لاہور کا ٹوپی گینگ. Topi gang of Lahore

 



لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن کے علاقے میں بہت ہی قلیل عرصے کے دوران دو ڈاکو خوف اور دہشت کی علامت بن کر سامنے آئے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ٹوپیاں پہنے وہ دونوں پھر کہیں سے نمودار ہوں گے، کسی کو لوٹیں گے، گولیاں چلائیں گے اور لوگوں کو زخمی یا قتل کر کے فرار ہو جائیں گے۔

صرف دو ماہ میں انھوں نے پانچ افراد کو قتل کیا۔ ان میں ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ ایک اور پولیس کانسٹیبل اور بہت سے عام شہری ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے۔


وہ صرف ڈکیتی کے دوران مزاحمت یا پولیس سے اچانک سامنے ہو جانے پر ہی گولیاں نہیں چلاتے تھے۔ کم از کم تین افراد کو انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کر کے قتل کیا۔

If you want to earn daily $40   click here

ایک شخص کو 'اجرت' یا 'سپاری' لے کر قتل کیا۔ قتل کے اس مقدمے میں مدعی بننے والے شخص کو بھی پولیس کے مطابق ان ہی دونوں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔


دو مختلف واقعات میں قتل اور زخمی ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ان دونوں 'سگے بھائیوں' نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا۔ جاتے ہوئے وہ ان دونوں کی سرکاری بندوقیں بھی ساتھ لے گئے۔

یہ سب کچھ انھوں نے محض دو ماہ کی قلیل مدت میں کیا۔ اس تمام عرصے میں پولیس ان تک نہیں پہنچ پائی۔ وہ دونوں شاہدرہ ٹاؤن ہی میں رہتے رہے۔


لاہور کی سٹی پولیس کے مطابق 'وہ دونوں چھلاوے کی طرح آتے، واردات کرتے، گولیاں چلاتے اور واپس جا کر شاہدرہ ہی میں چھپ جاتے۔'


ان دونوں کا تعلق 'ٹوپی گینگ' سے بتایا جا رہا ہے۔ اس گینگ کے ارکان نے چوری، ڈکیتی یا قتل کی وارداتوں میں اس انداز سے ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں کہ واردات کے دوران ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مقصد اپنی شناخت چھپانا ہوتا ہے۔


ٹوپی گینگ سے تعلق رکھنے والے ان دونوں ڈاکوؤں کی آخری واردات چند روز قبل ہی شاہدرہ ٹاون میں ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک دودھ دہی کی دکان پر ڈکیتی کی۔ ڈکیتی کے دوران انھوں نے فائرنگ کی جس میں ایک 17 سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی۔

لڑکی کے والد کو بھی ڈاکوؤں کی چلائی ہوئی گولی لگی جنھیں بعد میں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔


اس واقعے کی ویڈیو پاکستان میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی گردش کرتی رہی۔ اسی واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے دونوں ڈاکووں نے کچھ فاصلے پر گلی کنارے کھڑے شہروز نامی ایک نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔


پولیس کے مطابق دونوں ڈاکوؤں کو شک تھا کہ شہروز ان کے خلاف پولیس کو مخبری کرتا تھا۔ ڈکیتی اور قتل کے ان دو واقعات کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان دونوں ڈاکوؤں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔


لاہور پولیس نے تصدیق کی کہ دونوں ڈاکوؤں کو 'پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔' ان کی شناخت عباس اور حیدر علی بتائی گئی۔ دونوں کی عمریں 22 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔


ہر سال پولیس مقابلے یا 'انکاؤنٹر' کے ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں جن میں قتل، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کے مطلوب ملزم کی 'شوٹ آؤٹ کے دوران' ہلاکت کے ساتھ کیس بند ہوجاتے ہیں۔

مگر سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مارے جانے والے مبینہ ڈاکوؤں کی لاشوں کو گاڑیوں میں ڈال کر علاقے سے گزر رہی ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد اردگرد موجود ہے۔


مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ پولیس کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں لوگوں کو پولیس اہلکاروں کو گلے لگاتے اور ان پر پھولوں کی پتیاں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


تاہم سوال یہ ہے کہ دو ماہ سے پولیس کے لیے 'چھلاوہ' ثابت ہونے والے ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکوؤں تک پولیس اچانک کیسے پہنچ گئی اور وہ کیسے ہلاک ہوئے۔


یہ بھی پڑھیےبالاج ٹیپو ٹرکاں والا کا قتل: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستان'بعض اوقات انکاؤنٹر لازمی ہو جاتے ہیں۔۔۔': سسٹم کی وہ خامیاں جو پاکستان میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ بنتی ہیںشیخوپورہ: ڈکیتی کی وارداتوں میں خواتین کا مبینہ ریپ کرنے والا گینگ جو متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیاشاہدرہ کا ٹوپی گینگ کون ہے؟

لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ٹوپی گینگ کے نام سے کام کرنے والے چند افراد پہلے بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔


گذشتہ برس ڈولفن پولیس نے بھی ایک شخص کو پولیس کے ساتھ مقابلے کے دوران ہلاک کیا۔ اس شخص کی شناخت حمزہ کے نام سے ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ حمزہ 'ٹوپی گینگ کا سرغنہ تھا جو پولیس کو قتل، ڈکیتی اور چوری وغیرہ کی کئی وارداتوں میں مطلوب تھا۔'


بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سٹی سرکل کے سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن ریٹائرڈ قاضی علی رضا نے بتایا کہ شاہدرہ میں مارے جانے والے دونوں مبینہ ڈاکو ٹوپی گینگ بنانے والوں میں شامل نہیں تھے۔


'یہ دونوں کچھ عرصہ پہلے ہی اس گینگ میں شوٹرز کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ ٹوپی گینگ اس سے پہلے سے کام کر رہا تھا۔'


ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق ٹوپی گینگ بنیادی طور پر گاؤں کے ایسے نوجوان لڑکوں پر مشتمل تھا جو 'معمولی نوعیت کے چھینا جھپٹی' کے واقعات میں ملوث تھا۔ وہ کہتے ہیں یہ زیادہ تر گاؤں کے ایسے لڑکوں نے مل کر بنا لیا تھا جو لوگوں سے پیسے اور مال چھیننے کی وارداتیں کرتے تھے۔


تاہم دو برس قبل پولیس نے اس گینگ کے خلاف کارروائی کی اور ان کے کئی ممبران کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس گینگ کو اس وقت ختم کر دیا گیا تاہم گینگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔


ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ بعد میں 'لڑکے اس گینگ میں شامل ہوئے جو کچھ عرصہ پہلے چھوٹے تھے لیکن گینگ کے ان بڑے لڑکوں سے متاثر تھے جنھیں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہی چھوٹو' اب اس گینگ کو چلا رہے تھے۔ 'یہ لوگ ٹوپیاں پہن کر وارداتیں کرتے ہیں۔'


ٹوپی گینگ کے ڈاکوؤں نے 'پولیس کو بھی نشانہ بنایا'

پولیس کے بقول کچھ عرصہ قبل ٹوپی گینگ میں علی حیدر اور عباس نامی دو سگے بھائیوں نے شمولیت حاصل کی۔ ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق 'یہ دونوں اس گینگ کے شوٹرز بنے ہوئے تھے۔ گینگ کے چھوٹو ان کو استعمال کرتے تھے۔'


پولیس آفیسر کے مطابق حیران کن طور پر یہ دونوں بھائی ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے گارڈز تھے۔ 'دن کے وقت یہ دونوں گارڈز کے طور پر ڈیوٹی کرتے اور رات کے وقت یہ ڈکیتی اور قتل جیسی وارداتیں کرتے۔'


انھوں نے پہلی مبینہ ڈکیتی کی واردات رواں برس 31 جنوری کو کی جس میں یہ ایک راہگیر سے نقدی وغیرہ چھین کر فرار ہوئے اور جاتے ہوئے گولی مار کر اسے زخمی کر دیا۔ کچھ ہی روز بعد تین فروری کو انھوں نے مبینہ طور پر ڈکیٹی کے دوران فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل کیا۔

ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ ان دونوں 'شوٹرز' نے مبینہ طور پر کرائے کے لیے قتل بھی کیا۔ معاوضہ بھی انھوں نے کوئی بہت زیادہ نہیں لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس مقدمے میں مدعی گوگی بٹ نامی شخص کو بھی مبینہ طور پر قتل کر دیا۔


ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس گینگ کے لوگوں کی کارروائیوں اور خاص طور پر ان دو 'ڈاکوؤں' کی کارروائیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گاؤں کے ایسے بظاہر سادہ لوح لڑکے تھے جنھیں اپنے اقدامات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔


'وہ پولیس کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں ہچکچائے۔ انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کسی پولیس اہلکار کو مارنے کے بعد وہ زیادہ عرصہ بچ نہیں پائیں گے۔'


قاضی علی رضا کہتے ہیں کہ پولیس کے جس ہیڈ کانسٹیبل کو ان دونوں بھائیوں نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی سے قتل کیا وہ ان کے خلاف 'تحقیقات کرتا ہوا ان کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ انھیں یہ خوف تھا کہ وہ جلد ان تک پہنچ جائے گا۔'


اس لیے انھوں نے اس کو ہی 'راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔'


دوسرے پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے خیال میں وہ ان کے خلاف 'تحقیقات کر رہا تھا۔'


'اپنی طرف سے وہ اسے ختم کر گئے تھے اور اس کی رائفل بھی ساتھ لے گئے تھے وہ۔ تو اس کی جان بچ گئی۔'


ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکو زیادہ سے زیادہ عرصے تک پولیس کو خود سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق انھیں شہروز نامی شخص پر شک تھا کہ وہ پولیس کو ان کے خلاف مخبری کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر اپنی آخری ڈکیتی کی واردات میں 17 سالہ لڑکی کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے شہروز کو بھی قتل کیا۔


پولیس ان تک کیسے پہنچی؟

ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس گذشتہ دو ماہ سے ان کے چھپنے کی جگہ کا سراغ لگانے کے لیے کام کر رہی تھی۔

ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد انھوں نے ایک حکمتِ عملی سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں دونوں ڈاکو وارداتیں کرنے کے بعد جا کر چھپتے تھے۔


قاضی علی رضا نے بتایا کہ پولیس نے اس کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں کو استعمال کیا۔ انھیں مردم شماری کرنے والوں کے بھیس میں اس علاقے میں بھیجا گیا جہاں دونوں مبینہ ڈاکو چھپتے تھے۔


ان خواتین اہلکاروں نے تقریباً سات دن تک اس علاقے میں مردم شماری کے اہلکار بن کام کیا۔ 'انھوں نے یہ معلوم کیا کہ دونوں شوٹرز عین کس جگہ پر چھپے ہوتے ہیں۔'


انھوں نے بتایا کہ پولیس عنقریب ان کے خلاف کارروائی کرنے جا رہی تھی تاہم ایک ہی دن میں دو قتل کے واقعات نے ان کے پلان کو بدل دیا۔ انھوں نے فوری ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔


ایس پی سٹی نے بتایا کہ جب پولیس دونوں مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے اس مقام تک پہنچی جہاں وہ چھپے ہوئے تھے تو پولیس کو دیکھ کر انھوں نے 'پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کے ساتھ اسی شوٹ آؤٹ میں دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے۔'

پولیس کے بقول وہ ان مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے ہی گئی تھی تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا شوٹ آؤٹ سے قبل پولیس کے پاس انھیں گرفتار کرنے کا موقع تھا یا نہیں۔


اکثر انکاؤنٹرز میں پولیس کی طرف سے یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ اہلکاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جبکہ مبینہ جرائم پیشہ عناصر غالباً اپنے ہی ساتھیوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔

دریں اثنا پولیس کے مطابق ٹوپی گینگ کے دس سے بارہ مزید مبینہ ارکان کو بھی گرفتار کیا گیا جو کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی سی آئی اے کے حوالے کر دیے گئے ہیں جو اس معاملے کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔

   

انصاف اور دباؤ. Justice and pressure

حقائق 

واضح اور شفاف تھے،  میں نے حکومتی.  ناجائ. دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو چاہتی تھی کہ بچے کو مستند مجرموں کیساتھ بند کر دیا جائے

Abdul Qayyum 



میں نے اس سے استدعا کی وہ مجھے اسمعاملے کے متعلق بتائے۔

میرے اس دوست نے جواب دیا: "مجھے یاد ہے کہ اس معاملے میں حقائق نہایت ہی واضح اور شفاف تھے۔ وہ لڑکا جس کی عمر بمشکل16 سال تھی، اس کے پاس سے میری جوانا (Merijuana) کی کافی مقدار برآمد ہوئی تھی اور اسے اسی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کا جرم بہت واضح تھا اور اس کو سزا سنانے کے لیے کافی شہادت موجود تھی۔ اس زمانے میں ججوں پر کافی دباؤ ہوتا تھا کہ منشیات کے عادی افراد کو ہر قیمت پر سزا دی جائے۔"

If you want to earn daily $40.                    click here

میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھی: "مجھے یہ نوجوان بہت پسند تھا لیکن مجھے اسے2 سال سزا سنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن مجھے امید تھی کہ وہ 6 ماہ بعد پیرول پر رہا ہو جائے گا۔"

"لیکن اس سے پہلے کہ اس نوجوان کو سزا سنائی جاتی، میری ملازمت کا سب سے عجیب و غریب واقع رونما ہوا۔ اس نوجوان کا وکیل میرے پاس آیا او رکہنے لگا: اس سے پہلے کہ آپ اسے سزا سنائیں، میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ خط میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔"

وہ اٹھا اور فائلوں والی الماری کی طرف گیا، وہاں سے ایک خط نکالا اور یہ کہتے ہوئے میرے حوالے کر دیا "تم اسے پڑ ھ لو۔"

اس خط میں لڑکے کے باپ نے اپنے بیٹے کے فعل کا وفاع کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اس کی بجائے اس نے اپنے بیٹے کے غلط فعل کی مکمل ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس خط کے کچھ حصوں کی عبارت یوں تھی:

"اگر جم کو سزا ہو جاتی ہے تو جج کو کہئے کہ وہ جم کو جیل بھیجنے کے بجائے مجھے جیل بھیج دے۔ کیونکہ، اگر میں ایک بہتر اور اچھا باپ ہوتا تو وہ اس تکلیف میں مبتلا نہ ہوتا۔ لہٰذا جم کی بجائے میں سزا کا مستحق ہوں۔"

اب میں نے اپنے دوست سے پوچھا "تم نے سزا کا یہ معاملہ کیسے طے کیا۔ حالانکہ اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی بجائے جیل جانے کی پیشکش کی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص کی بجائے دوسرا شخص اس کی سزا نہیں بھگت سکتا۔"

جج نے جواب دیا: "میں نے اس نوجوان کو6 ماہ کی عارضی سزا دی۔ اس پر مجھے اوپر سے کافی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا لیکن میرا استدلال یہ تھا کہ اگر اس 16سالہ نوجوان کا باپ، اپنے بیٹے کے اس فعل کی ذمہ داری محسوس کر سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی بچے کو وہ توجہ دینی چاہیے جس کی سے ضرورت ہے۔"

میں نے کہا: "مجھے یہ معلوم کرنے کی جستجو ہے کہ کیا تم نے کبھی یہ دیکھا کہ اس بچے نے اپنے آپ کو کیسے تبدیل کیا؟"

جج نے جواب دیا: "اصل معاملہ اب یہ ہے کہ گذشتہ موسم گرما میں میری ملاقات اس نوجوان کے وکیل سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس لڑکے نے پہلے تو کالج سے تعلیم حاصل کی، امتحانوں میں اعلی پوزیشن حاصل کی اور اب اس وقت وہ کامیاب پراپرٹی ڈیلر (Property Vendor) ہے۔"

جج نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میں اس معاملے میں خدا تعالیٰ کا دو چیزوں کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔"

میں نے پھر پوچھا: "وہ 2 چیزیں کیا ہیں؟"

اس نے جواب دیا: "پہلے یہ کہ مجھے یقین تھا کہ اس کا باپ بہت اعلیٰ احساس ذمہ داری کا مالک ہے اور اس کے اس روئیے کا باعث ایک مثبت اور تعمیری زندگی یقینی ہے۔ اس کا باپ اس قدر ذہین ہے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے۔ دوسرے، یہ کہ میرے سر پر یہ بوجھ نہیں کہ میں نے غیر ضروری طور پر فضول زندگی گزاری ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ میں نے حکومتی ناجائز دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو یہ چاہتی تھی کہ اس بچے کو مستند مجرموں کے گروہ کے ساتھ بند کر دیا جائے

بھارتی پولیس یا غنڈے، نمازیوں پر تشدد کا انسانیت سوز واقعہ، Indian police or goons, the humanitarian incident of violence against worshipers,


 

بھارت میں مسلمانوں پر زمین کو تنگ کیا جارہا ہے، مودی سرکار ایک طرف تو اقلیتوں کے تحفظ کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب بھارت میں ہی نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہورہی ہے جس میں نمازیوں پر ٹھوڈے برسائے جارہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق بھارت میں انتہا پسند ہندوؤں کے مظالم کم نہ ہوسکے ، مسلمانوں مردوں، بچوں اور عورتوں کو اب بھی سرعام بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جن کی جانب سے فرضی کارروائی کا کہا جاتا ہے مگر عالمی میڈیا کو دکھانے کے لئے سیاسی بیانات دینا مودی سرکار کا شیوہ بن چکا ہے۔

The land is being narrowed down on the Muslims in India, the Modi government talks about the protection of the minorities on the one hand and on the other hand, mountains of oppression are being broken on the innocent Muslims in India, a video is rapidly going viral on the social media.  is in which the worshipers are being showered.


 According to the details, the brutality of extremist Hindus in India could not be reduced, Muslim men, children and women are still subjected to the worst violence in public.  It is said that but giving political statements to show the world media has become the way of Modi government

If you want to earn daily $40 click here 

بھارت میں آج بھی مسلمانوں انتہا پسند ہندوؤں کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں، زبردستی مسلمان نوجوانوں سے ' جے شری رام ' کے نعرے لگائے جارہے ہیں انکار کی صورت میں سرعام بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، یویٹوب، فیس بک، انسٹاگرام جیسی مختلف رابطوں کی ایپس پر مسلمانوں پر بھارت میں ہونے والے تشدد کی ویڈیوز موجود ہیں، ایک اور نئی ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں بھارتی پولیس اہلکار نمازیوں کو زور سے ٹھوڈے مار رہا ہے۔

ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ نماز جمعہ کے لئے نمازی زیادہ ہونے پر کچھ سٹرک پر نماز پڑھ رہے ہیں جس پر پولیس اہلکار طیش میں آگیا اور مارنا شروع کردیا، پاس کھڑے لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی تو مزید غصے دکھانے لگا۔

Even today in India, Muslims are being killed by extremist Hindus, Muslim youths are forced to shout 'Jai Shri Ram' slogans, in case of refusal, they are subjected to the worst torture in public.  There are videos of violence against Muslims in India on apps, another new video has surfaced in which an Indian police officer is slapping worshipers hard on the chin.


 It can be seen in the video that the worshipers for Friday prayers are praying on some striks, on which the policeman got angry and started beating him.

The Impact of Sleep Quality on Mental Health.



Mind-set Problems: Unfortunate rest quality has been connected to temperament issues like sorrow and bipolar problem. Rest aggravations, for example, sleep deprivation or sporadic rest designs, can intensify side effects of despondency and increment the gamble of creating temperament problems. On the other hand, further developing rest quality can decidedly affect temperament strength and generally speaking great being.

Anxiety: Rest aggravations are firmly connected with uneasiness issues. People with tension frequently experience hardships nodding off, staying unconscious, or encountering helpful rest. Ongoing lack of sleep can uplift sensations of uneasiness and add to the turn of events or deteriorating of tension issues. Tending to rest aggravations through mediations like mental social treatment for sleep deprivation (CBT-I) can assist with reducing nervousness symptoms.

If you want to earn daily $40 CLICK HERE 

Cognitive Capability: Rest assumes a significant part in mental capability, including memory, consideration, and direction. Deficient rest can disable mental execution, prompting troubles in fixation, learning, and critical thinking. Persistent lack of sleep may likewise expand the gamble of mental degradation and neurodegenerative problems later in life.

Stress Reaction: Rest quality impacts the body's pressure reaction framework. Absence of rest can disturb the equilibrium of stress chemicals like cortisol, prompting increased pressure reactivity and diminished versatility to stressors. Ongoing lack of sleep can add to a pattern of expanded pressure, unfortunate rest, and demolished emotional wellness outcomes.


Addressing rest quality is fundamental for advancing emotional well-being and prosperity. Systems for further developing rest might incorporate laying out a steady rest plan, making a loosening up sleep time schedule, streamlining rest climate, overseeing pressure, and looking for proficient assistance in the event that rest aggravations endure. By focusing on rest cleanliness and tending to fundamental rest problems, people can upgrade their emotional well-being and personal satisfaction.

دیوار چین میں انسانی لاشیں. Human corpses in the Great Wall of China

 



دیوار چین قدیم چین میں تعمیر کی جانے والی ان دیواروں اور قلعوں میں سے ایک ہے جسے تقریباپانچ سوسال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی لمبائی کے اندازے تقریبا 2400 کلومیٹر سے 8 ہزار کلومیٹر کے درمیان لگائے جاتے تھے، مگر 2012 میں چین کی وزارت برائے ثقافتی ورثہ نے ایک تحقیق میں انکشاف کیا کہ دیوار چین کی کل لمبائی تقریبا 21ہزار کلومیٹر ہے۔ یہ دیوار دنیا بھر میں اتنی مقبول ہے کہ ہر کوئی اس کے متعلق جانتا ہے مگر اس کے بارے میں بہت سے مفروضے اور غلط معلومات بھی موجود ہیں۔دی گریٹ وال آف چائنا کے مصنف جان مین کی مدد سے اس شاندار فن ِ تعمیر کے متعلق پانچ مفروضوں کے متعلق بتایا گیا ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکی خاکہ نویس رابرٹ ریلے نے سب سے پہلے اس مفروضے کو عام کیا تھا کہ دیوار چین چاند سے بھی نظر آتی ہے۔ اپنی ایک فلم بیلی واٹ اورناٹ میں انہوں نے دیوار چین کو انسان کا سب سے طاقتور کام قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ چاند سے بھی انسانی آنکھ کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یقینا یہ دعویٰ ٹھوس شواہد پر مبنی نہیں تھا کیونکہ یہ کسی بھی انسان کے چاند پر جانے سے 30 برس قبل کیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ تاریخ و ثقافت پر نامور چینی ماہر اور سائنس سونائزیشن ان چائنہ کے مصنف جوزف دھم نے کہا کہ دیوار چین انسان کی واحد تعمیر ہے جسے مریخ کے ماہرین فلکیات تھی دریافت کر سکتے ہیں۔البتہ ان کے اس دعوے کو خلا بازوں نے مسترد کر دیا تھا مگر پھر بھی چاند سے دیوار چین نظر آنے والی بات کو ایک حقیقت ہی مانا گیا مگر 2003 میں چین کی پہلی خلائی پرواز کے دوران خلاباز بانگ لوئی نے اس مفروضے کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خلا سے زمین پر کچھ دکھائی نہیں دیا تھا۔

 

ایک مفروضہ یہ ہے کہ یہ ایک ہی طویل دیوار ہے جبکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کے بہت سے حصے ہیں اور ان میں سے بہت کم اس شاندار تحقیق سے مشابہت رکھتے ہیں جس کا سیاح دورہ کرتے ہیں۔ اس کے وہ حصے جن کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کی گئی ہے ان حصوں سے جا ملتے ہیں جو جنگلوں اور بیابانوں سے گزرتا ہے اور جہاں پیدل چلنے والوں کو جانے کی ممانعت ہے ۔یہاں جھاڑیاں بھی ہیں اور کھنڈرات بھی اور یہ حصے آبی ذخائر میں جا ملتے ہیں۔ بہت سے حصوں پر یہ دیوار گہری تہہ حتی کہ چار تہوں میں بنی ہوئی ہے اور یہ حصے دوسرے سے ملتے ہیں۔ دیوار چین کا جو حصہ آپ بیجنگ کے ارد گرد دیکھتے ہیں وہاں آثار قدیمہ کی نشانیاں ہیں جن میں سے کچھ دیوار کے بالکل نیچے موجود ہیں جو مغربی چین کی طرف متوازی اور بکھرے ہوئے حصوں میں بنی ہیں۔دیوار چین کی تعمیر کا سب سے پہلے حکم چین کے اس بادشاہ نے دیا تھا 

If you want to earn daily $40 click here 

جن کی وفات تقریبا 210 قبل مسیح میں ہوئی تھی یعنی منگولوں کے منظر عام پر آنے سے قبل کیوں کہ منگول تقریباً 800عیسوی کے قریب آئے تھے پھر چین کو خطرہ زنگوں سے ہوگا جو ممکنہ طور پرانہی کی آباو اجداد تھے، منگولوں کے ساتھ جنگ چودہویں صدی کے آخر میں شروع ہوئی تھی جب بادشاہ مانگ نے منگولوں کو چین سے نکال دیا تھا۔دیوار چین کے متعلق کئی ایسی افواہیں گردش کرتی ہیں کہ دیوار چین میں اسے تعمیر کرنے والے مزدوروں کی لاشیں دفن ہیں۔ان کہانیوں نے غالبا ًبان بادشاہت کی دور کے ایک اہم مورخ سیما گیان سے جنم لیا ہے۔ جنہوں نے اپنے ہی شہنشاہ کو اپنے پیش رو سلطنت فن کی توہین کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تاہم اس دیوار سے کبھی کوئی انسانی ڈھانچے یا ہڈیاں برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس کی کوئی شواہد ملے ہیں اور نہ ہی ان افواہوں کا آثار قدیمہ یا پرانی یادداشتوں میں کوئی ذکر ملتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ مارکو پولو نے کبھی دیوار چین کا ذکر نہیں کیا اور دیوار چین کا تذکرہ صرف ایک دلیل کے طور پر استعمال کیا کہ وہ کبھی دیوار چین نہیں گیا تھا ۔ اس وقت تیرہویں صدی کے آخر میں تمام چین پر منگولوں کی حکومت تھی اس لیے اس وقت دیوار بیکار ہو چکی ہوگی کیونکہ حملہ آوروں نے 50 سال پہلے چنگیز خان کے دور میں شمالی چین کو تباہ کر دیا تھا۔منگول جنہوں نے جنگ کے دوران دیوار چین کو نظر انداز کیا تھا انہیں امن کے دور میں اس کا ذکر کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مارکو پولو نے یقینا اسے بیجنگ سے شان گو میں قبلائی خان کے محل جانے کے دوران متعدد مرتبہ عبور کیا ہوگا لیکن ان کے پاس اس کی جانب توجہ مرکوز کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہوگی۔

جسم کی چربی کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ. The best way to eliminate body fat



Sound Eating regimen: Spotlight on devouring supplement thick food sources that give fundamental nutrients, minerals, and macronutrients without unreasonable calories. This incorporates a lot of natural products, vegetables, lean proteins (like chicken, fish, tofu), entire grains, and sound fats (like avocados, nuts, seeds). Keep away from or limit handled food varieties, sweet bites, and unhealthy beverages.


صوتی کھانے کا طریقہ: کھانے کے ضمیمہ کے موٹے ذرائع پر روشنی ڈالیں جو بنیادی غذائی اجزاء، معدنیات، اور میکرو نیوٹرینٹس کو غیر معقول کیلوریز کے بغیر دیتے ہیں۔  اس میں بہت ساری قدرتی مصنوعات، سبزیاں، دبلی پتلی پروٹین (جیسے چکن، مچھلی، ٹوفو)، سارا اناج، اور صوتی چکنائی (جیسے ایوکاڈو، گری دار میوے، بیج) شامل ہیں۔  سنبھالے ہوئے کھانے کی اقسام، میٹھے کاٹنے اور غیر صحت بخش مشروبات سے دور رہیں یا ان کو محدود کریں۔

Caloric Shortfall: To lose muscle versus fat, you want to eat less calories than your body uses. This can be accomplished by observing part estimates, following calorie admission, and being aware of energy-thick food sources. In any case, it's critical to keep a decent eating regimen and not unnecessarily limit calories, as this can prompt supplement lacks and metabolic slowdown.

If you want to earn daily $40           click here 

کیلوری کی کمی: چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کھونے کے لیے، آپ اپنے جسم کے استعمال سے کم کیلوریز کھانا چاہتے ہیں۔  یہ جزوی تخمینوں کا مشاہدہ کرکے، کیلوری کے داخلے کے بعد، اور توانائی سے بھرپور خوراک کے ذرائع سے آگاہی حاصل کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔  کسی بھی صورت میں، یہ ضروری ہے کہ کھانے پینے کا مناسب طریقہ اختیار کیا جائے اور کیلوریز کو غیر ضروری طور پر محدود نہ کیا جائے، کیونکہ یہ سپلیمنٹ کی کمی اور میٹابولک سست روی کا سبب بن سکتا ہے۔

Regular Exercise: Integrate both cardiovascular activity and strength preparing into your everyday practice. Cardiovascular exercises like running, cycling, or swimming assist with consuming calories and further develop heart wellbeing, while strength preparing works out (like weightlifting or bodyweight works out) form bulk, which expands digestion and assists ignite with fatting even at rest.

باقاعدہ ورزش: اپنے روزمرہ کی مشق میں قلبی سرگرمی اور قوت تیاری دونوں کو ضم کریں۔  دوڑنا، سائیکل چلانا، یا تیراکی جیسی قلبی مشقیں کیلوریز کے استعمال میں مدد کرتی ہیں اور دل کی تندرستی کو مزید فروغ دیتی ہیں، جب کہ طاقت کی تیاری کام کرتی ہے (جیسے ویٹ لفٹنگ یا باڈی ویٹ ورک آؤٹ) بلک بنتی ہے، جو ہاضمہ کو بڑھاتی ہے اور آرام کے وقت بھی چکنائی کے ساتھ جلنے میں مدد دیتی ہے۔

Consistency and Tolerance: Losing muscle versus fat takes time and consistency. It's crucial for stay focused on your eating routine and exercise plan, in any event, when progress appears to be slow. Put forth reasonable objectives and spotlight on making manageable way of life changes as opposed to looking for convenient solutions or crash consumes less calories, which are many times incapable and impractical in the long term.

مستقل مزاجی اور رواداری: چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کھونے میں وقت اور مستقل مزاجی درکار ہوتی ہے۔  یہ آپ کے کھانے کے معمولات اور ورزش کے منصوبے پر مرکوز رہنے کے لیے بہت ضروری ہے، کسی بھی صورت میں، جب پیش رفت سست دکھائی دے رہی ہو۔  مناسب حل تلاش کرنے یا کریش کم کیلوریز استعمال کرنے کے برخلاف زندگی کے قابل انتظام انداز میں تبدیلیاں کرنے پر معقول مقاصد اور روشنی ڈالیں، جو طویل مدتی میں کئی بار ناقابل عمل اور ناقابل عمل ہیں۔

Hydration and Rest: Drink a lot of water over the course of the day to remain hydrated, which can assist with controlling hunger and backing in general wellbeing. Hold back nothing long stretches of value rest each evening, as lacking rest can upset chemicals connected with craving and digestion, making it harder to lose body fat.

ہائیڈریشن اور آرام: ہائیڈریٹ رہنے کے لیے دن کے دوران بہت زیادہ پانی پئیں، جو بھوک کو کنٹرول کرنے اور عام صحت کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔  ہر شام قدرے آرام کے طویل حصے کو نہ روکیں، کیونکہ آرام کی کمی خواہش اور ہاضمے سے جڑے کیمیکلز کو پریشان کر سکتی ہے، جس سے جسم کی چربی کھونا مشکل ہو جاتا ہے۔

Stress The executives: Constant pressure can add to weight gain and make it harder to lose muscle versus fat. Practice pressure lessening exercises like reflection, yoga, profound breathing activities, or investing energy in nature to assist with overseeing feelings of anxiety actually.

 

ایگزیکٹوز کا تناؤ: مسلسل دباؤ وزن میں اضافہ کر سکتا ہے اور چربی کے مقابلے میں پٹھوں کو کم کرنا مشکل بنا سکتا ہے۔  دباؤ کو کم کرنے کی مشقیں کریں جیسے عکاسی، یوگا، گہری سانس لینے کی سرگرمیاں، یا اصل میں پریشانی کے احساسات کی نگرانی کے لیے فطرت میں توانائی کی سرمایہ کاری کریں۔

سیاست کی آڑ میں

Abdul Qayyum 


 ہم جس خطے میں رہتے ہیں پاکستان یہ ببانگ دہل اپنی تاریخ کے خونی مناظر چیخ چیخ کر باور کرواتا ہے کہ میری بنیاد اسلام ہے۔ میرا مقصد اسلامی قوانین اور اصولوں کو باآسانی جہاں فروغ دیا جائے اس خطے کی پہچان ہے۔ میرا مقصد میرے وجود کو تسلیم کر کے جہاں ہر فرد آزادی کے ساتھ سکون کی سانسیں لے سکے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ارض پاک ہمارے قائد محترم اور ان کے چند ساتھیوں کی ہی ہمت کا نتیجہ ہے۔ یہ ارض پاک مسلمانان ہند اور اس خوبصورت ملک کی خوبصورت تصویر بنانے والے علامہ محترم اقبال صاحب کی علمی اور فکری صلاحیتوں ان کی سیاسی بصیرت اور ان کی جدوجہد کو عملی جامہ پہنانے کا نتیجہ ہے۔ لیکن اس وقت کے مسلمانوں کے نصب العین اور انقلاب آفرین فلسفوں میں بڑی جان تھی۔ مگر اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ ابتدائی عزم ارادہ اور نیت جس کی بنا پر پاکستان بنا اس کے بعد سے آج تک اس ملک کے نظام میں انقلاب نہیں آیا۔ انسانی رویوں میں انسانی سوچوں میں اور ان کے ارد گرد کے ماحول میں انقلاب نہیں آیا۔ ہماری سیاست اور ایوانوں میں انقلاب نہیں آیا

۔ ہمارے اوپر مسلط رہنماوں کی رہنمائی نہیں کی گئی۔ ہماری مجلس آئین ساز جہاں دن رات قانون سازی کے راگ آلاپے جاتے ہیں جب ایوانوں سے باہر نکلتے ہیں قانون شکنی ثواب جان کر اپنے اپنے نامہ اعمال کو وسعت دے کر بالکل وہی عمل کرتے ہیں جو ہم مسلمان دن میں پانچ بار نمازوں میں کہتے ہیں کہ " اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں " اور پھر مسجدوں سے باہر نکل کر ہر کسی کو اپنا حاجت روا اور معبود سمجھنے لگتے ہیں۔ ہم نہ شریعت میں مکمل اترے ہیں نہ ہی دنیاوی معاملات میں۔ہمارے ہر ادارے میں کرپشن اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ اس سے تعلق آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔ اندازہ کریں ہمارے سکول اور اساتذہ تک کرپٹ ہوچکے ہیں۔

 

اپنے قیمتی وقت اور اپنے علم کو منتقل کرنے میں کرپشن کرتے ہیں۔ اور روائتی تعلیم میں اس قدر پیوست ہوچکے ہیں کہ رہنمائی تک خود سے نہیں کر سکتے۔ بچوں کے حوالے سے اساتذہ اور والدین بہت کمزور سوچ کے مالک ہیں۔ بعض والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ اپنے بچوں سے دو باتیں پیار محبت کی کر سکیں، وقت نکال کر اپنی طرف سے کچھ نصیحت ہی کر سکیں اور نہ ان کے پاس اتنا وقت ہوتا ہے کہ سکول جاکر اپنے بچوں کے متعلق آگاہی حاصل کر سکیں۔ میں تو اکثر کہتا ہوں کہ استاد کی عزت ضرور کریں مگر ان پر اعتماد آپ کسی صورت بھی نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب والدین اپنے بچوں کے مستقبل کی ڈور ایک اجنبی استاد کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں اور پورے سال صرف رزلٹ (نتیجہ) کے دن کاہلی سے حاظری لگواتے ہیں

 

تو وہاں کے قابل اساتذہ بھی نااہل ہوجاتے ہیں آپ کے اس رویے کو دیکھ کر۔ پھر وہ بھی بچوں کے والدین کی طرح سست ہوجاتے ہیں۔ اساتذہ پر والدین کا یہ اندھا اعتماد ان کے اپنے بچوں کیلئے اچھا نہیں ہوتا۔ آج کے بچوں کے مستقبل سے اساتذہ اور والدین دونوں مل کے کھیلتے ہیں۔ آپ کسی ایک کو دوشی نہیں ٹھہرا سکتے۔ یہاں مافیا اور اشرافیہ کی حکمرانی ہے۔ یہاں جس کے پاس پیسہ ہے طاقت اسی کی ہے حیثیت اسی کی ہے قانون اسی کی زبان بولتا ہے۔ یہاں قانون کی ہوس صرف پیسہ ہے طاقت ہے۔ یہاں آپ کھل کر چند بد وضع کردار اور اداروں کے متعلق بات نہیں کر سکتے ان کی پالیسی کے متعلق سوال نہیں اٹھا سکتے ان کی کرپشن کو کرپشن کہنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ ان کی کرپشن کو آپ خدا کی غیبی مدد کہہ کر ان کو پر مسرت ضرور کر سکتے ہیں۔

If you want to earn daily $40 

 click here 

جہاں جس جگہ بات تنقید یا کوئی سوال نہیں پوچھ سکتے آپ کہاں کے آزاد ہیں؟ کیا آزادی صرف اپنے گھر کی چار دیواری میں بغیر کسی کی اجازت کے گھومنے پھرنے تک محدود ہو چکی ہے؟ بھئی ہماری زبان تک غلام ہے ہمارے کردار بلکہ ہمارے تخیلات تک میں اشرافیہ کی اسیری کے سائے منڈلاتے ہیں۔ ہمارا ہر فرد طبقاتی استحصال کا شکار ہے۔ کیا یہی پاکستان کا مقصد تھا کہ جس کے انصاف کے مقابلے میں اشرافیہ کی طاقت کے مظاہرے کیے جائیں کہ جس میں قوم کے اتحاد کو بغاوت کا نام دیکر غارت کیا جائے کہ جس میں قوم کی خیرت انگیز فلاح و بہبود کرنے والوں پر کوئی مقدمہ ڈال کر یا دہشتگرد کہہ کر مار دیا جائے۔

 

آپ موجودہ انتخابات سے ملک میں چند طاقت ور ترین نمائندوں کا باخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جمہوریت کس طرف ہے اور لایا کس کو جارہا ہے۔ اس ارض پاک میں جس طرح حق بات اور تنقید براہ اصلاح پر پابندی ہے بالکل اسی طرح یوں لگتا ہے جیسے کہ اپنی اصلاح خود کرنے پر بھی کوئی پابندی ہے۔ لوگ (ادارے) خود کی اصلاح تک نہیں کرنا چاہتے اس بات کی اقبال نے جاوید نامہ میں کچھ اس طرح سے منظر کشی کی ہے کہ چشم برحق باز کردن بندگی است خویش را بے پردہ دیدن زندگی است جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک آپ دیکھ لیجیے وہاں حق سچ اور انصاف بالکل آزاد ہیں۔ وہاں صحافت آزاد ہے۔ وہاں سوال آزاد گھومتا ہے۔ عوامی اظہار رائے کی قدر ہے عام عوام کی پہنچ سے کوئی بھی بڑی شخصیت دور نہیں۔ ان پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈالا جاتا ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی اور جواب دینا بھی وہ اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔

آزادی اظہار رائے کا مکمل حق سب کو حاصل ہے جس کا تصور بھی مسلم دنیا میں بالخصوص یہاں نہیں کیا سکتا۔ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ مسلم دنیا میں طویل المدت عرصے تک حکمرانی کے بعد جمہوریت یا شہنشایت کے ذریعے سلسلہ در سلسلہ خاندانی وراثت کو فروغ دینے میں دلچسپی لی جاتی ہے۔ آپ موجودہ پاکستان کی سیاست پر ہی ایک نظر ڈال لیں آپ کو ماضی دور تک کوئی نیا بندہ نظر نہیں آئے گا سب کے سب نسل در نسل اپنا حق سمجھ کر ملک کو لوٹ رہے ہیں اور نئے اور قابل لوگوں کو موقع ہی نہیں دیا جاتا اس ڈر سے کہ کہیں ملک ترقی کے راستوں میں گامزن ہوگیا تو ہم کہاں سے کھائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ مسلم دنیا میں اختلاف یا تنقید کو عام طور پر بغاوت کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے اور پھر آپ کے ساتھ کیا سلوک ہونا ہے آپ ماجودہ سیاست اور ان کے کارناموں سے باخوبی واقف کار ہیں۔ ہمیں اپنی آزادی کیلئے اپنی عدالتیں۔ حق سچ۔ اور اختلافی رائے یا آزادی اظہار کا حق سب کو میسر کرنا ہوگا۔ ہم کسی دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے اور ویسے بھی یہ ہم مسلمانوں کی فطرت ہے کہ اپنی ہی پیدہ کردہ کمزوریوں کو اپنے ہاتھوں سے اٹھے جرم پر دوسروں (یعنی) مغرب پر الزام ٹھونپ دیتے ہیں


ہر بات پر ایسا کہنا ہماری فطرت بن چکی ہے کہ اس میں ضرور مغرب کی سازش ہوسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے حقیقی مسائل خارجی نہیں بلکہ داخلی ہیں۔ ہم خود سارے کرپٹ ہوچکے ہیں چور ہو چکے ہیں ہم ایک کرسی کی خاطر نہیں دیکھتے کہ اس کو حاصل کرنے کیلئے کس کس کا خون بہے گا بہنے دیتے ہیں۔ کس کس کی تزلیل ہوگی ہونے دیتے ہیں۔ کس کس میں اختلاف ہوگا۔