ایران اور اسرائیل کے میزائل حملوں نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال کو کس طرح تبدیل کیا ہے؟
لیکن دُنیا بھر میں پالیسی ساز، تجزیہ کار اور عسکری رہنما اب بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے میزائلوں کے تبادلے پر فکرمند نظر آتے ہیں۔ یہ ایک ایسا لمحہ تھا جب ایک چھوٹی سی تکنیکی غلطی ایک اور عالمی تنازع کو جنم دینے کا باعث بن سکتی تھی۔
ذرا سوچیے کہ ایران اور اسرائیل ایک براہ راست جنگ کے کتنے قریب پہنچ چکے تھے۔ ایسا تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کی سرزمین پر براہ راست حملے کیے ہوں۔
کچھ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایران کی طرف سے اسرائیل پر کیا گیا حملہ تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا میزائل اور ڈرون حملہ تھا۔
ایران کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئے 300 سے زائد میزائلوں میں سے زیادہ تر یا تو مار گرائے گئے یا پھر اسرائیل پہنچ ہی نہیں پائے تھے۔
جب اسرائیل کا دفاعی نظام ایرانی میزائلوں کو تباہ کر رہا تھا، میں اس وقت یروشلم میں واقع اپنے دفتر میں بیٹھا آسمان پر نظر آنے والی روشنیاں دیکھ رہا تھا۔
اگر اسرائیلی نظام میں کوئی خرابی ہوجاتی یا اس کا ’جی پی ایس گائیڈنس سسٹم‘ کوئی غلطی کر بیٹھتا تو کوئی ایرانی میزائل اسرائیل آبادی پر بھی گر سکتا تھا جس کے نتیجے میں انسانی جانیں ضائع ہوتیں۔
IF YOU WANT EARN DAILY 72$ CLICK HERE
ایک سینئیرمغربی سکیورٹی افسر نے مجھے بتایا کہ ’میرا نہیں خیال کہ لوگوں کو احساس ہے کہ ہم اس دن جنگ کے کتنے قریب پہنچ گئے تھے۔‘
ان کے مطابق اسرائیل پر ایرانی حملے کی پہلے سے پیش گوئی کرنا ایک بڑی انٹیلی جنس فتح تھی اور یہ کہ اسرائیل کے دفاع کے لیے جو اتحادی عسکری تعاون نظر آیا وہ بھی بے مثال تھا۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سب کے نتیجے میں ایران اور اسرائیل نے یہ سبق سیکھا کہ کشیدگی بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔
پہلے انٹیلی جنس کی کامیابی کی بات کرتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ امریکہ کو سنیچر کی رات اسرائیل پر ہونے والے ایرانی حملے کے منصوبے کی معلومات بدھ کو ہی مل گئیں تھیں۔
ایک اعلیٰ سطحی مغربی ذرائع نے مجھے بتایا کہ: ’ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ایران کا ردِ عمل ہماری توقعات سے زیادہ ہوگا۔ یہ ہمارے لیے حیران کُن ضرور تھا لیکن اس سے ہمیں ایک بین الاقوامی ردِ عمل تیار کرنے میں مدد ملی۔‘
اس سے امریکہ کو سعودی عرب اور اردن سمیت کچھ خلیجی ممالک کو اسرائیل کے دفاع کے لیے راضی کرنے میں مدد ملی۔
جب انھیں ایران کے منصوبے کی شدت کا علم ہوا تو انھیں یہ ڈر لاحق ہوگیا کہ اگر اسرائیل نے ایرانی حملے کا سخت جواب دیا تو خطے میں ایک اور جنگ چھڑ جائے گی۔
اچھی انٹیلی جنس کے حصول اور ایران کی جانب سے غیر حکومتی اشاروں کے سبب اسرائیل کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اپنا دفاع مضبوط کرنے میں مدد ملی۔ تاہم امریکہ نے ایران کی جانب سے حملوں کی پیشگی اطلاع ملنے کی تردید کی ہے۔
یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس دوران اردن نے اسرائیل جہازوں کو اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی تھی۔
یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے بھی امریکہ کو کچھ معلومات دیں اور یمن میں ایران کے حامی گروہوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ خطرے کی نگرانی کی۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ امریکی، برطانوی، فرانسیسی، اردن اور سعودی عرب کی فوجوں نے ثابت کر دیا کہ فضائی سلامتی کے معاملے میں یہ فوجیں مل کر کام کر سکتی ہیں۔
سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ غیر معمولی طور پر ایک کامیاب ٹیکٹیکل آپریشن تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ انٹیلیجنس نے اسے ممکن بنایا، ہم نے پورے علاقے پر نظر رکھی تھی اور ہم نے اکھٹے کام کیا جو دنیا کا کوئی اور گروپ نہیں کر سکتا۔
لیکن دوسروں کا کہنا ہے کہ اسے ایک مخصوص سیکورٹی اور فوجی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کو تکنیکی کامیابی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس سے جڑی بڑی سیاسی تصویر کو جھٹلایا جا سکتا ہے۔
FOLLOW MY WHATSAPP CHANNEL CLICK HERE
کچھ اور غیر جانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر ایران واقعی اسرائیل کو بڑا نقصان پہنچانا چاہتا تھا تو اسے پیشگی وارننگ نہیں دینا چاہیے تھی، اسے اپنے اہداف میں اضافہ کرنا چاہیے تھا اور ایک حملہ ختم ہونے کے بعد دوسرے حملے بھی کرنے چاہیے تھے۔ لبنان کی جانب سے وہ حزب اللہ سے اسرائیل پر بڑا حملہ کرنے کے لیے کہہ سکتا تھا
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز تھنک ٹینک سے منسلک ایمیل ہوکیم کہتی ہیں کہ اس آپریشن سے دنیا کو پتا چلا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کے لیے اتحادیوں پر کتنا انحصار کرنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر تصادم کا دائرہ بڑھ جاتا تو انھیں شک تھا کہ اسرائیل کے پاس ضروری فضائی دفاعی میزائل ہوں گے یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں دیکھا ہے کہ کافی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہونا کتنا ضروری ہے۔
ہوکیم نے اس خیال کو بھی مسترد کر دیا کہ یہ بحران ایک نئے علاقائی فوجی اتحاد کا آغاز ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’عرب ریاستوں نے تعاون کیا ہے کیونکہ بنیادی طور پر وہ علاقائی تصادم سے بچنا چاہتے ہیں۔ اور وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے مغربی اتحادیوں کے اچھے شراکت دار ہیں۔ یہ صرف قومی خودمختاری کا معاملہ ہے۔ وہ اپنی فضائی حدود میں میزائلوں کو اڑتے یا دھماکے ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘
کچھ پر امید تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں نے اس واقعے سے کچھ سیکھا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب دونوں ممالک نے واضح طور پر اپنے ارادوں کا اظہار کیا۔
ہو سکتا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا ہو لیکن اس نے اپنے اتحادیوں کو اپنے ارادے کے بارے میں خبردار کر دیا تھا۔ اس نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ یہ ایک یک طرفہ حملہ ہے۔
اسرائیل نے یہ ظاہر کیا کہ وہ وسطی ایران میں فضائی دفاع کو نشانہ بناتے ہوئے جوابی کارروائی کر سکتا ہے۔
اس نے ایک چھوٹے سے حملے کا استعمال کرتے ہوئے اپنی بڑی صلاحیت کی جانب اشارہ دیا ہےکہ وہ ایران کو جہاں اور جب چاہے نشانہ بنا سکتا ہے۔
مجھے بتایا گیا ہے کہ ایران کو بھی اسرائیل کی جوابی کارروائی کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ یقیناً ایران نے ابتدائی مرحلے سے ہی اشارہ دیا تھا کہ وہ اسرائیل کے جوابی حملے کا جواب دینے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
دونوں فریقوں نے یقینی طور پر فوجی سبق سیکھا ہو گا۔
انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار نے کہا ہے کہ ’حملے نے ممکنہ طور پر ایران کو اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کی مضبوطی اور کمزوریوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کی۔‘
اسرائیل اور امریکہ کو بھی ایران کی حکمت عملیوں کا زیادہ ادراک ہوا ہو گا۔
ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں نے ایک حد کو توڑا ہے اور براہ راست حملہ اب ایک آسان آپشن ہے۔
فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے افشون اوستوار برائے خارجہ امور کے ایک مضمون میں کہتے ہیں کہ ایران کے حملے کے پیمانے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب تحمل کی پالیسی کا قائل نہیں رہا۔
وہ لکھتے ہیں کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ ایران نے جان بوجھ کر اسرائیل پر کمزور حملہ کیا ہے۔
ان کے خیال میں ’ایران کو امید تھی کہ وہ اسرائیل کے خلاف ایک متاثر کن ضرب لگائے گا۔‘
ہوکیم اس سے متفق نہیں ہیں کہ ایران اور اسرائیل نے ایک دوسرے کو سمجھ لیا ہے۔ اان کا کہنا ہے کہ اسرائیل یہ سمجھنے میں ناکام رہا کہ دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملے کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں ’یہ دونوں ملک ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے۔ اس کے بجائے وہ صرف فوجی ذرائع اور تیسرے فریق کے ذریعے ایک دوسرے کو اشارہ کرتے ہیں۔ یہ چیزیں بہت جلد خراب ہو سکتی ہیں۔ دوسرے فریق کے ارادوں کو غلط سمجھنے کی صلاحیت اور خطرہ مول لینے کی طاقت دونوں فریقوں کے درمیان ایک خاصیت ہے۔‘
اسرائیلی اخبار ہریٹز میں ایک دفاعی تجزیہ کار آموس ہارل نے لکھا ہے کہ دونوں ممالک نے محدود قیمت ادا کرتے ہوئے سابقہ اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔۔۔۔ دونوں ملکوں کے درمیان ڈیٹرنس میں توازن برقرار نہیں ہے۔
شاید اس بحران میں بہت سے لوگوں نے جو بڑا سبق سیکھا وہ یہ تھا کہ یہ خطہ مکمل جنگ کے کتنے قریب آچکا ہے۔
ایک مغربی سفارت کار نے مجھے بتایا کہ ’یہ بہت بڑی راحت تھی، یہ سب بہت مختلف سمت میں بھی جا سکتا تھا۔‘