بلا کسی تبصرہ کے "نئی خبر آئی ہے مولانا عمران بھائی ہیں"۔ کچھ لوگ موجودہ پارلیمنٹ کو بھی ایک ہنگ اسمبلی کہہ رہے ہیں جس میں کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت نہیں ہے لیکن یہ ہنگ پارلیمنٹ گذشتہ سے بہتر ہے ۔ اس میں دو جماعتیں مل کر سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکتی ہیں اور پی ڈی ایم کی طرح نہیں کہ جس میں تیرہ جماعتیں تھیں اور کوئی ایک جماعت بھی حکومت چھوڑ دیتی تو حکومت اکثریت کھو دیتی ۔ اس لئے موجودہ حکومت میں اس طرح کی بلیک میلنگ نہیں ہو پائے گی بلکہ دونوں جماعتیںآپس میں ہی بلیک میل ہوں گی کسی تیسری جماعت سے بلیک میل نہیں ہوں گی اس لئے ہمارے خیال میں یہ ماضی کی اتحادی حکومتوں کی نسبت قدرے مستحکم حکومت ہو گی اور یہ بات بھی اہم ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی 2008کے بعد ہر حکومت نے پانچ سال پورے کئے ہیں اور اس میں زرداری صاحب کا بڑا کلیدی کردار ہے۔اس حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر سیاستدان کا اپنا اپنا ذہن ہوتا ہے کچھ کے نزدیک ایک ہی رات میں سب کچھ بدلا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں اور یہ کوئی دو چار سال کی بات نہیں ہے بلکہ پون صدی کا قصہ ہے تو دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں بھی ایسے حالات ہوتے ہیں وہاں پر کبھی ایک مختصر عرصہ میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس میں برسوں لگ جاتے ہیں اور کم از کم 35سے چالیس سال اور وہ بھی اس دوران اگر سیاسی قیادت نیک نیت رہے تو تب تبدیلی ممکن ہوتی ہے یہ نہیں کہ ایک طرف آپ اتنے بڑے انقلابی بن جائیں کہ 9مئی کر دیں اور دوسری جانب ساتھ دینے پر جنرل باجوہ کو تا حیات جنرل بنانے پر آمادہ ہو جائیں یا پھر مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں آئیں کہ جس میں عوامی حمایت کی پشت پناہی نہ ہو اور آپ سوچیں کہ آپ آئین میں دیئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ببر شیر بن کر
انقلاب لے آئیں گے ایسا نہیں ہوتا اس کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے اور زرداری صاحب کو اس کا ادراک ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے شروع میں اگر ہم اسمبلی کی مدت پوری کر لیں تو یہی کافی ہے اور اسی لئے جب سپریم کورٹ سے ایک غیر جمہوری روایت کی شروعات کی گئیں اور یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تو احتجاج کے بجائے اسمبلی کی مدت پوری کرنے کو ترجیح دی گئی تو امید ہے کہ یہ اسمبلی اور حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی
IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 CLICK HERE
خیر بات ایک مستحکم حکومت کی ہو رہی تھی تو اب اگر آئینی ترامیم کے حوالے سے بات کریں تو مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اگر تحریک انصاف کو چھوڑ کر چند دیگر جماعتوں کو شامل کر لیا جائے تو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے ملنے کے بعد ان کے پاس امیدہے کہ دو تہائی اکثریت کا ہدف بھی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس پر کوئی قطعی بات مخصوص نشستوں کے بعد ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس میں بھی دو آراء پائی جاتی ہیں کہ تحریک انصاف کے آزاد ارکان اسمبلی جس جماعت کو جوائن کریں گے کیا وہ خواتین اور اقلیتوں کی اپنی ترجیحی لسٹ دے سکتی ہے یا نہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں جائے گا اور یہی نہیں بلکہ الیکشن نتائج کے حوالے سے بھی بہت سے امور سپریم کورٹ میں ہی طے ہونے کے امکانات ہیں کچھ لوگ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا تحریک انصاف خاموش ہو کر بیٹھ جائے گی توتحریک انصاف کی جنم پتری میں ایسا کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہوا کہ جس سے اس جماعت سے کسی شانت ماحول کی توقع کی جا سکے لہٰذا وہ اپنی پوری کوشش کرے گی کہ جس حد تک ہو ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے لیکن اب وہ پہلے والی بات نہیں ہو گی ۔ اب نہ تو2014ہے کہ جس میں دھرنوں کے لئے کسی کی آشیر باد ہو اور نہ ہی یہ 2022 اور 2023 ہے کہ جس میں خان صاحب خود بھی موجود تھے اور انھیں سو خون بھی معاف تھے اور ہم خیال ججز کی مدد بھی حاصل تھی اور ادھوری پارلیمنٹ کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ پائوں بھی بندھے ہوئے تھے ۔ دوسرا ہمیں اپنی اس رائے پر اصرار نہیں ہے لیکن جس طرح عدت والے کیس میں سزا کا عوامی سطح پر کوئی اچھا تاثر نہیں گیا تھا اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا بار بار تحریک انصاف سے اتحاد اور دوسری جانب سے مسلسل انکار اور صرف انکار نہیں بلکہ تضحیک آمیز انداز میں انکار اس سے بھی تحریک انصاف کے حوالے سے عوام میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا کہ جو جذبات کی حدت اور شدت دونوں میں اضافہ کا سبب بنے بلکہ اس سے عوام کے بھڑکے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی ۔
کچھ لوگ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں کہ مستحکم حکومت سے جن کے ایجنڈے پر زد پڑتی ہے لیکن امید ہے کہ انھیں منہ کی کھانا پڑے گی ۔ دوسرا مولانا فضل الرحمن کی ناراضی یقینا کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہے انھیں ہر صورت راضی کرنا پڑے گا اور یہ مشکل مرحلہ ہو گا اس لئے انھیں فوری طور پر بلوچستان حکومت کی گارنٹی دینا ہو گی اور اس کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ شاید دونوں تیار نہ ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی دونوں کی نشستیں اگر گیارہ گیارہ ہیں تو نواز لیگ کی بھی دس ہیں جبکہ آزاد بھی ہیں لہٰذا مولانا کی ضد انھیں ان دونوں جماعتوں سے دور لے جا سکتی ہے یا ہو سکتا ہے کہ وہاں پر تمام فریق کسی پاور شیئرنگ فارمولا پر متفق ہو جائیں لیکن مرکز میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اب چونکہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی تو کسی کو بھی احتجاج کی ایک حد تک چھوٹ ہو گی لیکن اس سے زیادہ نہیں توکچھ دن یقینا دھاندلی کا شور رہے گا لیکن پھر حالات شانت ہوتے چلے جائیں گے اور خان صاحب کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اب مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔