(Second World War) جنگ عظیم دوم

جنگ عظیم دوم (Second World War)  



 جنگ عظیم دوم (Second World War) بیسویں صدی کا سب سے بڑا اور تباہ کن تنازعہ تھا جو 1939 سے 1945 تک جاری رہا۔ اس جنگ نے دنیا کے تقریباً تمام براعظموں کو متاثر کیا اور اس میں دنیا کی بڑی طاقتیں شامل تھیں، جو دو مخالف اتحادوں میں تقسیم تھیں: اتحادی طاقتیں (Allied Powers) اور محور طاقتیں (Axis Powers)۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY 77$ CLICK HERE 

 پس منظر اور وجوہات

جنگ عظیم دوم کے آغاز کی وجوہات بہت ساری تھیں لیکن اس کا مرکزی سبب جرمنی کا نازی پارٹی کے تحت عروج تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد 1919 میں ویمر معاہدہ (Treaty of Versailles) کے تحت جرمنی کو سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ملک کو اقتصادی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کا شکار کر دیا۔ ان حالات میں ایڈولف ہٹلر اور نازی پارٹی نے عوام کو بہتر مستقبل کی امید دلائی اور یہ وعدہ کیا کہ وہ جرمنی کو دوبارہ عظیم بنائیں گے۔



ہٹلر نے 1933 میں جرمنی کی قیادت سنبھالی اور جلد ہی اپنی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ 1938 میں آسٹریا کو جرمنی میں ضم کر دیا گیا، اور پھر چیکوسلوواکیا کے علاقے سوڈین لینڈ پر قبضہ کر لیا۔ ہٹلر کی ان جارحانہ کارروائیوں کے باوجود یورپی طاقتوں نے اسے روکنے کے بجائے تسکین کی پالیسی اپنائی، جو بعد میں جنگ کا سبب بنی۔

GET MORE UPDATE   CLICK HERE 

 جنگ کا آغاز

یکم ستمبر 1939 کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا، جس کے جواب میں برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس حملے نے باضابطہ طور پر جنگ عظیم دوم کا آغاز کیا۔ ابتدائی دنوں میں جرمنی نے اپنے جنگی حکمت عملی، بِلِٹزکرِیگ (Blitzkrieg)، کا استعمال کیا جو تیزی سے حملہ کرنے اور دشمن کو کمزور کرنے کی تکنیک تھی۔ اس حکمت عملی کی بدولت جرمنی نے مغربی یورپ کے بیشتر حصے پر جلد ہی قبضہ کر لیا۔



 محور طاقتیں اور اتحادی طاقتیں

جرمنی کے ساتھ اٹلی اور جاپان بھی محور طاقتوں کا حصہ تھے۔ اٹلی کے بینیٹو مسولینی اور جاپان کی فوجی حکومت نے بھی ہٹلر کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کا ساتھ دیا۔ دوسری طرف اتحادی طاقتوں میں برطانیہ، فرانس، سوویت یونین (جسے جنگ کے دوران جرمنی نے دھوکہ دے کر حملہ کیا تھا) اور امریکہ شامل تھے۔

 یورپ میں جنگ

یورپ میں جنگ کے ابتدائی سالوں میں جرمنی نے بے مثال فتوحات حاصل کیں۔ 1940 میں جرمنی نے فرانس پر حملہ کیا اور جلد ہی پیرس پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد جرمنی نے برطانیہ کو نشانہ بنایا لیکن برطانوی فضائیہ نے جرمنی کی پیش قدمی کو روک دیا۔ 1941 میں ہٹلر نے سوویت یونین پر بھی حملہ کر دیا، جسے آپریشن بارباروسا (Operation Barbarossa) کہا جاتا ہے۔ ابتدائی کامیابیوں کے باوجود، سوویت افواج نے جرمنی کو سخت مزاحمت کا سامنا کرایا اور جنگ کا پانسہ پلٹنے لگا۔



 بحر الکاہل میں جنگ

بحر الکاہل میں جاپان نے اپنی توسیع پسندانہ کارروائیوں کو جاری رکھا۔ 7 دسمبر 1941 کو جاپان نے امریکی بحری اڈے پرل ہاربر (Pearl Harbor) پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں امریکہ نے بھی جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد بحر الکاہل کے علاقے میں امریکہ اور جاپان کے درمیان شدید جنگیں ہوئیں، جن میں گوادلکانال (Guadalcanal) اور میڈوے (Midway) کی جنگیں خاص طور پر اہم تھیں۔

SEE FULL VIDEO ABOUT 2ND WAR  CLICK HERE

 فیصلہ کن موڑ

1942 کے بعد جنگ کا رخ بدلنا شروع ہوا۔ سوویت یونین نے اسٹالنگراد کی جنگ (Battle of Stalingrad) میں جرمنی کو شکست دی، جو مشرقی محاذ پر ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اسی طرح اتحادی افواج نے شمالی افریقہ میں جرمن اور اطالوی افواج کو شکست دی اور اٹلی میں داخل ہو گئیں۔



6 جون 1944 کو ڈی ڈے (D-Day) کے نام سے مشہور دن پر اتحادی افواج نے نارمنڈی (Normandy) کے ساحلوں پر حملہ کیا اور مغربی یورپ کو آزاد کرانا شروع کیا۔ اس کے ساتھ ہی مشرقی محاذ پر سوویت افواج نے جرمنی کے خلاف مزید پیش قدمی کی۔

 جنگ کا اختتام

مئی 1945 میں، سوویت افواج نے برلن پر قبضہ کیا اور 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے خودکشی کر لی۔ اس کے بعد 8 مئی 1945 کو جرمنی نے غیر مشروط ہتھیار ڈال دیے اور یورپ میں جنگ کا خاتمہ ہوا۔


بحر الکاہل میں، جنگ اگست 1945 تک جاری رہی جب امریکہ نے جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے۔ ان حملوں کے بعد جاپان نے 15 اگست 1945 کو ہتھیار ڈال دیے اور 2 ستمبر 1945 کو باقاعدہ طور پر جنگ ختم ہو گئی۔


 نتائج اور اثرات

جنگ عظیم دوم کے نتائج بہت دور رس اور تباہ کن تھے۔ اس جنگ میں تقریباً 70 سے 85 ملین افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے بیشتر عام شہری تھے۔ اس جنگ نے دنیا کے کئی حصوں کو تباہ و برباد کر دیا اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا۔

جنگ کے بعد دنیا کی سیاسی اور جغرافیائی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ سوویت یونین اور امریکہ دو بڑی عالمی طاقتوں کے طور پر ابھرے اور دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: مغربی بلاک، جس کی قیادت امریکہ نے کی، اور مشرقی بلاک، جس کی قیادت سوویت یونین نے کی۔ یہ تقسیم سرد جنگ (Cold War) کے آغاز کا باعث بنی جو تقریباً 45 سال تک جاری رہی۔

         PURCHASE ONLINE ITEM           CLICK HERE 

اقوام متحدہ (United Nations) کا قیام بھی جنگ عظیم دوم کے بعد عمل میں آیا، جس کا مقصد عالمی امن کو برقرار رکھنا اور جنگوں کو روکنے کے لیے ایک عالمی پلیٹ فارم فراہم کرنا تھا۔ اس کے علاوہ، یورپی ممالک نے معاشی اور سیاسی اتحاد کی طرف قدم بڑھایا، جس کا نتیجہ یورپی یونین کی صورت میں نکلا۔



 اختتامیہ

جنگ عظیم دوم تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جس نے دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ اس جنگ نے انسانی تاریخ کے سب سے بدترین پہلوؤں کو بے نقاب کیا، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے انسانیت کو امن اور تعاون کی اہمیت کا بھی احساس دلایا۔ جنگ عظیم دوم کی داستان ایک سبق آموز کہانی ہے کہ جنگ کی تباہی کتنی وسیع اور بھیانک ہو سکتی ہے، اور اس سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر امن اور تعاون کا قیام کتنی بڑی ضرورت ہے۔

میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں، آپ لوگ ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں‘: جب جنرل ضیاالحق بینجمن سسٹرز کا گیت سن کر غصے میں آ گئے

 میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں، آپ لوگ ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں‘: جب جنرل ضیاالحق بینجمن سسٹرز کا گیت سن کر غصے میں آ گئے



اختر وقار عظیم کے مطابق صدر ضیا کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی ہر تقریر کے بعد نیا نغمہ نشر ہو


پاکستان ٹیلیویژن سینٹر کراچی میں اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل ضیاالحق موجود ہیں کہ ملی نغمہ ’خیال میں ایک روشنی ہے‘ نشر کیا جانے لگا۔ اس نغمے کی ویڈیو دیکھتے ہی صدر اچانک غصے میں آگئے اور کہنے لگے ’میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں اور آپ لوگ یہ کیا ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں۔‘

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر اختر وقار عظیم نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’ہم بھی وہیں موجود تھے‘ میں جہاں پی ٹی وی میں ریکارڈ کیے جانے والے مشہور ملی نغموں کا پس منظر بیان کیا ہے وہیں اس واقعے کو بھی تفصیل سے لکھا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY 77$ CLICKHERE 

وہ اس واقعے کا پس منظر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قوم سے خطاب میں جنرل ضیاالحق نے ملک میں اسلامی نفاذ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا تو سب کو یہ فکر ہوگئی کہ اس تقریر کے بعد کون سا قومی نغمہ نشر کیا جائے۔

’آغا ناصر مینجنگ ڈائریکٹر تھے انھیں متعلقہ محکمے کے سربراہ نے کئی نغمے دکھائے لیکن کچھ نغمے گلوکاروں کے لباس اور کچھ ایسے اشعار کی وجہ سے جنھیں مختلف معنی پہنائے جا سکتے تھے، آغا صاحب کو  پسند نہیں آئے۔



اختر وقار کے مطابق وہ پی ٹی وی کراچی سینٹر پر جنرل مینیجر تھے اور خود ان کے مشورے سے یہ طے ہوا کہ تقریر کے بعد ’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد‘ کی دھن نشر کردی جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور شام بخیریت گزر گئی لیکن اگلی صبح صدر کے ملٹری سیکریٹری ان کے دفتر آن پہنچے اور بتایا کہ صدر گذشتہ روز اپنی تقریر کے بعد نشر کی جانے والی شام کی ٹرانسمیشن کی ریکارڈنگ دیکھنے کے خواہشمند ہیں اس لیے انتظامات کر لیے جائیں۔


اختر وقار مزید لکھتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد صدر تشریف لے آئے، حسب روایت سب سے مسکرا مسکرا کر ہاتھ ملایا، خیریت دریافت کی اور بیٹھ گئے۔ جب صدر صاحب کو تقریر کی ریکارڈنگ دکھائی جانے لگی تو انھوں نے کہا کہ اسے چھوڑیے، آگے دکھائیے۔ سوہنی دھرتی کی دھن بجنے لگی تو صدر اور دیگر افراد بھی نغمے کے بول گنگنانے شروع کر دیے۔ دھن ختم ہوئی تو اس کے بعد اشتہارات اور پھر خبرنامے کی باری آئی۔

پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق مینیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ آدھے گھنٹے کے خبرنامے میں 20 منٹ صدر کی تقریر اور باقی دس منٹ دوسری خبروں کو دیے گئے تھے اور جیسے ہی خبرنامے کے بعد بینجمن سسٹرز کی آواز میں نغمہ نشر ہوا تو وہ ناراض ہوئے اگلے روز اس وقت کے ایم ڈی پی ٹی وی آغا ناصر سمیت تمام افسران کو تبدیل کر دیا گیا۔


آخر اس نغمے میں ایسا کیا تھا؟

یہ 1980 کی دہائی تھی اور مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تین بہنیں نریسا، بینا اور شبانہ بینجمن سسٹرز کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن پر اپنے منفرد اندازِ گائیکی کی وجہ سے کافی مقبول تھیں۔ ’خیال میں ایک روشنی ہے‘ نامی یہ گیت بھی انھی بہنوں نے گایا تھا اور اس کی ویڈیو میں انھیں ہاتھوں میں چراغ لیے سیڑھیاں چڑھتے دکھایا گیا تھا۔



یہ ویڈیو دیکھ کر جنرل ضیا الحق ایک دم غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ ’میں اسلامی نظام کی بات کر رہا ہوں اور آپ لوگ یہ کیا ہندوانہ قسم کا نغمہ نشر کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’ان لڑکیوں کا لباس بھی مناسب نہیں۔کوئی میری بات، میری سوچ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا۔‘


جب جنرل ضیاالحق نے مولانا ظفر علی خان کے شعر کو مسدسِ حالی کا حصہ بنا دیا

جنرل ضیاالحق کے مارشل لا سے لے کر ان کے دورِ صدارت تک اختر وقار عظیم پی ٹی وی میں اہم عہدوں پر فائز رہے اور ان دنوں میں الیکٹرانک میڈیا میں تفریح اور خبروں کے لیے واحد ذریعہ پی ٹی وی ہی تھا۔


وہ لکھتے ہیں کہ صدر ضیا کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کی ہر تقریر کے بعد نیا نغمہ نشر ہو۔ 'بعض اوقات وہ خود ہی کلام کی نشاندھی کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ یہ شعر اپنی تقریر میں استعمال کیا

Get more update CLICK HERE 

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا


تقریر ختم کرنے کے بعد حکم دیا کہ مسدس حالی میں سے یہ شعر اور اس کے آگے پیچھے کے کچھ شعر لے کر اچھے سے گلوکار کی آواز میں تقریر کے بعد نشر کردیا جائے۔'


اختر وقار کے مطابق انھوں نے مسدس چھان مارا، شعر وہاں ہوتا تو ملتا۔ ایم ڈی پی ٹی وی ضیا جالندھری کو اطلاع دی انھوں نے جواب دیا میں نے صدر کا حکم پہنچا دیا اب آگے آپ جانیں۔ تلاش بسیار کے بعد یہ شعر مولانا ظفر علی خان کی ایک غزل میں ملا اور اس کے آگے اور پیچھے کے شعر موقع کی مناسبت سے بالکل غیر موزوں تھے اگر ریکارڈنگ ہوتی تو سنسر کی زد میں آجاتے۔



اس گتھی کو سلجھانے کے لیے اختر وقار کے بقول نامور شاعر قتیل شفائی سے مدد طلب کی گئی اور ان سے گزارش کی گئی کہ اس شعر میں اضافہ کر دیں۔ وہ اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ 'قتیل شفائی نے جواب دیا کہ اس میں کیا اضافہ کروں گا۔ اس کو دوہے کے انداز میں پڑھوا کر میرے ترانے کے ساتھ جوڑ دینا۔'

اس شعر کے بعد قتیل شفائی کا نغمہ نشر ہوا


اے میرے دیس کے پیارے لوگو

دیس کی شان بڑھائے رکھنا


ان کا کہنا ہے کہ یہ گیت نشر ہونے کے دوسرے روز ایوانِ صدر سے مبارک باد کا پیغام آیا۔


اختر وقار عظیم نے اپنی کتاب میں جہاں جنرل ضیا کی اپنی تقاریر کے بعد نشر ہونے والے نغموں میں ان کی دلچسپی کو تفصیل سے بیان کیا ہے وہیں ایسے ملی نغموں کی تیاری کا بھی ذکر کیا ہے جو زبان زدِ عام ہو گئے۔


وہ لکھتے ہیں کہ قوم سے خطاب کے بعد ایک موقع پر صدر ضیا نے فرمائش کی کہ تقریر کے فوری بعد کلام اقبال میں سے منتخب حصے خصوصاً یہ شعر 'خودی کا سرِّ نہاں، لا الہ الا اللہ' نشر کیا جائے۔



'حکم ہوا کہ صدر کے ارشاد کی تعمیل کی جائے۔ اس وقت دوپہر کے دو بجے تھے اور تقریر ساڑھے سات بجے نشر ہونا تھی۔ وقت کم تھا اس لیے اشعار کا انتخاب کر کے موسیقار خلیل احمد کو دے دیے تاکہ دھن تیار کی جائے۔


'انھوں نے مشورہ دیا کہ اخلاق احمد کو بلایا جائے۔ نائب قاصد کو انھیں بلانے بھیجا، وہ تو نہیں ملے مگر نائب قاصد واپسی پر شوکت علی کو ان کے گھر سے لیتے آئے اور یوں شوکت علی نے یہ گیت گایا۔'


مہدی حسن نے 'یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے' کیسے ریکارڈ کروایا



مہدی حسن نے پی ٹی وی پر بہت سے قومی نغمے اور جنگی ترانے گائے جن میں سے 'یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے' انھوں نے کھڑے ہوکر ہارمونیم بجا کر گایا۔


اختر وقار اس گیت کی ریکارڈنگ کا پس منظر بتاتے ہیں کہ 'دسمبر کا دوسرا نصف چل رہا تھا۔ یوم قائداعظم میں ایک دو روز ہی باقی تھے۔۔۔ کلیم عثمانی کا لکھا ہوا نغمہ لے کر موسیقار نثار بزمی کے حوالے کیا گیا۔ مہدی حسن بھی ان دنوں لاہور میں تھے، جب انھوں نے دھن سنی اور بول دیکھے تو راضی ہوگئ

online earning 7 ways  CLICKHERE

اختر وقار کے مطابق مہدی حسن کے ساتھ ویڈیو ریکارڈنگ کے لیے چھ بجے کا وقت طے ہوا اور سیٹ اس مناسبت سے لگایا گیا تھا کہ گلوکار کھڑے ہو کر نغمہ ریکارڈ کروائے گا۔


'مہدی حسن آئے تو ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ تھکن تھی یا جہاں کہیں سے ہوتے ہوئے آئے تھے وہاں کی میزبانی کا اثر تھا، مہدی حسن کے لیے کھڑے ہو کر ریکارڈنگ کروانے میں مشکل پیش آرہی تھی چناچہ مسئلے کا حل یوں نکالا گیا کہ ایک اونچے سے سٹول پر ہارمونیم رکھ کر مہدی حسن صاحب اس کے ساتھ تقریبا ٹیک لگا کر کھڑے ہوئے اور پھر ایک ہی مرتبہ میں ریکارڈنگ مکمل کر لی۔

'اس دوران جہاں کہیں مہدی حسن کے الفاط کے مطابق ہونٹ نہیں ہلے وہاں نغمے کی آخری تدوین میں بچوں کی تصویروں سے کام لیا گیا اور یوں ایک چیز مقبول ہوگئی۔'


نوجوان ابصار احمد نے ملی نغموں پر تحقیق کے بعد 'پاکستان کے قومی نغمات' کے نام سے کتاب مرتب کی ہے جس میں انھوں 'جیوے جیوے پاکستان' کے پس منظر کی کہانی بیان کی ہے۔


یہ نغمہ جمیل الدین عالی نے تحریر کیا تھا۔ ابصار احمد بتاتے ہیں کہ 'جیوے جیوے پاکستان' سب سے پہلے پی آئی اے کے جِنگل کے طور پر بنا تھا جسے طاہرہ سید نے اُس طرز پر گایا جس پر جمیل الدین عالی پڑھتے تھے۔

             

اس کا پہلا شعر اس طرح تھا 'پی آئی اے، لے جائے سندیسے اور سندیسے لائے، سننے والے سنیں تو ان میں ایک ہی دھن لہرائے۔'


1971ء کی جنگ کے بعد اس نغمے کو سہیل رعنا نے نئی اور پرجوش طرز میں ڈھالا جس میں عالی نے ترمیم کرتے ہوئے شعر یوں کر دیا 'من پنچھی جب پنکھ ہلائے کیا کیا سر بکھرائے، سننے والے سنیں تو ان میں ایک ہی دھن تھرائے۔'


اس نغمے کے بارے میں ایک انٹرویو میں جمیل الدین عالی کا کہنا تھا کہ انھوں نے1971میں لندن میں اس وقت یہ نغمہ تحریر کیا جب تقسیمِ پاکستان کے بعد ملک کے حالات بہت دگرگوں تھے۔

' سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے'

مشہور پاکستانی ملی نغمے ' سوہنی دھرتی اللہ رکھے، قدم قدم آباد تجھے' کو کون نہیں جانتا۔ یہ نغمہ 1971 میں پاکستان کی تقسیم سے قبل تیار کر کے پی ٹی وی سے نشر کیا گیا تاکہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں اتحاد اور یکہجتی کا اظہار دکھایا جا سکے۔


ڈھاکہ میں پیدا ہونے والی شہناز بیگم نے اس گیت کو گایا تھا جبکہ سہیل رانا نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ گیت ملک کی سویلین اور فوجی قیادت دونوں میں مقبول رہا ہے۔



جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں جب فوج نے میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کر کے اقتدار حاصل کرلیا اور جنرل پرویز مشرف نے آدھی شب کو قوم سے خطاب کیا تو اس وقت بھی 'سوہنی دھرتی اللہ رکھے' ہی بجایا گیا۔



اختر وقار عظیم لکھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کی تقریر کی ریکارڈنگ نشر ہونے سے پہلے نغمے نشر کیے جانے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے مواقع کے لیے پاکستان ٹیلی ویژن میں نغموں کی ایک ایسی فہرست بنائی گئی ہے جن کے اشعار میں ذومعنویت کی گنجائش نہ ہو۔ یہ فہرست اور یہ نغمے سبھی مراکز پر موجود رہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کام آ سکیں۔



ان کا کہنا ہے کہ اس رات بھی جو نغمے کراچی سینٹر سے نشر ہوئے ان میں شہناز بیگم کی آواز میں 'سوہنی دھرتی'، مہدی حسن کی آواز میں 'یہ وطن تمہارا ہے'، شوکت علی کا 'خودی کا سر نہاں' اور نیرہ نور کا 'ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم' شامل تھے۔


'چن میں نے تین نغمے ریکارڈ کرائے ہیں، تسی آٹھ بجے ریڈیو پر سن لینا'

پاکستان میں جنگی ترانے زیادہ تر میڈم نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے جن کے مداح صدر یحییٰ خان بھی تھے۔

ریڈیو پاکستان سے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک وابستہ رہنے والے براڈ کاسٹر جمیل زبیری اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب 'ریڈیو پاکستان میں 25 سال' میں لکھتے ہیں کہ 'پچھلی جنگ (1965) کا تجربہ قوم کے سامنے تھا مگر اس مرتبہ لوگوں میں نہ وہ جذبہ تھا نہ کوئی جستجو۔ البتہ ریڈیو پاکستان نے اسی طرح پروگرام نشر کرنے شروع کر دیے تھے جس میں قومی اور ملی نغمے شامل تھے۔'


ان کے مطابق جس وقت لڑائی جاری تھی وہ نغمے تیار کرنے میں مصروف تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'مادام نور جہاں ایک روز لندن سے کراچی واپسی کے بعد ریڈیو سٹیشن آن پہنچیں۔ ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھایا گیا اور اسی وقت انتظامات کرکے ان کی آواز میں تین نغمے ریکارڈ کروا لیے گئے۔'



جمیل زبیری کے مطابق 'نغمے ریکارڈ کروا کے وہ سٹوڈیو سے نکلیں اور سٹیشن ڈائریکٹر طاہر شاہ کے کمرے میں آ کر ان سے کہنے لگیں کہ ٹیلیفون یحٰیی خان سے ملوائیں اور ان کی بات کرائیں۔ وہ ذرا گھبرائے تو بولیں آپ ڈریں نہیں رنگ کریں اور ٹیلیفون مجھے دے دیں۔ چنانچہ ٹیلیفون ملوایا گیا شاید پہلے صدر کے سیکریٹری ہوں گے پھر جب وہ خود فون پر آ گئے تو نور جہاں نے کہا 'چن میں نے کراچی میں تین نغمے آج ہی ریکارڈ کرائے ہیں، تسی رات کو آٹھ بجے ریڈیو پر سن لینا' اور یہ کہہ کر انھوں نے ریسیور رکھ دیا۔


جمیل زبیری لکھتے ہیں کہ 'ہم لوگوں کے چھکے چھوٹ گئے کہ نور جہاں نے خود ہی نغمے نشر ہونے کا وقت بھی مقرر کر دیا اور صدر کو بتا بھی دیا۔ پریشانی یہ تھی کہ اس وقت پر خبریں نشر ہوتی تھیں، جنگ ہو رہی تھی اور نغموں کے لیے خبروں کا وقت تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لہٰذا طاہر شاہ نے ڈی جی سے بات کی انھوں نے کہا کہ پریشان نہ ہوں، میں صدر کے سیکریٹری سے بات کر لوں گا۔'


ملی نغموں سے جذباتی وابستگی مذہب سے بالاتر تھی



پاکستان کے قومی نغموں پر تحقیق کرنے والے ابصار احمد کے مطابق مذہب سے بالاتر ہو کر پاکستانی گلوکاروں کی قومی گیتوں کے ساتھ جذباتی وابستگی رہی ہے۔


آنجہانی گلوکار سلیم رضا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے جنگ ستمبر میں سب سے زیادہ ملی نغمے گائے۔ ابصار احمد کا کہنا ہے کہ '13 ستمبر کو جب سیالکوٹ میں جنگ جاری تھی تو کشور ناہید کا تحریر کردہ نغمہ اے اہل سیالکوٹ تم کو میرا سلام، سلیم رضا کو ملا جسے وہ ریکارڈ کروانے جا رہے تھے مگر ان کا جواں سالہ بیٹا بھی بستر مرگ پر تھا۔ سلیم رضا نے اپنے بیٹے پر وطن کو فوقیت دی اور وہ نغمہ ریکارڈ کروانے لاہور ریڈیو آ گئے۔ جب ان کی واپسی ہوئی تو بیٹے کا انتقال ہو چکا تھا مگر سلیم رضا نے جب اپنا ترانہ سنا تو وہ بیٹے کا غم بھول کر دوبارہ ریڈیو سٹیشن میں تھے۔'

یاد رہے کہ سلیم رضا امرتسر کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے تھے بعد میں انھوں نے اپنا مذہب تبدیل کرلیا تھا۔


مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی تین بہنیں نریسا، بینا اور شبانہ کے علاوہ دیگر غیر مسلم گلوکاروں نے بھی پاکستان سے محبت کے اظہار کے لیے ملی اور قومی نغمے گائے۔


ابصار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستان کی پہلی ہندو گلوکارہ جنھوں نے ملی نغمہ گایا وہ جھونو بھومک تھیں جنھوں نے 1950 میں ڈھاکہ ریڈیو سے علامہ محمد اقبال کی نظم 'بر تراز اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی' کے علاوہ بنگالی ملی نغمہ 'شونار مونیر دیش پاکستان' بھی گایا۔



13 اگست 1950 کو ایس بی جون نے کراچی ریڈیو سے اقبال کی نظم 'ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارہ، اس دشت سے بہتر ہے دلٌی نہ بخارہ' پڑھی تو وہ منفرد اعزاز کے حامل بن گئے۔


پاکستان میں سرکاری طور پر تو یہودی آبادی موجود نہیں تاہم 1980 تک یہودی کمیونٹی پاکستان میں رہتی تھی۔ یہودی گلوکارہ ڈیبورا ڈینیئل نے 1959 میں ریڈیو پاکستان کراچی پر علامہ محمد اقبال کا ملٌی کلام 'سلسلۂ روز و شب نقش گرِ حادثات' گایا جسے پاکستان کے تناظر میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

Monsoon brides’: Extreme weather drives surge in child marriages in Pakistan. مون سون کی دلہنیں: پاکستان میں شدید موسم کی وجہ سے بچوں کی شادیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

 

Rainstorm ladies': Outrageous weather conditions drives flood in kid relationships in Pakistan.
بارش کی طوفانی خواتین: موسم کی خراب صورتحال پاکستان میں بچوں کے رشتوں میں سیلاب کا باعث بنتی ہے۔


Dadu : s rainstorm downpours were going to break over Pakistan, 14-year-old Shamila and her 13-year-old sister Amina were offered in return for cash, a choice their folks made to assist the family with enduring the danger of floods.
"I was glad to hear I was getting hitched... I figured my life would become simpler," Shamila told AFP after her wedding to a man two times her age in anticipation of a more prosperous life.
If you want to earn money daily 68$ CLICK HERE 

"In any case, I have nothing more. What's more, with the downpour, I dread I will have even less, assuming that is conceivable."
دادو: پاکستان میں طوفانی بارشیں ٹوٹنے والی تھیں، 14 سالہ شمائلہ اور اس کی 13 سالہ بہن آمنہ کو نقد رقم کے عوض پیشکش کی گئی، یہ انتخاب ان کے لوگوں نے سیلاب کے خطرے کو برداشت کرنے والے خاندان کی مدد کے لیے کیا۔
 شمائلہ نے اے ایف پی سے اپنی شادی کے بعد اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ مجھ سے شادی ہو رہی ہے... میں نے سوچا کہ میری زندگی آسان ہو جائے گی۔"


 "کسی بھی صورت میں، میرے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ مزید کیا ہے، بارش کے ساتھ، مجھے ڈر ہے کہ میرے پاس اور بھی کم ہو جائے گا، یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ قابل فہم ہے۔"


Pakistan's high pace of relationships for underage young ladies had been crawling lower as of late, yet after phenomenal floods in 2022, rights laborers caution such weddings are currently on the ascent because of environment driven financial uncertainty.

The mid year storm among July and September is essential for the jobs of millions of ranchers and food security, however researchers say environmental change is making them heavier and longer, raising the gamble of avalanches, floods and long haul crop harm.


Various towns in the country belt of Sindh have not recovered from the 2022 floods, which plunged 33% of the country lowered, removed millions and annihilated harvests.


"This has prompted a recent fad of 'storm ladies'," said Mashooque Birhmani, the pioneer behind the NGO Sujag Sansar, which works with strict researchers to battle kid marriage.


پاکستان میں نابالغ نوجوان خواتین کے لیے تعلقات کی رفتار دیر سے کم ہوتی جا رہی تھی، پھر بھی 2022 میں غیر معمولی سیلاب کے بعد، حقوق کے کارکنان خبردار کرتے ہیں کہ اس طرح کی شادیاں اس وقت ماحول سے چلنے والی مالی بے یقینی کی وجہ سے عروج پر ہیں۔


 جولائی اور ستمبر کے درمیان آنے والا طوفان لاکھوں کھیتی باڑی کرنے والوں کی ملازمتوں اور خوراک کی حفاظت کے لیے ضروری ہے، تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی انھیں بھاری اور طویل بنا رہی ہے، جس سے برفانی تودے، سیلاب اور طویل فاصلے تک فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کا جوا بڑھ رہا ہے۔



 سندھ کے ملک کی پٹی کے مختلف قصبے 2022 کے سیلاب سے باز نہیں آئے ہیں، جس نے ملک کا 33 فیصد حصہ نیچے گرا دیا، لاکھوں کو ہٹا دیا اور فصلیں تباہ کر دیں۔



 "اس نے 'طوفانی خواتین' کے ایک حالیہ رجحان کو جنم دیا ہے،" ماشوق برہمانی نے کہا، جو کہ NGO Sujag Sansar کے پیچھے سرخیل ہے، جو بچوں کی شادی سے لڑنے کے لیے سخت محققین کے ساتھ کام کرتی ہے۔




"Families will track down any method for endurance. The first and most clear way is to offer their little girls in marriage in return for cash."


Birhmani said since the 2022 floods, youngster marriage has spiked in towns in Dadu locale, perhaps of the most horrendously terrible hit region that for a really long time looked like a lake.


In Khan Mohammad Mallah town, where Shamila and Amina were hitched in a joint function in June, 45 underage young ladies have become spouses since the last storm — 15 of them in May and June this year.

"Before the 2022 downpours, there was no such need to get young ladies wedded so youthful in our space," said town senior Mai Hajjani, 65.


"They would chip away at the land, make rope for wooden beds, the men would be occupied with fishing and agribusiness. There was consistently work to be finished."


"خاندان برداشت کے لیے کسی بھی طریقے کا پتہ لگائیں گے۔ پہلا اور سب سے واضح طریقہ یہ ہے کہ اپنی چھوٹی لڑکیوں کو نقد رقم کے عوض شادی کی پیشکش کریں۔"



 برہمانی نے کہا کہ 2022 کے سیلاب کے بعد سے، دادو مقامی کے قصبوں میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہوا ہے، جو شاید سب سے زیادہ خوفناک حد تک متاثر ہونے والا خطہ ہے جو واقعی ایک طویل عرصے تک جھیل کی طرح نظر آتا تھا۔


 خان محمد ملہ ٹاؤن میں، جہاں شمائلہ اور آمنہ کی جون میں ایک مشترکہ تقریب میں شادی ہوئی تھی، گزشتہ طوفان سے اب تک 45 کم عمر خواتین میاں بیوی بن چکی ہیں - ان میں سے 15 اس سال مئی اور جون میں۔



 65 سالہ ٹاؤن کی سینئر مائی حجانی نے کہا، "2022 کی بارشوں سے پہلے، ہمارے علاقے میں نوجوان خواتین کو اتنی جوان شادی کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔"



 "وہ زمین پر چپکے لگتے، لکڑی کے بستروں کے لیے رسی بناتے، لوگ ماہی گیری اور زرعی کاروبار میں لگ جاتے۔ مسلسل کام ختم ہونا تھا۔"



Guardians let AFP know that they rushed the marriage of their little girls to save them from destitution, for the most part in return for cash.



Shamila's mother by marriage, Bibi Sachal, said they gave 200,000 Pakistan Rupees ($720) to the youthful lady of the hour's folks — a significant total in a locale where most families make due on around one dollar daily.


Najma Ali was at initial gotten up in the enthusiasm free from transforming into a companion when she married at 14 of each and every 2022 and began living with her folks in regulation, as is custom in Pakistan.


"My better half gave my folks 250,000 rupees for our wedding. However, it was borrowed (from an outsider) that he has absolutely no chance of taking care of now," she said.


"I figured I would get lipstick, cosmetics, garments and ceramics," she told AFP, supporting her half year old child.

"Presently I'm back home with a spouse and a child since we don't have anything to eat."


Their town, which lies on the banks of a channel in the Fundamental Nara Valley, is fruitless and there are no fish left in the dirtied water — its odor overpowers the region.


"We had rich rice fields where young ladies used to work," said Hakim Zaadi, 58, the town lady and Najma's mom.

سرپرستوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی چھوٹی بچیوں کی شادی میں جلدی کی تاکہ انہیں بے روزگاری سے بچایا جا سکے، زیادہ تر رقم کے بدلے میں۔


If you want to more update   CLICK HERE 

 شمائلہ کی والدہ، بی بی سچل نے کہا کہ انہوں نے اس وقت کے لوگوں کی نوجوان خاتون کو 200,000 پاکستانی روپے ($720) دیے - ایک ایسے علاقے میں جہاں زیادہ تر خاندان روزانہ تقریباً ایک ڈالر ادا کرتے ہیں۔



 نجمہ علی ابتدائی طور پر ایک ساتھی میں تبدیل ہونے کے جوش و جذبے سے آزاد ہوئی تھیں جب اس نے 2022 میں سے ہر ایک میں سے 14 کی عمر میں شادی کی اور پاکستان میں رواج کے مطابق اپنے لوگوں کے ساتھ رہنا شروع کیا۔



 اس نے کہا، "میرے اچھے حصے نے میرے لوگوں کو ہماری شادی کے لیے 250,000 روپے دیے۔ تاہم، یہ (ایک باہر کے شخص سے) ادھار لیا گیا تھا کہ اب اس کا خیال رکھنے کا کوئی امکان نہیں ہے،" اس نے کہا۔



 "میں نے سوچا کہ مجھے لپ اسٹک، کاسمیٹکس، گارمنٹس اور سیرامکس مل جائیں گے،" اس نے اپنے ڈیڑھ سال کے بچے کی حمایت کرتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا۔


 "فی الحال میں ایک شریک حیات اور ایک بچے کے ساتھ گھر واپس آیا ہوں کیونکہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔"



 ان کا قصبہ، جو بنیادی نارا وادی میں ایک چینل کے کنارے پر واقع ہے، بے نتیجہ ہے اور گندے پانی میں کوئی مچھلی باقی نہیں رہتی ہے - اس کی بدبو اس علاقے پر حاوی ہے۔



 قصبے کی خاتون اور نجمہ کی ماں، 58 سالہ حکیم زادی نے کہا، "ہمارے پاس چاول کے بڑے کھیت تھے جہاں نوجوان عورتیں کام کرتی تھیں۔"


"They would develop numerous vegetables, which are dead now in light of the fact that the water in the ground is toxic. This has happened particularly after 2022," she added.


"The young ladies were not a weight on us before then. At the age young ladies used to get hitched, they presently have five kids, and they return to live with their folks in light of the fact that their spouses are jobless


Youngster relationships are normal in pieces of Pakistan, which has the 6th biggest number of young ladies wedded before the age of 18 on the planet, as per government information distributed in December.

The legitimate age for marriage changes from 16 to 18 in various districts, however the law is seldom implemented.


UNICEF has revealed "huge steps" in lessening youngster marriage, yet proof shows that super climate occasions put young ladies in danger.


"We would hope to see a 18 percent increment in the pervasiveness of youngster marriage, identical to eradicating five years of progress," it said in a report after the 2022 floods.


Dildar Ali Sheik, 31, had wanted to offer his oldest little girl Mehtab while living in a guide camp in the wake of being dislodged by the floods.


"At the point when I was there, I pondered internally 'we ought to get our girl hitched so essentially she can eat and have fundamental offices'," the day to day wage worker told AFP.


"وہ بہت سی سبزیاں تیار کریں گے، جو اس حقیقت کی روشنی میں مر چکی ہیں کہ زمین میں پانی زہریلا ہے۔ ایسا خاص طور پر 2022 کے بعد ہوا ہے،" انہوں نے مزید کہا۔


 "اس سے پہلے نوجوان خواتین ہم پر کوئی وزن نہیں رکھتی تھیں۔ جس عمر میں نوجوان خواتین کی شادی ہو جاتی تھی، اس وقت ان کے پانچ بچے ہیں، اور وہ اس حقیقت کی روشنی میں اپنے لوگوں کے ساتھ رہنے کے لیے واپس لوٹتی ہیں کہ ان کی شریک حیات بے روزگار ہیں۔



 پاکستان کے ٹکڑوں میں نوجوانوں کے تعلقات معمول کی بات ہے، جس میں دسمبر میں تقسیم کی گئی سرکاری معلومات کے مطابق سیارے پر 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کرنے والی نوجوان خواتین کی 6ویں بڑی تعداد ہے۔



 مختلف اضلاع میں شادی کی جائز عمر 16 سے 18 سال تک بدل جاتی ہے، تاہم اس قانون پر شاذ و نادر ہی عمل ہوتا ہے۔



 یونیسیف نے کم عمری کی شادی کو کم کرنے میں "بڑے اقدامات" کا انکشاف کیا ہے، پھر بھی ثبوت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انتہائی موسمی مواقع نوجوان خواتین کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔



 اس نے 2022 کے سیلاب کے بعد ایک رپورٹ میں کہا، "ہم امید کرتے ہیں کہ کم عمری کی شادیوں کے پھیلاؤ میں 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آئے گا، جو کہ پانچ سال کی پیش رفت کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔"



 31 سالہ دلدار علی شیخ سیلاب سے بے گھر ہونے کی وجہ سے ایک گائیڈ کیمپ میں رہتے ہوئے اپنی سب سے بڑی لڑکی مہتاب کو پیش کرنا چاہتے تھے۔


 یومیہ اجرت پر کام کرنے والے کارکن نے اے ایف پی کو بتایا، "اس وقت جب میں وہاں تھا، میں نے اندرونی طور پر سوچا کہ 'ہمیں اپنی لڑکی کو اس طرح روکنا چاہیے کہ وہ بنیادی طور پر کھا سکے اور بنیادی دفاتر رکھ سکے'۔"


Mehtab was only 10 years of age.


"The night I chose to get her hitched, I was unable to rest," said her mom, Sumbal Ali Sheik, who was 18 when she wedded.


A mediation from the NGO Sujag Sansar prompted the wedding being deferred, and Mehtab was signed up for a sewing studio, permitting her to procure a little pay while proceeding with her schooling.


Yet, when the storm downpours fall, she is overwhelmed by fear that her guaranteed wedding will likewise show up.


"I have told my dad I need to study," she said. "I see wedded young ladies around me who have exceptionally testing lives and I don't need this for myself.


مہتاب کی عمر صرف 10 سال تھی۔



 اس کی ماں، سنبل علی شیخ، جو 18 سال کی تھیں جب اس کی شادی ہوئی، نے کہا، "جس رات میں نے اسے پکڑنے کا انتخاب کیا، میں آرام کرنے سے قاصر تھی۔"


 این جی او سُجاگ سنسار کی ثالثی نے شادی کو ملتوی کرنے پر مجبور کیا، اور مہتاب کو سلائی اسٹوڈیو کے لیے سائن اپ کیا گیا، جس سے وہ اپنی اسکول کی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے تھوڑی سی تنخواہ لے سکتی ہے۔



 پھر بھی، جب طوفانی بارش ہوتی ہے، تو وہ اس خوف سے مغلوب ہو جاتی ہے کہ اس کی ضمانت شدہ شادی بھی اسی طرح دکھائی دے گی۔



 "میں نے اپنے والد سے کہا ہے کہ مجھے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے،" اس نے کہا۔ "میں اپنے ارد گرد شادی شدہ نوجوان خواتین کو دیکھتا ہوں جو غیر معمولی طور پر آزمائشی زندگی گزار رہی ہیں اور مجھے اپنے لیے اس کی ضرورت نہیں ہے۔