6WAY TO ONLINE EARNING WITHOUT ANY INVESTMENT BY MOBILE

 

we can online earn money without any investment daily $100.



1. **Freelancing:** Offer your skills on platforms like Upwork or Fiverr in areas such as writing, graphic design, or programming.

if you want to earn daily $100  click here

2. **Content Creation:** Start a blog, YouTube channel, or podcast around your interests. As your audience grows, you can monetize through ads, sponsorships, or affiliate marketing.

3. **Online Surveys and Reviews:** Participate in paid surveys or write reviews for products and services on platforms like Swagbucks or Amazon's Mechanical Turk.


4. **Virtual Assistance:** Provide administrative support to businesses or entrepreneurs as a virtual assistant. Many tasks can be done remotely.


5. **Affiliate Marketing:** Promote products and earn a commission for every sale made through your referral links. Amazon Associates and ClickBank are popular affiliate programs.


6. **Online Tutoring:** Share your expertise by tutoring students in subjects you are knowledgeable about. Websites like Chegg Tutors or Tutor.com connect tutors with learners.


Remember to research and ensure the legitimacy of the platforms you choose.

if you want to earn daily $100  click here

1. **فری لانسنگ:** اپ ورک یا Fiverr جیسے پلیٹ فارمز پر اپنی مہارتیں تحریر، گرافک ڈیزائن، یا پروگرامنگ جیسے شعبوں میں پیش کریں۔


 2. **مواد کی تخلیق:** اپنی دلچسپیوں کے مطابق ایک بلاگ، یوٹیوب چینل، یا پوڈ کاسٹ شروع کریں۔  جیسے جیسے آپ کے سامعین میں اضافہ ہوتا ہے، آپ اشتہارات، کفالت، یا ملحقہ مارکیٹنگ کے ذریعے رقم کما سکتے ہیں۔



 3. **آن لائن سروے اور جائزے:** بامعاوضہ سروے میں حصہ لیں یا Swagbucks یا Amazon's Mechanical Turk جیسے پلیٹ فارمز پر مصنوعات اور خدمات کے جائزے لکھیں۔



 4. **ورچوئل اسسٹنس:** کاروباریوں یا کاروباریوں کو بطور ورچوئل اسسٹنٹ انتظامی مدد فراہم کریں۔  بہت سے کام دور سے کیے جا سکتے ہیں۔



 5. **ملحق مارکیٹنگ:** مصنوعات کو فروغ دیں اور اپنے ریفرل لنکس کے ذریعے کی جانے والی ہر فروخت پر کمیشن حاصل کریں۔  Amazon Associates اور ClickBank مشہور ملحقہ پروگرام ہیں۔



 6. **آن لائن ٹیوشن:** طلباء کو ان مضامین میں ٹیوشن دے کر اپنی مہارت کا اشتراک کریں جن کے بارے میں آپ کو علم ہے۔  Chegg Tutors یا Tutor.com جیسی ویب سائٹیں ٹیوٹرز کو سیکھنے والوں سے جوڑتی ہیں۔

if you want to earn daily $100  click here 


 تحقیق کرنا یاد رکھیں اور اپنے منتخب کردہ پلیٹ فارمز کی قانونی حیثیت کو یقینی بنائیں۔

بد نام اگر ہوں گے تو!!!

 


اردو زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ ''بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا''۔ عمران خان اقتدار سے معزول کیے گئے تو اس کے بعد وہ اتنے بدنام کیے گئے کہ جن کو ان کا نام تک پتا نہ تھا اُن تک بھی نام نامی پہنچ گیا اور عوام الناس میں جو عامی تھے ان میں بھی پوچھ گچھ شروع ہوگئی کہ عمران خان کا قصور کیا اور سندھی میں بلّا، کو بلائِ کہتے ہیں جس کا اردو میں مطلب اژدھا ہوتا ہے اور اب انتخابی تلاطم میں تحریک انصاف کا یہ بلّا اژدھا ہی نظر آرہا ہے جو جال میں پھنسنے کے بجائے شکاریوں کو بے حال کیے جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن اس بلا سے جان چھڑانے کے لیے حکم نامہ کے فائر کررہا ہے تو پشاور ہائی کورٹ بلا کو بحال کررہا ہے دیگر سیاسی جماعتیں اس کش مکش کو دیکھ رہی ہیں کچھ کی پیشانیاں تر ہورہی ہیں تو کچھ محظوظ ہورہے ہیں۔ اس بدنامی والی کش مکش کا فائدہ تحریک انصاف کے عمران خان کو ہورہا ہے وہ نوجوان نسل کے ہیرو بن رہے ہیں جو جذباتی ہوتی ہے، دماغ کے بجائے دل سے سوچتی ہے۔

حمید گل کا جو یہ کہنا ریکارڈ کا حصہ ہے کہ عمران خان کو پہلے معمولی اکثریت سے اقتدار میں لایا جائے گا پھر ہٹا کر دو تہائی کی اکثریت سے اقتدار ملے گا کی سوچ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے یہ کھیل رچایا جارہا ہے کہ اُن کے حامی اور مخالف دونوں میڈیا کے سمندر میں اُن کی سیاسی زندگی اور روز بروز بڑھوتی کا سامان رچائے ہوئے ہیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق عدالت عظمیٰ نے جو بھی فیصلہ دیا تحریک انصاف کو اس تنازعے سے جو مقبولیت میسر آئی وہ تو برقرار ہی رہے گی۔ چاچا محمد انور راجپوت جو سیاست کے کھلاڑی ہیں ان کا خیال بھی یہی ہے کہ مقتدرہ اور تحریک انصاف میں نورا کشتی ہے اور ٹارگٹ تحریک انصاف کو دو تہائی اکثریت دلا کر اٹھارویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ کی درستی سے وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈ کی تقسیم کی درستی کا سامان ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ صدارتی نظام تک بات چلی جائے۔


چلو کچھ دیر کے لیے اس کلیہ کو تسلیم بھی کرلیا جائے کہ بدنام کرکے نام پیدا کرکے پیدا گیری کے سامان کا منصوبہ ہے مگر محمد نواز شریف بھی جب دو تہائی اکثریت کے ساتھ مسند اقتدار پر بیٹھے یا بٹھائے گئے تو انہوں نے پندرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اسمبلی سے اس شریعت بل کی منظوری کا سامان کا جو اُن کو امیرالمومنین بنا کر بہت سارے اختیارات اُن کے ہاتھ میں دیتا تھا جس پر برطانیہ کے سفیر نے تبصرہ کیا تھا کہ اس بل کی سینیٹ سے منظوری کے بعد ہمارا رہنا مشکل ہوگا۔ سو پھر اُن کا ماتھا ٹھنکا اور سینیٹ کے چند ماہ بعد ہونے والے انتخاب جس میں نواز شریف کو اکثریت کا معاملہ ہونا تھا کو کمانڈو آرمی چیف پرویز مشرف نے محمد نواز شریف کا تختہ الٹ کر اس منصوبے کو ناکام کیا اور عالمی طاقتوں کو رام کیا کہ خطرہ میں نے ٹال دیا اب آرام کرو اور وہ خود ان کی گود میں بیٹھ کر حکومت کرتے رہے۔ دو تہائی اکثریت طاقت کا ایسا ڈوز ہے کہ سنبھالنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ سو اندیشوں کی یلغار ہے کہ کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے۔ دوسری پیش گوئی ہے کہ دو تہائی اکثریت عمران خان کو دلانے کی بات بھی کہیں گلے نہ پڑ جائے۔ ماضی میں جس کو مٹانا ہوتا تو کہا جاتا تھا کہ خبردار اس کا نام نہ لینا۔ کیا بلائِ عمران خان سے جان چھڑانا مقصود رہ گیا جو نااہلی اور مقدمات کے جال میں الجھائے ہوئے ہیں۔ یہ گورکھ دھندہ کہاں اور کیا نتائج دے گا!

تین جماعتیں تین کہانیاں Three groups, three stories




 پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے عروج اور زوال کی اپنی اپنی ’کہانی‘ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تینوں کے ہی تعلقات کسی نہ کسی مرحلے پر طاقتوں ’ اسٹیبلشمنٹ ‘ کے ساتھ کشیدہ ہوئے جوان کی حکومتوں کے ’ خاتمہ‘ کا باعث بنے۔

 لہذا کم ازکم اس نکتہ پر تو ان کا دکھ مشترکہ ہے اور یہی آج کا سب سے اہم سوال ہے کہ آنے والے الیکشن میں کیا ان کے منشور میں ’سول ۔ملٹری‘ تعلقات کا کوئی واضح چیپٹر موجود ہوگا۔ اب تک پی پی پی کے10۔نکات سامنے آئے ہیں جس میں یہ پوائنٹ مسنگ ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے منشور کا انتظار ہے۔

اس نکتہ کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ دنیا میں آج بھی پاکستان کی سویلین حکومت کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا اور ایک تاثر جوخاصی حد تک حقیقت پربھی مبنی ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں ’طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں ریاست ہے‘۔ ہمارے غیر ملکی دوست سالہا سال سے یہی بات کرتے ہیں بشمول ہمارے پڑوسی ملک کے ، ’ پاکستان‘ میں کس سے بات کی جائے یہاں وزیر اعظم اصل طاقت نہیں


اہم سوال یہ ہے کہ کیا تینوں جماعتوں کے درمیان چند نکات پر ’ سیاسی اتفاق رائے‘ ممکن ہے۔’ میثاق جمہوریت ‘ کا ایک تجربہ موجود ہے دوسرا 18ویں ترمیم کا۔ اس سے ہٹ کرکہ اس پر عمل درآ مد نہ ہونے کی کیا وجوہات ہیں یہ دونوں دستاویز آگے کا راستہ بتاتی ہیں بس سیاستدانوں کو کچھ دیر کے لیے ‘ اقتدار کی سیاست اور لالچ کو ایک طرف رکھنا ہوگا۔

ہماری سیاست میں ملک کی بڑی ‘ ایجنسیوں‘ کے سیاسی کردار پر بڑے سوالات ہیں اور نظریہ آتا ہے کہ اصغر خان کیس میں اس تحریری جواب کے باوجود کے ’ سیاسی سیل‘ بند ہوچکا ہے ان پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ بھی ہماری سیاسی بدقسمتی ہے کہ یہ سیل1974میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت کی اپوزیشن کے بارے میں معلومات کے لیے قائم کیا تھا اور پھر بعد میں یہی ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف استعمال ہوا اور پھر کیا مسلم لیگ اور کیا تحریک انصاف۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ہمیشہ بحث طلب رہے ہیں جس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پاکستان میں جب بھی کسی وزیر اعظم کو گھر بھیجا گیا اس میں کہیں نہ کہیں ان تعلقات میں ’ کشیدگی‘ کا عنصر موجود رہا ۔ بھیجنے والا آئین کے آرٹیکل۔6کا مرتکب ہوتا ہے مگر عمر قید کی سزا دوتہائی اکثریت والے کو ملتی ہے اور جب وہ واپس آتا ہے اسی منصب پر اور اور آرٹیکل ۔6کی کارروائی شروع کرتا ہے تو ملزم کو درمیان میں سے ہی اس کے پرانے ساتھی اسپتال لے آتے ہیں اور عدالت کی یہ ہمت ہی نہیں ہوتی کہ اس پر سوال کرسکے۔ پھر وہ ملک سے باہر بھیج دیاجاتا ہے اور وزیر اعظم منہ تکتے رہ جاتے ہیں اور باہر بھیجنے کو ہی غنیمت سمجھتے ہیں۔

یہاں ایک وزیر اعظم کو ایک اور آمر جس پر آرٹیکل۔6، کا اطلاق ہونا تھا وہ اس آئین میں اس آرٹیکل رکھنے والے کو ہی پھانسی چڑھا دیتاہے اور ملک میں قبرستان کا سا سناٹا رہتا ہے اور پھر آئین شکن11۔ سال حکومت کرتا ہے اپنی من پسند ترامیم لاتا ہے اور اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ ’ نظریہ ضرورت‘ کے تحت آئین توڑنے والے کو ایسی ترامیم کا اختیار دے دیتی ہے۔ ایک خاتون وزیر اعظم کا راستہ روکنے کے لیے کبھی مخالف جماعتوں کا اتحاد بنا دیاجاتا ہے اور ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے ’ ہاں میں نےIJIبنائی چلائو مقدمہ ‘مجال ہے کبھی کوئی کمیشن ہی بناپائے۔پھر وہی وزیراعظم کہتی ہے کہ میری حکومت اس ایجنسی نے ختم کروائی بھری پریس کا نفرنس میں اور اصغر خان کیس اس کو ثابت بھی کرتا ہے مگر سالوں چلنے والا یہ مقدمہ اور اس کا فیصلہ فائلوں کی نذر ہوجاتا ہے۔

ایک اور وزیراعظم جس پر ’لاڈلا‘ اور ’سلیکٹڈ‘ ہونے کا الزام اس کے سیاسی مخالفین لگاتے ہیں صرف اس وقت تک قابل قبول رہتا ہے جب تک وہ لاڈلا رہتا ہے اور گھر بھیجنے کا فیصلہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ بحیثیت وزیراعظم اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم سب خوش ہوتے ہیں کہ دیکھیں ایک آئینی طریقہ سے وزیراعظم کو عدم اعتماد کی تحریک سے گھر بھیجا گیا یہ جانے بغیر کہ وہ کس کا اعتماد کھونے کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہوا۔

لہذا اس ملک میں بڑی جماعتوں کے درمیان کچھ نکات پر’ سیاسی اتفاق‘ ضروری ہے ۔ سول۔ملٹری تعلقات ،صحیح معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ جہاں آئین وقانون کی حکمرانی محض نعرہ نہ ہو، ایک آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کیونکہ دنیا میں جمہوریت کا تصور ایک آزاد میڈیا کے بغیر ممکن نہیں، سب سے بڑھ کرکمزور معیشت کو کیسے استحکام دیا جائے ۔

ان نکات پر اتفاق اتنا بھی مشکل نہیں جتنا ہماری ان جماعتوں نے بنادیا ہے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کا ’ اتفاق‘ ہوگا تو ہی دنیا کو یہ پیغام دیا جاسکتا ہے کہ یہاں جمہوریت اور سول بالادستی کے تحت فیصلے ہوتے ہیں اب تک بہرحال ان معاملات پر ہم آگے نہیں بڑھ پائے اوریوں سیاسی جماعتوں نے آہستہ آہستہ سول اسپیس کھو دی۔ ظاہر ہے جب انہی باتوں پر اتفاق رائے نہیں ہوسکتا تو آپ آگے کی طرف نہیں پیچھے کی طرف ہی جائیں گے۔

 ہماری بڑی سیاسی جماعتیں جن کی حکومتیں کم ازکم پچھلے15 ، سالوں سے تو کسی ایک صوبہ یا مرکز میں رہی ہیں کوئی ایک جماعت بھی صدق دل سے یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس نے اچھی گورننس کی مثالیں قائم کیں، ایسے اسپتال بنائے جہاں وہ خود بھی علاج کراتے ہوں، ایسے اسکول بنائے جہاں ان کے بچے بھی جاتے ہوں۔کیا اس بات پر ’ سیاسی اتفاق رائے ‘ نہیں ہوسکتا کے خود مختار بلدیاتی ادارے دراصل سیاسی نرسریاں ہوتی ہیں۔ ایم این اے اور ایم پی اے کاکام اچھی قانون سازی ہے اس پر عمل درآمد کو دیکھنا ہے جس کے لیے کسی ’ترقیاتی فنڈ‘ کی ضرورت نہیں۔مگر جب بھی بات زیر بحث آئی ’اگر ۔مگر‘ کا شکار ہوگئی حدتو یہ ہے کہ18ویں ترمیم کا دفاع تو زوروشور سے ہوتا ہے ہونا بھی چاہیے مگر ہمارے یہ رہنما خود ذرا جائزہ تولیں کہ وہ اس ترمیم کے تحت نچلی سطح تک اختیارات کو کیوں منتقل کرنے کوتیار نہیں۔ اسی طرح طلبہ یونین کی بحالی بھی محض ایک سیاسی نعرہ بن کررہ گئی ہے۔

یاد رکھیں ان سب پر اتفاق اور عمل سے ہی سیاسی جماعتیں آگے بڑھ سکتی ہیں اور بڑی جماعتوں میں ان بنیادی نکات پر اتفاق سے دوسری جماعتوں کوبھی ساتھ ملانے میں آسانی ہوگی ویسے بھی اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں جماعتوں کی تعداد اور بنانے کے بھی کچھ اصول اور ضابطے طے ہوں۔

الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد پر الیکشن ملتوی کرنے سے انکار کردیا The Election Commission refused to postpone the election on the resolution of the Senate

 


اسلام آباد: الیکشن کمیشن نے سینیٹ کی قرارداد کی روشنی میں عام انتخابات ملتوی کرنے سے انکار کردیا۔

الیکشن کمیشن نے ملک میں 8 فروری کو شیڈولڈ انتخابات ملتوی کرانے سے متعلق سینیٹ کی منظور کردہ قرارداد پر سینیٹ سیکرٹریٹ کو مراسلہ بھیج دیا۔

الیکشن کمیشن نے مراسلے میں کہا ہے کہ آپ کی قرارداد کا جائزہ لیا، الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی مشاورت سے 8 فروری کو پولنگ کی تاریخ کا اعلان کیا

Islamabad: The Election Commission refused to postpone the general elections in light of the Senate resolution.


 The Election Commission sent a letter to the Senate Secretariat on the resolution approved by the Senate regarding the postponement of the scheduled elections on February 8 in the country.


 The Election Commission has said in the post that after reviewing your resolution, the Election Commission announced the polling date on February 8 in consultation with the President.


In the letter of the ELection Commission, it is further stated that instructions have been issued to the caretaker governments for law and order, the Supreme Court has expressed its determination that the elections will be held on February 8, while in the past general elections and local government elections were held in the winter.  Therefore, postponing the elections at this stage is not a proper advice and at this time general elections 2024 cannot be postponed.


 It should be noted that on January 5, Senator Dilawar Khan first presented the resolution to postpone the general elections in the Senate, which was approved by the majority vote of the House. At the time of approval of this resolution, 14 senators were present in the Senate.


 Apart from this, another resolution was submitted in the Senate to postpone the election scheduled for February 8, which was submitted by the independent senator from FATA, Hilalur Rehman.

لیکشن کمیشن کے مراسلے میں مزید کہا گیا ہےکہ امن و امان کے لیے نگران حکومتوں کو ہدایات8 جاری کی ہیں، سپریم کورٹ میں اس عزم کا اظہار کیا کہ 8 فروری کو انتخابات منعقد کروائیں گے جب کہ ماضی میں عام انتخابات اور مقامی حکومتوں کے انتخابات سردیوں میں ہوئے ہیں لہٰذا اس مرحلے پر الیکشن ملتوی کرنا مناسب مشورہ نہیں اور اس وقت عام انتخابات 2024 کو ملتوی نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ 5 جنوری کو سینیٹر دلاور خان نے سب سے پہلے عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد سینیٹ میں پیش کی تھی جسے ایوان نے کثرت رائے سے منظور کیا، اس قرارداد کی منظوری کے وقت سینیٹ میں 14 سینیٹرز موجود تھے۔

اس کے علاوہ سینیٹ میں 8 فروری کو شیڈول الیکشن ملتوی کرانے کے لیے ایک اور قرارداد جمع کرائی گئی جو فاٹا سے تعلق رکھنے والے آزاد سینیٹر ہلال الرحمان نے جمع کرائی

پاکستان میں الیکشن کے رنگ پھیکے پڑ گئے The colors of the election in Pakistan have faded




 ایک وقت تھا جب پاکستان میں انتخابات سے قبل تہوار کا سماں ہوا کرتا تھا، ہر طرف سیاسی جماعتوں کے رنگین جھنڈوں کی بہاریں ہوتی تھیں، گلی نکڑ پر میٹنگز ہوا کرتی تھیں، زور دار جلسے ہوا کرتے تھے، ریلیاں نکالی جاتی تھیں، لیکن اس بار انتخابات کے رنگ پھیکے نظر آ رہے ہیں۔


یہ دعویٰ ہے عرب خبر رساں ادارے "الجزیرہ" کا، جس نے پاکستانی انتخابات کی رنگینیوں کا ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔


الجزیرہ نے راولپنڈی کے ایک رہائشی محمد اقرار کا حوالہ دیا جن کا کہنا تھا کہ 'انتخابات میں ایک ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے، لیکن مجھے یاد نہیں کہ ہمارا علاقہ اس سے پہلے اتنا سنسان تھا'۔


انہوں نے کہا کہ ' یہاں مختلف امیدواروں کی طرف سے لگائے گئے اسپیکرز، بینرز، جھنڈے، موسیقی کی آوازیں آتی تھیں۔ … یہ ایک تہوار ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب، بہت خاموشی ہے'۔


خیال رہے کہ پاکستان میں 8 فروری کو عام انتخابات کا میدان سجنے والا ہے، لیکن الجزیرہ نے اپنے تجزیہ میں دعویٰ کیا ہے کہ ایک جماعت کو انتخابی مہم سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ ایک کو بھرپور موقع دیا جارہا ہے۔


الجزیرہ کے مطابق ایک سیاسی جماعت کے محمد اقرار نامی کارکن نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پہلے انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، گھر گھر جاکر ووٹ کی اپیل کرتے تھے، لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہورہا۔


مقبول شریف طور نامی ایک ریٹائرڈ سرکاری ملازم غیر یقینی کا شکار ہیں کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہوں گے یا نہیں، کیونکہ اس ہفتے کے شروع میں، ایران نے پاکستان پر میزائل داغے اور مبینہ طور پر 'دہشت گردوں' کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا، پاکستان نے بھی جوابی کارروائی کی اور ایرانی حدود میں کچھ نشانوں کو تباہ کیا۔


ان کے مطابق اس تناؤ نے اس بات پر غیر یقینی صورتِ حال کو مزید بڑھا دیا ہے کہ آیا انتخابات واقعی 8 فروری کو منصوبہ بندی کے مطابق ہوں گے۔


انہوں نے مزید کہا کہ 'ایک پارٹی کو مکمل طور پر ایک طرف کر دیا گیا ہے، مقابلہ کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے'۔


ان کا کہناتھا کہ 'ہمیں انتخابی مہم کے دوران "ہلہ گلہ" پسند تھا، لیکن اب یہاں شاید ہی ایسا کچھ ہو رہا ہے'۔


خیال رہے کہ انتخابات اصل میں نومبر میں شیڈول تھے، لیکن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ اسے گزشتہ سال کی گئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی ازسرنو تشکیل کے لیے مزید وقت درکار ہے۔


الجزیرہ کے مطابق راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے امیدوار چوہدری مصدق گھمن نے کہا کہ ان کی پارٹی کے خلاف ریاستی مقدمات نے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو مایوس کیا ہے۔


انہوں نے کہا کہ 'ہمارے خلاف مقدمات کی وجہ سے ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ ہمیں الیکشن لڑنے دیا جائے گا یا نہیں، اور اب ہمارا لیڈر جیل میں ہے اور ہمارا نشان چھین لیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں انتخابی مہم کے لیے تیاری کرنا مشکل ہے'۔


مصدق گھمن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کے مخالفین کی جانب سے کیے جانے والے جلسوں اور جلسوں کو عوام کی جانب سے خاموش ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔


الجزیرہ نے لکھا کہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات اور ای سی پی کی طرف سے بارہا یقین دہانیوں کے باوجود ووٹروں میں اس بات پر "غیر یقینی صورتِ حال" کی کیفیت پائی جاتی ہے کہ آیا ووٹنگ ہوگی یا مزید تاخیر ہوگی۔


کچھ لوگوں نے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس تمام صورت حال کے باعث ووٹرز کا ٹرن آؤٹ انتہائی کم ہوسکتا ہے۔

تاحیات نااہلی کا خاتمہ، تاریخی فیصلہ

 



سپریم کورٹ کی طرف سے تاحیات نااہلی کے خاتمے کا فیصلہ دیئے جانے پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔تعصب ،بغض اور کینہ میں لتھڑے بعض افرا د تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بدنام زمانہ جج ،جسٹس منیر سے تشبیہ دے رہے ہیں ۔مگر ان دونوں مقدمات میں ماسوائے اس کے کوئی مماثلت نہیں کہ تب اور اب درخواست گزاروں کا تعلق بلوچستان سے تھا۔

بلوچستان کے علاقہ لورالائی کے مکین دوسو نے 1958ء میں ایک شخص کو قتل کردیا ۔تب لورالائی قبائلی علاقے میں شمار ہوتا تھا چنانچہ دوسو کو گرفتار کرکے لویہ جرگہ کے حوالے کردیا گیا ۔جرگے نے سماعت کے بعد دوسو کو قتل کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزا سنادی تو اس نے لاہور ہائیکورٹ میں،جو تب مغربی پاکستان ہائیکورٹ کہلاتی تھی ، اپیل دائر کردی۔

ہائیکورٹ نے دوسو کو بری کردیا مگر وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ایک عام شہری کے اس مقدمے کو اسلئے تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی کہ اس کی آڑ میں جسٹس منیر نے ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو بروئے کارلاتےہوئے 7اکتوبر1958ء کو نافذ کئے گئے مارشل لا کو قانونی جواز فراہم کردیا۔


جس طرح نظریہ ضرورت متعارف کرائے جانے کے سبب دوسو کیس کو تاریخی حیثیت حاصل ہوگئی ،اسی طرح سمیع اللہ بلوچ کیس بھی برسوں یاد رکھا جائے گا۔درخواست گزار سمیع اللہ بلوچ پیشے کے اعتبار سے ٹھیکیدار ہیں اور ان کا تعلق ضلع خاران سے ہے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما سابق سینیٹر ثنااللہ بلوچ کے چھوٹے بھائی سمیع اللہ بلوچ خاران میں بی این پی کے ضلعی صدر بھی ہیں۔سمیع اللہ بلوچ نے بلوچستان اسمبلی کے سابق رُکن میر عبدالکریم نوشیروانی اور ان کے بیٹے میر شعیب نوشیروانی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا۔
استدعا یہ تھی کہ چونکہ مدعاعلیہان کو دستور کی وفعہ باسٹھ ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا گیا ہے لہٰذا تاحیات نااہلی کے باعث انہیں دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے ان درخواستوں پر سماعت کیلئے اپنی سربراہی میں پانچ رُکنی بنچ تشکیل دے دیا جس میں انکے علاوہ جسٹس شیخ عظمت سعید،جسٹس عمر عطا بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے۔اس نوعیت کے تمام مقدمات کو یکجا کردیا گیا۔عدالت نے منیر اے ملک اور علی ظفر ایڈوکیٹ کو اپنا معاون مقرر کیا جبکہ اشتر اوصاف علی تب اٹارنی جنرل تھے۔
عاصمہ جہانگیر جو سابق رکن قومی اسمبلی رائے حسن نواز کی وکالت کر رہی تھیں ،انہوں نے جج صاحبان کو سمجھانے کی کوشش کی ،اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی نے دلائل دیئے مگر چونکہ نوازشریف کا راستہ روکنا مقصود تھا اسلئے جج صاحبان نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنادیا۔ماضی میں اس حوالے سے عدالتیں مختلف فیصلے دیتی رہیں مثال کے طور پر 2013ء میں جسٹس افتخار چوہدری نے عبدالغفور لہڑی کیس میں قرار دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62اور 63میں نااہلیت سے متعلق بعض شقیں عارضی نوعیت کی ہیں ،ایک شخص نااہل قرار دیئے جانے کے بعد دوبارہ اہل ہوسکتا ہے۔مثال کے طورپر 2015ء میںNA-101 سے رکن قومی اسمبلی افتخار چیمہ کو ڈی سیٹ کیا گیامگر ضمنی الیکشن لڑنے کیلئے وہ اہل قرار پائے۔رائے حسن نواز کے کیس میں شاید اس لئے کڑا معیار رکھا گیا کہ ان کے نام میں نواز آتا تھا مگر جمشید دستی کو ایک بار پھر صادق و امین قرار دیتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی گئی۔
عمران خان،شیخ رشید اور خواجہ آصف نااہلی سے بچ گئے مگر جہانگیر ترین اور نوازشریف کو ہتھوڑے کی ضرب سے کچل دیا گیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تب بھی یہی کہتے رہے کہ متضادفیصلوں سے پسند ناپسند کا تاثر مل رہا ہے ،اس حوالے سے تمام مقدمات یکجا کرکے یکساں معیاراور اصول طے کیا جائے ۔اول تو آئین کے آرٹیکل 62(1)Fکے حوالے سے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں تھا۔جب دیگر شقوں میں نااہلی کی مدت پانچ سال بتائی گئی ہے تو یہاں بھی یہی سزا بنتی ہے لیکن بالفرض محال جج صاحبان کو کسی قسم کا شک و شبہ تھا بھی تو اسے دور کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ معاملہ اس وقت کی پارلیمنٹ کو بھجوا دیا جاتا اور کہا جاتا کہ محولابالا ابہام دور کیا جائے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اپریل 2018ء میںجب تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیا گیا ،نوازشریف نہ تو تب اس مقدمہ میں فریق تھے اور اب جب تاحیات نااہلی کو ختم کیا گیا ہے ،نہ اب فریق ہیں۔البتہ جس طرح تب وہ اس فیصلے کی زد میں آئے ،اسی طرح اب اس سے مستفید ہوں گے۔نوازشریف ہی نہیں عمران خان کو بھی اس فیصلے سے ریلیف ملا ۔اگر یہ فیصلہ نہ آتا تو عمران خان بھی تاحیات نااہل رہتے مگر اب وہ پانچ سال بعد انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔شخصیات کی محبت و نفرت اور سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر دیکھیں تو یہ بہت تاریخی فیصلہ ہے کیونکہ نہ صرف پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے بلکہ بعض جج صاحبان نے ’’صادق و امین ‘‘کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کا جو منصب ازخود سنبھال لیا تھا ،وہ سلسلہ بھی ختم کردیا گیا ہے۔

الیکشن ملتوی کروانے کی ایک اور قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع

 

فروری کو شیڈول الیکشن ملتوی کرانے کے لیے ایک اور قرارداد سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی گئی۔




الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد سینیٹر ہلال الرحمان نے جمع کرائی جو فاٹا سے آزاد سینیٹر ہیں۔

سینیٹر ہلال الرحمان کی قرار داد میں کہا گیا ہے کہ شدید سردی اور برفباری خیبرپختونخوا میں شہریوں کو سازگاز ماحول میں ووٹ ڈالنے سے روک رہی ہے، امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے میں بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے۔

سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سکیورٹی خدشات کے باعث امیدواروں کو دہشتگردوں کے حملوں کا خدشہ ہے، صوبے کے ووٹرز اور امیدواروں میں احساس محرومی ہے

سینیٹر ہلال الرحمان نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں الیکشن تاریخ غیر موزوں ثابت ہو رہی ہے لہذا عام انتخابات کو 8 فرروی کے بجائے موزوں تاریخ تک ملتوی کیا جائے۔

یاد رہے کہ چند روز قبل الیکشن کے التوا سے متعلق سینیٹ میں جمع کرائی گئی قرارداد کو منظور کیا گیا جس کے جواب میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کی جانب سے بھی الیکشن مقررہ وقت پر کرانے کی قرارداد بھی سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔

تاہم دو روز قبل سینیٹ سیکرٹریٹ میں الیکشن ملتوی کرانے کے لیے دوسری قرارداد بھی جمع کرائی گئی تھی۔