مستحکم حکومت کی بنیاد


 


بلا کسی تبصرہ کے "نئی خبر آئی ہے مولانا عمران بھائی ہیں"۔ کچھ لوگ موجودہ پارلیمنٹ کو بھی ایک ہنگ اسمبلی کہہ رہے ہیں جس میں کسی کے پاس بھی سادہ اکثریت نہیں ہے لیکن یہ ہنگ پارلیمنٹ گذشتہ سے بہتر ہے ۔ اس میں دو جماعتیں مل کر سادہ اکثریت سے حکومت بنا سکتی ہیں اور پی ڈی ایم کی طرح نہیں کہ جس میں تیرہ جماعتیں تھیں اور کوئی ایک جماعت بھی حکومت چھوڑ دیتی تو حکومت اکثریت کھو دیتی ۔ اس لئے موجودہ حکومت میں اس طرح کی بلیک میلنگ نہیں ہو پائے گی بلکہ دونوں جماعتیںآپس میں ہی بلیک میل ہوں گی کسی تیسری جماعت سے بلیک میل نہیں ہوں گی اس لئے ہمارے خیال میں یہ ماضی کی اتحادی حکومتوں کی نسبت قدرے مستحکم حکومت ہو گی اور یہ بات بھی اہم ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی 2008کے بعد ہر حکومت نے پانچ سال پورے کئے ہیں اور اس میں زرداری صاحب کا بڑا کلیدی کردار ہے۔اس حوالے سے ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر سیاستدان کا اپنا اپنا ذہن ہوتا ہے کچھ کے نزدیک ایک ہی رات میں سب کچھ بدلا جا سکتا ہے لیکن پاکستان میں جس طرح کے حالات ہیں اور یہ کوئی دو چار سال کی بات نہیں ہے بلکہ پون صدی کا قصہ ہے تو دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں بھی ایسے حالات ہوتے ہیں وہاں پر کبھی ایک مختصر عرصہ میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ اس میں برسوں لگ جاتے ہیں اور کم از کم 35سے چالیس سال اور وہ بھی اس دوران اگر سیاسی قیادت نیک نیت رہے تو تب تبدیلی ممکن ہوتی ہے یہ نہیں کہ ایک طرف آپ اتنے بڑے انقلابی بن جائیں کہ 9مئی کر دیں اور دوسری جانب ساتھ دینے پر جنرل باجوہ کو تا حیات جنرل بنانے پر آمادہ ہو جائیں یا پھر مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں آئیں کہ جس میں عوامی حمایت کی پشت پناہی نہ ہو اور آپ سوچیں کہ آپ آئین میں دیئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ببر شیر بن کر

انقلاب لے آئیں گے ایسا نہیں ہوتا اس کے لئے ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے اور زرداری صاحب کو اس کا ادراک ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لئے شروع میں اگر ہم اسمبلی کی مدت پوری کر لیں تو یہی کافی ہے اور اسی لئے جب سپریم کورٹ سے ایک غیر جمہوری روایت کی شروعات کی گئیں اور یوسف رضا گیلانی کو پانچ سال کے لئے نا اہل قرار دیا گیا تو احتجاج کے بجائے اسمبلی کی مدت پوری کرنے کو ترجیح دی گئی تو امید ہے کہ یہ اسمبلی اور حکومت بھی اپنی مدت پوری کرے گی

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 CLICK HERE 

خیر بات ایک مستحکم حکومت کی ہو رہی تھی تو اب اگر آئینی ترامیم کے حوالے سے بات کریں تو مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اگر تحریک انصاف کو چھوڑ کر چند دیگر جماعتوں کو شامل کر لیا جائے تو خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے ملنے کے بعد ان کے پاس امیدہے کہ دو تہائی اکثریت کا ہدف بھی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس پر کوئی قطعی بات مخصوص نشستوں کے بعد ہو سکتی ہے اس لئے کہ اس میں بھی دو آراء پائی جاتی ہیں کہ تحریک انصاف کے آزاد ارکان اسمبلی جس جماعت کو جوائن کریں گے کیا وہ خواتین اور اقلیتوں کی اپنی ترجیحی لسٹ دے سکتی ہے یا نہیں اور لگ ایسے رہا ہے کہ یہ معاملہ بھی سپریم کورٹ میں جائے گا اور یہی نہیں بلکہ الیکشن نتائج کے حوالے سے بھی بہت سے امور سپریم کورٹ میں ہی طے ہونے کے امکانات ہیں کچھ لوگ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ کیا تحریک انصاف خاموش ہو کر بیٹھ جائے گی توتحریک انصاف کی جنم پتری میں ایسا کوئی ایک لفظ بھی نہیں لکھا ہوا کہ جس سے اس جماعت سے کسی شانت ماحول کی توقع کی جا سکے لہٰذا وہ اپنی پوری کوشش کرے گی کہ جس حد تک ہو ملک میں سیاسی عدم استحکام جاری رہے لیکن اب وہ پہلے والی بات نہیں ہو گی ۔ اب نہ تو2014ہے کہ جس میں دھرنوں کے لئے کسی کی آشیر باد ہو اور نہ ہی یہ 2022 اور 2023 ہے کہ جس میں خان صاحب خود بھی موجود تھے اور انھیں سو خون بھی معاف تھے اور ہم خیال ججز کی مدد بھی حاصل تھی اور ادھوری پارلیمنٹ کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ پائوں بھی بندھے ہوئے تھے ۔ دوسرا ہمیں اپنی اس رائے پر اصرار نہیں ہے لیکن جس طرح عدت والے کیس میں سزا کا عوامی سطح پر کوئی اچھا تاثر نہیں گیا تھا اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا بار بار تحریک انصاف سے اتحاد اور دوسری جانب سے مسلسل انکار اور صرف انکار نہیں بلکہ تضحیک آمیز انداز میں انکار اس سے بھی تحریک انصاف کے حوالے سے عوام میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیا کہ جو جذبات کی حدت اور شدت دونوں میں اضافہ کا سبب بنے بلکہ اس سے عوام کے بھڑکے جذبات کو ٹھنڈا کرنے میں مدد ملے گی ۔

کچھ لوگ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں کہ مستحکم حکومت سے جن کے ایجنڈے پر زد پڑتی ہے لیکن امید ہے کہ انھیں منہ کی کھانا پڑے گی ۔ دوسرا مولانا فضل الرحمن کی ناراضی یقینا کچھ مسائل پیدا کر سکتی ہے انھیں ہر صورت راضی کرنا پڑے گا اور یہ مشکل مرحلہ ہو گا اس لئے انھیں فوری طور پر بلوچستان حکومت کی گارنٹی دینا ہو گی اور اس کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ شاید دونوں تیار نہ ہوں کیونکہ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی دونوں کی نشستیں اگر گیارہ گیارہ ہیں تو نواز لیگ کی بھی دس ہیں جبکہ آزاد بھی ہیں لہٰذا مولانا کی ضد انھیں ان دونوں جماعتوں سے دور لے جا سکتی ہے یا ہو سکتا ہے کہ وہاں پر تمام فریق کسی پاور شیئرنگ فارمولا پر متفق ہو جائیں لیکن مرکز میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ اب چونکہ مرکز اور پنجاب میں نواز لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہو گی تو کسی کو بھی احتجاج کی ایک حد تک چھوٹ ہو گی لیکن اس سے زیادہ نہیں توکچھ دن یقینا دھاندلی کا شور رہے گا لیکن پھر حالات شانت ہوتے چلے جائیں گے اور خان صاحب کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ اب مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔

آزما کر تو دیکھیں اور اگر ملک نہیں چلے گا تو لوگ اپنی رائے تبدیل کر لیں گے‘ آپ انھیں موقع تو دیں




خواجہ سعد رفیق دو نسلوں سے سیاست دان ہیں' ان کے والد خواجہ محمد رفیق پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی اور پاکستان اتحاد پارٹی کے سربراہ تھے' یہ 20 دسمبر 1972 کو ائیرمارشل اصغر خان کی کال پر بھٹو حکومت کے خلاف یوم سیاہ کے جلوس کی قیادت کر رہے تھے تو انھیں پنجاب اسمبلی کے نزدیک گولی مار کر شہید کر دیاگیا تھا' خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق اس وقت اسٹوڈنٹ تھے۔
والدہ بیگم فرحت رفیق استاد اور سیاست دان تھیں' انھوں نے دونوں بھائیوں کو بڑی مشکل سے پروان چڑھایا' خواجہ برادران نے 1997 میں ن لیگ سے سیاست کا آغاز کیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی کی پہلی صف میں پہنچ گئے' 8 فروری 2024کو خواجہ سعد رفیق نے این اے 122سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور یہ 39 ہزارووٹوں سے ہار گئے' سردار لطیف کھوسہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ان کے مدمقابل تھے' کھوسہ صاحب یہ الیکشن جیت گئے۔

اس الیکشن میں سعد رفیق پہلے سیاست دان تھے جنھوں نے فوری طور پر نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی بلکہ اپنے حریف سردار لطیف کھوسہ کو مبارک باد بھی پیش کی جب کہ باقی 99 فیصد امیدوار ایک دوسرے پر دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں۔

پی ٹی آئی نے بھی 70حلقوں میں دھاندلی کا دعویٰ کر دیا ہے' ان حالات میں خواجہ سعد رفیق نے شکست تسلیم کر کے اعلیٰ ظرفی اور بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور آپ اس کا نتیجہ ملاحظہ کر لیں' این اے 122میں کسی قسم کا فساد' لڑائی یا مزاحمت نہیں ہوئی' وہاں کوئی دھرنا چل رہا ہے' کوئی سڑک بند ہے اور نہ عوام کو کوئی تکلیف ہو رہی ہے جب کہ باقی حلقوں میں عوامی زندگی مفلوج ہوتی چلی جا رہی ہے' لاٹھی چارج اورآنسو گیس بھی چل رہی ہے'ہم اگر اس ملک کو واقعی چلانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں خواجہ سعد رفیق کی اسپرٹ اور اعلیٰ ظرفی اپنانا ہو گی۔
ہمیں اپنا دل بڑا کرنا پڑے گا' اپنی شکست ماننا ہو گی اور مخالف کو مبارک باد دے کر اس کا حق اسے سونپنا ہو گا اور مخالف کو بھی فتح کے بعد دشمن سے انتقام نہ لینے کا اعلان کرنا ہو گا' یہ ملک پھر چل سکے گا ورنہ یہ الیکشن خدانخواستہ ملک کا آخری الیکشن ثابت ہو گا اور اس بار عالمی طاقتیں پاکستان میں مارشل لاء لگوائیں گی' یہ کھل کر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو امداد اور تعاون دیں گی جس کے بعد ملک سے سیاسی جماعتوں کا مکمل صفایا ہو جائے گا چناں چہ ہمارے لیے بہتر ہے ہم حالات کی نزاکت سمجھیں اور ہوش کے ناخن لیں۔

میں عمران خان کی طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا لیکن اس کے باوجود سمجھتا ہوں ریاست اور سیاسی جماعتوں نے مل کر پی ٹی آئی کا راستہ روک کر دیکھ لیا' عمران خان کو جیل میں ڈال دیا گیا' اسے سائفر' توشہ خانہ اور عدت میں نکاح کے جرم میں 31 سال قید اور ایک ارب 57کروڑ روپے جرمانہ بھی کر دیاگیا'خان پر 190 ملین پاؤنڈز اور نو مئی کے واقعات کے مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔

عمران خان کو ان میں بھی سزا ہو جائے گی جس کے بعد ان کی مجموعی سزا 50سال تک پہنچ جائے گی' ان کی پارٹی بھی توڑ دی گئی' لیڈرز جیل میں پھینک دیے گئے یا سیاست سے باہر کر دیے گئے یا پھر دوسری سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دیے گئے' ان کی تصویر' آواز اور فوٹیج پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
ان سے انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا اور ان کی انتخابی کمپیئن پر بھی پابندی رہی مگر اس کے باوجود عمران خان نے بھرپور الیکشن لڑا اور عوام نے اسے ووٹ دیے' یہ اس وقت بھی بڑی سیاسی قوت ہے اور اگر اس کا صرف ایک بازو کھول دیا جائے تو یہ کے پی کے ساتھ ساتھ پنجاب اور وفاق میں حکومت بنا لے گا چناں چہ میں تمام تر مخالفت  اور  ناپسندیدگی کے باوجود
سمجھتا ہوں حکومت بنانا اب عمران خان کا حق ہے۔
عوام نے اگر اسے ووٹ دیے ہیں اور عوام اگر اسے حکمران دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اسے موقع ملنا چاہیے اور سیاسی جماعتوں اور ریاست کو کھلے دل کے ساتھ پی ٹی آئی کا مینڈیٹ تسلیم کرنا چاہیے' ان نتائج کے بعد پی ٹی آئی کو نہ ماننا ملک اور جمہوریت کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی اور میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے ساتھ بھی'ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے ملک کی پرانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کا جنازہ بھی نکال دیا تھا۔
آج اگرمیاں نواز شریف اکیلے کھیل کر بھی ہار گئے ہیںتو اس کی وجہ 16 ماہ کی خوف ناک سیاسی غلطیاں ہیں' یہ اگر 2022 میں عمران خان کو نہ ہٹاتے یا نئے الیکشنز کی طرف چلے جاتے تو آج صورت حال مختلف ہوتی لیکن بہرحال جب انسان کی عقل ماؤف ہو جائے تو پھر اس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے' میاں صاحب اگر اب بھی مانگے تانگے کی حکومت بنا کر پی ڈی ایم کا تجربہ دہراتے ہیں تو اس بار نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ خوف ناک نکلے گا۔
عمران خان انھیں جیل میں بیٹھ کر چلنے نہیں دے گا' یہ اتحادیوں کو سنبھال سنبھال کر بھی تھک جائیں گے' ملک کا رہا سہا بیڑا بھی غرق ہو جائے گا اور آخر میں ان کی پارٹی بھی زیرو ہو جائے گی' یہ لوگ اس کے بعد بلدیاتی الیکشن بھی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے اگر یقین نہ آئے تو میاں صاحب صرف یہ دیکھ لیں ان کی پارٹی کا ہر وہ شخص جو عمران خان کے خلاف زیادہ بولتا تھا عوام نے اسے الیکشن بوتھ میں زندہ گاڑھ دیا اور جو بچ گئے ہیںاس کی وجہ ووٹرز کے بجائے ''سپورٹرز'' ہیں۔
میاں صاحب کو آراوز نے 20سیٹیں دی ہیں' یہ اگر ان حالات میں حکومت لے لیتے ہیں تو دو سال بعد ان سب کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی چناں چہ میاں صاحب کو چاہیے یہ ضد سے اپنا اور ملک کا مزید نقصان نہ کریں'یہ خواجہ سعد رفیق کی طرح کھلے دل کے ساتھ اپنی ہار مانیں' عمران خان کا مینڈیٹ تسلیم کر لیں اور اسے حکومت بنانے کا موقع دیں' ملک اور ان کی ذات کی اسی میں فلاح ہے اور اگر یہ ایسا نہیں کرتے تو پھر دو اڑھائی سال بعد دوبارہ الیکشن کرانے پڑیں گے اور ان میں عمران خان ستر فٹ کا بن کر نکلے گا اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی۔
میں نے آج سے چند دن قبل دوستوفسکی کا ایک قول تحریر کیا تھا ''آپ جس عورت سے محبت کرتے ہیں' اسے بھولنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں ورنہ آپ تمام عمر اس سے محبت کرتے رہیں گے'' عوام نے ان الیکشنز میں عمران خان سے محبت کا اظہار کر دیا ہے' آپ اسے حکومت بنانے دیں تاکہ یہ محبت اپنے مکمل انجام کو پہنچ سکے اگر محبت سچی ہوئی اور عوام کا فیصلہ درست ہوا تو سسٹم اور ملک چل پڑے گا اور ہم 75 برس بعد رائیٹ ٹریک پر آ جائیں گے اور اگر یہ بت بھی مٹی کا تودا نکلا تو قوم کی خارش ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی اور لوگ اپنا سر پیٹ کرچپ بیٹھ جائیںگے یوں مسئلہ ختم ہو جائے گا۔
دوسرا ہم اگر جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو پھر ہمیں عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا اور عوام نے عمران خان کے حق میں ووٹ دے دیا ہے اگر ہم اس کے بعد بھی یہ مینڈیٹ نہیں مانتے تو پھرہم ''جمہوری منافقت'' کا شکار ہیں اور منافقت کسی بھی فیلڈ میں ہو اس کا نتیجہ کبھی مثبت نہیں نکل سکتالہٰذا ہم خود کو جمہوری ثابت کریں یا پھر جمہوریت کا راگ الاپنا بند کر دیں۔
ہمیں پھر اب جمہوریت کو سلام کر کے کھل کر ایک بار ہی ملک میں مکمل آمریت کا اعلان کر دینا چاہیے تاکہ عوام کی انتخابی خارش بھی ختم ہو جائے اور اربوں روپے بھی بچ جائیں' ہم ہر سال اسمبلیوں اور سینیٹ پر کھربوں روپے ضایع کرتے ہیں' قومی اسمبلی کی ایک منٹ کی کارروائی پر سوا دو لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں۔
یہ بھی بچ جائیں گے'کیا یہ تماشا نہیں قوم چار پانچ سال بعد الیکشن پر 100 ارب روپے ضایع کرتی ہے' سیاسی جماعتیں بھی اقتدارمیں آنے کے لیے اربوں روپے خرچ کردیتی ہیں لیکن اس ساری ایکسرسائز کے بعد آخر میں صرف وہ پارٹی حکومت بنا پاتی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے جب کہ دوسری سیاسی جماعتیں سڑکوں پر مارچ کرتی رہتی ہیں چناں چہ اس ساری ایکسرسائز کا کیا فائدہ؟ ملک کا امن بھی گیا۔
ریاست پر یقین بھی کم ہوتا چلا گیا' عوام کا دل بھی ٹوٹ گیا' دنیا کو بھی ہماری جمہوریت پر اعتماد نہ رہا' اسٹیبلشمنٹ کی ذمے داریاں بھی بڑھ گئیں اور قوم کا سرمایہ بھی ضایع ہو گیا' آخر اس نام نہاد جمہوری کھیل کا کیا فائدہ ہورہا ہے؟ آپ کو اگر اس کھیل پر یقین نہیں ہے تو آپ اسے ختم کیوں نہیں کر دیتے؟
آپ پانچ دس سال بعد دس بارہ لوگ بیٹھا کریں اور نئے پوپ کا فیصلہ کر لیا کریں' قوم کا وقت اور سرمایہ دونوں بچ جائیں گے اور آپ اگر یہ نہیں کرنا چاہتے تو پھر عوام کی رائے پر اعتماد کریں' لوگوں کا فیصلہ مان لیں' لوگوں کی رائے پر اگر ملک بن سکتا ہے تو یہ چل بھی سکتا ہے۔
آزما کر تو دیکھیں اور اگر ملک نہیں چلے گا تو لوگ اپنی رائے تبدیل کر لیں گے' آپ انھیں موقع تو دیں' دو اڑھائی سال میں کوئی قیامت نہیں آئے گی چناں چہ ہار مانیں' عوام کا مینڈیٹ تسلیم کریں اور عمران خان کو آنے دیں' تیسری مرتبہ مصنوعی حکومت کا ناکام تجربہ نہ کریں' اس کا نتیجہ اس مرتبہ بھی وہی نکلے گا جو 2022میں نکلا تھا کیوں کہ غلطیاں جب بھی حاملہ ہوتی ہیں یہ غلطیاں ہی جنم دیتی ہیں' ان کی کوکھ سے خیر پیدا نہیں ہوتی



That Food is most best in winter.


Winter carries with it a longing for food sources that warm the body as well as solace the spirit. One such culinary joy that impeccably embodies the substance of winter is the humble yet adaptable soup. Soup, in its heap structures, has been a staple across societies for a really long time, offering food and comfort during the colder months.What makes soup especially appropriate for winter is its capacity to be both sustaining and adaptable.

From generous vegetable stocks to velvety bisques and hot stews, the choices are just about as different as the people who appreciate them. Every spoonful offers an ensemble of flavors and surfaces, from the delicate pieces of vegetables to the rich, sweet-smelling stock that warms from within.


In expansion to its encouraging characteristics, soup likewise flaunts functional benefits in winter. Its warm temperature assists with combatting the chill in the air, while its supplement rich fixings give fundamental nutrients and minerals to sustain the body against occasional sicknesses. 

Moreover, the demonstration of planning and getting a charge out of soup can be a common encounter, uniting loved ones to share stories and chuckling around the feasting table.Beyond soup, other winter top choices incorporate good stews, slow-cooked dishes, and stove prepared goulashes. 

These dishes fulfill hunger as well as summon sensations of sentimentality and custom, helping us to remember occasions past and appreciated family recipes.In substance, the best food varieties for winter are those that sustain the body, warm the soul, and unite individuals in festival of the time's abundance. 

If you want to earn money daily $50 click here

Whether it's a steaming bowl of soup on a cold night or a consoling meal imparted to friends and family, winter food sources remain as a cherished memory to us and on our tables.

موسم سرما اپنے ساتھ کھانے کے ذرائع کی خواہش رکھتا ہے جو جسم کو گرما دینے کے ساتھ ساتھ روح کو بھی سکون بخشتا ہے۔  ایسی ہی ایک پاک خوشی جو سردیوں کے مادے کو معصومانہ طور پر ابھارتی ہے وہ ہے شائستہ لیکن موافقت پذیر سوپ۔  سوپ، اس کے ڈھیروں کے ڈھانچے میں، کافی عرصے سے معاشروں میں ایک اہم مقام رہا ہے، جو سرد مہینوں میں کھانا اور آرام فراہم کرتا ہے۔ جو چیز سوپ کو سردیوں کے لیے خاص طور پر موزوں بناتی ہے وہ اس کی پائیدار اور موافقت پذیر ہونے کی صلاحیت ہے۔

  فرحت بخش سبزیوں کے ذخیرے سے لے کر مخملی بسکس اور گرم سٹو تک، انتخاب اتنے ہی مختلف ہیں جتنے لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔  ہر چمچہ سبزیوں کے نازک ٹکڑوں سے لے کر بھرپور، میٹھی خوشبو والے ذخیرے تک ذائقوں اور سطحوں کا ایک مجموعہ پیش کرتا ہے جو اندر سے گرم ہوتا ہے۔ اپنی حوصلہ افزا خصوصیات کی توسیع میں، سوپ بھی سردیوں میں فعال فوائد کا اظہار کرتا ہے۔

  اس کا گرم درجہ حرارت ہوا میں ٹھنڈ کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے، جب کہ اس کے ضمیمہ سے بھرپور فکسنگ جسم کو کبھی کبھار ہونے والی بیماریوں کے خلاف جسم کو برقرار رکھنے کے لیے 

بنیادی غذائی اجزاء اور معدنیات فراہم کرتی ہے۔ 


 مزید برآں، منصوبہ بندی کا مظاہرہ اور سوپ سے چارج نکالنا ایک عام ملاقات ہو سکتی ہے، پیاروں کو کہانیاں بانٹنے کے لیے متحد کرنا اور کھانے کی میز کے ارد گرد ہنسنا۔  تیار goulashes.  یہ پکوان بھوک کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ جذباتیت اور رسم و رواج کے احساس کو بھی سمیٹتے ہیں، ماضی کے موقعوں کو یاد رکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور خاندانی پکوانوں کی تعریف کرتے ہیں۔ 

مادے میں، سردیوں کے لیے کھانے کی بہترین اقسام وہ ہیں جو جسم کو برقرار رکھتی ہیں، روح کو گرماتی ہیں اور تہوار میں افراد کو متحد کرتی ہیں۔  وقت کی کثرت کا۔  چاہے وہ سرد رات میں سوپ کا بھاپ کا پیالہ ہو یا دوستوں اور کنبہ والوں کو دیا جانے والا تسلی بخش کھانا، موسم سرما کے کھانے کے ذرائع ہمارے لیے اور ہماری میزوں پر ایک یادگار کے طور پر رہتے ہیں۔

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II"

 Title: "The Last Ottoman King: Abdul Hamid II"



Summary:

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II" is a charming narrative that digs into the life and reign of perhaps of the most fascinating figure in Ottoman history. Through a mix of recorded film, master interviews, and emotional reenactments, the narrative paints a clear representation of King Abdul Hamid II and his turbulent time.

The narrative starts by investigating Abdul Hamid II's initial life, following his excursion from a youthful sovereign to the leader of the immense Ottoman Realm. Watchers are submerged in the social and political scene of the late nineteenth hundred years, seeing the difficulties and changes confronting the Ottoman Domain during this urgent period.


As Ruler, Abdul Hamid II confronted a progression of overwhelming difficulties, including inside uprisings, outer dangers, and strain from European powers looking to apply impact over the realm. The narrative inspects how Abdul Hamid II explored these intricacies, utilizing both tact and tyrant measures to keep up with Ottoman sway.

Fundamental to the narrative is an investigation of Abdul Hamid II's dubious strategies, including his endeavors to modernize the domain while saving its Islamic character. Watchers gain knowledge into his changes, for example, the development of rail routes and transmit lines, as well as his endeavors to oppose European infringement through skillet Islamic fortitude.

Be that as it may, Abdul Hamid II's rule was additionally set apart by suppression and opposition. The narrative reveals insight into his utilization of mystery police and restriction to stifle contradict, as well as the development of patriot developments trying to oust Ottoman rule.

If you want to earn money daily $40 Click here

All through the narrative, master students of history give important setting and investigation, offering bits of knowledge into Abdul Hamid II's inspirations, methodologies, and heritage. Watchers gain a more profound comprehension of the intricacies of Ottoman history and the getting through effect of Abdul Hamid II's standard on the cutting edge Center East.

"The Last Ottoman King: Abdul Hamid II" is a convincing excursion through a vital part in world history, enlightening the life and tradition of a surprising pioneer whose rule proceeds to captivate and incite discussion right up to the present day.

ہم سب کا پاکستان ہے



 بہت سے شعبے ایسے ہیں جو ابھی بھی منتظر ہیں کہ ہماری طرف بھی دیکھا جائے اور ہمارے لئے اعلی کلاس کے سامان اور دیگر انتظامی امور کو چلانے کے لئے۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس سہولتیں فراہم ہوں تاکہ آنے والے سائل کو صاف ستھرے ماحول میں اس کے مسئلے کے مطابق اس کو وہ چیز فراہم کی جائے جس کی اسے آشد ضرورت ہے بھت سی جگہوں پر دیکھا گیا ھے جو ڈائریکٹ اپنے شھریوں سے وابستہ ھے وھاں پر اکثر دیکھا گیا ھے بلکہ بڑی شدت سے محسوس کیا گیا ھے کہ بحیثیت پاکستانی شھری ھمیں رسائ تو ملتی ھے

 مختلف جگہوں پر چاھے وہ ٹوکن سے ملے سفارش سے یا لائن میں لگ کر اور کئی جگہوں پر ایسا بھی دیکھاکہ آوٹ آف پاور سائل کو ذہنی ٹارچر کیا جاتا ھے حالانکہ ریاست کے آئین میں کہیں ایسا درج نہیں ھے کہ کوئی بھی پاکستانی شھری اپنے مسئلے کے لئے کسی بھی ادارے میں جائے تو اسے خوار کیا جائے بلکہ اسے ھر صورت میں تمام وہ سھولتیں فراہم کی جائیں جو ایک معزز شھری کی ھوتی ھیں ایک سروے میں یہ بھی دیکھا گیاھےکہ عام عوام کے ساتھ نہایت ھی سخت اور نظر انداز کر دینے والا رویہ اپنایا جاتا ھے اور بڑے ھی تحکمانہ انداز میں مخاطب کیاجاتا۔ھے کہ جیسے کرسی پر بیٹھا ھوا پوری ریاست کا مالک ھو سادہ لوح اور پڑھے لکھے لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ آخر ایسا کیوں ؟ ھم اپنے ملکی ذمہ داروں سے اپنے حصے کے حقوق اور اپنے حصے کی سھولتیں لینے آتے ھیں اور ھمارے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ھے جاتا ۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $48   CLICK HERE 

گذشتہ دنوں شناختی کارڈبنوانے کے سلسلے میں آفس جانا ھوا تو وھاں ایک تلخ تجربہ ھوا ایسا لگا کہ ھم کسی اور جھاں میں آگئے ھیں۔جس کے ھاتھ میں قلم ھے وھی عوام کے مقدرلکھنے میں مصروف ھے عوام جب مکمل ٹیکس ادا کرتی ھے تو اسے سھولتیں بھی مکمل ملنی چاہیئں ریاست تو اپنے شھریوں کے لئے تو اچھا ھی کرتی ھے اچھا ھی سوچتی۔ھے پر جو آگے کرسیوں پر بیٹھتے ھیں وہ اپنی مرضی کے مالک ھیں جس طرح چاھیئں کریں جب کہ ایسا نہیں ھونا چاھئے ۔ھونا تو یہ چاہیئے کہ عوام کو اپنے شھریوں کو ھر وہ سھولیت بالا ایمانداری سے دی جائے جس طرح ریاست نے سھولتیں عوام کےلئے۔ مختص کی ھوئی ھیں ۔بھت سی جگہوں پر بھت سے دفتروں میں لاتعداد ایسے مراکز نام لئے بغیر کہ وھاں پر کوئ ترتیب نہیں ناکافی سھولتیں ھیں افراتفری کا عالم ھے۔لیکن بیان تسلیاں اتنی ھیں کہ جیسے ھم یو ایس اے یا یوکےیا دیگر یورپین ممالک میں رہ کرانسانی حقوق کی یوٹیلائزیشن کے مزے لے رھے ھیں نہ کوئ یہاں طریقہ ھے نہ کوئ یہاں سلیقہ ھے بس یہ تیری ھے یہ میری ھے اور باقی ہیرا پھیری ھے فنڈز ملتے ھیں ریاست اپنا فرض ادا کرتی ھے لیکن فنڈز جاتے کہاں ھیں ۔یہ سمجھ نہں آتی وسائل کہاں جاتے ھیں اس کا تو ضرور پتہ ھونا چاھئے اب آپ کہیں بھی جائیں آپ اک نئے عالم المسائل کا سامنا کرتے ھیں جب عوام اور پوری قوم بھاری ٹیکس ادا کرتی ھے تو اس کے عوض عوام کو سھولتیں پوری ملنی چاہیئں نہ کہ در در کی ٹھوکریں ۔ یعنی عالم یہ ہے کہ ہم لوگ ہر طرح کا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتے ہیں اس کے عوض ہمیں صاف ستھرا پاکستان چاہیے

                                                                               

 اگر ہم ہاسپٹل میں جائیں تو ہاسپٹل میں بہترین اعلی قسم کی سہولتیں ملنی چاہیے مریض بچ کر ائے نہ کہ بیمار ہو کر اس کی وجہ انکھوں دیکھا حال ہے گزشتہ دنوں ایک مریض کی عیادت کے لیے ہاسپٹل جانا پڑا ایک نہیں بلکہ دو ہاسپٹل میں گئے تو وہاں جو بیڈ ہیں ان کا تو مت پوچھیں نہ کوئی صفائی کا انتظام ہے وارڈوں میں تھوک پان کی پیک دیواریں گندی یہاں وہ بھی انتہائی یعنی خراب ایسا نہیں ہونا چاہیے اور نیچے دیکھا جو بیڈ کے نیچے حشرات چل رہے ہیں بدبو ہے جو ہمارے ٹیکس ہیں وہ اس طرح ہم پر لگتے ہیں کہ ہمیں ہاسپٹل صاف ستھرا چاہیے وہاں کی سہولتیں مثلا جہاں لوگوں کے ٹھہرنے کے لیے الگ جگہ ہو صاف ستھرا ماحول ہو کنٹین وہاں کی صاف ہو کھانے پینے کی چیزیں جو ملے وہ معیاری ہوں ریلیف ملے عوام کو پیسہ تو ہمارا ہی لگتا ہے اس کے عوض ہمیں کیا ملتا ہے ناک بند کر کے ہم ایسی جگہ پر جاتے ہیں جہاں ہم یہ توقع لے کر جاتے ہیں کہ وہاں ہمارا مریض بچ کر ائے گا بچنے کی بجائے وہ اور بیماریاں لے کر اتا ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تنقید کر رہے ہیں نہ ایسا ہرگز نہیں ہے ہاں مریض بچ کر بھی اتے ہیں پر لیکن زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ صفائی کا ناقص انتظام ہے جو ہمارے پیسے ہیں اس پیسے سے ان جگہوں کو صاف کریں یہاں سہولتیں دیں تو تب بہتر ہے

 کیونکہ اگر ہم نے نسلیں تندرست رکھنی ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے ہسپتال شفا خانے اور ان سے وابستہ چیزیں صاف ستھری رکھنی ہیں کیونکہ پاس سے پیسہ تو لگتا نہیں ہے یہ سارا پیسہ عوام کا ہوتا ہے اور ارباب اختیار کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اعلی سہولتیں عوام تک پہنچ جائیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن اٹھ فروری 4202 کے بعد ایک نیا پاکستان نئے لوگ نیا سیٹ اپ کے عوام خوش ہو باہر سے لوگ جو آئیں وہ خوش ہوں یعنی کہ اٹھ فروری 2024کے بعد ہمیں ترقی یافتہ خوشحال صاف ستھرا پاکستان ملے یعنی کہ اٹھ فروری کے بعد وہ ابتدا ہو جائے جس کی ہم نے کئی دہائیاں پہلے پلاننگ کی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں پر عوام کو جانا پڑتا ہے یہ امید لے کر کہ ہم ایز اے پاکستانی شہری وہاں سے اپنے مسائل کا حل لے کر ائیں گے وہاں ہمیں بہت اچھی سہولت ملے گی لیکن وہاں بھی یہی حال کہ مت پوچھو یعنی ایک جگہ نہیں یعنی بہت سے مقامات ہیں جہاں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے سب سے پہلے قومیں ہوتی ہیں قوموں سے ملک بنتے ہیں اور ملک پھر دنیا میں نام بناتے ہیں 

ترقی میں خوشحالی میں صفائی میں یعنی نئی ایجادات میں دنیا مثالیں دیتی ہے کہ وہ ملک کہ جس نے اپنی قوم کے لیے دن رات ایک کر کے اس کو زندگی کی تمام سہولتیں دی اس کو ہر ادارے میں صاف ستھرا ماحول دیا اس لیے بہت دیر غفلت میں رہیں اب ہمیں سوچنا ہے غفلت سے جاگنا ہے نسل نو کو بنانا ہے اور اس کے ہاتھ میں وطن عزیز کی باگ ڈور دینی ہے کیونکہ جہاں پر اگے دینے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے وہ ملک وہ قومیں ترقی خوشحالی کو ترستی ہیں اس لیے ہمیں چاہیے ذمہ داروں کو کہ اخر ایک نہ ایک دن ہم نے یہ چھوڑنا ہے کرسی کو چھوڑنا ہے اپنے ایکسپیرینس کو چھوڑنا ہے تو کیوں نہ ہم یہ چیز اپنے سے اگلوں کو منتقل کریں اگلے اگلوں کو منتقل کریں گے یہ ایک زنجیریں عمل ہے کہ میں اپ کو اپ دوسرے کو دوسرا تیسرے کو تو اس طرح زینہ در زینہ ترقی کے باپ کھلتے ہیں تعمیر نو کے باب کھلتے ہیں خوشحالی کے باپ کھلتے ہیں نسل نو کو یوٹیلائزیشن کرنے کے باب کھلتے ہیں اور تب جا کر ایک بہترین معاشرہ ایک بہترین ملک ایک بہترین قوم ایک بہترین جرنیشن بنتی ہے ہمیں نکلنا ہے اس دلدل سے اس بدحواسی سے ہمیں سوچنا ہے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اگر ہر چیز کو اپنی حد تک رکھنا ہے تو سبز ھلالی پرچم کیا ہے اس کو سمجھنا ہوگا سوچنا ہوگا۔ یہ ہماری شان ہے یہ ہم�

Preventive Health Care: Importance of Regular Check-ups and Screenings. احتیاطی صحت کی دیکھ بھال: باقاعدگی سے چیک اپ اور اسکریننگ کی اہمیت

Regular check-ups and screenings are pivotal aspects of preventive healthcare, offering numerous benefits in maintaining overall well-being and detecting potential health issues early.


باقاعدگی سے چیک اپ اور اسکریننگ احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کے اہم پہلو ہیں، جو مجموعی صحت کو برقرار رکھنے اور ممکنہ صحت کے مسائل کا جلد پتہ لگانے میں بے شمار فوائد پیش کرتے ہیں۔

Early Location of Infections: Standard screenings, for example, pulse checks, cholesterol tests, mammograms, and colonoscopies, empower the early discovery of different sicknesses and conditions like hypertension, diabetes, malignant growth, and coronary illness. Identifying these illnesses in their underlying stages fundamentally further develops treatment results and expands the possibilities of fruitful recovery.

انفیکشن کی ابتدائی جگہ: معیاری اسکریننگ، مثال کے طور پر، نبض کی جانچ، کولیسٹرول کے ٹیسٹ، میموگرام، اور کالونیسکوپیز، مختلف بیماریوں اور حالات جیسے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، مہلک ترقی، اور کورونری بیماری کی ابتدائی دریافت کو تقویت دیتی ہیں۔  ان بیماریوں کو ان کے بنیادی مراحل میں شناخت کرنا بنیادی طور پر علاج کے نتائج کو مزید ترقی دیتا ہے اور نتیجہ خیز بحالی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔

Preventive Measures: Through standard check-ups, medical care experts can survey a singular's general wellbeing status and give customized proposals to preventive measures. This might incorporate way of life adjustments, dietary changes, work-out schedules, and inoculation plans custom fitted to lessen the gamble of fostering specific illnesses.

احتیاطی تدابیر: معیاری چیک اپ کے ذریعے، طبی نگہداشت کے ماہرین واحد کی عمومی صحت کی حالت کا سروے کر سکتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کے لیے اپنی مرضی کے مطابق تجاویز دے سکتے ہیں۔  اس میں طرز زندگی کی ایڈجسٹمنٹ، غذائی تبدیلیاں، ورزش کے نظام الاوقات، اور مخصوص بیماریوں کو فروغ دینے کے جوئے کو کم کرنے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق ٹیکہ لگانے کے منصوبے شامل ہو سکتے ہیں۔

Risk Evaluation and The board: Ordinary wellbeing appraisals assist with recognizing risk factors related with specific infections, permitting medical care suppliers to foster suitable methodologies for risk the executives and sickness anticipation. For example, distinguishing elevated cholesterol levels early can provoke intercessions like dietary changes or prescription to forestall cardiovascular complications.

خطرے کی تشخیص اور بورڈ: عام بہبود کے جائزے مخصوص انفیکشن سے متعلق خطرے کے عوامل کو پہچاننے میں مدد کرتے ہیں، طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ایگزیکٹوز کے خطرے اور بیماری کی توقع کے لیے موزوں طریقہ کار کو فروغ دیں۔  مثال کے طور پر، کولیسٹرول کی بلند سطحوں کی جلد میں تمیز کرنا غذائی تبدیلیوں یا قلبی پیچیدگیوں کو روکنے کے لیے نسخے جیسی سفارشات کو اکسا سکتا ہے۔


Monitoring Wellbeing Patterns: Steady observing of wellbeing pointers after some time gives significant bits of knowledge into a singular's wellbeing patterns. This longitudinal information empowers medical services suppliers to follow changes, distinguish irregularities, and intercede expeditiously when important, consequently limiting the movement of potential wellbeing problems.

صحت مندی کے نمونوں کی نگرانی: کچھ وقت کے بعد تندرستی کے اشارے کا مستقل مشاہدہ ایک واحد کے فلاح و بہبود کے نمونوں میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔  یہ طولانی معلومات طبی خدمات کے فراہم کنندگان کو تبدیلیوں کی پیروی کرنے، بے قاعدگیوں میں فرق کرنے، اور جب ضروری ہو تو فوری مداخلت کرنے کا اختیار دیتی ہے، نتیجتاً صحت کے ممکنہ مسائل کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہے۔

Promotion of Sound Maturing: Normal check-ups advance solid maturing by addressing age-related wellbeing concerns and carrying out methodologies to keep up with ideal physical and mental capability. This incorporates screenings for osteoporosis, mental degradation, vision and hearing disabilities, and other age-related conditions that can affect nature of life.

صوتی میچورنگ کا فروغ: عمومی چیک اپ عمر سے متعلق صحت کے خدشات کو دور کرکے اور مثالی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے طریقہ کار کو انجام دے کر پختہ ہونے کو آگے بڑھاتے ہیں۔  اس میں آسٹیوپوروسس، دماغی انحطاط، بصارت اور سماعت کی معذوری، اور عمر سے متعلق دیگر حالات جو زندگی کی نوعیت کو متاثر کر سکتے ہیں کے لیے اسکریننگ شامل کرتا ہے۔

Patient Schooling and Strengthening: Check-ups offer open doors for patient training and strengthening, enabling people to play a functioning job in dealing with their wellbeing. Medical services suppliers can teach patients about sickness anticipation, side effect acknowledgment, taking care of oneself practices, and the significance of sticking to suggested screenings and vaccinations.

مریضوں کی تعلیم اور تقویت: چیک اپ مریضوں کی تربیت اور مضبوطی کے لیے کھلے دروازے پیش کرتے ہیں، جو لوگوں کو ان کی فلاح و بہبود سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔  طبی خدمات فراہم کرنے والے مریضوں کو بیماری کی توقع، ضمنی اثرات کا اعتراف، اپنے طرز عمل کا خیال رکھنا، اور تجویز کردہ اسکریننگ اور ویکسینیشن پر قائم رہنے کی اہمیت کے بارے میں سکھا سکتے ہیں۔

Cost-Proficiency: While preventive medical care requires interest in normal check-ups and screenings, it frequently ends up being more savvy over the long haul contrasted with treating progressed stage illnesses. Early discovery and intercession can forestall the requirement for costly operations, hospitalizations, and long haul drug regimens related with untreated or high level diseases.

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40   CLICK HERE 

لاگت کی مہارت: جبکہ احتیاطی طبی نگہداشت کے لیے عام چیک اپ اور اسکریننگ میں دلچسپی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اکثر طویل سفر کے دوران زیادہ سمجھدار ہوتا ہے جو ترقی یافتہ مرحلے کی بیماریوں کے علاج کے برعکس ہوتا ہے۔  ابتدائی دریافت اور شفاعت مہنگے آپریشنوں، ہسپتالوں میں داخل ہونے، اور علاج نہ ہونے والی یا اعلیٰ سطح کی بیماریوں سے متعلق طویل فاصلے تک دوائیوں کی ضرورت کو روک سکتی ہے۔

Psychological Advantages: Customary check-ups can lighten uneasiness and vulnerability in regards to one's wellbeing status by giving consolation through typical experimental outcomes and wellbeing evaluations. Besides, proactive medical services the executives cultivates a feeling of control and strengthening, advancing generally speaking mental well-being.

نفسیاتی فوائد: حسب ضرورت جانچ پڑتال عام تجرباتی نتائج اور صحت کی تشخیص کے ذریعے تسلی دے کر کسی کی فلاح و بہبود کی کیفیت کے حوالے سے بے چینی اور کمزوری کو کم کر سکتی ہے۔  اس کے علاوہ، فعال طبی خدمات ایگزیکٹوز کنٹرول اور مضبوطی کا احساس پیدا کرتی ہیں، عام طور پر ذہنی تندرستی کو آگے بڑھاتی ہیں۔

In end, normal check-ups and screenings are vital parts of preventive medical care, offering various advantages regarding early infection recognition, preventive mediations, risk the board, solid maturing, patient schooling, cost-productivity, and mental prosperity. By focusing on preventive consideration and taking on a proactive way to deal with wellbeing support, people can improve their personal satisfaction and lessen the weight of preventable sicknesses.

آخر میں، عام چیک اپ اور اسکریننگ احتیاطی طبی نگہداشت کے اہم حصے ہیں، جو انفیکشن کی جلد شناخت، بچاؤ کی ثالثی، خطرے سے متعلق بورڈ، ٹھوس پختگی، مریض کی تعلیم، لاگت کی پیداوار، اور ذہنی خوشحالی کے حوالے سے مختلف فوائد پیش کرتے ہیں۔  احتیاطی غور پر توجہ مرکوز کرنے اور فلاح و بہبود کی مدد سے نمٹنے کے لیے ایک فعال طریقہ اختیار کرنے سے، لوگ اپنے ذاتی اطمینان کو بہتر بنا سکتے ہیں اور روکے جانے والی بیماریوں کے وزن کو کم کر سکتے ہیں۔

Chronic Disease Management: Understanding and Managing Conditions like Diabetes and Hypertension.دائمی بیماری کا انتظام: ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے حالات کو سمجھنا اور ان کا انتظام کرنا

Grasping Ongoing Infections: Persistent illnesses are dependable circumstances that commonly progress gradually and might not have a fix. Normal models incorporate diabetes and hypertension. These circumstances frequently result from a mix of hereditary, natural, and way of life factors.

جاری انفیکشن کو پکڑنا: مستقل بیماریاں قابل اعتماد حالات ہیں جو عام طور پر بتدریج بڑھتے ہیں اور ہو سکتا ہے ان کا کوئی حل نہ ہو۔  عام ماڈلز میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہوتا ہے۔  یہ حالات اکثر موروثی، فطری، اور طرز زندگی کے عوامل کے مرکب سے پیدا ہوتے ہیں۔

Diabetes: Diabetes is a constant condition portrayed by raised glucose levels.

ذیابیطس: ذیابیطس ایک مستقل حالت ہے جو گلوکوز کی بڑھتی ہوئی سطح سے ظاہر ہوتی ہے۔


There are two primary sorts: type 1 and type 2 diabetes. Type 1 diabetes generally creates in youth or pre-adulthood and happens when the body's safe framework goes after the insulin-delivering cells in the pancreas. Type 2 diabetes, more normal in grown-ups, happens when the body becomes impervious to insulin or doesn't create enough insulin.

دو بنیادی قسمیں ہیں: ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔  ٹائپ 1 ذیابیطس عام طور پر جوانی یا جوانی سے پہلے پیدا ہوتی ہے اور اس وقت ہوتی ہے جب جسم کا محفوظ فریم ورک لبلبہ میں انسولین فراہم کرنے والے خلیوں کے بعد جاتا ہے۔  ٹائپ 2 ذیابیطس، جو بالغوں میں زیادہ عام ہے، اس وقت ہوتی ہے جب جسم انسولین کے لیے بے اثر ہو جاتا ہے یا کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔

Hypertension: Is a condition where the power of blood against the supply route walls is reliably excessively high. This can harm the veins and lead to serious medical issues like coronary illness, stroke, and kidney disease.

ہائی بلڈ پریشر: ، ایک ایسی حالت ہے جہاں سپلائی روٹ کی دیواروں کے خلاف خون کی طاقت قابل اعتماد حد سے زیادہ ہوتی ہے۔  یہ رگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور سنگین طبی مسائل جیسے کورونری بیماری، فالج، اور گردے کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔

Management of Constant Sicknesses: Powerful administration of persistent infections includes a mix of medicine, way of life changes, and normal monitoring.

مستقل بیماریوں کا انتظام: مستقل انفیکشن کے طاقتور انتظام میں ادویات کا مرکب، طرز زندگی میں تبدیلیاں، اور معمول کی نگرانی شامل ہے۔

Medication: Contingent upon the condition and its seriousness, drug might be endorsed to assist with overseeing side effects and control risk factors. For diabetes, this might incorporate insulin infusions or oral prescriptions to bring down glucose levels. Hypertension might be dealt with prescriptions like ACE inhibitors, beta-blockers, or diuretics to bring down blood pressure.

دوا: حالت اور اس کی سنگینی کے مطابق، ضمنی اثرات کی نگرانی اور خطرے کے عوامل کو کنٹرول کرنے میں مدد کے لیے دوا کی توثیق کی جا سکتی ہے۔  ذیابیطس کے لیے، اس میں گلوکوز کی سطح کو کم کرنے کے لیے انسولین انفیوژن یا زبانی نسخے شامل کیے جا سکتے ہیں۔  ہائی بلڈ پریشر کو بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ACE inhibitors، beta-blockers، یا diuretics جیسے نسخوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40    CLICK HERE 

Lifestyle Changes: Way of life changes assume a critical part in overseeing ongoing illnesses. This incorporates keeping a sound eating routine wealthy in natural products, vegetables, entire grains, and lean proteins while restricting sugar, salt, and unfortunate fats. Ordinary actual work is likewise significant for controlling glucose levels and circulatory strain. Furthermore, stopping smoking and directing liquor admission can assist with diminishing the gamble of complications.

طرز زندگی میں تبدیلیاں: طرز زندگی کی تبدیلیاں جاری بیماریوں کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  اس میں چینی، نمک اور بدقسمت چکنائی کو محدود کرتے ہوئے قدرتی مصنوعات، سبزیوں، سارا اناج، اور دبلی پتلی پروٹین میں بھرپور کھانے کے معمولات کو شامل کیا گیا ہے۔  گلوکوز کی سطح اور دوران خون کو کنٹرول کرنے کے لیے عام حقیقی کام بھی اسی طرح اہم ہے۔  مزید برآں، تمباکو نوشی کو روکنا اور شراب کے داخلے کی ہدایت کرنا پیچیدگیوں کے جوئے کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

Regular Observing: Checking glucose levels (for diabetes) and circulatory strain (for hypertension) is fundamental for dealing with these circumstances. This might include normal visits to medical services suppliers for check-ups, as well as self-observing at home utilizing gadgets, for example, glucometers or pulse screens. Monitoring these estimations takes into consideration early recognition of any progressions or complexities, empowering brief intervention.

باقاعدگی سے مشاہدہ: ان حالات سے نمٹنے کے لیے گلوکوز کی سطح (ذیابیطس کے لیے) اور دوران خون (ہائی بلڈ پریشر کے لیے) کی جانچ کرنا بنیادی ہے۔  اس میں چیک اپ کے لیے طبی خدمات فراہم کرنے والوں کے معمول کے دورے شامل ہو سکتے ہیں، نیز گیجٹ استعمال کرتے ہوئے گھر پر خود مشاہدہ کرنا، مثلاً گلوکوومیٹر یا پلس اسکرین۔  ان تخمینوں کی نگرانی میں کسی بھی پیشرفت یا پیچیدگی کی ابتدائی شناخت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، مختصر مداخلت کو بااختیار بنانا۔

Education and Backing: Schooling about the condition and how to oversee it is indispensable for people with persistent infections. This incorporates grasping the significance of medicine adherence, perceiving side effects of complexities, and knowing when to look for clinical assistance. Support from medical care suppliers, support gatherings, and relatives can likewise assist people with adapting to the difficulties of dealing with an ongoing disease.

تعلیم اور پشت پناہی: مستقل انفیکشن والے لوگوں کے لیے حالت اور اس کی نگرانی کے بارے میں اسکولنگ ناگزیر ہے۔  اس میں ادویات کی پابندی کی اہمیت کو سمجھنا، پیچیدگیوں کے ضمنی اثرات کو سمجھنا، اور یہ جاننا کہ طبی امداد کب تلاش کرنی ہے۔  طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں، امدادی اجتماعات، اور رشتہ داروں کی مدد اسی طرح لوگوں کو جاری بیماری سے نمٹنے کی مشکلات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دے سکتی ہے۔


In end, powerful administration of persistent illnesses like diabetes and hypertension requires an extensive methodology that tends to both clinical and way of life factors.By working intimately with medical services suppliers, settling on sound decisions, and remaining careful with checking, people can diminish the endanger of inconveniences and lead satisfying lives regardless of their circumstances.

آخر میں، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی مستقل بیماریوں کی طاقتور انتظامیہ کے لیے ایک وسیع طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے جو طبی اور طرز زندگی دونوں عوامل پر منحصر ہو۔  تکلیفوں کے خطرے سے دوچار ہوں اور ان کے حالات سے قطع نظر مطمئن زندگی گزاریں۔