افغان مہا جرین اورپھر سے دہشت گردی

 



قارئین کرام، انتہا ئی دکھے دل کے ساتھ آپ کو محض چند روز پہلے کی خبر یا دکروا رہا ہوں جس کے مطابق خیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے تیراہ میں سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کرتے ہوئے تین دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، جب کہ فائرنگ کے تبادلے میں پاک فوج کے لیفٹیننٹ کرنل سمیت چار جوان شہید ہوگئے۔ اس سے قبل میانوالی ایئربیس پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جس میں سیکورٹی فورسز نے تمام دہشت گرد ہلاک کر دیے تھے جن کی تعداد 9تھی۔دہشت گردوں نے خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی کارروائیاں کی تھیں' افغانستان میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں' پاکستان میں تسلسل کے ساتھ دہشت گردی کی کارروائیاں کی جا رہی ہیں حالانکہ اشرف غنی اور اس سے قبل حامد کرزئی کے دور حکومت میں دہشت گردی کے واقعات کم تھے۔ پاکستان میںرواں برس فوج اور پولیس اہلکاروں کی شہادتوں کی تعداد، گزشتہ آٹھ برس میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز چاہتے ہیں کہ پاکستان کو جتنا ہوسکے اتنا نقصان پہنچایا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پاکستان کی سیکورٹی تنصیبات اور سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے مختلف گروپ پاکستان میں انتشار، بد امنی اور خوف پیدا کرکے ریاستی ڈھانچے کو زمین بوس کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، افغانستان کی عبوری حکومت کے بااثر عہدیداروں کے حالیہ بیانات نے ان حقائق کو عیاں کردیا ہے جو پہلے عوام سے اوجھل تھے۔ ٹی ٹی پی کی قیادت کی سوچ، رویہ، پالیسی اور عزائم بھی واضح ہوچکے ہیں۔ خود کو پاکستانی ظاہر کرنے والے ان لوگوں نے افغانستان کا آلہ کار بن کر اپنا ایجنڈا آشکار کردیا ہے۔

دہشت گرد گروہ پاکستان کے صوبے خیبرپختو نخوا اور بلوچستان میں زیادہ کارروائیاں کررہے ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ پاک فوج کو ٹارگٹ بنائیں۔ گزرے چند مہینوں میں پاکستان میں ہونے والے 24 خودکش حملہ آوروں میں سے 14 افغان باشندے تھے جب کہ باقی کا تعلق سابقہ فاٹا کے مختلف علاقوں سے تھا۔کسے معلوم نہیں کہ پاکستان نے افغانستان سے آنے والے پناہ گزینوں کو کھلے دل سے پناہ دی،ان پناہ گزینوں کا مقدمہ ہر عالمی اور مقامی فورم پر لڑا لیکن اس کا بدلہ کیا ملا؟اس پر بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان نے مجبور ہوکر غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے حالیہ فیصلے کی بنیاد اقتصادی، سیکیورٹی چیلنجز پر قابو پانا اور مزید مہاجرین اور خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن کی پاکستان میں آمد کو روکنا ہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ افغان مہاجرین کا پاکستان میں مسلسل قیام ملکی سلامتی اور معیشت کے لیے خطرات پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ افغانستان کی ہر حکومت خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قوم پرستی کا کارڈ استعمال کرتی آئی ہے جب کہ پنجاب،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں مذہبی کارڈ استعمال کرتی ہے۔ افغانستان کی موجودہ عبوری حکومت بھی اسی پالیسی پر کاربند ہے، پاکستان کے سادہ لوح عوام اس دہری پالیسی کا شکار ہو کر افغانستان کو ہمیشہ شک کا فائدہ دیتے ہیں۔لیکن اب یہ دہری پالیسی بے نقاب ہوگئی ہے۔ افغانستان افغان مہاجرین کے ایک حصے کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے، متعدد سادہ لوح پاکستانی بھی نادانستگی میں استعمال ہورہے ہیں۔ دہشت گردوںکے ماسٹر مائنڈ اور اسٹریٹجسٹ افغان مہاجرین کو بطور لانچ پیڈ استعمال کررہے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گردوںکو پناہ دینا، ان کا اسلحہ اورخود کش جیکٹس وغیرہ محفوظ مقامات میں چھپانا، ٹارگٹ کی معلومات فراہم کرنا اور دہشت گردوں کو ان کے ٹارگٹس تک پہنچانے کی سہولت کاری کرنا، جیسے کام پاکستان میں برسوں سے رہنے والے باشندے ہی کرسکتے ہیں۔ بیشتر افغان مہاجر پاکستان میں غیر قانونی سرگرمیوں، ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور قتل جیسے جرائم میں بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ سیکورٹی اِداروں کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ افغانستان کی ہر حکومت نے اپنے شہریوں کے ذہنوں کو پاکستان کے بارے میں آلودہ کیا ہے۔وہاں کے تعلیمی نصاب میں بھی پاکستان کے بارے میں منفی مواد شامل رہا ہے۔

آج چار عشروں سے سرحدوں پر دی گئی نرمی کا نقصان یہ ہوا ہے کہ ہر جگہ غیر ملکی دندناتے اور ملکی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے پھرتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن امن و امان ہی نہیں بلکہ قومی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان شہریوں کا وطن واپس جانے کے بجائے یہاں براجمان رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اور نہ ہی افغانستان کی حکومت اپنے شہریوں کو وطن واپس آنے سے روک سکتی ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو پاکستان میں قیام پذیر رکھنے کا مطالبہ کرے۔

دہشت گردوں کی پاکستان میں آمد و رفت کے راستے بند کرنا اس کا حق ہے۔پاکستان میں موجود ایسے لوگ جو پاکستانی عوام اور ریاست کے مفادات کے خلاف کام کر رہے یا ان میں ملوث ہیں یا سہولت کار ہیں، فنانسرز ہیں، ان کے خلاف کارروائی کرنا بھی پاکستان کا حق ہے۔ لہٰذا ملک کے اندر ان کالعدم تنظیموں کے ہم خیالوں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی قوانین کے مطابق کارروائی کی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں سانحات سے بچا جاسکے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں موجود غیرملکی شہریوںکے انخلا کو یقینی بنایا جائے، اور ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی عوام سیکیورٹی فورسز کے ساتھ ہمیشہ کی طرح شانہ بشانہ کھڑے رہیں اورکسی بھی مشکوک پہلو کی بروقت نشاندہی کر کے سیکیورٹی فورسز کو ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کرنے میں مدد فراہم کریں۔ ان حالات میں حکومت، سیکیورٹی فورسز، عدلیہ، سویلین اداروں اور سیاسی جماعتوں کے قیادت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ومتفق ہوکر متحرک اور جاندار کردار ادا کرے۔ وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ڈسٹرکٹ مینجمنٹ کو بھی چاہیے کہ امن و امان کے قیام اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے ساتھ حساس مقامات کی حفاظت کے لیے تمام تر دستیاب وسائل بروئے کار لائیں۔ افغانستان کی حکومت کے اکابرین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعے یا نفرت کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر کبھی حملہ کیا ہے اور نہ ہی اس کے کسی علاقے پر زبردستی قبضہ کیا ہے۔ پاکستان نے افغان ٹریڈ کو بھی قانون کے مطابق جاری رکھا ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت نے افغانستان کا ساتھ دیا ہے' افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے افغان مجاہدین اور طالبان قیادت کا بھرپور سات  دیا.ں


لاکھوں افغان باشندوں کو اپنے ملک میں پناہ بھی دیئے رکھی ہے' ان حقائق کے باوجود افغانستان کا حکمران طبقہ'چاہے وہ مذہبی طبقہ ہو'چاہے لبرل اور ماڈریٹ طبقہ ہویا اریسٹوکریٹس کا طبقہ ہو'ان کی پاکستان مخالف سوچ رکھنا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔ تاریخی حقائق کو اپنی من پسند عینک سے دیکھ کر ان کی خود ساختہ تشریح کرنا' درست نہیں ہے۔ سرحدوں پر حفاظتی انتظامات کرنا'ٹرانزٹ ٹریڈ کو قانون اور ضوابط کے دائرہ کار میں لانا اور اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کرنا'دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے'افغانستان کی طالبان حکومت کو اس وقت ہمسایہ ممالک خصوصاً پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

الیکٹیبلز,جمہوریت اور عوامی موڈ

 



خبر چھپی ہے مسلم لیگ (ن) نے الیکٹیبلز کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اس خبر کو پڑھ کر وہ پیر یاد آتاہے جس نے جنت کا ٹکٹ دینے کی منادی کرائی تھی، صبح سویرے لوگ اس کے دروازے پر پہنچ گئے تھے اور دروازہ کھلتے ہی ایسے اندر داخل ہوئے تھے جیسے سیلابی ریلا داخل ہوتا ہے ابھی کچھ عرصہ پہلے تک تو مسلم لیگی قیادت کے بیانات سے یہی لگ رہا تھا کہ  انہیں الیکشن جیتنے کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں اور پرانے مسلم لیگی امیدواروں کو ہی میدان میں اتارا جائے گا۔ لیکن اب منتخب ہونے کی مہارت رکھنے والوں کے لئے اپنے دروازے کھول کر مسلم لیگ (ن) نے تسلیم کر لیا ہے حالات اتنے بھی ساز گار نہیں۔ بہت عرصہ پہلے آصف زرداری نے یہ بیان دیا تھا کہ جنوبی پناب سے الیکٹیبلز پیپلزپارٹی میں شامل ہوں گے اور ان کی وجہ سے ہم پنجاب سے خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے حکومت بنائیں گے۔ اس وقت آصف علی زرداری کے اس بیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا۔ کیونکہ الیکٹیبلز بھی کچھ دیکھ کے اور کسی کے اشارے پر جماعت بدلتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی ایسی پوزیشن میں نہیں کہ ان دونوں حوالوں سے الیکٹیبلز کے لئے پر کشش بن سکے مگر لمحہ لمحہ بدلتی صورت حال میں ہر کوئی چوکنا ہے زمینی حالات ایسے ہیں کہ عوام کا موڈ بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہا۔ ہر سروے میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ دواسری طرف یہ بھی حقیقت ہے تحریک انصاف آزادی سے اپنی مہم بھی نہیں چلا پا رہی۔ گویا الیکٹیبلز کے لئے اس میں رہنا یا اس میں جانا دشوار عمل ہے۔ بہت سے نامی گرانی الیکٹیبلز تو استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب سے شامل ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہے، اسی بنیاد پر جہانگیر ترین یہ دعویٰ کرتے ہیں آئی پی پی جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے الیکٹیبلز کے لئے باقاعدہ دروازے کھلنے کے بعد اب گویا کھینچا تانی شدید ہو جائے گی۔ پروانہ ادھر جاتا ہے یا اُدھر کی صورت حال پیدا ہو گی۔ نواز شریف اب ملک کے مختلف حصوں کا دورہ شروع کر رہے ہیں۔ امکان یہی ہے ہر شہر میں الیکٹیبلز کو بڑی تعداد میں شامل کرنے کا ٹارگٹ پورا کیا جائے گا۔ یہ غالباً اس لئے بھی ضروری ہے کہ جیت کا تاثر دینے کے لئے ہیوی ویٹ امیدواروں کی موجودگی ضروری ہے۔ یعنی نظریہ وغیرہ کی بات اب بہت بے معنی ہو کر پیچھے رہ گئی ہے۔ وہ دعوے بھی ہوا ہو گئے ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ پر کی جائے گی اور پرانے نظریاتی لوگوں کو اہمیت ملے گی۔ اندر کے ذرائع تو یہ بھی بتاتے ہیں مسلم لیگ (ن) نے ٹکٹوں کے لئے درخواستیں مانگیں تو مقررہ مدت میں بہت کم درخواستیں موصول ہوئیں۔ جس کے بعد دس روز کی مدت اور بڑھائی گئی۔


موجودہ حالات کے تناظر میں یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ الیکٹیبلز کیا واقعی اپنی سیٹ جیب میں ڈال کر پھرتے ہیں۔ حالات چاہے کچھ بھی ہوں عوام انہیں ووٹ دیتے ہیں اور منتخب کرتے ہیں۔


نہیں صاحب یہ معاملہ اتنا بھی سادہ اور آسان نہیں۔ہم نے انتخابات میں بڑے بڑے برج الٹتے دیکھے ہیں اور الیکٹیبلز کو عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے بھی دیکھا ہے۔ ایک خاص فضا ہوتی ہے، جس میں الیکٹیبلز کی فصل کارآمد ثابت ہو کر پروان چڑھتی ہے اس لئے وہ بھی کچھ دیکھ کے کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی سب سے بڑی کمزوری تو یہ ہوتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کس کے سر پر ہے۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ غیبی اشارہ بھی انہیں فیصلہ کرنے میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ بلاشبہ اس حوالے سے اس وقت حالات مسلم لیگ(ن) کے حق میں ہیں۔ اس قدر حق میں ہیں کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں ہی اس بات پر واویلا کررہی ہیں کہ انہیں لیول پلئینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔ نوازشریف کی طمطراق کے ساتھ وطن واپسی، مقدمات کے ضمن میں نرمی اور سرکاری میڈیا پر ان کے لئے کشادگی سب کو نظر آ رہی ہے۔ اس میں سمجھنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں  ہیں۔ ایک خاکہ تیار ہو چکا ہے جس میں رنگ بھرنا باقی ہے۔ کیا رنگ پلان کے مطابق بھرا جا سکے گا؟ سب سے پیچیدہ سوال یہی ہے۔ رنگ بھرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ زمینی حقائق کو ہموار کیا جائے  جو فی الوقت ہموار نہیں ہو رہے۔ اگر نگران حکومت کی طرف سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے صدر ملک کے اعلیٰ عہدیدار ہیں انہیں ایک جماعت کا ترجمان نہیں بننا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے اس خط نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔ صرف کہہ دینے سے بات نہیں بنتی عمل بھی ضروری ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے ریاست کا پلڑا کس طرف جھکا ہوا ہے، اس عمل سے پی ٹی آئی کے حق میں عوام کے اندر ایک ہمدردی جنم لے رہی ہے۔ ویسے بھی ایک بڑا لیڈر جیل میں ہو تو عوام کی توجہ اس کی طرف رہتی ہی ہے۔ الیکٹیبلز بہت ہوشیار مخلوق کا نام ہے۔ یہ اپنے حلقوں میں اڑتی چڑیا کے پَر گن لیتے ہیں۔ یہی وجہ تو ہے کہ ہمیشہ اپنی سیٹ جیت جاتے ہیں جن الیکٹیبلز کا تعلق تحریک انصاف سے ہے، وہ سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ موجودہ حالات کی وجہ سے وہ تحریک انصاف میں رہ کر سیاست کر نہیں سکتے اور اگر اسے چھوڑ کر دوسری جماعت میں جاتے ہیں تو حلقے کے عوام کی ناراضی کا ڈر ہوتا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ پریس کانفرنسیں کرکے تحریک انصاف سے نکلنے والے اپنے حلقوں میں آزادی سے گھوم بھی نہیں سکتے، ووٹ ملنے کی اُمید تو بہت دور کی بات ہے البتہ وہ الیکٹیبلز بڑی آرام دہ پوزیشن میں ہیں جو آزاد حیثیت سے انتخابات لڑتے ہیں۔ ان کے لئے کسی بھی جماعت میں شامل ہونا دشوار مرحلہ نہیں۔


وقت کے ساتھ ساتھ حالات اور سیاسی روایات کتنی بدل گئی ہیں۔ایک وہ زمانہ تھا جب وفاداری تبدیل کرنے والوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک جماعت چھوڑکر دوسری میں شامل ہو بھی جاتے تو انہیں اپنے دیرینہ کارکنوں اور رہنماؤں پر ترجیح نہ دی جاتی۔ مسلم لیگ ن تو اپنی جماعت میں نئے شامل ہونے والوں کو ٹکٹ دے کر منفی نتائج بھگت بھی چکی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، تحریک انصاف کے دور میں ملتان سے شحریک انصاف کو چھوڑ کر مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے والے سلمان نعیم کو ضمنی انتخاب میں ٹکٹ دیا گیا تو انہیں صرف اس لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ مسلم لیگ (ن) کے اس حلقے میں پرانے امیدواروں نے ان کی حمایت نہیں کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی مشکل یہ ہے کہ اس کے پاس مسلسل انتخابات لڑنے والے امیدواروں کی بھرمار ہے، جو کسی صورت اپنے حلقے سے کسی اور کو منتخب ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے میں الیکٹیبلز کو مسلم لیگ (ن) کیسے ایڈسٹ کرے گی۔ ایڈجسٹ کر بھی لیا تو انہیں منتخب کیسے کرائے گی حلقے میں مسلم لیگی ہی اس کے خلاف مہم چلا رہے ہوں گے۔ اس وقت ملک میں سیاسی شعور کی جو لہر موجود ہے، اسے دیکھتے ہوئے یقین سے نہیں کیا جا سکتا الیکٹیبلز کا سکہ اس بار چلے گا۔

بنام چیف جسٹس آف پاکستان

 


 ۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان اگلے روز اخبار میں آپ کے ریمارکس اور بیان پڑھا کہ "مقدمات کو طوالت دینا وتیرہ، عدالتی نظام تباہ"


یہ حقیقت ہے لیکن جناب چیف جسٹس صاحب آپ کی خدمت میں آرمینیا کے ایک دانشور کی شاعری، جو عربی میں ہے، کا اردو ترجمہ پیش کر رہا ہوں۔


٭ واعظ نصیحت کر رہا تھا مگر بھیڑیے کا دھیان بھیڑوں کی طرف تھا۔


٭ گڈریے کو غم تھا ان بھیڑوں کا جو بھیڑیا کھا گیا اور بھیڑیے کو پچھتاوا تھا ان بھیڑوں کا جو بچ گئیں۔


جناب جسٹس صاحب، میں نے 21 سال کی عمر میں وکالت شروع کر دی تھی، درمیان میں امریکہ چلا گیا۔ واپس آیا تو 1989 میں ہائی کورٹ کا وکیل بن گیا۔ جس پر مجھے محکمہ نے کسٹم کے پینل برائے کورٹ میں لے لیا۔2008 سے کالم نگار بھی ہوں۔


ایک نجی کمپنی جو موٹرسائیکل کا سامان درآمد کر کے موٹرسائیکل بناتی ہے۔ اس کی 6 اپیلوں میں محکمہ نے مجھے اپنے پینل پر لیا۔


جناب چیف جسٹس صاحب اس کے بعد اپیل کنندہ کی طرف سے کوشش کر کے تین سے زائد سپیشل بینچ بنائے گئے جن میں جبار قریشی ممبر جوڈیشل اور شیخ امتیاز ممبر ٹیکنیکل دونوں کراچی سے لاہور آئے۔ اس دوران ایک Indistinguishable Allure نمبر 599/18 جو دوسری کمپنی کی ہے وہ بینچ ون لاہور سے مسترد ہو چکی تھی اور یاد رہے کہ متذکرہ بالا 6 اپیلوں کی اپیل کنندہ کمپنی دو کروڑ کے قریب ریکوری سادہ آبزرویشن پر جمع کرا چکی ہے بہرحال میں نے بنچ کو اس قدر مطمئن کیا فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد واپس بھیج دیا گیا۔ وجہ معلوم نہیں، سنا ہے 50 لاکھ سے زائد وولٹیج مہیا کرنے کے باوجود وہ چمک پیدا نہ ہو سکی جو سچائی کو جھٹلاتی، پھر ایک اور بنچ بنا دیا گیا جس میں امتیاز شیخ اور جناب حافظ انصار ممبر جوڈیشل بنچ تھے فیصلہ محفوظ ہوا مگر نہ سنایا گیا کہ حافظ صاحب نے گند میں ہاتھ رنگنے سے معذرت کر لی۔


جناب چیف صاحب اس میں ایک دو اور بنچ بھی بنے۔ مگر اب کی بار چیئرمین نے تاریخی کارنامہ انجام دیا کہ لاہور میں بنچ ون اور ٹو دونوں کام کر رہے ہیں ایک بنچ سے شریف اور پڑھا لکھا مہذب ممبر

ٹیکنیکل لے لیا جناب احمد رضا خان دوسرے بنچ ون سے ممبر جوڈیشل جس کی "شہرت" کے چرچے چار سُو ہیں۔ اور یوں ایک سپیشل بنچ بنا دیا گیا۔ جس پر PCA کے ڈائریکٹر لاہور نے بذریعہ کونسل چیئرمین کو درخواست دی کہ اس مقدمہ کو آدھی درجن سے زیادہ لوگ سن اور انکار کر چکے ہیں اس کے لیے 3 یا 5 رکنی فل بنچ بنا دیں۔ اُس پر تحریری یا زبانی فیصلہ نہیں آیا تھا کہ ممبر جوڈیشل ڈاکٹر نوید الحق نے ڈے ٹو ڈے حتیٰ کہ اپنے چیمبر میں سماعت شروع کر دی۔ محکمہ کے وکیل نے اس کو چیمبر میں اپیل کنندہ کے وکیل کی موجودگی میں دونوں درخواستیں دیں کہ جناب ان کا فیصلہ آنا ہے دیکھیں چیئرمین صاحب کیا فیصلہ کرتے ہیں۔


مگر اس نے ایک روز پہلے بھی یکطرفہ کارروائی شروع کر دی اور اُس روز مورخہ 5 تاریخ کو بھی پھر 7 نومبر کو سماعت رکھ لی۔ محکمہ کے دونوں وکلا کو ڈائریکٹر پی سی اے تیمور کمال ملک نے دفتر بلایا اور بنچ بنانے کی درخواست پر زور دینے کو کہا اور پھر کہا کہ اگر ممبر جوڈیشل نہ مانے تو اس بنچ کو مقدمہ نہیں سناناجب تک چیئرمین صاحب کا کوئی فیصلہ نہ آ جائے۔ اس دوران سما ٹی وی چیئرمین کو دی گئی درخوست، نوید الحق پر عدم اعتماد کی خبریں چلاتا رہا۔ بہرحال 7 نومبر کو پھر سماعت شروع ہو گئی ممبر جوڈیشل نوید الحق جس کے لیے عام ہے کہ قومی خزانہ کا مقدمہ قلم نہیں کرپان سے کرتا ہے۔وہ ایک دن نہیں ایک لمحے میں مقدمہ اپیل منظور کر کے سننا چاہتا تھا۔ محکمہ کے وکیل سے کہنے لگا کہ آپ سما ٹی وی پر خبریں چلاتے ہیں؟ اس نے کہا کہ سر اُن کی ذمہ داری ہے، بیٹ ہوتی ہے اور کام رپورٹنگ ہے۔ پھر نوید الحق کہنے لگا کہ آپ ہائی کورٹ ریفرنس میں چلے جائیے گا۔ بٹ صاحب آپ کو تو جنجوعہ صاحب نے سپر سیڈ کیا ہے، اس پر جنجوعہ صاحب نے کہا کہ یہ میرے سینئر ہیں اور میں ان کو اسسٹ کرتا ہوں،آپ اس طرح ان کی تضحیک نہ کریں۔ عبدالقدیر جنجوعہ نے سپریم کورٹ اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا حوالہ دیا تو انوار الحق کہنے لگا کہ یہاں پر سپریم کورٹ کی باتیں نہ کریں۔ دل کی کہوں تو میں سوچ رہا تھا کہ کس گناہ کی سزا میں مجھے اس شخص کے سامنے قومی خزانہ بچانے کے لیے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو مقدمہ پڑھتا نہیں تولتا ہے۔


ممبرز عدالت بند کر کے چیمبرز میں جا چکے تھے۔ اگلے روز مجھے علم ہوا کہ سینے پر ہاتھ مار کر کہنے والے ڈائریکٹر صاحب 15 کے بجائے 14 منٹ میں پہنچے اور نہ جانے کیا ہوا کہ معافی منت کے ساتھ ساتھ ہم دو وکلا کو جن میں سے مجھے تو دو ڈھائی سال کئی بنچوں کے سامنے پیش ہونا پڑا، کئی بار ممبران کے ارمانوں پر اوس پڑی اور مقدمہ کا فیصلہ نہ ہوا۔ ڈائریکٹر صاحب نے ایک سیکنڈ میں دونوں وکلا کو خوف و ہراس میں واپس لے لیا اور ایک نئے وکیل صاحب کو مقرر کیا۔ میں نے کہا کہ عدالت کی دنیا میں ایسا واقعہ نہیں ہوا چلیں یہ تو اعزاز ہے کہ جب تک میں وکیل رہا مقدمہ کا فیصلہ محکمہ کے خلاف نہ آ سکا۔ سنا کرتے تھے گن پوائنٹ پر فلاں کام ہو گیا، گردن پر گوڈا رکھ کر (گھٹنا رکھ کر) بازو مروڑ کر کام کرا لیا مگر عدالتی یا ٹربیونل کی تاریخ میں پہلی بار دیکھا کہ ممبر جوڈیشل نے قلم کے زور پر ڈائریکٹر سے دونوں وکلا کو Supplant کیا اور یوں تیسرا وکیل اپنی مرضی کا مقرر کرا لیا۔


تاریخ ساز چیف جسٹس فائز عیسیٰ واعظ کر رہے تھے مگر ماتحت عدلیہ اور کسٹم ٹربیونلز کے بعض ممبران کا دھیان تر نوالہ قسم کے مقدمات کی طرف ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو غم ہے ان مقدمات کا جو بے انصافی کی بھینٹ چڑھ گئے اور ان ممبران کو پچھتاوا ہے ان مقدمات کا جن سے یہ چمک حاصل نہ کر سکے۔ دراصل یہ جو بنچ بنتے اور فیصلے نہ کرتے رہے وقت کے اس زیاں کا کون ذمہ دار ہو گا۔ مجھے کچھ ذاتی مفاد نہ ہے سوائے قومی خزانے کو لٹتے دیکھ میری روح چیخ اٹھتی ہے۔ اس خزانے کو بچانے کے لیے میں ہمیشہ کوشاں رہتا ہوں۔ 2007 کی اپیلیں التوا میں ہیں اور 2019 والی کے لیے خصوصی اور غیر فطری بنچ بن گئے مگر فیصلہ پھر بھی نہیں ہوا۔ بنچ کے دو ممبران میں سے اگر کوئی ایک اختلافی نوٹ لکھ دے تو تیسرا ریفری ممبر صرف سٹپنی کے طور پر کام کرتے ہوئے ناانصافی میں حصہ دار بن جاتا ہے۔مجھے ممبر جوڈیشل نوید الحق نے کہا کہ اگر آپ کا کوئی ذاتی یا فیملی کا کیس ہوتا تو اور بات تھی آپ محکمہ کے لیے اتنے سنجیدہ ہیں؟ کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے۔ آپ کے پاس کتنے کیس ہیں؟ جناب چیف صاحب میں اس کو کیا بتاتا لیکن دوستوں نے کہا کہ یہ آپ کی وکالت تباہ کر دے گا۔ اس کے سامنے حق بات کہنا سر اوکھلی میں دینے کے مترادف ہے۔

سچ کا سامنا کرو بھائی



  • سچ کا سامنا کرو بھائی



  •  چند ماہ ہوئے پیپلزپارٹی کے پرچی راہنماء لیول پلینگ فیلڈ کا بہت ذکر کر رہے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی مانگ رہے ہیں وہ سب کچھ ان کے ذہن میں ہے مگر کھل کر بات نہیں کر رہے، اگر آسان فہم میں بات کی جائے تو پیپلزپارٹی مانگ رہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کچھ انتخابات میں حصہ لینے کا مساوی موقع ملنا چاہیے، ابھی تو وہ تمام سیاسی جماعتیں سامنے ہی نہیں آئیں جو انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہیں، اگر دیوار کے پاس جھانکنا جائے پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ تحریک انصاف کو بھی موقع ملنا چاہیے اس کا مطلب ہوا پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ کے مقابلے میں آکر پیپلزپارٹی کے لیے راہ ہموار کرے۔ پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو اسے چاہیے کہ تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کر لے یا سیٹ ایڈ جسٹمنٹ‘ یوں سارامسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ لیکن پیپلز پارٹی یہ بھی نہیں چاہتی، وہ تو صرف یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح مسلم لیگ کا راستہ روکا جائے۔ پیپلزپارٹی کو تھوڑا ابھی صبر سے کام لینا چاہیے اور پتا لگائے کہ گزشتہ سال کتنی نئی سیاسی جماعتیں الیکشن کمشن میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں اور ان کے قیام کی کہانی کیا ہے؟
  • گزشتہ سال کم و بیش ڈیڑھ سو نئی سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹر ہوئی ہیں، ان تمام سیاسی جماعتوں کے نام سامنے آگئے تو پیپلزپارٹی کے سیاسی اوسان خطا ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک کوئی بارہ تیرہ عام انتخابات ہوچکے ہیں، 1977 میں بھی ملک میں عام انتخابات ہوئے تھے ان میں پیپلزپارٹی نے کسی سیاسی جماعت کے لیے راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ جہاں موقع ملا وہاں سے مخالف امیدوار اغواء کرلیا، لاڑکانہ سے مولانا جان محمد عباسی اغواء کیے گئے۔ ان انتخابات میں ایسی لیول پلینگ فیلڈ دی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو سمیت ان کی کابینہ کے تمام وزراء اور صوبوں کے وزراء اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہوئے، تاہم یہ پارلیمنٹ نہ چل سکی۔ بھٹو صاحب کے خلاف ایسی عوامی تحریک اٹھی کہ بھٹو صاحب کے لیے اپنا اقتدار بچانا اور حکومت کرنا ممکن نہ رہا‘ چلیے یہ تو ماضی بعید کا قصہ ہے۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات تو کل کی بات ہے، ان انتخابات میں پیپلزپارٹی نے مخالف سیاسی حریفوں کے لیے کتنی لیول پلینگ فیلڈ چھوڑی تھی؟ ذرا میدان میں آئیے اور عوام کو جواب دیجیے‘ کیا پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے لیے پولیس کے ذریعے ووٹ اکٹھے نہیں کیے گئے؟ اور پولیس صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں تھی؟ اور صوبے میں حکومت میں پیپلز پارٹی نہیں تھی؟ کیا اس نے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کے لیے لیول پلینگ فیلڈ کا احساس کیا‘ کیا فنڈز کی یہ تقسیم منصفانہ ہوئی؟
  • لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ بہتر اور اچھا ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ پیپلزپارٹی اتنا ہی بولے جتنا ہضم ہوسکے۔ عوام نے حساب مانگ لیا تو مشکل ہوجائے گی۔ جہاں تک منصفانہ، آزادانہ اور غیرجانب دارانہ انتخابات کا تعلق ہے یہ عوام کا حق ہے جو انہیں آئین نے دے رکھا ہے، عوام سے یہ حق چھینا نہیں جاسکتا۔ مگر جن لوگوں نے یہ حق چھینا کیا وہ آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے؟ اگر آئین پر عمل نہ کیا جائے‘ کوئی رکاوٹ ڈالی جائے تو اس کی سزا آئین نے کیا رکھی ہے؟ آرٹیکل 6 صرف ایوب خان، ضیاء الحق اور پر ویز مشرف کے لیے نہیں ہے‘ ان سب کے لیے جو آئین پر عمل درآمد کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، ہمیں یہ بات تسلیم ہے کہ پیپلزپارٹی اس ملک کی ایک سیاسی جماعت ہے‘ لیکن پیپلزپارٹی کو بھی سمجھنا چاہیے اس ملک کا کوئی ایک آئین بھی ہے جس پر عمل درآمد ضروری ہے۔ 1977 میں پیپلزپارٹی نے جس طرح اپنے ہامیوں میں فنڈز تقسیم کیے‘ سرکاری اداروں کو جس طرح پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم کے لیے فنڈز جاری کرنے کے احکامات صادر کیے گئے کیا یہ سب کچھ لیول پلینگ فیلڈ تھا؟ اور جس طرح اس نے کراچی میں بلدیاتی انتخاب لڑا‘ کہاں تھی لیول پلینگ فیلڈ؟ آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کیا جائے۔ بہتر یہی ہے لیکن یہ اس بھی زیادہ بہتر ہے کہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ کا حقیقی مفہوم سمجھا جائے۔ ہاں اگر پیپلزپارٹی یہ چاہتی ہے کہ اب تحریک انصاف کے بعد اسے سیلیکٹ کیا جائے تو اور بات ہے۔
  • 2018 کے عام انتخابات سے قبل جس طرح محکمہ زراعت کام کر رہا تھا‘ جس طرح ایک فصل کاٹی جارہی تھی اور اس کی جگہ نئی فصل اگائی جارہی تھی‘ اس وقت بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی تو کندھا پیپلزپارٹی نے فراہم کیا تھا ڈنکے کی چوٹ پر بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت گرائی گئی اور سینیٹ انتخابات کے دوران سیاسی بندوبست کا حصہ کون بنا تھا؟ صادق سنجرانی کیسے چیئرمین سینیٹ بنے تھے‘ یہ سب کچھ کل کی بات ہے اب جس طرح کے صوبہ سندھ میں سیاسی حالت بن رہے ہیں اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی حریفوں کو بھی اب اس کے خلاف ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ ملے گی اور ملنی بھی چاہیے‘ اب تک کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔

کارروائی شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کی گئی، ایک دہشت گرد ہلاک

 

کارروائی شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر کی گئی، ایک دہشت گرد ہلاک

فوٹو آئی ایس پی آر
فوٹو آئی ایس پی آر

 راولپنڈی: سیکیورٹی فورسز کی شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد ہلاک جبکہ دو سپاہی شہید ہوگئے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 12 اور 13 نومبر کی رات سیکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان کے ضلع میر علی میں دہشت گردوں کے ٹھکانے کی اطلاع پر کارروائی کی۔

اس دوران سیکیورٹی فورس اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا جس میں ایک دہشت گرد ہلاک ہوگیا جبکہ فائرنگ کے شدید تبادلے میں دو جوان شہید ہوئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق 25 سالہ عبداللہ مردان جبکہ 19 سالہ سپاہی محمد سہیل تھرپار کر کے رہائشی تھے جنہوں نے شہادت کو گلے لگایا۔

ترجمان پاک فوج نے بتایا کہ علاقے میں پائے جانے والے دہشت گردوں کے قلع قمع کیلیے اطراف کے علاقوں میں بھی آپریشن کے دائرے کو بڑھا دیا گیا ہے۔


آئی ایس پی آر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں جبکہ ہمارے بہادر سپاہیوں کی ایسی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں

فلسطین ریلی پر طاقت کا استعمال؛ برطانوی وزیر داخلہ کو برطرف کردیا گیا

 

فلسطین ریلی پر طاقت کا استعمال؛ برطانوی وزیر داخلہ کو برطرف کردیا گیا


5 گھنٹے قبل

برطانیہ میں بھارتی نژاد اور متنازع وزیر داخلہ سویلا بریورمین کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور اب ان کی جگہ ممکنہ طور پر سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی لیں گے۔ 

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق وزیراعظم رشی سونک نے وزیر داخلہ بریورمین کو حکمراں جماعت کے ارکان کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد عہدے سے برطرف کردیا۔

برطانوی وزیراعظم رشی سوناک جو کہ بھارتی نژاد ہیں ان کے لیے اپنی وزیر داخلہ بریورمین جو ان کی ہم وطن بھی ہیں، کو عہدے سے ہٹانا مشکل فیصلہ تھا لیکن کنزرویٹو پارٹی کے ارکان کے آگے رشی سوناک کی ایک نہ چلی۔حکومتی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ وزیر داخلہ کی برطرفی کابینہ میں ایک وسیع تر ردوبدل کا حصہ ہے تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ مزید کون سی تبدیلیاں ہوئی ہیں یا ہوسکتی ہی

دوسری جانب واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بھارتی نژاد برطانوی وزیر داخلہ کی برطرفی لندن میں فلسطینیوں کے حمایت میں نکالے گئے ملین مارچ پر ان کی جانب سے تشدد کے احکامات کے بعد سامنے آئی ہے۔

وزیر داخلہ نے احکامات کے باوجود پولیس کی جانب سے فلسطین ریلی کے شرکا پر طاقت کا استعمال نہ کرنے پر ڈپارٹمنٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور فلسطینیوں کو غزہ میں قتل و غارت گیری کی وجہ قرار دیا تھا۔

بھارتی نژاد برطانوی وزیر داخلہ نے اسرائیلی فوج کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے کئی رشتے دار اسرائیلی فوج میں ہیں اس لیے وہ جانتی ہیں کہ اسرائیلی فوج دنیا کی بہترین اور پیشہ ور فوج ہے۔

ادھر سن ٹیبلوئڈ کے پولیٹیکل ایڈیٹر نے دعویٰ کیا کہ  بریورمین کی جگہ سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی لے لیں گے۔

دوسری جانب  بریورمین کی برطرفی کے فوری بعد سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو ڈاؤننگ اسٹریٹ میں داخل ہوتے دیکھا گیا جس سے یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ وہ کابینہ میں واپس آئیں گے۔

احتساب عدالت کا سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ کی تعمیل کا حکم

 

احتساب عدالت کا سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ کی تعمیل کا حکم

احتساب عدالت کا سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ کی تعمیل کا حکم
احتساب عدالت کا سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ کی تعمیل کا حکم

 اسلام آباد: احتساب عدالت نے توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیشنل کرائم ایجنسی کیسز میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

نیب نے چیئرمین پی ٹی آئی کےوارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئے درخواست دائر کی، جس پر احتساب عدالت نے اڈیالہ جیل سپریٹنڈنٹ کو وارنٹ کی تعمیل کیلئے قانون کے مطابق اقدامات کا حکم دےدیا۔

احتساب عدالت اسلام آباد کےجج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کی۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی، پراسیکیوٹر عرفان بھولا، تفتیشی افسران محسن، وقار الحسن، میاں عمر ندیم اور دیگر پیش ہوئے


نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ وہاں کیس زیر التواء ہے عدالت نے نہ حکم معطل کیا اور نہ کوئی اسٹینڈنگ آرڈر جاری کیا، لہذا عمران خان کے وارنٹ جاری کیے جائیں اور جیل سپریٹنڈنٹ کو اقدامات کی ہدایت کی جائے۔


جب وارنٹ کے بعد گرفتار کریں گے تو جسمانی ریمانڈ کیلئے یہاں ہی لائیں گے، قانون 24 گھنٹے دیتاہے اس سے زیادہ ضرورت ہوئی تو عدالت میں درخواست دیں گے، وارنٹ تعمیل کرانے ہیں جس کے بعد باقی اقدامات ہوں گے، پہلے بھی ملزمان کو جیل میں وارنٹ تعمیل کرائے ہیں۔


عدالت نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ عدالت نے کیا کیا ہے؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ انہوں نے اجازت دے دی ہے کہ وارنٹ تعمیل کروا سکتے ہیں، گرفتاری اس لیے ڈال رہے ہیں کہ تفتیش کرنے اور انوسٹی گیشن کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔


عدالت نے سپریٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو قانون کے مطابق وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلئے اقدامات کا حکم دے دیا۔