ووٹ کی عزت کیا ہے؟ What is the honor of the vote?




 سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ، عبدالقیوم  نے مسلم لیگ نون کے لاہور کے بلاول بھٹو کے مقابلے میں امیدوار عطاء اللہ تارڑ پر طنز کیا، کہا، 'عطا بھائی، وہ ووٹ کو عزت دو والا گانا نہیں چلاتے ان دنوں؟ سنا نہیں بہت عرصے سے۔کسی روز چلا ہی دیں۔' مسلم لیگ نون کو آج کل اس حوالے سے خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے اور اس میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں حالانکہ یہ وہی بلاول بھٹو زرداری ہیں جن کے والد نے پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کہہ دیا تھا کہ ان سے کوئی امید نہ رکھی جائے کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے۔ جی ہاں، اسی پیپلزپارٹی کے سربراہ ہیں جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر پہلے سینیٹ پھر چئیرمین سینیٹ کے الیکشن اغواء کئے تھے اور جمہوری قوتوں کو شکست دے کر ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگائے تھے، وہی پیپلزپارٹی جس نے پراجیکٹ عمران کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے پہلے مہرے کا کردارادا کیا تھا اور بلوچستان کی نواز لیگ کی حکومت ختم کی تھی۔ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی، بے نظیر بھٹو کے این آر او لینے تک اور ذوالفقار علی بھٹو کے آمریت کے آٹھ سال تک وزیر ہونے تک۔ یہاں تک نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے عمران خان بن کے پاکستان توڑنے تک۔ جانے دیجئے، بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔

میں نے سوچا، یہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ بنیادی طور پر وہ شے ہے جو ووٹر سے جڑی ہوئی ہے۔ ووٹ بے جان ہوتا ہے جبکہ ووٹر جاندار ہوتا ہے۔ لہٰذاووٹ کی اصل عزت ووٹر کی عزت ہے۔ سیاسی جماعتوںکو ہی نہیں بلکہ حکومتوں، فوجوں، عدالتوں اور افسروں وغیروں وغیروں کو بھی ووٹر کو عزت دینی چاہئے۔ ایک اور کنفیوژن شروع میں ہی دور کر لیجئے کہ ووٹ کو عزت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کہیں، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہائوس پر حملے کر دیں، شہداء کی یادگاریں شہید کریں۔ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کے منہ کو لگا م ہی نہ ہو، جو آپ چاہیں کہتے، جو چاہیں کرتے پھریں، یہ ووٹ کو عزت نہیں بلکہ خود سری ہے۔ یہ آزادی بھی نہیں بلکہ مادر پدر آزادی ہے اور کسی بھی ریاست میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جتنی بڑی آزادی ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی ذمے داری بندھی ہوتی ہے۔ مجھے آپ کے گھر کے جانے کی آزادی ہے تو میری ذمے داری ہے کہ آپ کی خواتین کی عزت کروں، ان کے سامنے نظریں جھکا کے رکھوں۔ پرانی مثال دُوں، آپ کو ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر وہ ہاتھ میری ناک کو چھوئے، یہ آزادی نہیں حملہ ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40    CLICK HERE 

بات سمجھ آ رہی ہے یا نہیں۔ ووٹ کو عزت دینا اصل میں ووٹر کو عزت دینا ہے کیونکہ ووٹر کے بغیر ووٹ کا کوئی وجود نہیں ہے اور ووٹر کو عزت دینا کیا ہے۔ میں ایک ووٹر ہوں اور مجھے اپنے ووٹ کے بدلے میں اپنے شہر میں اورنج لائن، میٹرو بس اور سپیڈو جیسی پبلک ٹرانسپورٹ ملتی ہے تو یہ میرے ووٹ کو عزت ہے، مجھے بطور ووٹر عزت ہے۔ ایک ووٹر کے بچوں کو دانش سکول ملتے ہیں، اس کے بچوں کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ملتے ہیں تو یہ بھی اس کی عزت ہے۔ ایک ووٹر کی گلی پکی ہوتی ہے اور اسے دوسرے شہر جانے کے لئے موٹر وے ملتی ہے تو یہ بھی ووٹر ہی کی عزت ہے۔ میں ایک ووٹر ہوں اور اگر میرے ووٹ کے جواب میں مجھ پر بزدار جیسی بدبودار حکمرانی مسلط نہیں کی جاتی، گوگیوں کی کرپشن کو تحفظ نہیں دیا جاتا تو یہی میرے ووٹ کی عزت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی نے آدھے سے زیادہ پاکستان میں ملنے والے ووٹوں کی بدترین توہین کی جب اس نے تاریخ کی بدترین حکمرانی اس پر عذاب کی طرح نازل کی۔ یہ ووٹ کی تذلیل تھی کہ ووٹر کے شہر کے سڑکوں پر گڑھے تھے، گلیاں اور محلے کچر ا کنڈی بنے ہوئے تھے۔ اگر آپ کو ووٹ کو عزت دینے کی فلاسفی سمجھ آ گئی ہو تو ٹھیک، ورنہ مجھے مزید سمجھانے میں بھی عار نہیں۔

میں تمہیں بتاتا ہوںکہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں وہ ملک سے پرویز مشرف کے دور سے عذاب بن جانے والی دہشت گردی کو آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ختم کرے اور بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو اپنی محنت اور کوشش سے زیرو پر لے کر آئے۔ ووٹ کی عزت یہ نہیں کہ بیرون ملک سے دہشت گردوں اور جنگجوئوں کو واپس لایا جائے اور ووٹ کی عزت یہ بھی نہیں کہ پانچ سو ارب کے گردشی قرضے کو پچیس سو ارب پر لے جایا جائے۔ ملکی قرضوں میں تین برسوں میں ستر برس میں لئے ہوئے قرض کا ستر فیصد بڑھا دیا جائے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ میرے ملک میں گوادر پورٹ بنے، سی پیک آئے، ان دونوں کا بننا ووٹ کی عزت ہے ان دونوں کا رکنا نہیں۔ میرا ملک دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا ہو ، جی ڈی پی چھ فیصد تک پہنچ رہی ہو، مہنگائی ستر برس کی کم ترین شرح پر آ چکی ہو، پاکستان کا ایک برس میں کرپشن پرسیشن انڈیکس دس دس درجے کم ہونا ووٹ کو عزت ہے،اس میں دس دس درجے اضافہ ووٹ کو عزت نہیں ہے۔ اب بھی نہیںسمجھے کہ ووٹ کی عزت کیا ہے تو پاکستانیوں کے ووٹ کی عزت یہ ہے کہ اس کے دشمن ملک کا انتہا پسند وزیراعظم بس پر بیٹھ کر لاہور آجائے اور مینار پاکستان پر جا کے کہے کہ پاکستان اس کی مہر سے نہیں چلتا۔ اس کا لاہور کے گورنر ہاوس میں اعلان لاہور کرنا اور مسئلہ کشمیر باہمی رضامندی سے حل کرنے کا اعلان کرنا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ میرے مقبوضہ کشمیر کا بھارت کی طرف سے اٹوٹ انگ بنا لینا اوراس کے جواب میں کچھ نااہلوں ، نکموں اور نالائقوں کا ہرجمعے کو دھوپ میں آدھا آدھا گھنٹہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ترکی، سعودی عرب، چین، ایران جیسے دوستوں میں پاکستان کی عزت ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے کیونکہ ووٹ ووٹر سے جڑا ہوا ہے اورووٹر ہی اصل پاکستان ہے۔


وہسنے، جسے سننا اور سمجھنا ہے، جس کا دماغ بند نہیں ہے، جس کے دل پر مہر نہیں ہے، سینہ جہالت ، منہ گالی سے بھرا نہیں ہے۔ اپنی فوج اور اپنی عدلیہ کے ساتھ آئین، قانون اور جمہوریت پر اکٹھے ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ اپنے اداروںسے برسرپیکار ہونا اور نو مئی جیسے بلنڈر کرنا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ووٹ کی عزت تہذیب اور اخلاقیات میں ہے، جھوٹ ،بدتمیزی اور یوٹرن میں نہیں ہے۔ کاش ہمارے دانشور اور سیاستدان یہ سمجھیں کہ میری اور آپکی عزت، سہولت اور خوشحالی ہی ووٹ کی عزت ہے، پاکستان کا استحکام اور ترقی ہی ووٹ کی عزت ہے۔ آپ اسے چند بڑھکوں، دعووں، نعروں، گالیوں اور لڑائیوںمیں ڈھونڈ رہے ہیں، 

KIWI FRUIT BENEFITS

 



1. **Rich in Nutrient C:** Kiwi is particularly high in L-ascorbic acid, which is significant for safe framework capability, collagen amalgamation, and cell reinforcement assurance against free revolutionaries.


2. **Dietary Fiber:** It is a decent wellspring of dietary fiber, helping with stomach related wellbeing by advancing customary defecations and supporting a solid stomach.


3. **Vitamin K:** Kiwi contains vitamin K, which is significant for blood thickening and bone wellbeing.


4. **Antioxidants:** The organic product is loaded with different cancer prevention agents, including flavonoids and carotenoids, which assist with killing oxidative pressure in the body.


5. **Folate:** Kiwi gives folate, a B-nutrient significant for cell division and the development of DNA.

6. **Potassium:** It contains potassium, adding to heart wellbeing by controlling pulse and liquid equilibrium.


7. **Low Calorie and Supplement Dense:** Kiwi is generally low in calories yet thick in supplements, making it a nutritious expansion to a decent eating regimen.


Integrating kiwi into your customary organic product admission can add to generally speaking wellbeing and prosperity.


1. **غذائیت سے بھرپور C:** کیوی میں L-ascorbic ایسڈ خاص طور پر زیادہ ہوتا ہے، جو کہ محفوظ فریم ورک کی صلاحیت، کولیجن کے امتزاج، اور آزاد انقلابیوں کے خلاف سیل کی تقویت کی یقین دہانی کے لیے اہم ہے۔


IF YOU WANT TO EARN DAILY $40  CLICK HERE 

 2. **غذائی ریشہ:** یہ غذائی ریشہ کا ایک معقول سرچشمہ ہے، روایتی شوچ کو آگے بڑھا کر اور ٹھوس معدے کو سہارا دے کر معدے سے متعلق تندرستی میں مدد کرتا ہے۔



 3. **وٹامن K:** کیوی میں وٹامن K ہوتا ہے، جو خون کو گاڑھا کرنے اور ہڈیوں کی تندرستی کے لیے اہم ہے۔



 4. **اینٹی آکسیڈنٹس:** نامیاتی پروڈکٹ کینسر سے بچاؤ کے مختلف ایجنٹوں سے بھری ہوتی ہے، بشمول فلاوونائڈز اور کیروٹینائڈز، جو جسم میں آکسیڈیٹیو پریشر کو ختم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔



 5. **فولیٹ:** کیوی فولیٹ دیتا ہے، جو کہ خلیات کی تقسیم اور ڈی این اے کی نشوونما کے لیے اہم B-غذائیت ہے۔


 6. **پوٹاشیم:** اس میں پوٹاشیم ہوتا ہے، جو نبض اور مائع کے توازن کو کنٹرول کرکے دل کی صحت میں اضافہ کرتا ہے۔



 7. **کم کیلوریز اور سپلیمنٹ ڈینس:** کیوی عام طور پر کیلوریز میں کم ہوتا ہے لیکن سپلیمنٹس میں گاڑھا ہوتا ہے، جس سے یہ کھانے کے اچھے طریقہ کار میں غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔



 کیوی کو آپ کے روایتی نامیاتی مصنوعات کے داخلے میں ضم کرنے سے عام طور پر صحت اور خوشحالی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

وسطیٰ ایشیائی ممالک تجارتی اور اقتصادی ترقی Central Asian countries trade and economic development

 



دنیا کی ترقی کا واحد راستہ بین الملکی تجارت ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ان ممالک میں آپ کو امن ملے گا اور وہ تجارت میں مصروف ہوں گے ۔ اس تجارت سے ان کے ملک میں روزگار مہیا ہوتا ہے اور ان کا اقتصادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ۔ امریکہ ، جرمنی ، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے تجارت کی بنیادپر ہی ترقی کے زینے طے کیے ہیں ۔ اب اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے ۔ جن ممالک نے تجارت کو توجہ نہیں دی ان ممالک میںبے روزگاری ، بدامنی اور غربت کا دور دورہ ہے ۔ وسطیٰ ایشیاء کے ممالک کو روس سے آزاد ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ یہ ممالک صنعتی طور پر پہلے سے ترقی یافتہ تھے ۔ان ممالک میں مواصلات اور توانائی حاصل کرنے کے ذرائع دنیا میں مثالی تھے ۔ ماسوائے خوراک کے وہ باقی تمام شعبوں میں خود کفیل تھے ۔ لیکن باوجود اس سب کے ان کا دنیا کے تجارتی اور اقتصادی سرکل میں حصہ بہت ہی کم تھا ۔2021میں وسطیٰ ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی 347 بلین امریکی ڈالر تھی ۔ جو گزشتہ دو برسوں میں سات گنا بڑھ چکی ہے ۔گزشتہ ایک ماہ میں ان ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے شروع کردئیے ہیں جن سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کے دوسرے ممالک سے تجارت میں دس سے پندرہ گنا مزید اضافہ ہوگا ۔ وسطیٰ ایشیائی ممالک اپنے ہمسائیوںاور دیگر ممالک سے توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون وتجارت کو بڑھا رہی ہیں ۔ اس کا فائدہ دنیا کو بھی ہوگا اس لیے کہ دنیا اس وقت تجارت کے لیے مخصوص چند ممالک پر انحصار کررہی ہے جس سے مسابقت کی فضا قائم ہی نہیں ہوتی اور یہ ممالک من پسند شرائط پر دنیا کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ۔ اس وقت چین دنیا کو تجارتی میدان میں لیڈ کررہا ہے ۔ جبکہ دیگر ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا ، تائیوان ، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا،ویت نام وغیرہ جزوی طور پر اس عمل میں شریک ہیں ۔ یورپ سے اقتصادی تجارت کا حجم کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ یورپ میں مزدوروں کی مہنگی اجرت اور دیگر مہنگے اخراجات ہیں ۔ کپڑے کے مصنوعات کی تجارت میں بنگلہ دیش نے گزشتہ ایک دہائی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے ۔وسطیٰ ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی کے منتقلی کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگر یہ ممالک اپنے آزاد تجارتی معاہدوں کو جاری رکھتے ہیں اور چین کی طرح ہر شعبہ میں برآمدات شروع کردیتے ہیں تو اس سے ان ممالک کی جی ڈی پی چالیس گنا سے زیادہ بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی اقتصادی حالت دنیا کی دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی ۔ وسطی ایشیائی ممالک دنیا کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی تجارت کو فروغ دے رہی ہیں جن سے ان کی باقی دنیا پر درآمدی انحصار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اس لئے وسطی ایشیائی ممالک کا علاقائی تجارتی تعاون کو وسعت دینا اور آزاد، پائیدار ترقی کی یقین دہانی واضح ہے۔وسطی ایشیائی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، جس میں 76 ملین سے زیادہ افراد کی ایک متحرک مارکیٹ ہے اور کوئی سمندری سرحدیں نہیں ہیں، ان کو ایسی اقتصادی پالیسی کی ترقی کی ضرورت تھی جو علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ دے سکے۔وسط ایشیائی ممالک نے گزشتہ دو دہائیوں میں شاندار ترقی کی صلاحیت کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں، خطے کی جی ڈی پی میں حقیقی معنوں میں سالانہ اوسطاً 6.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 347 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔2000 کے بعد سے غیر ملکی تجارت میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔2022 میں وسطی ایشیائی ممالک کی غیر ملکی مصنوعات کی تجارت کی مالیت تقریباً 190 بلین ڈالر تھی۔قازقستان وسطی ایشیائی تجارتی چیمپئن ہے، اس خطے کے باہمی تجارت کے کل حجم کا اس کا حصہ 80% ہے ۔2018 اور 2022 کے درمیان علاقائی تجارت میں 73.4 فیصد اضافہ ہوا ($5.8 سے $10 بلین تک)۔ازبکستان وسطی ایشیا میں قازقستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جس کی دو طرفہ تجارت 2025 میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ درمیانی مدت میں ازبکستان کے ساتھ تجارت کو 20 بلین ڈالر تک اور کرغز جمہوریہ کے ساتھ 5بلین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔قازقستان اس ترقی میں سب سے آگے ہے کیونکہ کاغذ کے بغیر تجارت، تیزی سے تجارتی ترقی کے لیے ایک پل اور بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ایشیاء پیسفک ریجن میں سرحد پار پیپر لیس تجارت کی سہولت فراہم کرنے کے فریم ورک معاہدے کی توثیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔یہ 2021 میں قازقستان، ازبکستان اور کرغیز جمہوریہ کی جانب سے کاغذ کے بغیر سرحد پار تجارت کی تکنیکی اور قانونی موزونیت کے بارے میں کیے گئے مشترکہ معاہدے سے ممکن ہوا ہے، وسطی ایشیائی حکومتوں نے اپریل 2023 میں تجارتی سہولتوں کے لیے قومی کمیٹیوں کے باہمی تعاون کیلئے ایک علاقائی قانونی دستاویز پر بھی دستخط کئے، جرمن ایجنسی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کے پروجیکٹ ٹریڈ فیسیلی ٹیشن ان سینٹرل ایشیاء کے تعاون سے ان ممالک نے فائدہ اٹھایا ہے ۔مئی 2023 میں، وسطی ایشیاء گیٹ وے تجارتی معلوماتی پورٹل خطے کے ممالک میں شروع کیا گیا۔ تمام ممالک کے تجارتی سہولت فراہم کرنے والے پورٹلز سے معلومات کو یکجا کرتے ہوئے، تجارتی معلوماتی پورٹل کاروباری اداروں کو سرحد پار تجارتی رسمی کارروائیوں کے بارے میں معلومات تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے، خطے کے اندر، خطے سے باہر، اور خطے کے ممالک کی تجارت کے تناظر میں تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس طرح بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ علاقائی تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر نے یہ مہم ریڈی فار ٹریڈ سینٹرل ایشیاء پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر چلائی، جس کی مالی اعانت یورپی یونین نے کی ۔وسطی ایشیائی ممالک علاقائی اور عالمی تجارتی لبرلائزیشن کے نمایاں حامی ہیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40  CLICK HERE 

تمام ممالک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے اندر علاقائی تجارت میں حصہ لیتے ہیں۔ خطے کی دو قومیں، قازقستان اور کرغیز جمہوریہ، یوریشین اکنامک یونین کے رکن ہیں۔ وسطی ایشیاء دنیا کے آخری خطوں میں سے ایک تھا جہاں نصف ممالک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے رکن نہیں تھے۔ حالیہ برسوں میں، صورت حال بدلنا شروع ہوئی ہے خطے کے تین ممالک ڈبلیو ٹی او کے رکن ہیں، اور دو مزید ازبکستان اور ترکمانستان رکنیت کے لیے بات چیت کے عمل میں ہیں۔ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے ساتھ داخلی تجارتی اصلاحات، مارکیٹ تک رسائی میں بہتری، اور تمام رکن ممالک کیلئے وسطی ایشیائی خطے میں رکاوٹیں کم ہوئیں ہیں نتیجتاً ملکوں کی اندرونی تجارت عالمگیر ہو گئی ہے۔جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر، خطہ سرحد پار تعاون کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نقل و حمل کی نئی راہداریوں کی تلاش میں ہے۔وسطی ایشیا میں علاقائی کاری کے عمل کی شدت کے نتیجے میں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کیلئے نقل و حمل اور مواصلاتی نظام کی ترقی کیساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی �اور تعاون کی ضرورت بھی بڑھی ہے۔ قازقستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد کے ساتھ ساتھ کرغیزـقازق صنعتی، تجارتی، اور لاجسٹکس کمپلیکس اک ٹیلک اور کاراسو چوکیوں کے قریب سینٹرل ایشیاء انٹرنیشنل سینٹر فار کراس بارڈر کوآپریشن کے قیام کا فیصلہ، ایک بہت ہی نمایاں قدم ہے۔ یہ راستہ یہ منصوبے علاقائی تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے مشترکہ منصوبوں کے قیام، باہمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور نمائشوں، میلوں اور دیگر تقریبات کی میزبانی کے ذریعے ملکوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ اکتاو اور کوریک کی کیسپین بندرگاہوں کے ذریعے کاکیشین اور یورپی منڈیوں تک رسائی کے ساتھ، قازقستان میں نقل و حمل کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ قازقستان اقتصادی راہداریوں اور نقل و حمل کے مراکز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو مشرق اور مغرب کو جوڑتے ہیں، اور ملک اکتاؤ کنٹینر ہب بنانے کے ساتھ ساتھ اکتاؤ بندرگاہ اور کریک کی بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرانزٹ کے طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن سے وسطی ایشیائی کاروباروں کو کم وقت اور کم قیمت پر بین الاقوامی تجارت شروع کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔قازقستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارتی روابط کو بہتر بنانے کا ایک نیا منصوبہ مئی 2022 میں وزارت تجارت اور انضمام اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے درمیان تعاون کے حصے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ وسطی ایشیائی نقل و حمل کے رابطے پر پہلے مکمل کیے گئے منصوبے کی منطقی توسیع ہے۔برآمدات کے فروغ کیلئے بنیادی ڈھانچہ تمام وسطی ایشیائی ممالک کیلئے اولین ترجیح ہے۔ خطے کا ہر ملک موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے یا نئے برآمدی امدادی ادارے قائم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ازبکستان نے 2023 میں وسطی ایشیائی برآمدات کو فروغ دینے والی تنظیموں کی میزبانی کی تاکہ تجربے کے تبادلے اور خطے میں غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں کے انعقاد میں مہارت پیدا کی جا سکے۔پاکستان کو چھوڑ کر پوری دنیا تجارتی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوشان ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر رہا اس کی جگہ یہاں سمگلنگ کوفروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ اور کمال دیکھیں کہ وسطیٰ ایشیائی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھا رہے جس کی وجہ یہاں کے حالات اور قانونی تجارت کی راہ میں حائل ہزاروں مشکلات ہیں ۔اگر حکومت پاکستان بھی دنیا کی دیگر ممالک کی طرح آسان شرائط اور رشوت سے پاک تجارتی اور اقتصادی سہولت کاری شروع کردے تو یہ ممالک پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی روابط کا آغاز کرسکتے ہیں ۔ جس سے ہم چین کے مقابلے میں سستے اور پائیدار اشیاکی تجارت کرسکیں گے۔ورنہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل جائے گی ۔اور ہمارے کرپٹ حکمران اور ہر سطح پر ان کے سہولت کار یورپ اور امریکہ سدھار جائیں گے ۔اور ہم بھوک اور افلاس سے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر مجبور ہوجائیں گے

my account of eleaver

my acount click here

live ENG VS IND CRICKET MATCH

 live cricket match ENG VS IND





Live England vs India, 1st Test England tour of India ENG 161/7 (50.2 ov) Ben Stokes* 15(49) Tom Hartley 4(5) Jasprit Bumrah 1/20 (6.2 ov) Day 1 - Session 2: England chose to bat. Click here to view more @espncricinfo : https://www.espncricinfo.com/series/england-in-india-2023-24-1389386/india-vs-england-1st-test-1389399/live-cricket-score 

قومی معیشت اور عوام National economy and people


ہمارا ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں



کچھ سال پہلے کی بات ہے 5 ہزار میں گھر کا ماہانہ راشن آجاتا تھا۔ اور آج اس 5 ہزار میں چند چیزیں آتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ وجہ ہماری معیشت کی تباہ حالی ہے۔


کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہوتے جیسے یہاں ہیں۔ امیر اس قدر امیر ہے کہ جیسے وہ کسی ریاست کے گدی نشین ہوں اور غریب اس قدر غریب ہیں کہ جیسے وہ لاوارث ہوں۔ جو درمیان کا طبقہ ہے جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں وہ تو ختم ہی ہوگئے ہیں یا ایسا کہہ سکتے ہیں کہ مڈل کلاس اب لوئر مڈل کلاس میں بدل چکی ہے کہ ان کو ضروریات زندگی کےلیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے ہار جاتا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT   CLICK HERE 

ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت کو دیکھیں تو وہ بھی ملکی معیشت پر سنجیدہ نہیں لگ رہی۔ جس میں پٹرول کی قیمتوں کو ایک مہینے میں متعدد بار بڑھانا معاشی طور پرایک غیر سنجیدہ عمل تھا کیونکہ ہمارے ملک میں معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جس کا نقصان ہمارے ملک اور عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔


بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت بس معیشت پر سیاست کرتی ہے، حالانکہ معیشت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ معیشت کو سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں معیشت کو سنجیدگی سے لے کر چلنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جاتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ قرضے لیتی ہے اور ملک کو چلاتی ہے، جیسے ہم بھکاری ہوں۔ اور اس سے یہی لگتا ہے جیسے اقتدار میں تو آتے ہیں، پر ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے نہ تو کوئی پلان ہے نہ ہی روڑ میپ۔


جو بھی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے وہ ملک کی وزارت خزانہ کو اپنی کنیز سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کا بندہ اس اہم پوسٹ پر لگا دیتا ہے۔ جتنے بھی اس ملک میں وزیر خزانہ آئے ہیں، سب کے سب کسی نہ کسی مقصد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ کوئی آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے یا کوئی کسی کا منظور نظر بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے۔

حکومت میں کئی وزیر خزانہ آئے اور چلے گئے، لیکن ملک کا خزانہ ہمیشہ قرضوں کی زد میں رہا اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات میں دھنستا چلا گیا۔ ڈالر بڑھتا چلا گیا، چینی کی قیمت، پھر گندم، ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی اور سب بس خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔


آئی ایم ایف کی شرائط پر ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، پٹرول کی قیمتیں بڑھیں، بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ساتھ میں روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی رہی۔ دیکھا جائے تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی مہنگائی رہی تھی لیکن ساتھ میں معیشت بہتری کی طرف بھی چل پڑی تھی۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دی اور حکومت سے آزاد کیا، ملک میں ریکارڈ ریمی ٹینس آئے، یعنی بیرون پاکستان لوگوں نے ملک میں بہت پیسہ بھیجا، کورونا کی وبا کے باجود پوری دنیا نے اقتصادی سروے کے مطابق مہنگائی کا 8 فیصد ہدف پورا نہ ہوا۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح 13 فیصد سے زیادہ رہی۔


اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ حکومت میں زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹر کے اہداف حاصل ہوئے، زراعت میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی، صنعت میں شرح نمو 7.2 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے میں شرح نمو 6.2 فیصد رہی، بڑی صنعتوں میں شرح نمو 10.5 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو 7. فیصد رہی جبکہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی اور ساتھ میں اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے رہی اور گیارہ ماہ میں ملکی برآمدات ریکارڈ 29 ارب ڈالر رہیں جبکہ تعلیمی شعبے میں شرح نمو 8.7 فیصد رہی۔


میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ یہ سب اگر ہوا ہے تو کہاں ہے؟ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ پھر ہر انسان پریشان کیوں ہے؟ مہنگائی کا جو جن پی ٹی آئی حکومت میں بے قابو ہوا تھا وہ ابھی تک قید نہیں ہوسکا۔ نہ تو اسے شہباز شریف قید کرسکے، نہ ہی نگران حکومت، تو آخر اس کا حل کیا ہے؟


غریب کی آواز سننے والا کون ہے یہاں؟ کبھی خیال آئے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک سروے کرنے کا موقع ملا، اس دوران ایک ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بیوہ خاتون ہیں، کرائے پر رہتی ہیں، ایک بیٹا ہے لیکن اب وہ دماغی طور پر معذور ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری۔ جب ایک جوان انسان کا جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہو اچانک نوکری چلی جائے، کوئی کام نہ ملے تو وہ پاگل ہی ہوجائے گا۔ ماں جی اپنے پاگل بیٹے کو پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی انکھیں اشکبار ہوگئیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT   CLICK HERE 

میرا سوال ہے حکومت وقت سے کہ کیا ہماری معیشت اس قدر بدحال ہوگئی ہے جو کسی غریب کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتی؟ ایک روتی سسکتی ماں کے آنسو نظر نہیں آتے؟ کیا یہاں کوئی بھی ایسا حکمران نہیں جو اس ماں کو دو وقت کا کھانا دے سکے؟ کیا پاکستان میں رہنا ایک سزا بن گیا ہے؟ اس حد تک نوبت آگئی ہے یا تو غریب مرجائے یا ملک بدر ہوجائے۔ ایک سوال میں سب کےلیے چھوڑ رہی ہوں، ہماری اشرافیہ جو ہر ماہ ورلڈ ٹور پر کروڑوں خرچ کرسکتی ہے کیا کسی غریب کو دینے کےلیے چند ہزار بھی نہیں؟

زہریلی پولرائزیشن، کمزور جمہوریت Toxic Polarization, Weak Democracy



پشاور سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے باپ نے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ بیٹے نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے آیا تھا، گھر پر اپنی پسند کی جماعت کا جھنڈا لگا دیا، باپ نے منع کیا، بحث و تکرار ہوئی تو والد نے طیش میں آکر بیٹے کو اپنے ریوالور سے گولی مار دی، اب بہت سے لوگ اسے ایک انفرادی واقعہ قرار دیں گے، لیکن صاحبو! یہ انفرادی واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے سیاسی پولرائزیشن جس نے ہمیں اوپر سے لے کر نیچے گھر گھر تک تقسیم کر دیا ہے۔ پھر عدم برداشت اتنی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف ہوتے ہیں، یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت اور معاشرتی تقسیم بڑی خوفناک ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسے روکا نہ گیا تو یہ چیز ہمارے داخلی سماج کو پارہ پارہ کر دے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بہت اچھی باتیں کر جاتے ہیں، مگر افسوس ان کی باتوں پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ اخبارات بھی ان کے بیان کو سنگل یا دو کالم سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو سیاستدان اپنے بیانات سے نفرتیں پھیلاتے ہیں انہیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ سراج الحق نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا  معاشرے میں زہریلی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے جس سے معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ بہت اہم بات ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر آج کے سیاسی ماحول میں کہیں سے لگتا ہے کہ سیاسی قوتوں کی یہ ترجیح ہو سکتی ہے جس بھی جماعت کے قائدین کو دیکھیں وہ تقسیم کررہا ہے، متحد کرنے پر اس کا دھیان ہی نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم ایشوز پر چلائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنا مشن اور لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ مستقبل کے اہداف اور ترجیحات بتاتی ہے جن کی بنیاد پر عوام انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار اور کرپٹ نہ کہہ لیں بات نہیں بنتی۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

 سیاست بھی ایسے کی جاتی ہے جیسے گلی محلے کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار تمیز سے نام تک لینا انہونی بات سمجھی جاتی ہے جب سیاسی پولرائزیشن لیڈرشپ کی سطح پر شروع ہوئی ہے تو اس کا  اثر نیچے تک آتا۔ اوپر کی سطح پر تو چونکہ لیڈروں میں میل ملاقات نہیں ہوتی اس لئے معاملہ اس عمل کشیدگی تک نہیں جاتا، جتنا گلی محلے میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے معاملات پر تشدد ہو جاتے ہیں۔

عوام جب دیکھتے ہیں اسمبلیوں کے اندر حتیٰ کہ ٹی وی پر گروپوں میں مار دھاڑ اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ اپنی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کا رویہ ہماری زندگیوں میں کیوں در آیا ہے؟ اس سوال کا جواب سیاستدان ہی دے سکتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں دیں گے جن کی سیاست کا دار و مدار ہی اس نکتے پر ہو کہ مخالفین پر ذاتی حملے کرکے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے، وہ بھلا کوئی شائستہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آج کل الیکشن مہمات کا دور ہے۔ اتفاق سے میرا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ایک کارنر میٹنگ میں خطاب کررہا تھا۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے مخالف امیدواروں کی کردارکشی کررہا تھا۔ کسی کو چوروں کا سرپرست، کسی کو جھوٹے مقدمات کا عادی اور کسی کو اجرتی قاتلوں کا حامی قرار دے کر باور کررہا تھا کہ اگر حلقے میں سکھ چین سے رہنا ہے تو اسے ووٹ دیں۔ یہ سن کر میں سوچ رہا تھا اس کے مخالف امیدوار بھی اپنے اپنے جلسوں میں یہی کہہ رہے ہوں گے اُن کی نظر میں تو یہ امیدوار بھی دو نمبر کا مجرم ہوگا۔ یہ نچلی سطح کی سیاست کا حال ہے۔ اوپر کی سطح پر دیکھیں تو الزامات کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا، پیپلزپارٹی اپنے تیرو تفنگ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس پر غضب سوشل میڈیا نے ڈھایا ہے۔ کسی کو پٹواری، کسی کو یوتھیا اور کسی کو جیالا کے خطاب دے کر نفرت بھرے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دو جماعتوں کے لیڈر آپس میں رسماً ہاتھ بھی ملا لیں تو خبر بن جاتی ہے، یہ تبصرے ہوتے ہیں دیکھو اندر سے یہ سب ایک ہیں، اوپر سے ہمیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، جب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سطح اتنی بلند ہو جاتی ہے تو جمہوریت کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے جب ایک بار کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتی ہے تو وہ صرف اس جماعت کی نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے اُسے پورے ملک کی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور سیاسی قوتیں بھی اس کے آئینی حق کو تسلیم کرکے اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی پولرائزیشن  الیکشن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے، بلکہ پہلے دن سے نئی حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے۔ افہام و تفہیم اور درگزر ایک ایسا خواب ہے، جو ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔


اس سیاسی پولرائزیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سیاست اور جمہوریت تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی قوتیں اپنی طاقت نہ منوا سکیں اور کٹھ پتلی بن کر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ آج بھی آپ دیکھیں ہر سیاسی جماعت عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے غیبی اشارے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں کسے اشارہ ملتا ہے اور وہ بھاگ کر اپنا کندھا پیش کرتی ہے جب اس ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی بڑی جماعتیں تھیں تو بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو نجانے یہ خیال کیسے آ گیا کہ ایک میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ میثاق ہوا مگر خوئے غلامی نہ بدلی،جونہی موقع ملا پھر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کئے گئے۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اُبھری، اسے اقتدار ملا تو بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے نعرے میں پھنس گئے جس نے سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کر دیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا وہ سیاستدانوں سے نہیں ملیں گے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے ساتھ ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ یوں ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی،جس نے سیاسی قوتوں کو کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ آج وہی رویہ نوازشریف نے اپنایا ہوا ہے۔ 

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

وہ عمران خان کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ نفرت کی سیاست کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ بات بلاول بھٹو تک آ گئی ہے، جو اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ نوازشریف کو چوتھی مرتبہ ہرگز وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ ایسی فضا میں عوام کیوں اثر قبول نہ کریں اور اس پولرائزیشن کا شکار نہ ہوں، جس میں عدم برداشت کا زہر گھل چکا