیمانے پر کھیلنے کی تیاریاں ہیں۔


بٹیرے اور مچھلیاں پکڑنے والے "ماہرین" کو تیاری پکڑنے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ جیالوں کے ہر دلعزیز لیڈر، بی بی صاحبہ کے فرزند نے اپنی ناتجربہ کاری سے ایک ٹی وی انٹرویو میں جوش جذبات میں اپنے "ارادوں اور تیاریوں"کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ ان کی اس "ناتجربہ کاری" کے بارے ان کے ایک سینئر جانثار سے رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ ہم میں یہ جرأت ہے کہ ہم یہ بات کہہ رہے ہیں مسلم لیگ (ن) اور تجربہ کار جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان تو پہلے ہی اس کی تیاری کر چکے ہیں۔ اس سینئر جیالے نے ازراہِ تفنن کہا کہ "جہازوں میں تیل" بھروایا جا چکا ہے، بس 9 فروری کا انتظار ہے پھر جہاز اپنے اپنے،"بریف کیس اور پیشکشیں"اپنی اپنی اور قسمت اپنی اپنی ہو گی۔ اس کھیل کو اس طرح کھیلا جائیگا یہ 13 جنوری کی رات فیصلہ سننے والوں کو فوری سمجھ نہیں آئی تھی، مگر طاقتوروں کی سرپرستی میں 2024ء کے انتخابی اکھاڑے میں اترنے والی دونوں "لاڈلی جماعتوں" مسلم لیگ (ن) اور استحکام پارٹی کے مدارالمہام کو پتہ تھا کہ یہ سہولت کاری بھی ان کے لئے ہی کی گئی ہے۔ جیالوں کے بزرگ اور مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری سے پہلے ان کے فرزند بلاول بھٹو نے اِس کھیل کو کھیلنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ مجھے یقین ہے پرانے جیالوں کو بلاول کو "زیادہ سمجھدار" کہنے پر اعتراض ہو گا، مگر یاد رکھیں "تخت و تاج" کے لئے دوڑ اپنی اپنی ہوتی ہے اگر بات سمجھ نہیں آئی تو اورنگزیب عالمگیر اور اس کے بھائیوں کی تاریخ پڑھ لیں میری بات سمجھ آ جائے گی۔

13 جنوری کی رات "عطا کئے گئے" انتخابی نشانوں بینگن، سبز مرچ، چینک، بوتل، چمٹا، فرائنگ پین، ریکٹ، ہینڈ پمپ، پیالہ، مور، وائلن اور گٹار، کلاک، دروازہ، ٹرائی سائیکل، ریڈیو، لیب ٹاپ، ڈھول، میڈل، میزائل، وکٹیں، میز کرسی، پیراشوٹ، بطخ، بیڈ (مسہری)، کیلکولیٹر، ڈولفن، ائیر کنڈیشنڈ، کیک، برش اور اس جیسے دوسرے نشانات کی اہمیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان انتخابی نشانوں نے مجھے پاکستان پر طویل ترین عرصہ حکومت کرنے والے حکمران آمر مطلق جنرل ضیاء الحق کے 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کی یاد تازہ کروا دی ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے "نجات" کے لئے غیر جماعتی انتخابات کروائے اور ہر امیدوار کو اِسی طرح سبزیوں، پھل اور گھریلو، زرعی و صنعتی استعمال کی اشیاء پر مشتمل انتخابی نشان الاٹ کروائے۔ اگر میری یادداشت صحیح ہے تو جناب میاں نواز شریف کا انتخابی نشان ٹریکٹر تھا اور "اتفاق" کے بنائے ٹریکٹر حلقے میں گشت کیا کرتے تھے یا بہتر الفاظ میں راؤنڈ لگایا کرتے تھے۔ جنرل ضیا الحق نے ان انتخابی نشانوں پر جیتنے والوں کو "اکٹھا" کیا اور سندھ کے حروں کے پیر و مرشد پیر پگارو کے مشورے پر جناب محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنا دیا۔ جنرل ضیا الحق خوش قسمت تھے طاقت کے بل بوتے پر دھڑلے سے جو چاہا کرلیا۔ آج کے "فیصلہ سازوں"کو پردے کے پیچھے سے سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ چنانچہ رنگ برنگے نشانوں پر آنیوالوں کو مرضی کے "خیموں" یعنی سیاسی جماعتوں میں کھپانا ہوگا۔ تحریک انصاف اس کھیل سے باہر ہو چکی ہے کہ ان کے پاس کوئی ہوائی جہاز والا نہیں ہے۔ 2018ء میں جہانگیر ترین کا طیارہ ان کو میسر تھا اب وہ طیارے والا لے بھی آئیں تو وہ کہاں سے اڑائیں گے۔ ائیر پورٹوں میں ان کا داخلہ تو منع ہے۔


اِن حالات میں تحریک انصاف کے "آزاد" ایم این ایز کی خریداری میں جناب جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی استحکام پارٹی کی "افرادی قوت" بڑھانے کے لئے ایک بار پھر جہانگیر ترین کا طیارہ فضاؤں میں گردش کرے گا، مگر اس بار میدان پنجاب تک محدود نہیں ہو گا بلکہ دوسرے صوبوں میں بھی "پَر پھیلانے" ہوں گے۔ بلاول بھٹو کے لئے سابق گورنر پنجاب اور پی پی پی جنوبی پنجاب کے صدر جناب مخدوم سید احمد محمود کا طیارہ ہمیشہ کی طرح حاضر ہو گا۔ اب رہی بات جناب نواز شریف اور بی بی مریم نواز کی تو وہ ایسے ایک نہیں درجن بھر طیارے خرید سکتے ہیں،مگر انہیں بھی دوسروں کا طیارہ استعمال کرنے کی عادت ہے، مریم نواز شریف کے سمدھی کا طیارہ پہلے استعمال میں رہا ہے، یہ سہولت اب میسر ہوگی یا نہیں یہ پتہ چل ہی جائے گا، جنہوں نے لندن سے یہاں تک پہنچایا ہے وہ یہ مشکل بھی آسان کر ہی دیں گے۔ قیدی نمبر 804 کو پیشگی اطلاع ہم نے دیدی ہے۔ بلاول بھٹو نے تو گزشتہ روز ان کا پورا "چھابہ" ہی خالی کرکے 174 ایم این اے اپنے "ڈربے" میں اکٹھے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ خان صاحب سے بلا کیوں لیا گیا اب سمجھ آرہا ہے۔ اب تو "بٹیروں" کو ہمت دکھانی ہوگی۔ کھیتوں میں آزادی سے دانہ دنکا ڈھونڈنا ہے یا بلاول، نواز شریف اور جہانگیر ترین یا علیم خان کے ڈربوں میں سے کوئی چننا ہے

دنیا کو تباہی سے بچانے والی فوج. An army to save the world from destruction

 

From the time of establishment of Pakistan, its security has been threatened by internal and external enemies. It has also resisted the challenges faced by the country's security through covert conspiracies and the face-to-face response to every "attack" carried out by the enemy.  Contested.

The founder of Pakistan, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, founded the Pakistan Army on the spirit of sacrificing everything for the love of the country.

On the issue of Kashmir, first the refusal of the British leadership and then through the true patriotic military leadership, the achievements of the Pakistan Army began to be wrapped up with the liberation of half of Kashmir.

By removing every obstacle in the way of sustainable peace with the great intention, the vision of the security of humanity, Pakistan Army has created a new history of crushing terrorism.

Since then, the continuous successes made the Pakistan Army the best army in the world. The standard of training of the Pakistan Army remained the highest even in conventional warfare.

Defeating the aggressive intentions of the enemy every time, he won the hearts of the pacifists.

The combat skills, morale and fitness standards of the young men were recognized worldwide in the exercises.

The Pakistan Army, which is always ready to protect the country's borders, has never allowed the country's security to be compromised.

Defense of the country's land borders has been the main objective of the army, which is fighting against the internal and external enemies of the country.

The Pakistan Army was established in 1947 upon the independence of Pakistan.

It is a volunteer professional fighting force.

Active Manpower of Pakistan Army as of April 2013 according to International Institute of Strategic Studies

It was around 7,25,000.

In addition, reserve or inactive 5,50,000 (those serving up to the age of 45 years) manpower is estimated.

It reaches about 12,75,000 people.

Although there is a provision for conscription in the constitution of Pakistan, it has never been used.

Pakistan Army including Pakistan Navy and Pakistan Air Force is the seventh largest army in the world.

Since independence in 1947, Pakistan Army has performed the duty of defending the country in 4 wars with India and numerous border skirmishes.


قیام پاکستان کے وقت سے ہی اندرونی و بیرونی دشمنوں کی طرف سے اس کی سلامتی کو خطرات لاحق رہے ۔دشمن کے سامنے سے کئے جانے والے ہر "وار "کا منہ توڑ جواب اور درپردہ سازشوں کے ذریعے ملکی سلامتی کو درپیش چیلنجز کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا ۔

بانی ء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پاک فوج کی بنیاد ہی وطن سے محبت کے لیے ہر شے قربان کرنے کے جذبے پر رکھی ۔

کشمیر کے قضیے پر پہلے انگریز قیادت کے انکار اور پھر حقیقی حب الوطن عسکری قیادت کے ذریعے آدھے کشمیر کی آزادی سے پاک فوج کی کامیابیاں سمیٹنے کی شروعات ہوئیں ۔

عظیم قصد، انسانیت کی سلامتی کے ویژن سے پائیدار امن کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ دور کرکے پاک فوج نے دہشتگردی کچلنے کی نئی تاریخ رقم کردی ۔

اس کے بعد سے مسلسل کامیابیوں نے پاک فوج کو دنیا کی بہترین فوج بنا دیا۔روایتی جنگ میں بھی پاک فوج کی تربیت کا معیار اعلیٰ ترین رہا۔

دشمن کے جارحانہ عزائم کو ہر بار ناکام بناتے ہوئےامن پسندوں کے دل جیت لئے۔

مشقوں میں جوانوں کی جنگی مہارت ، مورال اور فٹنس کے معیار کی دنیا معترف ہوئی ۔

ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہنے والی پاک فوج نے ملکی سلامتی پر کبھی آنچ نہیں آنے دی ۔

ملک کے اندرونی و بیرونی دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی فوج کا سب سے بڑا مقصد مُلک کی ارضی سرحدوں کا دِفاع رہا ہے۔

پاکستان کی فوج کا قیام 1947 میں پاکستان کی آزادی پر عمل میں آیا۔

یہ ایک رضاکار پیشہ ور جنگجو قوت ہے۔

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے مطابق اپریل 2013 میں پاک فوج کی فعال افرادی قوت

تقریباً 7،25،000 تھی۔

اس کے علاوہ ریزرو یا غیر فعال 5،50،000 افراد(جو 45 سال کی عمر تک خدمات سر انجام دیتے ہیں)کو ملاکر افرادی قوت کا تخمینہ

تقریباً 12،75،000 افراد تک پہنچ جاتا ہے۔

اگرچہ آئین پاکستان میں جبری فوجی بھرتی کی گنجائش موجود ہے، لیکن اسے کبھی استعمال نہیں کیا گیا۔

پاک فوج بشمولِ پاک بحریہ اور پاک فضائیہ کے دُنیا کی ساتویں بڑی فوج ہے۔

آزادی 1947ء کے بعد سے پاک فوج بھارت سے 4 جنگوں اورمتعدد سرحدی جھڑپوں میں دفاع وطن کا فریضہ انجام دے چکی ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $70 WITHOUT ANY INVESTMENT     CLICK HERE 


Also notable for the military assistance of the allied Arab countries in the Arab-Israeli War, the Iraq-Kuwait War and the Gulf War

 Perform services.

Recent major operations include Operation Black Thunderstorm, Operation Rah Rast and Operation Rah Najat.

Apart from the battles, the Pakistan Army has also been participating in the peace efforts of the United Nations.

 A detachment of Pakistani forces, while part of the United Nations peacekeeping mission, rescued trapped American soldiers during Operation Gothic Serpent in Mogadishu, Somalia in 1993.

By saving lives, he left a mark on the world of his eternal bravery and professionalism

 The motto of the Pakistan Army is: "Faith, piety and jihad have been in the way of Allah. The Pakistan Army has played a role in protecting the international community from barbaric terrorists."

 They made eternal sacrifices to save the world from a terrible disaster, which has been acknowledged by the international community many times.

 Inspite of all this, the miscreants propagated against the Pakistan Army.

 The insidious enemy, who is always ready to destroy humanity, has insulted the Pakistan Army.

Pakistan Army has proved its ability to crush all kinds of terrorism to the world.

Conspiracy to spread chaos in the country through May 9 tragedy, very patient, steadfast

won the hearts of the entire nation by failing with endurance and patience

This is the reason that today the entire nation is standing by the side of Pakistan Army.

 The patriotic people of Pakistan to bring the characters of May 9 tragedy to Kfir role

 Looking forward with great impatience.

A similar external aggression was perpetrated by the Islamic brother country Iran.

On January 17, the sovereignty of the country was attacked, to which Pakistan reacted strongly

And he also announced to give a blunt answer.

The Pakistan Army made the country's defense impregnable, terrorists on Iranian soil the other day

Proved the superiority of his professional skills to the world by successfully targeting the hideouts of

Those plotting to endanger the integrity of Pakistan including India

The funerals of wishes went out.

On the other hand, the military leadership for the development and prosperity of the people along with national security

It has played an effective role to avoid economic crises.

The people used the economic conditions of the country as the basis and criticized the Pakistan Army unnecessarily

The narrative of the miscreants has been rejected.

General Syed Asim Munir, Chief of Army Staff of Pakistan Army, the axis of power and authority in Pakistan

For the purpose of establishing a new elected government by declaring the people

By showing determination to ensure timely conduct of transparent elections, the entire nation has been made hostage.

By coming on the same page as the military leadership with the real leadership elected in election 2024

The decisions that will be made keeping the country's interest first

Of course, he is stable, strong by opening all the ways for the development and prosperity of the people of Pakistan

And will move towards invincible Pakistan.

IF YOU WANT TO EARN DAILY $70 WITHOUT ANY INVESTMENT     CLICK HERE 

عرب اسرائیل جنگ، عراق کویت جنگ اور خلیج کی جنگ میں حلیف عرب ممالک کی فوجی امداد کے لیےبھی نمایاں

 خدمات انجام دیں۔

حالیہ بڑی کارروائیوں میں آپریشن بلیک تھنڈر سٹارم، آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات شامل ہیں۔

لڑائیوں کے علاوہ پاک فوج، اقوامِ متحدہ کی امن کوششوں میں بھی حصّہ لیتی رہی ہے۔

پاکستانی افواج کے ایک دستے نے اقوام متحدہ امن مشن کا حصہ ہوتے ہوئے 1993ء میں موغادیشو، صومالیہ میں آپریشن گوتھک سرپنٹ کے دوران میں پھنسے ہوئے امریکی فوجیوں کی

جانیں بچاکر دنیا میں اپنی لازوال بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کی دھاک بٹھا دی ۔ِ

پاک فوج کا نصب العین ہے: ''ایمان، تقویٰ اور ِجہاد فی سبیل اللہ رہا ہے ۔پاک فوج نے عالمی برادری کو وحشی دہشتگردوں سے بچانے کی خاطر کردار نبھایا ۔

دنیا کو خوفناک تباہی سے بچانے کیلئے لازوال قربانیاں دیں جس کا عالمی برادری نے کئی بار اعتراف کیا ہے ۔

ان سب کے باوجود شرپسندوں کی جانب سے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا ۔

ہمہ وقت انسانیت کی تباہی کے لیے تیار مکار دشمن نے پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کی ۔

پاک فوج نے ہر طرح کی دہشتگردی کچلنے کی صلاحیت دنیا پر ثابت کردی ۔

ملک کے اندر سانحہ 9 مئی کے ذریعے انتشار پھیلانے کی سازش انتہائی صبر،ثابت قدمی

، برداشت اور تحمل سے ناکام بناکر پوری قوم کے دل جیت لئے

یہی سبب ہے کہ آج پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔

پاکستان کے محب وطن عوام سانحہ 9مئی کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے

بڑی بے صبری سے منتظر ہیں ۔

اسی طرح کی ایک بیرونی جارحیت کا ارتکاب برادر اسلامی ملک ایران سے سرزد کروایا گیا ۔

جنوری 17 کو ملک کی خود مختاری پر حملہ کیا گیا جس پر پاکستان نے شدید ردعمل دیا

اور اس کا منہ توڑ جواب دینے کا اعلان بھی کردیا ۔

پاک فوج نے ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بناتے ہوئے دوسرے دن ایرانی سرزمین پر دہشتگردوں

کے ٹھکانوں کو کامیابی سے نشانہ بناتے ہوئے دنیا پر اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی برتری ثابت کردی

بھارت سمیت پاکستان کی سالمیت کو خطرات سے دوچار کرنے کی سازشیں رچانے والوں کی

خواہشوں کے جنازے نکل گئے۔

دوسری طرف عسکری قیادت نے ملکی سلامتی کے ساتھ عوام کی ترقی وخوشحالی کی خاطر

معاشی بحرانوں کو ٹالنے کے لئے موثر کردار نبھایا ہے ۔

عوام نے ملک کے معاشی حالات کو بنیاد بنا کر پاک فوج کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے والے

شرپسندوں کا بیانیہ مسترد کردیا ہے ۔

پاک فوج کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے پاکستان میں طاقت اور اختیار کا محور

عوام کو قرار دیتے ہوئے ان کی رائے سے نئی منتخب حکومت قائم کرنے کی خاطر

شفاف الیکشن کے بروقت انعقاد کو یقینی بنانے کا عزم ظاہر کرکے پوری قوم کو گرویدہ بنالیا ہے ۔

الیکشن 2024ء میں حقیقی قیادت منتخب ہونے کے ساتھ عسکری قیادت کے ایک صفحے پر آ کر

ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوے جو فیصلے ہوں گے

یقینا" وہ پاکستان کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے تمام راستے کھول کر مستحکم ،مضبوط

اور ناقابل تسخیر پاکستان کی طرف گامزن ہونگے 

leave the world behind. دنیا کو پیچھے چھوڑ دو.

 Sure, leaving the world behind can be interpreted in different ways. Here are a few approaches:


1. **Mental Escape:** Take time for introspection, meditation, or mindfulness. Disconnect from stressors by focusing on your thoughts or simply being present in the moment.


2. **Physical Escape:** Consider a change of scenery through travel or spending time in nature. Exploring new places can provide a fresh perspective and a break from routine.


3. **Digital Detox:** Reduce screen time and social media. Unplug periodically to avoid information overload and to foster real-world connections.


4. **Hobbies and Passion:** Immerse yourself in activities you love. Whether it's reading, art, sports, or music, engaging in your passions can create a sense of detachment from daily pressures.


5. **Social Detox:** Evaluate relationships and surround yourself with positive influences. Sometimes, distancing from toxic relationships can contribute to a healthier mindset.

Remember, leaving the world behind doesn't necessarily mean isolating yourself permanently; it's about finding balance and rejuvenating your mind and spirit.


If you want to earn daily $50 without any investment  click here 


یقینی طور پر، دنیا کو پیچھے چھوڑنے کی مختلف طریقوں سے تشریح کی جا سکتی ہے۔  یہاں چند طریقے ہیں:


 1. **ذہنی فرار:** خود شناسی، مراقبہ، یا ذہن سازی کے لیے وقت نکالیں۔  اپنے خیالات پر توجہ مرکوز کرکے یا صرف اس لمحے میں موجود رہ کر تناؤ سے منقطع ہوجائیں۔


 2. **جسمانی فرار:** فطرت میں سفر یا وقت گزارنے کے ذریعے مناظر کی تبدیلی پر غور کریں۔  نئی جگہوں کی تلاش ایک تازہ نقطہ نظر اور معمول سے وقفہ فراہم کر سکتی ہے۔


 3. **ڈیجیٹل ڈیٹوکس:** اسکرین ٹائم اور سوشل میڈیا کو کم کریں۔  معلومات کے زیادہ بوجھ سے بچنے اور حقیقی دنیا کے رابطوں کو فروغ دینے کے لیے وقتاً فوقتاً ان پلگ کریں۔


 4. **مشوق اور جنون:** اپنے آپ کو اپنی پسند کی سرگرمیوں میں غرق کردیں۔  چاہے یہ پڑھنا ہو، فن ہو، کھیل ہو یا موسیقی، اپنے شوق میں شامل ہونا روزمرہ کے دباؤ سے لاتعلقی کا احساس پیدا کر سکتا ہے۔


 5. **سوشل ڈیٹوکس:** رشتوں کا اندازہ لگائیں اور اپنے آپ کو مثبت اثرات سے گھیر لیں۔  بعض اوقات، زہریلے تعلقات سے دوری صحت مند ذہنیت میں حصہ ڈال سکتی ہے۔


 یاد رکھیں، دنیا کو پیچھے چھوڑنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود کو مستقل طور پر الگ تھلگ کر لیا جائے۔  یہ توازن تلاش کرنے اور آپ کے دماغ اور روح کو تازہ کرنے کے بارے میں ہے۔

Sultan Al-Faisal: Silent Sovereignty

 "Sultan Al-Faisal: Silent Sovereignty"


Introduction:

Our documentary begins with a captivating overview of Sultan Al-Faisal's reign, setting the stage for an exploration into the lesser-known aspects of his life and rule. Viewers are introduced to the allure of this enigmatic ruler and the intrigue surrounding his legacy.


Act 1: Rise to Power

Delve into Sultan Al-Faisal's early life and the circumstances that led to his ascension to the throne. Uncover the challenges he faced and the strategic decisions that propelled him to power. Interviews with historians and experts provide context to the geopolitical landscape during his era.

Act 2: Silent Diplomacy

Explore Sultan Al-Faisal's unique approach to diplomacy, marked by a quiet strength and strategic acumen. Highlighting key moments of his international engagements, the documentary unveils the behind-the-scenes negotiations and alliances that shaped his kingdom's position on the global stage.

If you want to earn daily $50 without any investment  click here 

Act 3: Cultural Renaissance

Examine Sultan Al-Faisal's impact on the cultural and artistic landscape of his kingdom. Discover the patronage of the arts, architecture, and literature that flourished under his rule. Rare footage and interviews with cultural figures showcase how his reign fostered a period of creativity and intellectual growth.


Act 4: Secrets of the Palace

Enter the inner sanctum of Sultan Al-Faisal's palace and uncover the hidden intrigues and personal anecdotes that defined his rule. Family members, courtiers, and insiders share anecdotes that provide a humanizing touch to the sultan's character, shedding light on his private life.


Act 5: Legacy and Influence

Reflect on Sultan Al-Faisal's enduring legacy and the impact he had on the region. Trace the echoes of his rule in contemporary politics, culture, and governance. Interviews with descendants, political figures, and cultural leaders offer insights into the lasting imprint of his silent sovereignty.


Conclusion:

The documentary concludes by synthesizing the various facets of Sultan Al-Faisal's life, presenting a comprehensive and nuanced portrait of this unique ruler. Viewers are left with a deeper understanding of a sultan whose story transcends the boundaries of time, leaving an indelible mark on history.


"سلطان الفیصل: خاموش خودمختاری"


 تعارف:

 ہماری دستاویزی فلم سلطان الفیصل کے دورِ حکومت کے ایک دلکش جائزہ کے ساتھ شروع ہوتی ہے، جو اس کی زندگی اور حکمرانی کے غیر معروف پہلوؤں کی کھوج کا مرحلہ طے کرتی ہے۔  ناظرین کو اس پُراسرار حکمران کی رغبت اور اس کی وراثت کے ارد گرد کی سازش سے متعارف کرایا جاتا ہے۔

 ایکٹ 1: طاقت میں اضافہ

 سلطان الفیصل کی ابتدائی زندگی اور ان حالات کا جائزہ لیں جو ان کے تخت پر چڑھنے کا باعث بنے۔  انہیں درپیش چیلنجوں اور حکمت عملی کے فیصلوں سے پردہ اٹھائیں جنہوں نے اسے اقتدار تک پہنچایا۔  مورخین اور ماہرین کے انٹرویوز ان کے دور میں جیو پولیٹیکل منظر نامے کو سیاق و سباق فراہم کرتے ہیں۔


 ایکٹ 2: خاموش ڈپلومیسی

 سلطان الفیصل کی سفارت کاری کے لیے منفرد انداز کو دریافت کریں، جس میں ایک پرسکون طاقت اور حکمت عملی کی مہارت ہے۔  اس کی بین الاقوامی مصروفیات کے اہم لمحات کو نمایاں کرتے ہوئے، دستاویزی فلم پردے کے پیچھے ہونے والے مذاکرات اور اتحادوں کی نقاب کشائی کرتی ہے جنہوں نے عالمی سطح پر اس کی بادشاہی کی پوزیشن کو تشکیل دیا۔


 ایکٹ 3: ثقافتی نشاۃ ثانیہ

 سلطان الفیصل کی سلطنت کے ثقافتی اور فنکارانہ منظرنامے پر اس کے اثرات کا جائزہ لیں۔  ان فنون، فن تعمیر اور ادب کی سرپرستی دریافت کریں جو ان کے دور حکومت میں پروان چڑھے۔  ثقافتی شخصیات کے ساتھ نایاب فوٹیج اور انٹرویوز یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح ان کے دور حکومت نے تخلیقی صلاحیتوں اور فکری ترقی کے دور کو فروغ دیا۔


 ایکٹ 4: محل کے راز

 سلطان الفیصل کے محل کے اندرونی حرم میں داخل ہوں اور پوشیدہ سازشوں اور ذاتی کہانیوں سے پردہ اٹھائیں جنہوں نے اس کی حکمرانی کی تعریف کی۔  خاندان کے افراد، درباری، اور اندرونی لوگ ایسی کہانیاں بانٹتے ہیں جو سلطان کے کردار کو ایک انسانی ٹچ فراہم کرتے ہیں، اس کی نجی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں۔


 ایکٹ 5: میراث اور اثر

 سلطان الفیصل کی پائیدار میراث اور خطے پر اس کے اثرات پر غور کریں۔  عصری سیاست، ثقافت اور حکمرانی میں اس کی حکمرانی کی بازگشت کا پتہ لگائیں۔  اولاد، سیاسی شخصیات اور ثقافتی رہنماؤں کے انٹرویوز ان کی خاموش خودمختاری کے دیرپا نقوش کے بارے میں بصیرت پیش کرتے ہیں۔


 نتیجہ:

 دستاویزی فلم کا اختتام سلطان الفیصل کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی ترکیب سے ہوتا ہے، اس منفرد حکمران کی ایک جامع اور باریک تصویر پیش کی جاتی ہے۔  ناظرین ایک ایسے سلطان کے بارے میں گہری تفہیم کے ساتھ رہ جاتے ہیں جس کی کہانی وقت کی حدود سے گزر کر تاریخ پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتی ہے۔

فکری آزادی یا فکری غلامی؟ Intellectual freedom or intellectual slavery

مولانا عمر احمد عثمانیؒ بیسویں صدی کے ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ تحریک پاکستان کے مشہور کردار اور مفسر قرآن مولانا شبیر احمد عثمانیۙ کے بھتیجے اور مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے بیٹے تھے۔ یہ وہی ظفر احمد عثمانیؒ تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرایا تھا۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ حضرت تھانویؒ کے بھانجے تھے۔ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے اجداد میں دو پشت اوپر شیخ کرامت حسین نامی بزرگ تھے جو بانی دارالعلوم دیو بند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے استاد تھے۔ بعد میں انہی کی صاحبزادی سے مولانا ناتویؒ کی شادی ہوئی اور وہ مولانا کے سسر کہلائے اور اسی تعلق کی بنا پر مولانا اپنے آبائی وطن نانوتہ سے دیوبند منتقل ہوئے تھے۔ مولانا عمر احمد عثمانیؒ اپنے عہد کے تجدد پسند دانشور غلام احمد پرویز سے متاثر تھے۔ فجر الاسلام اور ضحیٰ الاسلام مشہور مصری مؤرخ ڈاکٹر احمد امین مصری کی اسلامی تہذیب و ثقافت پر مشہور عالم کتب تھیں جن کا ترجمہ مولانا عمر احمد عثمانیؒ نے کیا تھا اور ادارہ طلوع اسلام نے ان کے یہ دونوں ترجمے شائع کیے تھے۔ غلام احمد پرویز سے متاثر ہو کر انہوں نے آزادانہ غور و فکر اور روایتی فکر سے ہٹ کر "فکری آزادی" کا نعرہ بلند کیا تھا۔ اس "فکری آزادی" کے حوالے سے ان کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور شیخ تھانویؒ انہیں سمجھاتے رہتے تھے مگر مولانا عمر عثمانیؒ اپنے فہم اور دلیل کو حرف آخر سمجھتے تھے۔

 

مولانا عمر عثمانیؒ جب مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے فارغ التحصیل ہوئے تو انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کا ارادہ کیا مگر والد صاحب نے اس کی اجازت نہیں دی۔ تین سال تک ناکام رہنے کے بعد انہوں نے ارادہ کیا کہ بغیر اجازت کے ہی اس ارادہ کو عملی جامہ پہنا لیا جائے۔ انہوں نے اتنی رقم جمع کی کہ چار ماہ تک میں اپنا خرچ خود برداشت کر سکیں۔ 1937 میں رمضان کا مہینہ تھا، مولانا عمر عثمانیؒ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اور والد صاحب سے یہ کہہ کر کہ میں کاندھلہ جا رہا ہوں تھانہ بھون سے نکلے اور کاندھلہ میں تین روز قیام کے بعدسیدھا دہلی چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مدرسہ فتح پوری میں مولوی فاضل کلاس میں داخلہ لے لیا۔ عید کی چھٹیاں ہوئیں تو تھانہ بھون آنا پڑا۔ حضرت تھانویؒ کو معلوم تھا کہ مولانا عمر عثمانیؒ کاندھلہ میں تین چار روز سے زیادہ نہیں ٹھہرتے تھے۔ 

if you want to earn daily $37 without any investment

  clickhere

جب وہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو حسب عادت سلام کرنے حاضر ہوئے تو حضرت نے پوچھ لیا کہ اس مرتبہ تم کاندھلہ بہت رہے۔ آخر انہیں بتانا پڑا کہ وہ کاندھلہ کے بجائے دہلی چلے گئے تھے۔ حضرت نے پوچھا دہلی کیوں گئے؟ مولانا عثمانیؒ کچھ دیر خاموش رہے، حضرت تھانویؒ نے خود ہی فرمایا کہ کیا ملازمت تلاش کرنے گئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ حضرت نے پوچھا کہ پھر کیوں گئے؟ آخر مولانا عثمانیؒ نے کہہ دیا کہ انہوں نے فتحپوری مدرسہ میں مولوی فاضل کی کلاس میں داخلہ لے لیا ہے۔ حضرت نے بڑی حیرت سے کہا مولوی فاضل کلاس میں؟ انہوں نے عرض کیا، جی۔ حضرت خاموش ہو گئے۔ حضرت اس وقت اپنی سہ دری کے برآمدہ میں وضو فرما رہے تھے، جب تک وہ وضو فرماتے رہے مولانا عثمانیؒ وہیں بیٹھے رہے۔ نہ حضرت تھانوی بولے۔ نہ انہوں نے کچھ عرض کیا۔ اس برآمدہ کے ساتھ ہی مولانا عثمانیؒ کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کا کمرہ تھا جہاں وہ اعلاء السنن پر کام کر رہے تھے۔ یہ ساری گفتگو مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے بھی سن لی۔ حضرت تھانویؒ وضو کر کے اُٹھ گئے۔ مولانا عمر عثمانیؒ نے بھی نماز پڑھی اور گھر چلے آئے۔ نماز کے بعد ان کے والد مولانا ظفر احمد عثمانیؒ بھی آ گئے اور آتے ہی اہلیہ پر برس پڑے کہ صاحبزادے کی حرکت دیکھی۔ مولوی فاضل کی کلاس میں داخلہ لیا ہے۔ حضرت تھانویؒ کو بہت صدمہ ہوا ہے اور حضرت نے بڑے حیرت و استعجاب سے یوں فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ کچھ دنوں بعد حضرت تھانویؒ نے مولانا عمر عثمانیؒ کو بلایا اور فرمایا کہ تمہیں ابھی سے مستقبل کی اتنی فکر کیوں ہے۔ مولوی ظفر نے مجھے بتایا ہے کہ جب تک تم پڑھتے رہے وہ تمہیں بیس روپے ماہوار دیتے رہے ہیں۔ کیوں یہ ٹھیک ہے؟ مولانا عمر عثمانیؒ نے کہا جی ہاں ٹھیک ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ مولوی ظفر نے میرے پوچھنے پر بتایا کہ وہ بہو کو جیب خرچ کے لیے دس روپے ماہوار دیتے ہیں۔ کیوں یہ بھی ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔ حضرت تھانویؒ فرمانے لگے کہ مولوی ظفر کہتے ہیں کہ میں جو کچھ کماتا ہوں تمہارے لیے ہی کماتا ہوں، میں قبر میں تو اپنے ساتھ کچھ لے جانے سے رہا پھر تمہیں ابھی سے مستقبل کی اس قدر فکر کیوں ہے؟ مولانا عمر عثمانیؒ خاموش رہے مگر بہر حال فیصلہ انہوں نے خود کیا اور مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا کیونکہ وہ اس فیصلے سے بہت پہلے "فکری آزادی" کا فیصلہ کر چکے تھے۔


مولانا عمر عثمانی کے "فکری آزادی" کے نعرے کی طرح حال ہی میں میرے ایک ممدوح اور استاد ڈاکٹر صاحب نے بھی "فکری آزادی" کا نعرہ بلند کیا ہے۔ یہ نعرہ انہوں نے سوشل میڈیا کی دیوار پر آویزاں کیا اور اس نعرے کے بعد ایک ہجوم تھا جو ان کی وال پر اُمڈ آیا اور واہ واہ کے ساتھ اش اش بھی کر اٹھا۔ میرے یہ ممدوح ڈاکٹر صاحب سوشل میڈیا پر جتنے عرصے سے متحرک ہیں اور جتنی تندہی سے متحرک ہیں اتنی فوج تو ماشاء اللہ اکٹھی کر چکے ہیں کہ ان کی طرف سے کوئی پوسٹ سامنے آتے ہی واہ واہ اور طنز و تشنیع کا اچھا خاصا اہتمام ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو "اون" کریں یا نہ لیکن بہر حال یہ "صدقہ جاریہ" ان کے نامہ اعمال میں ہی لکھا جاتا ہے۔ اس اعلان کے بعد بھی کچھ اسی طرح کے تاثرات سامنے آئے، "فکری آزادی" کے انتخاب پر داد و تحسین کے ساتھ روایت و اہل روایت کو بھی احساس دلایا گیا۔ شاید ڈاکٹر صاحب کو بھی اس ''فکری آزادی'' کے وہ فوائد و ثمرات معلوم نہیں تھے جو ان کے چاہنے والوں نے ان کو گنوائے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب بھی اب اپنے متبعین کے لیے "اکابر" کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ انہوں نے شعوری عمر سے روایتی فکر سے الگ ہو کر "فکری آزادی" کا جو مسلک اختیار کیا تھا اب اس مسلک کے پیروکاروں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی فکری آزادی کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمہ روایتی فکر، اس کے استدلال اور نتائج سے اتفاق ضروری نہیں بلکہ ہر کسی کو از خود اپنی عقل، اپنے فہم اور استدلال سے کسی نتیجے پر پہنچنے کا حق ہونا چاہئے۔ لیکن اس میں مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے "فکری آزادی" کے عنوان سے جس مسلک کی بنا ڈالی ہے اس کے پیرو کاروں کے نزدیک ڈاکٹر صاحب ایسے "اکابر" ہیں جو مکمل طور پر صحیح الفکر ہیں اور ان کے استدلال اور نتائج ہے قدامت پسندی، تنگ نظری اور عصری شعور سے بے گانگی 

سلطان صلاح الدین ایوبی Sultan Salahuddin Ayyubi



 Salah ad-Din Ayyubi, commonly known as Saladin, was a 12th-century Muslim military leader and the first sultan of Egypt and Syria. He rose to prominence during the Crusades, a series of religious wars between Christians and Muslims.

Saladin was born in 1137 in Tikrit, Iraq, and he became a military commander under the leadership of his uncle Shirkuh. After Shirkuh's death, Saladin took command of the army and eventually became the vizier of the Fatimid Caliphate in Egypt.


One of Saladin's most significant achievements was the recapture of Jerusalem from the Crusaders in 1187. This event, known as the Battle of Hattin, led to the fall of the city. Saladin's reputation for chivalry and his humane treatment of prisoners earned him respect even among his enemies.

if you want to earn daily $100 without any investment  click here 

Despite being a formidable military leader, Saladin was also known for his diplomatic skills. He signed various truces with the Crusaders, demonstrating a pragmatic approach to coexistence in the region.


Saladin's legacy extends beyond his military conquests; he is remembered for unifying various Muslim territories, establishing a strong administration, and fostering a sense of cultural exchange. After his death in 1193, his descendants continued to rule parts of the Middle East.


Overall, Saladin played a crucial role in the complex history of the Crusades, leaving a lasting impact on the region and earning admiration for his leadership qualities.


صلاح الدین ایوبی، جسے عرف عام میں صلاح الدین کے نام سے جانا جاتا ہے، 12ویں صدی کے مسلم فوجی رہنما اور مصر اور شام کے پہلے سلطان تھے۔  وہ صلیبی جنگوں کے دوران نمایاں ہوا، جو عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا۔


 صلاح الدین 1137 میں تکریت، عراق میں پیدا ہوئے اور وہ اپنے چچا شرکوہ کی قیادت میں ایک فوجی کمانڈر بنے۔  شرکوہ کی موت کے بعد، صلاح الدین نے فوج کی کمان سنبھالی اور بالآخر مصر میں فاطمی خلافت کا وزیر بن گیا۔

 صلاح الدین کی سب سے اہم کامیابیوں میں سے ایک 1187 میں صلیبیوں سے یروشلم پر دوبارہ قبضہ کرنا تھا۔ یہ واقعہ جسے حطین کی جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، شہر کے زوال کا باعث بنا۔  صلاح الدین کی بہادری کی شہرت اور قیدیوں کے ساتھ اس کے انسانی سلوک نے اسے اپنے دشمنوں میں بھی عزت بخشی۔


 ایک مضبوط فوجی رہنما ہونے کے باوجود، صلاح الدین اپنی سفارتی مہارت کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔  اس نے صلیبیوں کے ساتھ مختلف جنگ بندیوں پر دستخط کیے، خطے میں بقائے باہمی کے لیے عملی نقطہ نظر کا مظاہرہ کیا۔


 صلاح الدین کی میراث اس کی فوجی فتوحات سے آگے بڑھی ہے۔  انہیں مختلف مسلم علاقوں کو متحد کرنے، ایک مضبوط انتظامیہ قائم کرنے اور ثقافتی تبادلے کے احساس کو فروغ دینے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔  1193 میں اس کی موت کے بعد، اس کی اولاد نے مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں پر حکمرانی جاری رکھی۔


 مجموعی طور پر، صلاح الدین نے صلیبی جنگوں کی پیچیدہ تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا، جس نے خطے پر دیرپا اثر چھوڑا اور اپنی قائدانہ خوبیوں کی تعریف کی۔