MENTAL HEALTH AWARENESS

 


Understanding Mental Health

Mental health refers to our emotional, psychological, and social well-being. It encompasses how we think, feel, and act as we navigate life. Just as physical health is vital for overall well-being, mental health is equally crucial.

دماغی صحت کو سمجھنا

دماغی صحت سے مراد ہماری جذباتی، نفسیاتی اور سماجی بہبود ہے۔ اس میں شامل ہے کہ ہم زندگی کو نیویگیشن کرتے وقت کیسے سوچتے، محسوس کرتے اور عمل کرتے ہیں۔ جس طرح جسمانی صحت مجموعی تندرستی کے لیے ضروری ہے اسی طرح ذہنی صحت بھی اتنی ہی اہم ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY EARN 100$ CLICK HERE

Components of Mental Health

  1. Emotional Well-being: This involves understanding and managing our emotions in healthy ways. It includes being aware of our feelings, expressing them appropriately, and coping with stress effectively.

  2. دماغی صحت کے اجزاء

    جذباتی بہبود: اس میں صحت مند طریقوں سے ہمارے جذبات کو سمجھنا اور ان کا نظم کرنا شامل ہے۔ اس میں ہمارے احساسات سے آگاہ ہونا، ان کا مناسب اظہار کرنا، اور تناؤ کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنا شامل ہے۔
    Psychological Well-being: Mental health also involves our cognitive functioning, such as our ability to think clearly, solve problems, and make decisions. Maintaining psychological well-being means nurturing a positive mindset and adaptive thought patterns.

  3. نفسیاتی بہبود: دماغی صحت میں ہمارے علمی کام کاج بھی شامل ہوتا ہے، جیسے کہ واضح طور پر سوچنے، مسائل حل کرنے اور فیصلے کرنے کی ہماری صلاحیت۔ نفسیاتی تندرستی کو برقرار رکھنے کا مطلب ایک مثبت ذہنیت اور انکولی سوچ کے نمونوں کی پرورش ہے۔

  4. Social Well-being: Our interactions with others significantly impact our mental health. Healthy relationships, supportive communities, and a sense of belonging contribute to our social well-being.

  5. سماجی بہبود: دوسروں کے ساتھ ہماری بات چیت ہماری ذہنی صحت کو نمایاں طور پر متاثر کرتی ہے۔ صحت مند تعلقات، معاون برادریاں، اور تعلق کا احساس ہماری سماجی بہبود میں معاون ہے۔

  6. Biological Factors: Genetics, brain chemistry, and neurological functioning play significant roles in mental health. Certain genetic predispositions and imbalances in brain chemicals can increase the risk of mental health disorders.

  7. حیاتیاتی عوامل: جینیات، دماغ کی کیمسٹری، اور اعصابی افعال دماغی صحت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض جینیاتی رجحانات اور دماغی کیمیکلز میں عدم توازن دماغی صحت کی خرابیوں کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔

  8. Environmental Factors: Our environment, including our upbringing, exposure to trauma, socioeconomic status, and access to healthcare, can influence mental health. Stressful life events, such as loss, abuse, or significant life changes, can impact mental well-being.

  9. ماحولیاتی عوامل: ہمارا ماحول، بشمول ہماری پرورش، صدمے کا سامنا، سماجی اقتصادی حیثیت، اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی، ذہنی صحت کو متاثر کر سکتا ہے۔ زندگی کے تناؤ کے واقعات، جیسے نقصان، بدسلوکی، یا زندگی میں اہم تبدیلیاں، ذہنی صحت کو متاثر کر سکتی ہیں۔


  10. Psychological Factors: Our thoughts, beliefs, and coping strategies affect our mental health. Negative thought patterns, low self-esteem, and maladaptive coping mechanisms can contribute to mental health issues.

  11. نفسیاتی عوامل: ہمارے خیالات، عقائد، اور نمٹنے کی حکمت عملی ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے۔ منفی سوچ کے پیٹرن، کم خود اعتمادی، اور خراب طریقے سے نمٹنے کے طریقہ کار دماغی صحت کے مسائل میں حصہ لے سکتے ہیں.


  12. Social Factors: Social support, relationships, and societal norms influence mental health. Stigma surrounding mental illness, discrimination, and social isolation can exacerbate mental health challenges.

  13. سماجی عوامل: سماجی معاونت، تعلقات، اور سماجی اصول دماغی صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ ذہنی بیماری، امتیازی سلوک، اور سماجی تنہائی کے گرد بدنما داغ ذہنی صحت کے چیلنجوں کو بڑھا سکتے ہیں۔


  14. Self-care: Prioritizing self-care activities such as exercise, adequate sleep, healthy eating, and relaxation techniques can support mental well-being.

  15. خود کی دیکھ بھال: خود کی دیکھ بھال کی سرگرمیوں کو ترجیح دینا جیسے کہ ورزش، مناسب نیند، صحت مند کھانا، اور آرام کی تکنیک دماغی تندرستی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔


  16. Seeking Support: It's essential to reach out to friends, family, or mental health professionals for support when needed. Therapy, counseling, or support groups can provide valuable assistance.

  17. مدد کی تلاش: ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے دوستوں، خاندان، یا دماغی صحت کے پیشہ ور افراد تک پہنچنا ضروری ہے۔ تھراپی، مشاورت، یا معاون گروپ قیمتی مدد فراہم کر سکتے ہیں۔


  18. Building Resilience: Developing resilience helps us bounce back from adversity. Resilience-building activities may include cultivating optimism, problem-solving skills, and fostering a sense of purpose.

  19. لچک پیدا کرنا: لچک پیدا کرنا ہمیں مشکلات سے واپس اچھالنے میں مدد کرتا ہے۔ لچک پیدا کرنے کی سرگرمیوں میں رجائیت پسندی، مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں، اور مقصد کے احساس کو فروغ دینا شامل ہو سکتا ہے۔

  20. Reducing Stigma: Challenging stigma and promoting open discussions about mental health can create a more supportive environment for those experiencing mental illness.

  21. بدنما داغ کو کم کرنا: بدنما داغ کو چیلنج کرنا اور دماغی صحت کے بارے میں کھلی بحث کو فروغ دینا ذہنی بیماری کا سامنا کرنے والوں کے لیے زیادہ معاون ماحول پیدا کر سکتا ہے۔


  22. Accessing Treatment: If experiencing mental health challenges, seeking professional help is vital. Mental health professionals can provide assessment, therapy, medication, or other forms of treatment tailored to individual needs.

  23. علاج تک رسائی: اگر دماغی صحت کے چیلنجوں کا سامنا ہے، تو پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ دماغی صحت کے پیشہ ور افراد انفرادی ضروریات کے مطابق تشخیص، علاج، ادویات، یا علاج کی دیگر اقسام فراہم کر سکتے ہیں۔

Factors Influencing Mental Health

Several factors influence our mental health:

دماغی صحت کو متاثر کرنے والے عوامل

کئی عوامل ہماری ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہیں:

Promoting Mental Health

Maintaining good mental health involves various strategies:

دماغی صحت کو فروغ دینا

اچھی دماغی صحت کو برقرار رکھنے میں مختلف حکمت عملی شامل ہیں:

Conclusion

Prioritizing mental health is essential for overall well-being. By understanding the components of mental health, recognizing influencing factors, and adopting strategies to promote mental well-being, individuals can lead healthier and more fulfilling lives. Seeking support and reducing stigma are crucial steps towards creating a society that values and prioritizes mental health for all its members.

نتیجہ

ذہنی صحت کو ترجیح دینا مجموعی بہبود کے لیے ضروری ہے۔ دماغی صحت کے اجزاء کو سمجھنے، اثر انداز ہونے والے عوامل کو پہچان کر، اور ذہنی تندرستی کو فروغ دینے کے لیے حکمت عملی اپنانے سے، افراد صحت مند اور زیادہ بھرپور زندگی گزار سکتے ہیں۔ مدد کی تلاش اور بدنما داغ کو کم کرنا ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کے لیے اہم اقدامات ہیں جو اپنے تمام اراکین کے لیے ذہنی صحت کو اہمیت دیتا ہے اور اسے ترجیح دیتا ہے۔

میٹا اے آئی: واٹس ایپ اور انسٹاگرام پر نیا چیٹ بوٹ کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جائے؟ MetaAI: What is the new chatbot on WhatsApp and Instagram and how to use it?

میٹا اے آئی: واٹس ایپ اور انسٹاگرام پر نیا چیٹ بوٹ کیا ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جائے؟



 سوشل میڈیا کمپنی میٹا نے اپنے تینوں پلیٹ فارمز انسٹاگرام، واٹس ایپ اور فیس بُک کے لیے آرٹیفشل انٹیلیجنس (اے آئی) چیٹ

 بوٹ متعارف کروا دیا ہے اور یہ اب پاکستان میں بھی اکثر صارفین کے لیے دستیاب ہے۔

کمپنی نے اس چیٹ بوٹ کو ’میٹا اے آئی‘ کا نام دیا ہے۔ ابتدائی طور پر یہ سہولت آسٹریلیا، کینیڈا، گھانا، جمیکا، ملاوی، نیوزی لینڈ، نائجیریا، پاکستان، سنگاپور، جنوبی افریقہ، یوگنڈا، زمبیا اور زمبابوے میں میٹا صارفین کے لیے متعارف کروائی گئی ہے۔

گذشتہ برس ’میٹا اے آئی‘ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے کمپنی کے بانی مارک زکر برگ نے کہا تھا کہ ’اس کا مقصد صرف آپ کے سوالات کے جوابات دینا نہیں ہوگا بلکہ یہ آپ کی تفریح کے لیے ہے۔‘

IF YOU WANT TO EARN DAILY 45$       CLICK HERE

’میٹا اے آئی‘ فیس بُک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ صارفین کی کیا مدد کر سکتا ہے؟



’میٹا اے آئی‘ فیس بُک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کے سرچ بار میں موجود ہے اور یہاں جا کر صارفین اس چیٹ بوٹ سے سوالات کر سکتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق ’میٹا اے آئی‘ متعارف کروانے کا مقصد یہ ہے کہ صارفین کو کسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کسی ایک سوشل میڈیا ایپ سے دوسری سوشل میڈیا ایپ پر منتقل نہ ہونا پڑے۔

اگر آپ کسی نئے شہر یا ملک میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھانے کھانے باہر جا رہے ہیں تو آپ ’میٹا اے آئی‘ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آپ کے اطراف میں کون سے اچھے ریستوران یا ڈھابے موجود ہیں۔

یہ چیٹ بوٹ صارفین کو ان کے اردگرد منعقد ہونے والے تفریحی پروگرامز کے بارے میں بھی معلومات دے سکتا ہے۔

اگر آپ اپنے نئے گھر میں منتقل ہو رہے ہیں اور پریشان ہیں کہ وہاں کس قسم کا فرنیچر ہونا چاہیے تو اس سلسلے میں ’میٹا اے آئی‘ آپ کو بتا سکتا ہے کہ دنُیا بھر میں اس وقت کس قسم کا فرنیچر پسند کیا جا رہا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ آپ کسی ملک یا شہر جانے سے قبل ’میٹا اے آئی‘ سے فلائٹس وغیرہ سے متعلق تفصیلات بھی پوچھ سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اگر آپ بور ہو رہے ہیں تو آپ ’میٹا اے آئی‘ سے لطیفے یا کہانیاں سُنانے کی فرمائشیں بھی کر سکتے ہیں۔

میٹا اے آئی کا تصاویر کے لیے ’امیجن فیچر‘ کیا ہے؟



فیس بُک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ صارفین ’میٹا اے آئی‘ کے امیجن فیچر کا استعمال کرتے ہوئے اس چیٹ بوٹ کو تفصیلات فراہم کرکے اپنی مرضی کی تصاویر بھی بنوا سکتے ہیں۔

کمپنی کے مطابق ’میٹا اے آئی آپ کے خیالات کو تصویر کی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آپ کے لیے انیمیشن بھی بنا سکتا ہے۔‘

کیا درست معلومات کے لیے ’میٹا اے آئی‘ پر انحصار کیا جا سکتا ہے؟

امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق ’میٹا اے آئی‘ کے چیٹ بوٹ کو فیس بُک اور انسٹاگرام کے سرچ بار سے ہٹایا نہیں جا سکتا اور میٹا کمپنی کی جانب سے اس بات کی تصدیق بھی کی گئی ہے۔

’میٹا اے آئی‘ آپ کا دوست تو بن سکتا ہے لیکن اس پر مکمل انحصار کرنا درست نہیں ہوگا۔ آپ اس چیٹ بوٹ سے کسی بھی قسم کا سوال کر سکتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ’میٹا اے آئی‘ کی جانب سے موصول ہونے والا جواب سچ یا حقیقت پر مبنی ہو۔

بہتر یہی ہے کہ اس کا استعمال آپ ویسے ہیں کریں جیسے گوگل کے سرچ انجن کا کرتے ہیں اور تنہائی دور کرنے کے لیے اس سے باتیں کریں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ ’میٹا اے آئی‘ آپ کو کسی بھی حوالے سے درست تفصیلات دے تو آپ کو اس چیٹ بوٹ سے تفصیلی سوالات کرنے پڑیں گے اور اپنے موضوع کے حوالے سے اسے زیادہ سے زیادہ معلومات دینی پڑیں گی۔

’میٹا اے آئی‘ کا استعمال طبی تجاویز لینے کے لیے نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی سکول کے مضامین کی تیاری کے لیے اسے استعمال کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔

پاکستان ’تنازعات کے شکار ممالک‘ میں شامل، کیا آئی ایم ایف کے اس فیصلے کے کوئی منفی اثرات ہوں گے؟

 عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کو چھ ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنھیں اس سال شدید تنازعات کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق تنازعات اور سخت میکرو اکنامک پالیسیوں کی شرائط کی وجہ سے ان ملکوں کی معاشی حالت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

abdul qayyum

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو تنازعات کے شکار چھ ملکوں کی فہرست میں اس وقت شامل کیا گیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ ہے اور اسے پروگرام کے تحت سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا۔

موجودہ پروگرام کے تحت پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کی رقم رواں مہینے میں موصول ہونی ہے۔ اس کے ساتھ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ ایک نئے اور بڑے پروگرام کی طرف بھی بڑھ رہا ہے جس میں موجود تین ارب ڈالر سے زیادہ قرضے کے لیے پاکستان اور عالمی ادارے کے درمیان مذاکرات جلد شروع ہوں گے۔

if you want to earn dail 40$  click here

آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں کیا کہا؟

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں معاشی اشاریوں کے بارے میں پیشگوئی کے علاوہ پاکستان کو ایسے ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جنھیں شدید تنازعات کا سامنا ہے۔

اس رپورٹ میں عراق، شام، صومالیہ، سوڈان، یمن کے ساتھ پاکستان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جنھیں اس سال شدید تنازعات کا سامنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان میں اکنامک گروتھ کے منظر نامہ میں ریکوری دہشت گردی کے واقعات اور سٹرکچرل ریفارمز میں ہونی ہے۔

عالمی ادارے کے مطابق ملک میں سول اور عسکری فورسز پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے جس میں پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں پر بھی حملے ہیں جب گذشتہ مہینے ایک حملے میں پانچ چینی باشندے ہلاک ہو گئے تھے۔

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کہ دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ اس رپورٹ میں اندرونی سیاسی عدم استحکام اور مہنگائی کے چیلنج بھی بتائے گئے ہیں جو پاکستان کے لیے خطرہ ہیں۔

کن بنیادوں پر ایک ملک کو تنازعات کا شکار قرار دیا جاتا ہے؟

آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو تنازعات کے شکار ملک کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ایک ملک کو کس بنیاد پر اس فہرست میں ڈالا جاتا ہے، اس کے بارے میں آئی ایم ایف نے کہا ایک ملک میں اگر 25 ہلاکتیں ایسے آرمڈ تنازعات میں ہوں جو اس سال پہلی جنوری سے آٹھ مارچ تک واقع ہوئے ہیں تو اسے تنازعات کے شکار ملکوں کی فہرست میں ڈالا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا آئی ایم ایف کی جانب سے اس سلسلے میں جو طریقہ کار اپنایا گیا ہے اس میں عسکریت پسندوں کی جانب سے ملکی تنصیبات، حکام اور غیر ملکی افراد پر حملے شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک جنگ زدہ اس لحاظ سے ہے کہ ملکی افواج ابھی بھی دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔

کیا اس سے پاکستان میں سرمایہ کاری متاثر ہوگی؟

ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ اس منفی تاثر کی وجہ سے مشکل ہو گا کہ پاکستان عالمی اداروں سے فنڈز اکٹھے کر کے اپنی بیرونی ادائیگیوں کے لیے رقم کا انتظار کرے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اگلے تین سالوں میں ہر سال 25 ارب ڈالر کا انتظام کرنا ہے تاکہ وہ بیرونی ادائیگیوں کے قابل ہو سکے۔ انھوں نے کہا یہ فنڈز قرضے کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری سے بھی ارینج کرنے ہیں جو ملک کے منفی امیج کی وجہ سے مشکل ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ صورتحال ملک کے برآمدی آرڈرز اور علاقائی تجارت پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا۔

خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 46 ہو گئی: پی ڈی ایم اے

خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 46 ہو گئی: پی ڈی ایم اے



قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے نے خیبرپختونخوا میں بارشوں کے باعث 12 اپریل سے اب تک ہونے والے نقصانات کی تفصیلات جاری کر دی ہیں جس کے مطابق اب تک صوبے بھر میں بارش کے باعث مختلف حادثات میں 46 افراد ہلاک اور 60 کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بارشوں کے باعث مختلف حادثات مییں ہلاک ہونے والے افراد میں 25 بچے، 12 مرد اور نو خواتین شامل ہیں جبکہ اس دوران 11 خواتین، 33 مرد اور 16 بچے زخمی ہوئے۔

If you want to earn daily 40$  click here   

یاد رہے پاکستان میں بارشوں کا حالیہ سلسلہ 12 اپریل سے 15اپریل تک جاری رہا تھا اور پھر دو روز کے وقفے کے بعد 17 اپریل سے بارش برسانے والا ایک اور نظام ملک میں داخل ہو گیا تھا جس دوران ملک کے طول و عرض میں گرج چمک اور تیز ہواؤں کے ساتھ بارشیں ہوئیں۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں دیواریں اور چھتیں گرنے سے مجموعی طور 2875 مکانات کو نقصان پہنچا جس میں 436 گھروں کو مکمل جبکہ 2439 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔

تیز بارشوں کے باعث جانی و مالی حادثات ضلع خیبر، دیر اپر و لوئر،چترال اپرولوئر، سوات، باجوڑ، شانگلہ، مانسہرہ، مھمند، مالاکنڈ، کرک، ٹانک، مردان، پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، بونیر، ہنگو، بٹگرام سمیت دیگر اضلاع میں ہوئے۔

ادارے کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی خصوصی ہدایت پر پی ڈی ایم نے حالیہ بارشوں میں متاثرہ اضلاع کی انتظامیہ کو مرنے والوں کے لواحقین کی مالی امداد اور امدادی سرگرمیوں کے لیے 110 ملین روپے جاری کیے جبکہ قبائلی اضلاع میں بھی امدادی سرگرمیوں کی مد میں 90 ملین روپے جاری کیے جا چکے ہیں.

پی ڈی ایم اے اور تمام متعلقہ اداروں کی جانب سے بارشوں سے متاثرہ اضلاع میں امدادی سرگرمیاں جاری ہیں.

یاد رہے کہ پی ڈی ایم اے کے مطابق بارشوں کا موجودہ سلسلہ 21 اپریل تک وقفے وقفے سے جاری رہنے کا امکان بتایا گیا ہے۔

لاہور کا ٹوپی گینگ. Topi gang of Lahore

 



لاہور کے شاہدرہ ٹاؤن کے علاقے میں بہت ہی قلیل عرصے کے دوران دو ڈاکو خوف اور دہشت کی علامت بن کر سامنے آئے۔ لوگ ڈرتے تھے کہ ٹوپیاں پہنے وہ دونوں پھر کہیں سے نمودار ہوں گے، کسی کو لوٹیں گے، گولیاں چلائیں گے اور لوگوں کو زخمی یا قتل کر کے فرار ہو جائیں گے۔

صرف دو ماہ میں انھوں نے پانچ افراد کو قتل کیا۔ ان میں ایک پولیس کانسٹیبل بھی شامل ہے۔ ایک اور پولیس کانسٹیبل اور بہت سے عام شہری ان کی گولیوں کا نشانہ بن کر زخمی ہوئے۔


وہ صرف ڈکیتی کے دوران مزاحمت یا پولیس سے اچانک سامنے ہو جانے پر ہی گولیاں نہیں چلاتے تھے۔ کم از کم تین افراد کو انھوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹارگٹ کر کے قتل کیا۔

If you want to earn daily $40   click here

ایک شخص کو 'اجرت' یا 'سپاری' لے کر قتل کیا۔ قتل کے اس مقدمے میں مدعی بننے والے شخص کو بھی پولیس کے مطابق ان ہی دونوں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔


دو مختلف واقعات میں قتل اور زخمی ہونے والے دو پولیس اہلکاروں کو بھی ان دونوں 'سگے بھائیوں' نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا۔ جاتے ہوئے وہ ان دونوں کی سرکاری بندوقیں بھی ساتھ لے گئے۔

یہ سب کچھ انھوں نے محض دو ماہ کی قلیل مدت میں کیا۔ اس تمام عرصے میں پولیس ان تک نہیں پہنچ پائی۔ وہ دونوں شاہدرہ ٹاؤن ہی میں رہتے رہے۔


لاہور کی سٹی پولیس کے مطابق 'وہ دونوں چھلاوے کی طرح آتے، واردات کرتے، گولیاں چلاتے اور واپس جا کر شاہدرہ ہی میں چھپ جاتے۔'


ان دونوں کا تعلق 'ٹوپی گینگ' سے بتایا جا رہا ہے۔ اس گینگ کے ارکان نے چوری، ڈکیتی یا قتل کی وارداتوں میں اس انداز سے ٹوپیاں پہن رکھی ہوتی ہیں کہ واردات کے دوران ان کا چہرہ دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مقصد اپنی شناخت چھپانا ہوتا ہے۔


ٹوپی گینگ سے تعلق رکھنے والے ان دونوں ڈاکوؤں کی آخری واردات چند روز قبل ہی شاہدرہ ٹاون میں ہوئی۔ اس میں انھوں نے ایک دودھ دہی کی دکان پر ڈکیتی کی۔ ڈکیتی کے دوران انھوں نے فائرنگ کی جس میں ایک 17 سالہ لڑکی ہلاک ہو گئی۔

لڑکی کے والد کو بھی ڈاکوؤں کی چلائی ہوئی گولی لگی جنھیں بعد میں زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا۔


اس واقعے کی ویڈیو پاکستان میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس پر بھی گردش کرتی رہی۔ اسی واردات کے بعد فرار ہوتے ہوئے دونوں ڈاکووں نے کچھ فاصلے پر گلی کنارے کھڑے شہروز نامی ایک نوجوان کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔


پولیس کے مطابق دونوں ڈاکوؤں کو شک تھا کہ شہروز ان کے خلاف پولیس کو مخبری کرتا تھا۔ ڈکیتی اور قتل کے ان دو واقعات کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر ان دونوں ڈاکوؤں کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں۔


لاہور پولیس نے تصدیق کی کہ دونوں ڈاکوؤں کو 'پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔' ان کی شناخت عباس اور حیدر علی بتائی گئی۔ دونوں کی عمریں 22 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔


ہر سال پولیس مقابلے یا 'انکاؤنٹر' کے ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں جن میں قتل، ڈکیتی اور دیگر سنگین جرائم کے مطلوب ملزم کی 'شوٹ آؤٹ کے دوران' ہلاکت کے ساتھ کیس بند ہوجاتے ہیں۔

مگر سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس مارے جانے والے مبینہ ڈاکوؤں کی لاشوں کو گاڑیوں میں ڈال کر علاقے سے گزر رہی ہے اور شہریوں کی بڑی تعداد اردگرد موجود ہے۔


مختلف ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ پولیس کے حق میں نعرے بازی کر رہے ہیں۔ بعض ویڈیوز میں لوگوں کو پولیس اہلکاروں کو گلے لگاتے اور ان پر پھولوں کی پتیاں پھینکتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


تاہم سوال یہ ہے کہ دو ماہ سے پولیس کے لیے 'چھلاوہ' ثابت ہونے والے ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکوؤں تک پولیس اچانک کیسے پہنچ گئی اور وہ کیسے ہلاک ہوئے۔


یہ بھی پڑھیےبالاج ٹیپو ٹرکاں والا کا قتل: اندرون لاہور میں انڈر ورلڈ اور نسل در نسل دشمنی کی داستان'بعض اوقات انکاؤنٹر لازمی ہو جاتے ہیں۔۔۔': سسٹم کی وہ خامیاں جو پاکستان میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ بنتی ہیںشیخوپورہ: ڈکیتی کی وارداتوں میں خواتین کا مبینہ ریپ کرنے والا گینگ جو متنازع پولیس مقابلے میں مارا گیاشاہدرہ کا ٹوپی گینگ کون ہے؟

لاہور کے علاقے شاہدرہ میں ٹوپی گینگ کے نام سے کام کرنے والے چند افراد پہلے بھی گرفتار کیے جا چکے ہیں۔


گذشتہ برس ڈولفن پولیس نے بھی ایک شخص کو پولیس کے ساتھ مقابلے کے دوران ہلاک کیا۔ اس شخص کی شناخت حمزہ کے نام سے ہوئی۔ پولیس نے بتایا کہ حمزہ 'ٹوپی گینگ کا سرغنہ تھا جو پولیس کو قتل، ڈکیتی اور چوری وغیرہ کی کئی وارداتوں میں مطلوب تھا۔'


بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سٹی سرکل کے سپرینٹنڈنٹ آف پولیس کیپٹن ریٹائرڈ قاضی علی رضا نے بتایا کہ شاہدرہ میں مارے جانے والے دونوں مبینہ ڈاکو ٹوپی گینگ بنانے والوں میں شامل نہیں تھے۔


'یہ دونوں کچھ عرصہ پہلے ہی اس گینگ میں شوٹرز کے طور پر شامل ہوئے تھے۔ ٹوپی گینگ اس سے پہلے سے کام کر رہا تھا۔'


ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق ٹوپی گینگ بنیادی طور پر گاؤں کے ایسے نوجوان لڑکوں پر مشتمل تھا جو 'معمولی نوعیت کے چھینا جھپٹی' کے واقعات میں ملوث تھا۔ وہ کہتے ہیں یہ زیادہ تر گاؤں کے ایسے لڑکوں نے مل کر بنا لیا تھا جو لوگوں سے پیسے اور مال چھیننے کی وارداتیں کرتے تھے۔


تاہم دو برس قبل پولیس نے اس گینگ کے خلاف کارروائی کی اور ان کے کئی ممبران کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس کے مطابق اس گینگ کو اس وقت ختم کر دیا گیا تاہم گینگ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔


ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ بعد میں 'لڑکے اس گینگ میں شامل ہوئے جو کچھ عرصہ پہلے چھوٹے تھے لیکن گینگ کے ان بڑے لڑکوں سے متاثر تھے جنھیں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ 'یہی چھوٹو' اب اس گینگ کو چلا رہے تھے۔ 'یہ لوگ ٹوپیاں پہن کر وارداتیں کرتے ہیں۔'


ٹوپی گینگ کے ڈاکوؤں نے 'پولیس کو بھی نشانہ بنایا'

پولیس کے بقول کچھ عرصہ قبل ٹوپی گینگ میں علی حیدر اور عباس نامی دو سگے بھائیوں نے شمولیت حاصل کی۔ ایس پی سٹی قاضی علی رضا کے مطابق 'یہ دونوں اس گینگ کے شوٹرز بنے ہوئے تھے۔ گینگ کے چھوٹو ان کو استعمال کرتے تھے۔'


پولیس آفیسر کے مطابق حیران کن طور پر یہ دونوں بھائی ایک نجی سکیورٹی کمپنی کے گارڈز تھے۔ 'دن کے وقت یہ دونوں گارڈز کے طور پر ڈیوٹی کرتے اور رات کے وقت یہ ڈکیتی اور قتل جیسی وارداتیں کرتے۔'


انھوں نے پہلی مبینہ ڈکیتی کی واردات رواں برس 31 جنوری کو کی جس میں یہ ایک راہگیر سے نقدی وغیرہ چھین کر فرار ہوئے اور جاتے ہوئے گولی مار کر اسے زخمی کر دیا۔ کچھ ہی روز بعد تین فروری کو انھوں نے مبینہ طور پر ڈکیٹی کے دوران فائرنگ کر کے ایک شخص کو قتل کیا۔

ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بتایا کہ ان دونوں 'شوٹرز' نے مبینہ طور پر کرائے کے لیے قتل بھی کیا۔ معاوضہ بھی انھوں نے کوئی بہت زیادہ نہیں لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اس مقدمے میں مدعی گوگی بٹ نامی شخص کو بھی مبینہ طور پر قتل کر دیا۔


ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر اس گینگ کے لوگوں کی کارروائیوں اور خاص طور پر ان دو 'ڈاکوؤں' کی کارروائیاں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ گاؤں کے ایسے بظاہر سادہ لوح لڑکے تھے جنھیں اپنے اقدامات کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔


'وہ پولیس کو بھی نشانہ بنانے سے نہیں ہچکچائے۔ انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ کسی پولیس اہلکار کو مارنے کے بعد وہ زیادہ عرصہ بچ نہیں پائیں گے۔'


قاضی علی رضا کہتے ہیں کہ پولیس کے جس ہیڈ کانسٹیبل کو ان دونوں بھائیوں نے مبینہ طور پر منصوبہ بندی سے قتل کیا وہ ان کے خلاف 'تحقیقات کرتا ہوا ان کے بہت قریب پہنچ چکا تھا۔ انھیں یہ خوف تھا کہ وہ جلد ان تک پہنچ جائے گا۔'


اس لیے انھوں نے اس کو ہی 'راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا۔'


دوسرے پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے خیال میں وہ ان کے خلاف 'تحقیقات کر رہا تھا۔'


'اپنی طرف سے وہ اسے ختم کر گئے تھے اور اس کی رائفل بھی ساتھ لے گئے تھے وہ۔ تو اس کی جان بچ گئی۔'


ٹوپی گینگ کے دونوں مبینہ ڈاکو زیادہ سے زیادہ عرصے تک پولیس کو خود سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ پولیس کے مطابق انھیں شہروز نامی شخص پر شک تھا کہ وہ پولیس کو ان کے خلاف مخبری کر رہا ہے۔ مبینہ طور پر اپنی آخری ڈکیتی کی واردات میں 17 سالہ لڑکی کو قتل کرنے کے بعد انھوں نے شہروز کو بھی قتل کیا۔


پولیس ان تک کیسے پہنچی؟

ایس پی سٹی قاضی علی رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس گذشتہ دو ماہ سے ان کے چھپنے کی جگہ کا سراغ لگانے کے لیے کام کر رہی تھی۔

ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد انھوں نے ایک حکمتِ عملی سے اس مقام کا پتہ لگایا جہاں دونوں ڈاکو وارداتیں کرنے کے بعد جا کر چھپتے تھے۔


قاضی علی رضا نے بتایا کہ پولیس نے اس کے لیے خواتین پولیس اہلکاروں کو استعمال کیا۔ انھیں مردم شماری کرنے والوں کے بھیس میں اس علاقے میں بھیجا گیا جہاں دونوں مبینہ ڈاکو چھپتے تھے۔


ان خواتین اہلکاروں نے تقریباً سات دن تک اس علاقے میں مردم شماری کے اہلکار بن کام کیا۔ 'انھوں نے یہ معلوم کیا کہ دونوں شوٹرز عین کس جگہ پر چھپے ہوتے ہیں۔'


انھوں نے بتایا کہ پولیس عنقریب ان کے خلاف کارروائی کرنے جا رہی تھی تاہم ایک ہی دن میں دو قتل کے واقعات نے ان کے پلان کو بدل دیا۔ انھوں نے فوری ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔


ایس پی سٹی نے بتایا کہ جب پولیس دونوں مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے اس مقام تک پہنچی جہاں وہ چھپے ہوئے تھے تو پولیس کو دیکھ کر انھوں نے 'پولیس پر فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس کے ساتھ اسی شوٹ آؤٹ میں دونوں ڈاکو ہلاک ہو گئے۔'

پولیس کے بقول وہ ان مبینہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے ہی گئی تھی تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کہ آیا شوٹ آؤٹ سے قبل پولیس کے پاس انھیں گرفتار کرنے کا موقع تھا یا نہیں۔


اکثر انکاؤنٹرز میں پولیس کی طرف سے یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ اہلکاروں نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی جبکہ مبینہ جرائم پیشہ عناصر غالباً اپنے ہی ساتھیوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔

دریں اثنا پولیس کے مطابق ٹوپی گینگ کے دس سے بارہ مزید مبینہ ارکان کو بھی گرفتار کیا گیا جو کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی سی آئی اے کے حوالے کر دیے گئے ہیں جو اس معاملے کی مزید تحقیقات کر رہی ہے۔

   

انصاف اور دباؤ. Justice and pressure

حقائق 

واضح اور شفاف تھے،  میں نے حکومتی.  ناجائ. دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو چاہتی تھی کہ بچے کو مستند مجرموں کیساتھ بند کر دیا جائے

Abdul Qayyum 



میں نے اس سے استدعا کی وہ مجھے اسمعاملے کے متعلق بتائے۔

میرے اس دوست نے جواب دیا: "مجھے یاد ہے کہ اس معاملے میں حقائق نہایت ہی واضح اور شفاف تھے۔ وہ لڑکا جس کی عمر بمشکل16 سال تھی، اس کے پاس سے میری جوانا (Merijuana) کی کافی مقدار برآمد ہوئی تھی اور اسے اسی حالت میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کا جرم بہت واضح تھا اور اس کو سزا سنانے کے لیے کافی شہادت موجود تھی۔ اس زمانے میں ججوں پر کافی دباؤ ہوتا تھا کہ منشیات کے عادی افراد کو ہر قیمت پر سزا دی جائے۔"

If you want to earn daily $40.                    click here

میرے دوست نے اپنی بات جاری رکھی: "مجھے یہ نوجوان بہت پسند تھا لیکن مجھے اسے2 سال سزا سنانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا لیکن مجھے امید تھی کہ وہ 6 ماہ بعد پیرول پر رہا ہو جائے گا۔"

"لیکن اس سے پہلے کہ اس نوجوان کو سزا سنائی جاتی، میری ملازمت کا سب سے عجیب و غریب واقع رونما ہوا۔ اس نوجوان کا وکیل میرے پاس آیا او رکہنے لگا: اس سے پہلے کہ آپ اسے سزا سنائیں، میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتا ہوں۔ یہ خط میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔"

وہ اٹھا اور فائلوں والی الماری کی طرف گیا، وہاں سے ایک خط نکالا اور یہ کہتے ہوئے میرے حوالے کر دیا "تم اسے پڑ ھ لو۔"

اس خط میں لڑکے کے باپ نے اپنے بیٹے کے فعل کا وفاع کرنے کی قطعاً کوئی کوشش نہیں کی تھی بلکہ اس کی بجائے اس نے اپنے بیٹے کے غلط فعل کی مکمل ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس خط کے کچھ حصوں کی عبارت یوں تھی:

"اگر جم کو سزا ہو جاتی ہے تو جج کو کہئے کہ وہ جم کو جیل بھیجنے کے بجائے مجھے جیل بھیج دے۔ کیونکہ، اگر میں ایک بہتر اور اچھا باپ ہوتا تو وہ اس تکلیف میں مبتلا نہ ہوتا۔ لہٰذا جم کی بجائے میں سزا کا مستحق ہوں۔"

اب میں نے اپنے دوست سے پوچھا "تم نے سزا کا یہ معاملہ کیسے طے کیا۔ حالانکہ اس کے باپ نے اپنے بیٹے کی بجائے جیل جانے کی پیشکش کی، لیکن مجھے معلوم ہے کہ ایک شخص کی بجائے دوسرا شخص اس کی سزا نہیں بھگت سکتا۔"

جج نے جواب دیا: "میں نے اس نوجوان کو6 ماہ کی عارضی سزا دی۔ اس پر مجھے اوپر سے کافی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا لیکن میرا استدلال یہ تھا کہ اگر اس 16سالہ نوجوان کا باپ، اپنے بیٹے کے اس فعل کی ذمہ داری محسوس کر سکتا ہے تو پھر ہمیں بھی بچے کو وہ توجہ دینی چاہیے جس کی سے ضرورت ہے۔"

میں نے کہا: "مجھے یہ معلوم کرنے کی جستجو ہے کہ کیا تم نے کبھی یہ دیکھا کہ اس بچے نے اپنے آپ کو کیسے تبدیل کیا؟"

جج نے جواب دیا: "اصل معاملہ اب یہ ہے کہ گذشتہ موسم گرما میں میری ملاقات اس نوجوان کے وکیل سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس لڑکے نے پہلے تو کالج سے تعلیم حاصل کی، امتحانوں میں اعلی پوزیشن حاصل کی اور اب اس وقت وہ کامیاب پراپرٹی ڈیلر (Property Vendor) ہے۔"

جج نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا: "میں اس معاملے میں خدا تعالیٰ کا دو چیزوں کے لیے شکر ادا کرتا ہوں۔"

میں نے پھر پوچھا: "وہ 2 چیزیں کیا ہیں؟"

اس نے جواب دیا: "پہلے یہ کہ مجھے یقین تھا کہ اس کا باپ بہت اعلیٰ احساس ذمہ داری کا مالک ہے اور اس کے اس روئیے کا باعث ایک مثبت اور تعمیری زندگی یقینی ہے۔ اس کا باپ اس قدر ذہین ہے کہ اسے معلوم ہے کہ یہ ذمہ داری کس کی ہے۔ دوسرے، یہ کہ میرے سر پر یہ بوجھ نہیں کہ میں نے غیر ضروری طور پر فضول زندگی گزاری ہے۔ میں شکر گزار ہوں کہ میں نے حکومتی ناجائز دباؤ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا جو یہ چاہتی تھی کہ اس بچے کو مستند مجرموں کے گروہ کے ساتھ بند کر دیا جائے