ہم سب کا پاکستان ہے



 بہت سے شعبے ایسے ہیں جو ابھی بھی منتظر ہیں کہ ہماری طرف بھی دیکھا جائے اور ہمارے لئے اعلی کلاس کے سامان اور دیگر انتظامی امور کو چلانے کے لئے۔جدید ٹیکنالوجی سے لیس سہولتیں فراہم ہوں تاکہ آنے والے سائل کو صاف ستھرے ماحول میں اس کے مسئلے کے مطابق اس کو وہ چیز فراہم کی جائے جس کی اسے آشد ضرورت ہے بھت سی جگہوں پر دیکھا گیا ھے جو ڈائریکٹ اپنے شھریوں سے وابستہ ھے وھاں پر اکثر دیکھا گیا ھے بلکہ بڑی شدت سے محسوس کیا گیا ھے کہ بحیثیت پاکستانی شھری ھمیں رسائ تو ملتی ھے

 مختلف جگہوں پر چاھے وہ ٹوکن سے ملے سفارش سے یا لائن میں لگ کر اور کئی جگہوں پر ایسا بھی دیکھاکہ آوٹ آف پاور سائل کو ذہنی ٹارچر کیا جاتا ھے حالانکہ ریاست کے آئین میں کہیں ایسا درج نہیں ھے کہ کوئی بھی پاکستانی شھری اپنے مسئلے کے لئے کسی بھی ادارے میں جائے تو اسے خوار کیا جائے بلکہ اسے ھر صورت میں تمام وہ سھولتیں فراہم کی جائیں جو ایک معزز شھری کی ھوتی ھیں ایک سروے میں یہ بھی دیکھا گیاھےکہ عام عوام کے ساتھ نہایت ھی سخت اور نظر انداز کر دینے والا رویہ اپنایا جاتا ھے اور بڑے ھی تحکمانہ انداز میں مخاطب کیاجاتا۔ھے کہ جیسے کرسی پر بیٹھا ھوا پوری ریاست کا مالک ھو سادہ لوح اور پڑھے لکھے لوگ یہ بات سوچنے پر مجبور ھوجاتے ھیں کہ آخر ایسا کیوں ؟ ھم اپنے ملکی ذمہ داروں سے اپنے حصے کے حقوق اور اپنے حصے کی سھولتیں لینے آتے ھیں اور ھمارے ساتھ یہ رویہ کیوں اپنایا جاتا ھے جاتا ۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $48   CLICK HERE 

گذشتہ دنوں شناختی کارڈبنوانے کے سلسلے میں آفس جانا ھوا تو وھاں ایک تلخ تجربہ ھوا ایسا لگا کہ ھم کسی اور جھاں میں آگئے ھیں۔جس کے ھاتھ میں قلم ھے وھی عوام کے مقدرلکھنے میں مصروف ھے عوام جب مکمل ٹیکس ادا کرتی ھے تو اسے سھولتیں بھی مکمل ملنی چاہیئں ریاست تو اپنے شھریوں کے لئے تو اچھا ھی کرتی ھے اچھا ھی سوچتی۔ھے پر جو آگے کرسیوں پر بیٹھتے ھیں وہ اپنی مرضی کے مالک ھیں جس طرح چاھیئں کریں جب کہ ایسا نہیں ھونا چاھئے ۔ھونا تو یہ چاہیئے کہ عوام کو اپنے شھریوں کو ھر وہ سھولیت بالا ایمانداری سے دی جائے جس طرح ریاست نے سھولتیں عوام کےلئے۔ مختص کی ھوئی ھیں ۔بھت سی جگہوں پر بھت سے دفتروں میں لاتعداد ایسے مراکز نام لئے بغیر کہ وھاں پر کوئ ترتیب نہیں ناکافی سھولتیں ھیں افراتفری کا عالم ھے۔لیکن بیان تسلیاں اتنی ھیں کہ جیسے ھم یو ایس اے یا یوکےیا دیگر یورپین ممالک میں رہ کرانسانی حقوق کی یوٹیلائزیشن کے مزے لے رھے ھیں نہ کوئ یہاں طریقہ ھے نہ کوئ یہاں سلیقہ ھے بس یہ تیری ھے یہ میری ھے اور باقی ہیرا پھیری ھے فنڈز ملتے ھیں ریاست اپنا فرض ادا کرتی ھے لیکن فنڈز جاتے کہاں ھیں ۔یہ سمجھ نہں آتی وسائل کہاں جاتے ھیں اس کا تو ضرور پتہ ھونا چاھئے اب آپ کہیں بھی جائیں آپ اک نئے عالم المسائل کا سامنا کرتے ھیں جب عوام اور پوری قوم بھاری ٹیکس ادا کرتی ھے تو اس کے عوض عوام کو سھولتیں پوری ملنی چاہیئں نہ کہ در در کی ٹھوکریں ۔ یعنی عالم یہ ہے کہ ہم لوگ ہر طرح کا ٹیکس گورنمنٹ کو ادا کرتے ہیں اس کے عوض ہمیں صاف ستھرا پاکستان چاہیے

                                                                               

 اگر ہم ہاسپٹل میں جائیں تو ہاسپٹل میں بہترین اعلی قسم کی سہولتیں ملنی چاہیے مریض بچ کر ائے نہ کہ بیمار ہو کر اس کی وجہ انکھوں دیکھا حال ہے گزشتہ دنوں ایک مریض کی عیادت کے لیے ہاسپٹل جانا پڑا ایک نہیں بلکہ دو ہاسپٹل میں گئے تو وہاں جو بیڈ ہیں ان کا تو مت پوچھیں نہ کوئی صفائی کا انتظام ہے وارڈوں میں تھوک پان کی پیک دیواریں گندی یہاں وہ بھی انتہائی یعنی خراب ایسا نہیں ہونا چاہیے اور نیچے دیکھا جو بیڈ کے نیچے حشرات چل رہے ہیں بدبو ہے جو ہمارے ٹیکس ہیں وہ اس طرح ہم پر لگتے ہیں کہ ہمیں ہاسپٹل صاف ستھرا چاہیے وہاں کی سہولتیں مثلا جہاں لوگوں کے ٹھہرنے کے لیے الگ جگہ ہو صاف ستھرا ماحول ہو کنٹین وہاں کی صاف ہو کھانے پینے کی چیزیں جو ملے وہ معیاری ہوں ریلیف ملے عوام کو پیسہ تو ہمارا ہی لگتا ہے اس کے عوض ہمیں کیا ملتا ہے ناک بند کر کے ہم ایسی جگہ پر جاتے ہیں جہاں ہم یہ توقع لے کر جاتے ہیں کہ وہاں ہمارا مریض بچ کر ائے گا بچنے کی بجائے وہ اور بیماریاں لے کر اتا ہے مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تنقید کر رہے ہیں نہ ایسا ہرگز نہیں ہے ہاں مریض بچ کر بھی اتے ہیں پر لیکن زیادہ تر یہ دیکھا گیا ہے کہ صفائی کا ناقص انتظام ہے جو ہمارے پیسے ہیں اس پیسے سے ان جگہوں کو صاف کریں یہاں سہولتیں دیں تو تب بہتر ہے

 کیونکہ اگر ہم نے نسلیں تندرست رکھنی ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے ہسپتال شفا خانے اور ان سے وابستہ چیزیں صاف ستھری رکھنی ہیں کیونکہ پاس سے پیسہ تو لگتا نہیں ہے یہ سارا پیسہ عوام کا ہوتا ہے اور ارباب اختیار کا یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اعلی سہولتیں عوام تک پہنچ جائیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ الیکشن اٹھ فروری 4202 کے بعد ایک نیا پاکستان نئے لوگ نیا سیٹ اپ کے عوام خوش ہو باہر سے لوگ جو آئیں وہ خوش ہوں یعنی کہ اٹھ فروری 2024کے بعد ہمیں ترقی یافتہ خوشحال صاف ستھرا پاکستان ملے یعنی کہ اٹھ فروری کے بعد وہ ابتدا ہو جائے جس کی ہم نے کئی دہائیاں پہلے پلاننگ کی تھی۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے مقام ہیں جہاں پر عوام کو جانا پڑتا ہے یہ امید لے کر کہ ہم ایز اے پاکستانی شہری وہاں سے اپنے مسائل کا حل لے کر ائیں گے وہاں ہمیں بہت اچھی سہولت ملے گی لیکن وہاں بھی یہی حال کہ مت پوچھو یعنی ایک جگہ نہیں یعنی بہت سے مقامات ہیں جہاں پر دھیان دینے کی ضرورت ہے سب سے پہلے قومیں ہوتی ہیں قوموں سے ملک بنتے ہیں اور ملک پھر دنیا میں نام بناتے ہیں 

ترقی میں خوشحالی میں صفائی میں یعنی نئی ایجادات میں دنیا مثالیں دیتی ہے کہ وہ ملک کہ جس نے اپنی قوم کے لیے دن رات ایک کر کے اس کو زندگی کی تمام سہولتیں دی اس کو ہر ادارے میں صاف ستھرا ماحول دیا اس لیے بہت دیر غفلت میں رہیں اب ہمیں سوچنا ہے غفلت سے جاگنا ہے نسل نو کو بنانا ہے اور اس کے ہاتھ میں وطن عزیز کی باگ ڈور دینی ہے کیونکہ جہاں پر اگے دینے کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے وہ ملک وہ قومیں ترقی خوشحالی کو ترستی ہیں اس لیے ہمیں چاہیے ذمہ داروں کو کہ اخر ایک نہ ایک دن ہم نے یہ چھوڑنا ہے کرسی کو چھوڑنا ہے اپنے ایکسپیرینس کو چھوڑنا ہے تو کیوں نہ ہم یہ چیز اپنے سے اگلوں کو منتقل کریں اگلے اگلوں کو منتقل کریں گے یہ ایک زنجیریں عمل ہے کہ میں اپ کو اپ دوسرے کو دوسرا تیسرے کو تو اس طرح زینہ در زینہ ترقی کے باپ کھلتے ہیں تعمیر نو کے باب کھلتے ہیں خوشحالی کے باپ کھلتے ہیں نسل نو کو یوٹیلائزیشن کرنے کے باب کھلتے ہیں اور تب جا کر ایک بہترین معاشرہ ایک بہترین ملک ایک بہترین قوم ایک بہترین جرنیشن بنتی ہے ہمیں نکلنا ہے اس دلدل سے اس بدحواسی سے ہمیں سوچنا ہے ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں اگر ہر چیز کو اپنی حد تک رکھنا ہے تو سبز ھلالی پرچم کیا ہے اس کو سمجھنا ہوگا سوچنا ہوگا۔ یہ ہماری شان ہے یہ ہم�

Preventive Health Care: Importance of Regular Check-ups and Screenings. احتیاطی صحت کی دیکھ بھال: باقاعدگی سے چیک اپ اور اسکریننگ کی اہمیت

Regular check-ups and screenings are pivotal aspects of preventive healthcare, offering numerous benefits in maintaining overall well-being and detecting potential health issues early.


باقاعدگی سے چیک اپ اور اسکریننگ احتیاطی صحت کی دیکھ بھال کے اہم پہلو ہیں، جو مجموعی صحت کو برقرار رکھنے اور ممکنہ صحت کے مسائل کا جلد پتہ لگانے میں بے شمار فوائد پیش کرتے ہیں۔

Early Location of Infections: Standard screenings, for example, pulse checks, cholesterol tests, mammograms, and colonoscopies, empower the early discovery of different sicknesses and conditions like hypertension, diabetes, malignant growth, and coronary illness. Identifying these illnesses in their underlying stages fundamentally further develops treatment results and expands the possibilities of fruitful recovery.

انفیکشن کی ابتدائی جگہ: معیاری اسکریننگ، مثال کے طور پر، نبض کی جانچ، کولیسٹرول کے ٹیسٹ، میموگرام، اور کالونیسکوپیز، مختلف بیماریوں اور حالات جیسے ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، مہلک ترقی، اور کورونری بیماری کی ابتدائی دریافت کو تقویت دیتی ہیں۔  ان بیماریوں کو ان کے بنیادی مراحل میں شناخت کرنا بنیادی طور پر علاج کے نتائج کو مزید ترقی دیتا ہے اور نتیجہ خیز بحالی کے امکانات کو بڑھاتا ہے۔

Preventive Measures: Through standard check-ups, medical care experts can survey a singular's general wellbeing status and give customized proposals to preventive measures. This might incorporate way of life adjustments, dietary changes, work-out schedules, and inoculation plans custom fitted to lessen the gamble of fostering specific illnesses.

احتیاطی تدابیر: معیاری چیک اپ کے ذریعے، طبی نگہداشت کے ماہرین واحد کی عمومی صحت کی حالت کا سروے کر سکتے ہیں اور احتیاطی تدابیر کے لیے اپنی مرضی کے مطابق تجاویز دے سکتے ہیں۔  اس میں طرز زندگی کی ایڈجسٹمنٹ، غذائی تبدیلیاں، ورزش کے نظام الاوقات، اور مخصوص بیماریوں کو فروغ دینے کے جوئے کو کم کرنے کے لیے اپنی مرضی کے مطابق ٹیکہ لگانے کے منصوبے شامل ہو سکتے ہیں۔

Risk Evaluation and The board: Ordinary wellbeing appraisals assist with recognizing risk factors related with specific infections, permitting medical care suppliers to foster suitable methodologies for risk the executives and sickness anticipation. For example, distinguishing elevated cholesterol levels early can provoke intercessions like dietary changes or prescription to forestall cardiovascular complications.

خطرے کی تشخیص اور بورڈ: عام بہبود کے جائزے مخصوص انفیکشن سے متعلق خطرے کے عوامل کو پہچاننے میں مدد کرتے ہیں، طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ ایگزیکٹوز کے خطرے اور بیماری کی توقع کے لیے موزوں طریقہ کار کو فروغ دیں۔  مثال کے طور پر، کولیسٹرول کی بلند سطحوں کی جلد میں تمیز کرنا غذائی تبدیلیوں یا قلبی پیچیدگیوں کو روکنے کے لیے نسخے جیسی سفارشات کو اکسا سکتا ہے۔


Monitoring Wellbeing Patterns: Steady observing of wellbeing pointers after some time gives significant bits of knowledge into a singular's wellbeing patterns. This longitudinal information empowers medical services suppliers to follow changes, distinguish irregularities, and intercede expeditiously when important, consequently limiting the movement of potential wellbeing problems.

صحت مندی کے نمونوں کی نگرانی: کچھ وقت کے بعد تندرستی کے اشارے کا مستقل مشاہدہ ایک واحد کے فلاح و بہبود کے نمونوں میں اہم معلومات فراہم کرتا ہے۔  یہ طولانی معلومات طبی خدمات کے فراہم کنندگان کو تبدیلیوں کی پیروی کرنے، بے قاعدگیوں میں فرق کرنے، اور جب ضروری ہو تو فوری مداخلت کرنے کا اختیار دیتی ہے، نتیجتاً صحت کے ممکنہ مسائل کی نقل و حرکت کو محدود کرتی ہے۔

Promotion of Sound Maturing: Normal check-ups advance solid maturing by addressing age-related wellbeing concerns and carrying out methodologies to keep up with ideal physical and mental capability. This incorporates screenings for osteoporosis, mental degradation, vision and hearing disabilities, and other age-related conditions that can affect nature of life.

صوتی میچورنگ کا فروغ: عمومی چیک اپ عمر سے متعلق صحت کے خدشات کو دور کرکے اور مثالی جسمانی اور ذہنی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے طریقہ کار کو انجام دے کر پختہ ہونے کو آگے بڑھاتے ہیں۔  اس میں آسٹیوپوروسس، دماغی انحطاط، بصارت اور سماعت کی معذوری، اور عمر سے متعلق دیگر حالات جو زندگی کی نوعیت کو متاثر کر سکتے ہیں کے لیے اسکریننگ شامل کرتا ہے۔

Patient Schooling and Strengthening: Check-ups offer open doors for patient training and strengthening, enabling people to play a functioning job in dealing with their wellbeing. Medical services suppliers can teach patients about sickness anticipation, side effect acknowledgment, taking care of oneself practices, and the significance of sticking to suggested screenings and vaccinations.

مریضوں کی تعلیم اور تقویت: چیک اپ مریضوں کی تربیت اور مضبوطی کے لیے کھلے دروازے پیش کرتے ہیں، جو لوگوں کو ان کی فلاح و بہبود سے نمٹنے کے لیے کام کرنے کے قابل بناتے ہیں۔  طبی خدمات فراہم کرنے والے مریضوں کو بیماری کی توقع، ضمنی اثرات کا اعتراف، اپنے طرز عمل کا خیال رکھنا، اور تجویز کردہ اسکریننگ اور ویکسینیشن پر قائم رہنے کی اہمیت کے بارے میں سکھا سکتے ہیں۔

Cost-Proficiency: While preventive medical care requires interest in normal check-ups and screenings, it frequently ends up being more savvy over the long haul contrasted with treating progressed stage illnesses. Early discovery and intercession can forestall the requirement for costly operations, hospitalizations, and long haul drug regimens related with untreated or high level diseases.

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40   CLICK HERE 

لاگت کی مہارت: جبکہ احتیاطی طبی نگہداشت کے لیے عام چیک اپ اور اسکریننگ میں دلچسپی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن یہ اکثر طویل سفر کے دوران زیادہ سمجھدار ہوتا ہے جو ترقی یافتہ مرحلے کی بیماریوں کے علاج کے برعکس ہوتا ہے۔  ابتدائی دریافت اور شفاعت مہنگے آپریشنوں، ہسپتالوں میں داخل ہونے، اور علاج نہ ہونے والی یا اعلیٰ سطح کی بیماریوں سے متعلق طویل فاصلے تک دوائیوں کی ضرورت کو روک سکتی ہے۔

Psychological Advantages: Customary check-ups can lighten uneasiness and vulnerability in regards to one's wellbeing status by giving consolation through typical experimental outcomes and wellbeing evaluations. Besides, proactive medical services the executives cultivates a feeling of control and strengthening, advancing generally speaking mental well-being.

نفسیاتی فوائد: حسب ضرورت جانچ پڑتال عام تجرباتی نتائج اور صحت کی تشخیص کے ذریعے تسلی دے کر کسی کی فلاح و بہبود کی کیفیت کے حوالے سے بے چینی اور کمزوری کو کم کر سکتی ہے۔  اس کے علاوہ، فعال طبی خدمات ایگزیکٹوز کنٹرول اور مضبوطی کا احساس پیدا کرتی ہیں، عام طور پر ذہنی تندرستی کو آگے بڑھاتی ہیں۔

In end, normal check-ups and screenings are vital parts of preventive medical care, offering various advantages regarding early infection recognition, preventive mediations, risk the board, solid maturing, patient schooling, cost-productivity, and mental prosperity. By focusing on preventive consideration and taking on a proactive way to deal with wellbeing support, people can improve their personal satisfaction and lessen the weight of preventable sicknesses.

آخر میں، عام چیک اپ اور اسکریننگ احتیاطی طبی نگہداشت کے اہم حصے ہیں، جو انفیکشن کی جلد شناخت، بچاؤ کی ثالثی، خطرے سے متعلق بورڈ، ٹھوس پختگی، مریض کی تعلیم، لاگت کی پیداوار، اور ذہنی خوشحالی کے حوالے سے مختلف فوائد پیش کرتے ہیں۔  احتیاطی غور پر توجہ مرکوز کرنے اور فلاح و بہبود کی مدد سے نمٹنے کے لیے ایک فعال طریقہ اختیار کرنے سے، لوگ اپنے ذاتی اطمینان کو بہتر بنا سکتے ہیں اور روکے جانے والی بیماریوں کے وزن کو کم کر سکتے ہیں۔

Chronic Disease Management: Understanding and Managing Conditions like Diabetes and Hypertension.دائمی بیماری کا انتظام: ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے حالات کو سمجھنا اور ان کا انتظام کرنا

Grasping Ongoing Infections: Persistent illnesses are dependable circumstances that commonly progress gradually and might not have a fix. Normal models incorporate diabetes and hypertension. These circumstances frequently result from a mix of hereditary, natural, and way of life factors.

جاری انفیکشن کو پکڑنا: مستقل بیماریاں قابل اعتماد حالات ہیں جو عام طور پر بتدریج بڑھتے ہیں اور ہو سکتا ہے ان کا کوئی حل نہ ہو۔  عام ماڈلز میں ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر شامل ہوتا ہے۔  یہ حالات اکثر موروثی، فطری، اور طرز زندگی کے عوامل کے مرکب سے پیدا ہوتے ہیں۔

Diabetes: Diabetes is a constant condition portrayed by raised glucose levels.

ذیابیطس: ذیابیطس ایک مستقل حالت ہے جو گلوکوز کی بڑھتی ہوئی سطح سے ظاہر ہوتی ہے۔


There are two primary sorts: type 1 and type 2 diabetes. Type 1 diabetes generally creates in youth or pre-adulthood and happens when the body's safe framework goes after the insulin-delivering cells in the pancreas. Type 2 diabetes, more normal in grown-ups, happens when the body becomes impervious to insulin or doesn't create enough insulin.

دو بنیادی قسمیں ہیں: ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 ذیابیطس۔  ٹائپ 1 ذیابیطس عام طور پر جوانی یا جوانی سے پہلے پیدا ہوتی ہے اور اس وقت ہوتی ہے جب جسم کا محفوظ فریم ورک لبلبہ میں انسولین فراہم کرنے والے خلیوں کے بعد جاتا ہے۔  ٹائپ 2 ذیابیطس، جو بالغوں میں زیادہ عام ہے، اس وقت ہوتی ہے جب جسم انسولین کے لیے بے اثر ہو جاتا ہے یا کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔

Hypertension: Is a condition where the power of blood against the supply route walls is reliably excessively high. This can harm the veins and lead to serious medical issues like coronary illness, stroke, and kidney disease.

ہائی بلڈ پریشر: ، ایک ایسی حالت ہے جہاں سپلائی روٹ کی دیواروں کے خلاف خون کی طاقت قابل اعتماد حد سے زیادہ ہوتی ہے۔  یہ رگوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور سنگین طبی مسائل جیسے کورونری بیماری، فالج، اور گردے کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔

Management of Constant Sicknesses: Powerful administration of persistent infections includes a mix of medicine, way of life changes, and normal monitoring.

مستقل بیماریوں کا انتظام: مستقل انفیکشن کے طاقتور انتظام میں ادویات کا مرکب، طرز زندگی میں تبدیلیاں، اور معمول کی نگرانی شامل ہے۔

Medication: Contingent upon the condition and its seriousness, drug might be endorsed to assist with overseeing side effects and control risk factors. For diabetes, this might incorporate insulin infusions or oral prescriptions to bring down glucose levels. Hypertension might be dealt with prescriptions like ACE inhibitors, beta-blockers, or diuretics to bring down blood pressure.

دوا: حالت اور اس کی سنگینی کے مطابق، ضمنی اثرات کی نگرانی اور خطرے کے عوامل کو کنٹرول کرنے میں مدد کے لیے دوا کی توثیق کی جا سکتی ہے۔  ذیابیطس کے لیے، اس میں گلوکوز کی سطح کو کم کرنے کے لیے انسولین انفیوژن یا زبانی نسخے شامل کیے جا سکتے ہیں۔  ہائی بلڈ پریشر کو بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے ACE inhibitors، beta-blockers، یا diuretics جیسے نسخوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40    CLICK HERE 

Lifestyle Changes: Way of life changes assume a critical part in overseeing ongoing illnesses. This incorporates keeping a sound eating routine wealthy in natural products, vegetables, entire grains, and lean proteins while restricting sugar, salt, and unfortunate fats. Ordinary actual work is likewise significant for controlling glucose levels and circulatory strain. Furthermore, stopping smoking and directing liquor admission can assist with diminishing the gamble of complications.

طرز زندگی میں تبدیلیاں: طرز زندگی کی تبدیلیاں جاری بیماریوں کی نگرانی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔  اس میں چینی، نمک اور بدقسمت چکنائی کو محدود کرتے ہوئے قدرتی مصنوعات، سبزیوں، سارا اناج، اور دبلی پتلی پروٹین میں بھرپور کھانے کے معمولات کو شامل کیا گیا ہے۔  گلوکوز کی سطح اور دوران خون کو کنٹرول کرنے کے لیے عام حقیقی کام بھی اسی طرح اہم ہے۔  مزید برآں، تمباکو نوشی کو روکنا اور شراب کے داخلے کی ہدایت کرنا پیچیدگیوں کے جوئے کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔

Regular Observing: Checking glucose levels (for diabetes) and circulatory strain (for hypertension) is fundamental for dealing with these circumstances. This might include normal visits to medical services suppliers for check-ups, as well as self-observing at home utilizing gadgets, for example, glucometers or pulse screens. Monitoring these estimations takes into consideration early recognition of any progressions or complexities, empowering brief intervention.

باقاعدگی سے مشاہدہ: ان حالات سے نمٹنے کے لیے گلوکوز کی سطح (ذیابیطس کے لیے) اور دوران خون (ہائی بلڈ پریشر کے لیے) کی جانچ کرنا بنیادی ہے۔  اس میں چیک اپ کے لیے طبی خدمات فراہم کرنے والوں کے معمول کے دورے شامل ہو سکتے ہیں، نیز گیجٹ استعمال کرتے ہوئے گھر پر خود مشاہدہ کرنا، مثلاً گلوکوومیٹر یا پلس اسکرین۔  ان تخمینوں کی نگرانی میں کسی بھی پیشرفت یا پیچیدگی کی ابتدائی شناخت کو مدنظر رکھا جاتا ہے، مختصر مداخلت کو بااختیار بنانا۔

Education and Backing: Schooling about the condition and how to oversee it is indispensable for people with persistent infections. This incorporates grasping the significance of medicine adherence, perceiving side effects of complexities, and knowing when to look for clinical assistance. Support from medical care suppliers, support gatherings, and relatives can likewise assist people with adapting to the difficulties of dealing with an ongoing disease.

تعلیم اور پشت پناہی: مستقل انفیکشن والے لوگوں کے لیے حالت اور اس کی نگرانی کے بارے میں اسکولنگ ناگزیر ہے۔  اس میں ادویات کی پابندی کی اہمیت کو سمجھنا، پیچیدگیوں کے ضمنی اثرات کو سمجھنا، اور یہ جاننا کہ طبی امداد کب تلاش کرنی ہے۔  طبی نگہداشت فراہم کرنے والوں، امدادی اجتماعات، اور رشتہ داروں کی مدد اسی طرح لوگوں کو جاری بیماری سے نمٹنے کی مشکلات کے مطابق ڈھالنے میں مدد دے سکتی ہے۔


In end, powerful administration of persistent illnesses like diabetes and hypertension requires an extensive methodology that tends to both clinical and way of life factors.By working intimately with medical services suppliers, settling on sound decisions, and remaining careful with checking, people can diminish the endanger of inconveniences and lead satisfying lives regardless of their circumstances.

آخر میں، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی مستقل بیماریوں کی طاقتور انتظامیہ کے لیے ایک وسیع طریقہ کار کی ضرورت ہوتی ہے جو طبی اور طرز زندگی دونوں عوامل پر منحصر ہو۔  تکلیفوں کے خطرے سے دوچار ہوں اور ان کے حالات سے قطع نظر مطمئن زندگی گزاریں۔

Sleep Hygiene: Tips for Improving Sleep Quality and Quantity.نیند کی حفظان صحت: نیند کے معیار اور مقدار کو بہتر بنانے کے لیے نکات۔

Steady Rest Timetable: Attempt to hit the hay and wake up simultaneously consistently, even on ends of the week. This controls your body's interior clock and further develop by and large rest quality.

مستقل آرام کا ٹائم ٹیبل: گھاس کو مارنے کی کوشش اور بیک وقت مسلسل جاگنا، یہاں تک کہ ہفتے کے آخر میں بھی۔  یہ آپ کے جسم کی اندرونی گھڑی کو کنٹرول کرتا ہے اور آرام کے معیار کے لحاظ سے مزید ترقی کرتا ہے۔

Create a Loosening up Sleep time Schedule: Foster a quieting routine before bed to indicate to your body that now is the right time to slow down. This could incorporate exercises like perusing, cleaning up, or rehearsing unwinding procedures like profound breathing or meditation.

ڈھیلے نیند کے وقت کا نظام الاوقات بنائیں: سونے سے پہلے ایک پرسکون روٹین کو فروغ دیں تاکہ آپ کے جسم کو اس بات کی نشاندہی کی جاسکے کہ یہ سست ہونے کا صحیح وقت ہے۔  اس میں مشقیں شامل ہو سکتی ہیں جیسے گہرائی سے سانس لینا یا مراقبہ۔

Optimize Your Rest Climate: Ensure your room is helpful for rest by keeping it cool, calm, and dull. Consider utilizing power outage drapes, earplugs, or a background noise to limit disturbances.

اپنے آرام کے ماحول کو بہتر بنائیں: اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے کمرے کو ٹھنڈا، پرسکون اور مدھم رکھ کر آرام کے لیے مددگار ہے۔  رکاوٹوں کو محدود کرنے کے لیے بجلی کی بندش کے پردے، ایئر پلگ، یا پس منظر کے شور کو استعمال کرنے پر غور کریں۔

Limit Openness to Screens: The blue light discharged by electronic gadgets like cell phones, tablets, and PCs can impede your body's normal rest wake cycle. Mean to stay away from screens essentially an hour prior to sleep time, or use gadgets with highlights like night mode or blue light filters.

اسکرینوں تک کھلے پن کو محدود کریں: سیل فون، ٹیبلیٹ اور پی سی جیسے الیکٹرانک گیجٹس سے خارج ہونے والی نیلی روشنی آپ کے جسم کے آرام کے معمول کے چکر میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔  سونے کے وقت سے ایک گھنٹہ پہلے اسکرینوں سے دور رہنے کا مطلب ہے، یا نائٹ موڈ یا بلیو لائٹ فلٹرز جیسے ہائی لائٹس والے گیجٹس کا استعمال کریں۔

Watch Your Eating regimen and Exercise: Try not to polish off huge dinners, caffeine, and liquor near sleep time, as these can disturb rest. Customary activity can assist with further developing rest quality, yet attempt to keep away from vivacious movement excessively near bedtime.

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40   CLICK HERE 

اپنے کھانے کا طریقہ اور ورزش دیکھیں: سونے کے وقت کے قریب بڑے ڈنر، کیفین اور شراب کو پالش نہ کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ آرام میں خلل ڈال سکتے ہیں۔  روایتی سرگرمی آرام کے معیار کو مزید ترقی دینے میں مدد کر سکتی ہے، لیکن سونے کے وقت کے قریب بہت زیادہ متحرک حرکت سے دور رہنے کی کوشش کریں۔

Manage Stress: Elevated degrees of stress and nervousness can make it hard to nod off and stay unconscious. Track down sound ways of overseeing pressure during the day, like activity, unwinding strategies, or conversing with a specialist if needed.

تناؤ کا انتظام کریں: تناؤ اور گھبراہٹ کی بلند ڈگریاں سر ہلانا اور بے ہوش رہنا مشکل بنا سکتی ہیں۔  دن کے دوران دباؤ کی نگرانی کرنے کے اچھے طریقے تلاش کریں، جیسے سرگرمی، آرام کرنے کی حکمت عملی، یا ضرورت پڑنے پر کسی ماہر سے بات چیت کرنا۔

Limit Rests: While short rests can be gainful for certain individuals, long or unpredictable snoozing during the day can obstruct evening time rest. On the off chance that you really want to rest, hold back nothing rest (20-30 minutes) promptly in the afternoon.

آرام کی حد: اگرچہ مختصر آرام بعض افراد کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے، لیکن دن کے دوران طویل یا غیر متوقع اسنوزنگ شام کے وقت کے آرام میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔  اس موقع پر کہ آپ واقعی آرام کرنا چاہتے ہیں، دوپہر میں فوری طور پر کچھ بھی آرام (20-30 منٹ) نہ روکیں۔

Limit Energizers: Keep away from energizers like nicotine and caffeine, particularly in the hours paving the way to sleep time. These substances can upset rest and make it harder to fall asleep.

توانائی پیدا کرنے والوں کو محدود کریں: نکوٹین اور کیفین جیسے توانائی پیدا کرنے والوں سے دور رہیں، خاص طور پر ان گھنٹوں میں جو سونے کے وقت کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔  یہ مادے آرام کو پریشان کر سکتے ہیں اور سونا مشکل بنا سکتے ہیں۔

Seek Proficient Assistance if necessary: In the event that you keep on battling with rest regardless of making way of life changes, think about looking for help from a medical care proficient. They can assist with distinguishing hidden rest problems or different issues adding to your rest difficulties.

اگر ضروری ہو تو ماہر کی مدد حاصل کریں: اگر آپ زندگی کے طریقے کو بدلنے کے باوجود آرام سے لڑتے رہتے ہیں تو، طبی دیکھ بھال کے ماہر سے مدد لینے کے بارے میں سوچیں۔  وہ چھپے ہوئے آرام کے مسائل یا آپ کے آرام کی مشکلات میں اضافہ کرنے والے مختلف مسائل میں فرق کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

By integrating these tips into your day to day daily schedule, you can work on both the quality and amount of your rest, prompting better in general wellbeing and prosperity.

ان تجاویز کو اپنے روزمرہ کے یومیہ شیڈول میں ضم کر کے، آپ اپنے آرام کے معیار اور مقدار دونوں پر کام کر سکتے ہیں، جس سے عمومی صحت اور خوشحالی بہتر ہو سکتی ہے۔


Exercise and Physical Fitness: Incorporating Regular Physical Activity into Daily Routine

 Put forth Practical Objectives: Begin with feasible objectives, like strolling for 30 minutes every day, and progressively increment the power and span of your exercises as you become more comfortable.

عملی مقاصد پیش کریں: ممکن مقاصد کے ساتھ شروع کریں، جیسے کہ ہر روز 30 منٹ ٹہلنا، اور اپنی مشقوں کی طاقت اور دورانیے کو بتدریج بڑھائیں جب آپ زیادہ آرام دہ ہوجائیں۔

Find Exercises You Appreciate: Pick exercises that you track down agreeable and that fit into your way of life. Whether it's running, cycling, swimming, or moving, finding something you love will make it more straightforward to adhere to a routine.

ایسی مشقیں تلاش کریں جن کی آپ تعریف کرتے ہیں: ایسی مشقوں کا انتخاب کریں جو آپ کو قابل قبول ہوں اور جو آپ کے طرز زندگی میں فٹ ہوں۔  چاہے وہ دوڑ رہا ہو، سائیکل چلا رہا ہو، تیراکی ہو، یا حرکت کر رہا ہو، اپنی پسند کی چیز تلاش کرنا معمول کی پابندی کرنا زیادہ آسان بنا دے گا۔

Schedule Your Exercises: Deal with practice like some other arrangement by planning it into your day. Consistency is vital, so attempt to practice simultaneously every day to lay out a routine.

اپنی مشقوں کا شیڈول بنائیں: اپنے دن میں اس کی منصوبہ بندی کرکے کسی دوسرے انتظام کی طرح مشق سے نمٹیں۔  مستقل مزاجی بہت ضروری ہے، اس لیے معمول کو ترتیب دینے کے لیے ہر روز بیک وقت مشق کرنے کی کوشش کریں۔

Be Dynamic Over the course of the Day: Search for valuable chances to integrate actual work into your day to day existence, like using the stairwell rather than the lift, strolling or cycling to work, or doing family tasks like planting or cleaning.

IF YOU WANT TO EARN DAILY$40   CLICK HERE 

دن کے دوران متحرک رہیں: اپنے روزمرہ کے وجود میں حقیقی کام کو ضم کرنے کے قیمتی مواقع تلاش کریں، جیسے لفٹ کے بجائے سیڑھی کا استعمال کرنا، ٹہلنا یا سائیکل چلانا، یا پودے لگانے یا صفائی جیسے خاندانی کام کرنا۔

Mix It Up: Keep your exercises intriguing by stirring up your daily schedule. Attempt various kinds of activities to work different muscle gatherings and forestall boredom.

مکس اٹ اپ: اپنے روزمرہ کے شیڈول کو تیز کرتے ہوئے اپنی مشقوں کو دلچسپ رکھیں۔  پٹھوں کے مختلف اجتماعات کو کام کرنے اور بوریت کو روکنے کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیاں کرنے کی کوشش کریں۔

Set Practical Assumptions: Recollect that progress takes time, and encountering misfortunes en route is typical. Show restraint toward yourself and commend your accomplishments, regardless of how small.

عملی مفروضے طے کریں: یاد رکھیں کہ پیشرفت میں وقت لگتا ہے، اور راستے میں بدقسمتیوں کا سامنا کرنا عام بات ہے۔  اپنے تئیں تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی کامیابیوں کی تعریف کریں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں۔

Listen to Your Body: Focus on how your body feels during and after work out. On the off chance that you experience torment or uneasiness, have some time off and counsel a medical services proficient assuming that necessary.

اپنے جسم کو سنیں: ورزش کے دوران اور بعد میں آپ کا جسم کیسا محسوس ہوتا ہے اس پر توجہ دیں۔  اس موقع پر کہ آپ کو تکلیف یا پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ وقت نکالیں اور ضروری سمجھ کر طبی خدمات کے ماہر سے مشورہ کریں۔

By integrating standard actual work into your everyday daily practice, you'll work on your actual wellbeing as well as lift your temperament, diminish pressure, and increment your general personal satisfaction.


معیاری حقیقی کام کو اپنے روزمرہ کی مشق میں ضم کرکے، آپ اپنی حقیقی صحت پر کام کریں گے اور ساتھ ہی اپنے مزاج کو بلند کریں گے، دباؤ کو کم کریں گے، اور اپنے عمومی ذاتی اطمینان میں اضافہ کریں گے۔

Nutrition and Diet: Importance of Balanced Eating Habits.

 Supplement Sufficiency: A fair eating routine guarantees that we get every one of the fundamental supplements our body expects for ideal working. These incorporate starches, proteins, fats, nutrients, and minerals. Every supplement assumes an exceptional part, from giving energy (starches and fats) to building and fixing tissues (proteins).


ضمیمہ کی کفایت: ایک منصفانہ کھانے کا معمول اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ہمیں ہر ایک بنیادی سپلیمنٹس ملے گا جس کی ہمارے جسم کو مثالی کام کرنے کی توقع ہے۔  ان میں نشاستہ، پروٹین، چکنائی، غذائی اجزاء اور معدنیات شامل ہیں۔  ہر ضمیمہ توانائی (نشاستہ اور چکنائی) دینے سے لے کر ٹشوز (پروٹین) کی تعمیر اور فکسنگ تک ایک غیر معمولی حصہ لیتا ہے۔


Weight The executives: Adjusted dietary patterns are instrumental in keeping a sound weight. By consolidating various supplement thick food varieties, like organic products, vegetables, and entire grains, while directing the admission of unhealthy and handled food sources, people can more readily deal with their weight. This fair methodology forestalls both stoutness and malnutrition.

ویٹ ایگزیکٹیو: درست وزن رکھنے کے لیے ایڈجسٹ شدہ خوراک کے نمونے اہم ہیں۔  مختلف ضمیمہ موٹی خوراک کی اقسام، جیسے نامیاتی مصنوعات، سبزیاں، اور سارا اناج کو یکجا کرکے، غیر صحت بخش اور سنبھالے ہوئے کھانے کے ذرائع کے داخلے کی ہدایت کرتے ہوئے، لوگ اپنے وزن سے زیادہ آسانی سے نمٹ سکتے ہیں۔  یہ منصفانہ طریقہ کار سختی اور غذائیت دونوں کو روکتا ہے۔

Disease Counteraction: Exploration reliably shows the way that a reasonable eating routine can diminish the gamble of persistent infections like coronary illness, diabetes, hypertension, and specific sorts of malignant growth. For example, an eating routine wealthy in natural products, vegetables, and entire grains gives cell reinforcements and fiber, which assist with combatting irritation and lower the gamble of cardiovascular ailments.

بیماری کا مقابلہ: تحقیق قابل اعتماد طریقے سے اس طریقے کو ظاہر کرتی ہے کہ کھانے کا ایک معقول معمول مسلسل انفیکشن جیسے کورونری بیماری، ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، اور مخصوص قسم کی مہلک نشوونما کے جوئے کو کم کر سکتا ہے۔  مثال کے طور پر، قدرتی مصنوعات، سبزیوں اور پورے اناج سے بھرپور کھانے کا معمول سیل کو تقویت اور فائبر فراہم کرتا ہے، جو جلن سے لڑنے میں مدد کرتا ہے اور دل کی بیماریوں کے جوئے کو کم کرتا ہے۔

Energy and Imperativeness: Consuming a decent eating regimen guarantees supported energy levels over the course of the day. Starches act as the essential wellspring of energy, while proteins and fats give satiety and backing cell capability. By keeping up with stable glucose levels through adjusted nourishment, people can stay away from energy crashes and support vitality.

توانائی اور ضروری پن: کھانے کے مناسب طریقے کا استعمال دن کے دوران توانائی کی سطح کی حمایت کی ضمانت دیتا ہے۔  نشاستے توانائی کے ضروری سرچشمے کے طور پر کام کرتے ہیں، جب کہ پروٹین اور چکنائی سیر اور خلیے کی پشت پناہی کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں۔  ایڈجسٹ شدہ غذائیت کے ذریعے مستحکم گلوکوز کی سطح کو برقرار رکھنے سے، لوگ توانائی کے حادثات سے دور رہ سکتے ہیں اور جیورنبل کو سہارا دے سکتے ہیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40   CLICK HERE 

Mental Wellbeing and Mental Capability: The food sources we devour likewise influence our psychological prosperity and mental capability. Supplement rich food sources like omega-3 unsaturated fats (tracked down in fish) and cancer prevention agents (tracked down in products of the soil) support cerebrum wellbeing and may diminish the gamble of mental deterioration. Alternately, slims down high in handled food sources and sugar have been connected to an expanded gamble of sorrow and anxiety.

دماغی تندرستی اور ذہنی صلاحیت: کھانے کے ذرائع جو ہم کھاتے ہیں اسی طرح ہماری نفسیاتی خوشحالی اور ذہنی صلاحیت پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔  غذائیت سے بھرپور غذا کے ذرائع جیسے اومیگا 3 غیر سیر شدہ چکنائی (مچھلی میں موجود) اور کینسر سے بچاؤ کے ایجنٹس (مٹی کی مصنوعات میں شامل) دماغی صحت کی حمایت کرتے ہیں اور دماغی بگاڑ کے جوئے کو کم کر سکتے ہیں۔  باری باری، سنبھالے ہوئے کھانے کے ذرائع اور شوگر میں کمی کو دکھ اور اضطراب کے بڑھتے ہوئے جوئے سے جوڑا گیا ہے۔

Longevity and Personal satisfaction: By focusing on adjusted dietary patterns, people can improve their general personal satisfaction and increment life span. A very much sustained body is better prepared to ward off contaminations, recuperate from sickness, and keep up with ideal organ capability. Moreover, good dieting propensities laid out right off the bat in life can make way for deep rooted wellness.

لمبی عمر اور ذاتی اطمینان: ایڈجسٹ شدہ غذائی پیٹرن پر توجہ مرکوز کرنے سے، لوگ اپنے عمومی ذاتی اطمینان کو بہتر بنا سکتے ہیں اور عمر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔  ایک بہت زیادہ پائیدار جسم آلودگیوں سے بچنے، بیماری سے صحت یاب ہونے اور اعضاء کی مثال9ی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتا ہے۔  مزید برآں، زندگی میں بلے سے بالکل ٹھیک پرہیز کرنے کی اچھی عادتیں گہری جڑوں والی تندرستی کا راستہ بنا سکتی ہیں۔

In end, adjusted dietary patterns are fundamental for advancing in general wellbeing and prosperity. By embracing a different scope of supplement rich food sources in suitable parts, people can partake in various advantages, including further developed weight the board, decreased hazard of ongoing sicknesses, supported energy levels, improved psychological well-being, and expanded life span. Embracing these propensities encourages an amicable connection among food and body, establishing the groundwork for an energetic and satisfying .


آخر میں، ایڈجسٹ شدہ غذائی پیٹرن عام صحت اور خوشحالی میں آگے بڑھنے کے لیے بنیادی ہیں۔  مناسب حصوں میں ضمیمہ سے بھرپور خوراک کے ذرائع کے مختلف دائرہ کار کو اپنانے سے، لوگ مختلف فوائد میں حصہ لے سکتے ہیں، جن میں مزید ترقی یافتہ وزن، جاری بیماریوں کے خطرے میں کمی، توانائی کی سطح کو سہارا دینے، نفسیاتی تندرستی میں بہتری، اور عمر میں توسیع شامل ہیں۔  ان رجحانات کو اپنانے سے خوراک اور جسم کے درمیان خوشگوار تعلق کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، جو کہ ایک توانائی بخش اور اطمینان بخش بنیادوں کو قائم کرتی ہے۔

Mental Health Awareness: Strategies for Coping with Stress and Anxiety.دماغی صحت سے متعلق آگاہی: تناؤ اور اضطراب سے نمٹنے کی حکمت عملی۔

 Care and Unwinding Methods: Improving Mental Well-beingIn the present speedy world, where stress and tension appear to be ever-present friends, integrating care and unwinding procedures into our lives has become basic for keeping up with mental prosperity. These procedures offer a safe-haven of quiet in the midst of the mayhem, permitting us to develop a feeling of internal harmony and resilience.

دیکھ بھال اور آرام کرنے کے طریقے: دماغی تندرستی کو بہتر بنانا موجودہ تیز رفتار دنیا میں، جہاں تناؤ اور تناؤ ہمیشہ سے موجود دوست نظر آتے ہیں، ہماری زندگیوں میں دیکھ بھال اور آرام کرنے کے طریقہ کار کو شامل کرنا ذہنی خوشحالی کو برقرار رکھنے کے لیے بنیادی بن گیا ہے۔  یہ طریقہ کار تباہی کے درمیان خاموشی کی ایک محفوظ پناہ گاہ پیش کرتے ہیں، جو ہمیں اندرونی ہم آہنگی اور لچک کا احساس پیدا کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔


DeepRelaxing: One of the easiest yet most remarkable unwinding methods is profound relaxing. It includes taking sluggish, conscious breaths, zeroing in on the impression of air streaming all through the body. As we breathe in profoundly, our lungs grow, attracting oxygen and indicating to the body that now is the ideal time to unwind. With each breathe out, we discharge strain and stress, permitting ourselves to sink further into a condition of serenity. Profound breathing quiets the psyche as well as oxygenates the body, advancing better actual wellbeing overall.

IF YOU WANT TO EARN DAILY $100                                                        CLICK HERE 

ڈیپ ریلیکسنگ: سب سے آسان لیکن سب سے زیادہ قابل ذکر unwinding طریقوں میں سے ایک گہرا آرام ہے۔  اس میں سست، ہوش میں سانس لینا، پورے جسم میں ہوا کے بہاؤ کے تاثر کو صفر کرنا شامل ہے۔  جیسے جیسے ہم گہرائی سے سانس لیتے ہیں، ہمارے پھیپھڑے بڑھتے ہیں، آکسیجن کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور جسم کو اشارہ کرتے ہیں کہ اب آرام کرنے کا بہترین وقت ہے۔  ہر سانس باہر نکلنے کے ساتھ، ہم تناؤ اور تناؤ کو خارج کرتے ہیں، خود کو مزید سکون کی حالت میں ڈوبنے کی اجازت دیتے ہیں۔  گہرا سانس لینا نفسیات کو پرسکون کرنے کے ساتھ ساتھ جسم کو آکسیجن فراہم کرتا ہے، مجموعی طور پر بہتر حقیقی صحت کو آگے بڑھاتا ہے۔

Meditation: Reflection is the specialty of being available at the time, developing mindfulness without judgment. It can take many structures, from zeroed in consideration on the breath to directed perceptions or adoring thoughtfulness rehearses. Through standard reflection, we train our psyches to notice contemplations and feelings as they emerge, without moving cleared away by them. This training fabricates flexibility, permitting us to explore life's difficulties with more prominent lucidity and poise. Besides, reflection has been experimentally demonstrated to decrease pressure, lower pulse, and upgrade generally profound well-being.


مراقبہ: عکاسی اس وقت دستیاب ہونے کی خصوصیت ہے، بغیر کسی فیصلے کے ذہن سازی کو فروغ دینا۔  یہ بہت سے ڈھانچے لے سکتا ہے، سانس پر غور کرنے سے لے کر ہدایت شدہ تاثرات تک یا سوچنے کی مشقوں کو پسند کرنا۔  معیاری عکاسی کے ذریعے، ہم اپنی نفسیات کو تربیت دیتے ہیں کہ وہ غور و فکر اور احساسات کو محسوس کریں جیسے ہی وہ ابھرتے ہیں، ان کے ذریعے صاف کیے بغیر۔  یہ تربیت لچک پیدا کرتی ہے، جس سے ہمیں زندگی کی مشکلات کو زیادہ نمایاں فصاحت اور شائستگی کے ساتھ تلاش کرنے کی اجازت ملتی ہے۔  اس کے علاوہ، تجرباتی طور پر دباؤ کو کم کرنے، نبض کو کم کرنے، اور عام طور پر گہری بہبود کو اپ گریڈ کرنے کے لیے عکاسی کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔


Progressive Muscle Unwinding (PMR): Moderate Muscle Unwinding (PMR) is a precise strategy that includes straining and afterward delivering different muscle bunches in the body. By purposely straining explicit muscles for a couple of moments and afterward loosening up them, we become more sensitive to the impressions of pressure and unwinding inside our bodies. This uplifted mindfulness permits us to deliver actual strain, easing side effects of pressure and uneasiness intentionally. Standard act of PMR advances unwinding as well as further develops rest quality and decreases ongoing pain.Incorporating care and unwinding strategies into our day to day routines engages us to assume command over our psychological and profound prosperity. Whether it's a couple of moments of profound breathing before a distressing gathering, a short contemplation meeting to begin the day on a quiet note, or a daily PMR practice to loosen up before bed, these procedures offer a shelter of harmony in the midst of life's unavoidable tempests. By sustaining ourselves with snapshots of quietness and taking care of oneself, we develop flexibility, cultivate inward amicability, and embrace existence effortlessly and satisfactions.


پروگریسو مسل ان وائنڈنگ (PMR): اعتدال پسند مسل ان وائنڈنگ (PMR) ایک درست حکمت عملی ہے جس میں تناؤ اور اس کے بعد جسم میں پٹھوں کے مختلف گچھوں کو پہنچانا شامل ہے۔  واضح طور پر واضح عضلات کو چند لمحوں کے لیے دبانے اور بعد میں انہیں ڈھیلا کرنے سے، ہم اپنے جسم کے اندر دباؤ اور بے آرامی کے تاثرات کے لیے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔  یہ بلند ذہن سازی ہمیں حقیقی تناؤ فراہم کرنے کی اجازت دیتی ہے، دباؤ اور بے چینی کے ضمنی اثرات کو جان بوجھ کر کم کرتی ہے۔  PMR کا معیاری عمل آرام کے معیار کو آگے بڑھاتا ہے اور آرام کے معیار کو مزید ترقی دیتا ہے اور جاری درد کو کم کرتا ہے۔ ہمارے روزمرہ کے معمولات میں دیکھ بھال اور غیر منقطع حکمت عملیوں کو شامل کرنا ہمیں اپنی نفسیاتی اور گہری خوشحالی پر کمان سنبھالنے میں مشغول کرتا ہے۔  خواہ یہ ایک پریشان کن اجتماع سے پہلے گہری سانس لینے کے چند لمحے ہوں، دن کے آغاز کے لیے ایک پر سکون میٹنگ ہو، یا سونے سے پہلے آرام کرنے کے لیے روزانہ پی ایم آر کی مشق، یہ طریقہ کار زندگی کے درمیان ہم آہنگی کی پناہ فراہم کرتے ہیں۔  ناگزیر طوفان.  خاموشی کی تصویروں کے ساتھ اپنے آپ کو برقرار رکھنے اور اپنا خیال رکھنے سے، ہم لچک پیدا کرتے ہیں، باطنی ہم آہنگی پیدا کرتے ہیں، اور وجود کو آسانی اور اطمینان سے قبول کرتے ہیں۔

ووٹ کی عزت کیا ہے؟ What is the honor of the vote?




 سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ، عبدالقیوم  نے مسلم لیگ نون کے لاہور کے بلاول بھٹو کے مقابلے میں امیدوار عطاء اللہ تارڑ پر طنز کیا، کہا، 'عطا بھائی، وہ ووٹ کو عزت دو والا گانا نہیں چلاتے ان دنوں؟ سنا نہیں بہت عرصے سے۔کسی روز چلا ہی دیں۔' مسلم لیگ نون کو آج کل اس حوالے سے خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا جا تا ہے اور اس میں بلاول بھٹو زرداری بھی شامل ہیں حالانکہ یہ وہی بلاول بھٹو زرداری ہیں جن کے والد نے پی ڈی ایم کی میٹنگ میں کہہ دیا تھا کہ ان سے کوئی امید نہ رکھی جائے کہ ان کا ایک ہی بیٹا ہے۔ جی ہاں، اسی پیپلزپارٹی کے سربراہ ہیں جس نے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر پہلے سینیٹ پھر چئیرمین سینیٹ کے الیکشن اغواء کئے تھے اور جمہوری قوتوں کو شکست دے کر ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگائے تھے، وہی پیپلزپارٹی جس نے پراجیکٹ عمران کو کامیاب بنانے کے لئے سب سے پہلے مہرے کا کردارادا کیا تھا اور بلوچستان کی نواز لیگ کی حکومت ختم کی تھی۔ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی، بے نظیر بھٹو کے این آر او لینے تک اور ذوالفقار علی بھٹو کے آمریت کے آٹھ سال تک وزیر ہونے تک۔ یہاں تک نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے اس وقت کے عمران خان بن کے پاکستان توڑنے تک۔ جانے دیجئے، بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔

میں نے سوچا، یہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ بنیادی طور پر وہ شے ہے جو ووٹر سے جڑی ہوئی ہے۔ ووٹ بے جان ہوتا ہے جبکہ ووٹر جاندار ہوتا ہے۔ لہٰذاووٹ کی اصل عزت ووٹر کی عزت ہے۔ سیاسی جماعتوںکو ہی نہیں بلکہ حکومتوں، فوجوں، عدالتوں اور افسروں وغیروں وغیروں کو بھی ووٹر کو عزت دینی چاہئے۔ ایک اور کنفیوژن شروع میں ہی دور کر لیجئے کہ ووٹ کو عزت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنی فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کہیں، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہائوس پر حملے کر دیں، شہداء کی یادگاریں شہید کریں۔ ووٹ کو عزت دو کا مطلب یہ بھی نہیں کہ آپ کے منہ کو لگا م ہی نہ ہو، جو آپ چاہیں کہتے، جو چاہیں کرتے پھریں، یہ ووٹ کو عزت نہیں بلکہ خود سری ہے۔ یہ آزادی بھی نہیں بلکہ مادر پدر آزادی ہے اور کسی بھی ریاست میں مادر پدر آزادی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ جتنی بڑی آزادی ہوتی ہے اس کے ساتھ اتنی ہی بڑی ذمے داری بندھی ہوتی ہے۔ مجھے آپ کے گھر کے جانے کی آزادی ہے تو میری ذمے داری ہے کہ آپ کی خواتین کی عزت کروں، ان کے سامنے نظریں جھکا کے رکھوں۔ پرانی مثال دُوں، آپ کو ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر وہ ہاتھ میری ناک کو چھوئے، یہ آزادی نہیں حملہ ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40    CLICK HERE 

بات سمجھ آ رہی ہے یا نہیں۔ ووٹ کو عزت دینا اصل میں ووٹر کو عزت دینا ہے کیونکہ ووٹر کے بغیر ووٹ کا کوئی وجود نہیں ہے اور ووٹر کو عزت دینا کیا ہے۔ میں ایک ووٹر ہوں اور مجھے اپنے ووٹ کے بدلے میں اپنے شہر میں اورنج لائن، میٹرو بس اور سپیڈو جیسی پبلک ٹرانسپورٹ ملتی ہے تو یہ میرے ووٹ کو عزت ہے، مجھے بطور ووٹر عزت ہے۔ ایک ووٹر کے بچوں کو دانش سکول ملتے ہیں، اس کے بچوں کو میرٹ پر لیپ ٹاپ ملتے ہیں تو یہ بھی اس کی عزت ہے۔ ایک ووٹر کی گلی پکی ہوتی ہے اور اسے دوسرے شہر جانے کے لئے موٹر وے ملتی ہے تو یہ بھی ووٹر ہی کی عزت ہے۔ میں ایک ووٹر ہوں اور اگر میرے ووٹ کے جواب میں مجھ پر بزدار جیسی بدبودار حکمرانی مسلط نہیں کی جاتی، گوگیوں کی کرپشن کو تحفظ نہیں دیا جاتا تو یہی میرے ووٹ کی عزت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ پی ٹی آئی نے آدھے سے زیادہ پاکستان میں ملنے والے ووٹوں کی بدترین توہین کی جب اس نے تاریخ کی بدترین حکمرانی اس پر عذاب کی طرح نازل کی۔ یہ ووٹ کی تذلیل تھی کہ ووٹر کے شہر کے سڑکوں پر گڑھے تھے، گلیاں اور محلے کچر ا کنڈی بنے ہوئے تھے۔ اگر آپ کو ووٹ کو عزت دینے کی فلاسفی سمجھ آ گئی ہو تو ٹھیک، ورنہ مجھے مزید سمجھانے میں بھی عار نہیں۔

میں تمہیں بتاتا ہوںکہ ووٹ کو عزت کیا ہے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ جسے ووٹ ملیں وہ ملک سے پرویز مشرف کے دور سے عذاب بن جانے والی دہشت گردی کو آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ختم کرے اور بارہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کو اپنی محنت اور کوشش سے زیرو پر لے کر آئے۔ ووٹ کی عزت یہ نہیں کہ بیرون ملک سے دہشت گردوں اور جنگجوئوں کو واپس لایا جائے اور ووٹ کی عزت یہ بھی نہیں کہ پانچ سو ارب کے گردشی قرضے کو پچیس سو ارب پر لے جایا جائے۔ ملکی قرضوں میں تین برسوں میں ستر برس میں لئے ہوئے قرض کا ستر فیصد بڑھا دیا جائے۔ ووٹ کی عزت یہ ہے کہ میرے ملک میں گوادر پورٹ بنے، سی پیک آئے، ان دونوں کا بننا ووٹ کی عزت ہے ان دونوں کا رکنا نہیں۔ میرا ملک دنیا کی بیس بہترین معیشتوں میں شامل ہونے جا رہا ہو ، جی ڈی پی چھ فیصد تک پہنچ رہی ہو، مہنگائی ستر برس کی کم ترین شرح پر آ چکی ہو، پاکستان کا ایک برس میں کرپشن پرسیشن انڈیکس دس دس درجے کم ہونا ووٹ کو عزت ہے،اس میں دس دس درجے اضافہ ووٹ کو عزت نہیں ہے۔ اب بھی نہیںسمجھے کہ ووٹ کی عزت کیا ہے تو پاکستانیوں کے ووٹ کی عزت یہ ہے کہ اس کے دشمن ملک کا انتہا پسند وزیراعظم بس پر بیٹھ کر لاہور آجائے اور مینار پاکستان پر جا کے کہے کہ پاکستان اس کی مہر سے نہیں چلتا۔ اس کا لاہور کے گورنر ہاوس میں اعلان لاہور کرنا اور مسئلہ کشمیر باہمی رضامندی سے حل کرنے کا اعلان کرنا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ میرے مقبوضہ کشمیر کا بھارت کی طرف سے اٹوٹ انگ بنا لینا اوراس کے جواب میں کچھ نااہلوں ، نکموں اور نالائقوں کا ہرجمعے کو دھوپ میں آدھا آدھا گھنٹہ ایک ٹانگ پر کھڑے ہونا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ترکی، سعودی عرب، چین، ایران جیسے دوستوں میں پاکستان کی عزت ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے کیونکہ ووٹ ووٹر سے جڑا ہوا ہے اورووٹر ہی اصل پاکستان ہے۔


وہسنے، جسے سننا اور سمجھنا ہے، جس کا دماغ بند نہیں ہے، جس کے دل پر مہر نہیں ہے، سینہ جہالت ، منہ گالی سے بھرا نہیں ہے۔ اپنی فوج اور اپنی عدلیہ کے ساتھ آئین، قانون اور جمہوریت پر اکٹھے ہونا ہی ووٹ کی عزت ہے۔ اپنے اداروںسے برسرپیکار ہونا اور نو مئی جیسے بلنڈر کرنا ہرگز ووٹ کی عزت نہیں ہے۔ ووٹ کی عزت تہذیب اور اخلاقیات میں ہے، جھوٹ ،بدتمیزی اور یوٹرن میں نہیں ہے۔ کاش ہمارے دانشور اور سیاستدان یہ سمجھیں کہ میری اور آپکی عزت، سہولت اور خوشحالی ہی ووٹ کی عزت ہے، پاکستان کا استحکام اور ترقی ہی ووٹ کی عزت ہے۔ آپ اسے چند بڑھکوں، دعووں، نعروں، گالیوں اور لڑائیوںمیں ڈھونڈ رہے ہیں، 

KIWI FRUIT BENEFITS

 



1. **Rich in Nutrient C:** Kiwi is particularly high in L-ascorbic acid, which is significant for safe framework capability, collagen amalgamation, and cell reinforcement assurance against free revolutionaries.


2. **Dietary Fiber:** It is a decent wellspring of dietary fiber, helping with stomach related wellbeing by advancing customary defecations and supporting a solid stomach.


3. **Vitamin K:** Kiwi contains vitamin K, which is significant for blood thickening and bone wellbeing.


4. **Antioxidants:** The organic product is loaded with different cancer prevention agents, including flavonoids and carotenoids, which assist with killing oxidative pressure in the body.


5. **Folate:** Kiwi gives folate, a B-nutrient significant for cell division and the development of DNA.

6. **Potassium:** It contains potassium, adding to heart wellbeing by controlling pulse and liquid equilibrium.


7. **Low Calorie and Supplement Dense:** Kiwi is generally low in calories yet thick in supplements, making it a nutritious expansion to a decent eating regimen.


Integrating kiwi into your customary organic product admission can add to generally speaking wellbeing and prosperity.


1. **غذائیت سے بھرپور C:** کیوی میں L-ascorbic ایسڈ خاص طور پر زیادہ ہوتا ہے، جو کہ محفوظ فریم ورک کی صلاحیت، کولیجن کے امتزاج، اور آزاد انقلابیوں کے خلاف سیل کی تقویت کی یقین دہانی کے لیے اہم ہے۔


IF YOU WANT TO EARN DAILY $40  CLICK HERE 

 2. **غذائی ریشہ:** یہ غذائی ریشہ کا ایک معقول سرچشمہ ہے، روایتی شوچ کو آگے بڑھا کر اور ٹھوس معدے کو سہارا دے کر معدے سے متعلق تندرستی میں مدد کرتا ہے۔



 3. **وٹامن K:** کیوی میں وٹامن K ہوتا ہے، جو خون کو گاڑھا کرنے اور ہڈیوں کی تندرستی کے لیے اہم ہے۔



 4. **اینٹی آکسیڈنٹس:** نامیاتی پروڈکٹ کینسر سے بچاؤ کے مختلف ایجنٹوں سے بھری ہوتی ہے، بشمول فلاوونائڈز اور کیروٹینائڈز، جو جسم میں آکسیڈیٹیو پریشر کو ختم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔



 5. **فولیٹ:** کیوی فولیٹ دیتا ہے، جو کہ خلیات کی تقسیم اور ڈی این اے کی نشوونما کے لیے اہم B-غذائیت ہے۔


 6. **پوٹاشیم:** اس میں پوٹاشیم ہوتا ہے، جو نبض اور مائع کے توازن کو کنٹرول کرکے دل کی صحت میں اضافہ کرتا ہے۔



 7. **کم کیلوریز اور سپلیمنٹ ڈینس:** کیوی عام طور پر کیلوریز میں کم ہوتا ہے لیکن سپلیمنٹس میں گاڑھا ہوتا ہے، جس سے یہ کھانے کے اچھے طریقہ کار میں غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔



 کیوی کو آپ کے روایتی نامیاتی مصنوعات کے داخلے میں ضم کرنے سے عام طور پر صحت اور خوشحالی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

وسطیٰ ایشیائی ممالک تجارتی اور اقتصادی ترقی Central Asian countries trade and economic development

 



دنیا کی ترقی کا واحد راستہ بین الملکی تجارت ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تاریخ دیکھیں تو ان ممالک میں آپ کو امن ملے گا اور وہ تجارت میں مصروف ہوں گے ۔ اس تجارت سے ان کے ملک میں روزگار مہیا ہوتا ہے اور ان کا اقتصادی ڈھانچہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے ۔ امریکہ ، جرمنی ، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ممالک نے تجارت کی بنیادپر ہی ترقی کے زینے طے کیے ہیں ۔ اب اس کی سب سے بڑی مثال چین کی ہے ۔ جن ممالک نے تجارت کو توجہ نہیں دی ان ممالک میںبے روزگاری ، بدامنی اور غربت کا دور دورہ ہے ۔ وسطیٰ ایشیاء کے ممالک کو روس سے آزاد ہوئے تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے ۔ یہ ممالک صنعتی طور پر پہلے سے ترقی یافتہ تھے ۔ان ممالک میں مواصلات اور توانائی حاصل کرنے کے ذرائع دنیا میں مثالی تھے ۔ ماسوائے خوراک کے وہ باقی تمام شعبوں میں خود کفیل تھے ۔ لیکن باوجود اس سب کے ان کا دنیا کے تجارتی اور اقتصادی سرکل میں حصہ بہت ہی کم تھا ۔2021میں وسطیٰ ایشیائی ممالک کی جی ڈی پی 347 بلین امریکی ڈالر تھی ۔ جو گزشتہ دو برسوں میں سات گنا بڑھ چکی ہے ۔گزشتہ ایک ماہ میں ان ممالک نے آزاد تجارتی معاہدے شروع کردئیے ہیں جن سے توقع کی جارہی ہے کہ ان کے دوسرے ممالک سے تجارت میں دس سے پندرہ گنا مزید اضافہ ہوگا ۔ وسطیٰ ایشیائی ممالک اپنے ہمسائیوںاور دیگر ممالک سے توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون وتجارت کو بڑھا رہی ہیں ۔ اس کا فائدہ دنیا کو بھی ہوگا اس لیے کہ دنیا اس وقت تجارت کے لیے مخصوص چند ممالک پر انحصار کررہی ہے جس سے مسابقت کی فضا قائم ہی نہیں ہوتی اور یہ ممالک من پسند شرائط پر دنیا کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ۔ اس وقت چین دنیا کو تجارتی میدان میں لیڈ کررہا ہے ۔ جبکہ دیگر ایشیائی ممالک جیسے جنوبی کوریا ، تائیوان ، ہانگ کانگ، ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا،ویت نام وغیرہ جزوی طور پر اس عمل میں شریک ہیں ۔ یورپ سے اقتصادی تجارت کا حجم کم ہوتا جارہا ہے جس کی وجہ یورپ میں مزدوروں کی مہنگی اجرت اور دیگر مہنگے اخراجات ہیں ۔ کپڑے کے مصنوعات کی تجارت میں بنگلہ دیش نے گزشتہ ایک دہائی میں بہت زیادہ ترقی کی ہے ۔وسطیٰ ایشیا کے ممالک ٹیکنالوجی کے منتقلی کی بہت بڑی صلاحیت رکھتے ہیں ۔اگر یہ ممالک اپنے آزاد تجارتی معاہدوں کو جاری رکھتے ہیں اور چین کی طرح ہر شعبہ میں برآمدات شروع کردیتے ہیں تو اس سے ان ممالک کی جی ڈی پی چالیس گنا سے زیادہ بڑھ سکتی ہے جس کے نتیجے میں اس خطے کی اقتصادی حالت دنیا کی دیگر خطوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہوجائے گی ۔ وسطی ایشیائی ممالک دنیا کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی تجارت کو فروغ دے رہی ہیں جن سے ان کی باقی دنیا پر درآمدی انحصار کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اس لئے وسطی ایشیائی ممالک کا علاقائی تجارتی تعاون کو وسعت دینا اور آزاد، پائیدار ترقی کی یقین دہانی واضح ہے۔وسطی ایشیائی ممالک کی جغرافیائی پوزیشن، جس میں 76 ملین سے زیادہ افراد کی ایک متحرک مارکیٹ ہے اور کوئی سمندری سرحدیں نہیں ہیں، ان کو ایسی اقتصادی پالیسی کی ترقی کی ضرورت تھی جو علاقائی تعاون اور تجارت کو فروغ دے سکے۔وسط ایشیائی ممالک نے گزشتہ دو دہائیوں میں شاندار ترقی کی صلاحیت کے ساتھ نمایاں ترقی کی ہے۔ پچھلے 20 سالوں میں، خطے کی جی ڈی پی میں حقیقی معنوں میں سالانہ اوسطاً 6.2 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو 347 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔2000 کے بعد سے غیر ملکی تجارت میں سات گنا اضافہ ہوا ہے۔2022 میں وسطی ایشیائی ممالک کی غیر ملکی مصنوعات کی تجارت کی مالیت تقریباً 190 بلین ڈالر تھی۔قازقستان وسطی ایشیائی تجارتی چیمپئن ہے، اس خطے کے باہمی تجارت کے کل حجم کا اس کا حصہ 80% ہے ۔2018 اور 2022 کے درمیان علاقائی تجارت میں 73.4 فیصد اضافہ ہوا ($5.8 سے $10 بلین تک)۔ازبکستان وسطی ایشیا میں قازقستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جس کی دو طرفہ تجارت 2025 میں تقریباً 10 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ درمیانی مدت میں ازبکستان کے ساتھ تجارت کو 20 بلین ڈالر تک اور کرغز جمہوریہ کے ساتھ 5بلین ڈالر تک بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔قازقستان اس ترقی میں سب سے آگے ہے کیونکہ کاغذ کے بغیر تجارت، تیزی سے تجارتی ترقی کے لیے ایک پل اور بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ایشیاء پیسفک ریجن میں سرحد پار پیپر لیس تجارت کی سہولت فراہم کرنے کے فریم ورک معاہدے کی توثیق کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔یہ 2021 میں قازقستان، ازبکستان اور کرغیز جمہوریہ کی جانب سے کاغذ کے بغیر سرحد پار تجارت کی تکنیکی اور قانونی موزونیت کے بارے میں کیے گئے مشترکہ معاہدے سے ممکن ہوا ہے، وسطی ایشیائی حکومتوں نے اپریل 2023 میں تجارتی سہولتوں کے لیے قومی کمیٹیوں کے باہمی تعاون کیلئے ایک علاقائی قانونی دستاویز پر بھی دستخط کئے، جرمن ایجنسی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کے پروجیکٹ ٹریڈ فیسیلی ٹیشن ان سینٹرل ایشیاء کے تعاون سے ان ممالک نے فائدہ اٹھایا ہے ۔مئی 2023 میں، وسطی ایشیاء گیٹ وے تجارتی معلوماتی پورٹل خطے کے ممالک میں شروع کیا گیا۔ تمام ممالک کے تجارتی سہولت فراہم کرنے والے پورٹلز سے معلومات کو یکجا کرتے ہوئے، تجارتی معلوماتی پورٹل کاروباری اداروں کو سرحد پار تجارتی رسمی کارروائیوں کے بارے میں معلومات تک آسان رسائی فراہم کرتا ہے، خطے کے اندر، خطے سے باہر، اور خطے کے ممالک کی تجارت کے تناظر میں تفصیلات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس طرح بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ علاقائی تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا۔ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر نے یہ مہم ریڈی فار ٹریڈ سینٹرل ایشیاء پروجیکٹ کے ایک حصے کے طور پر چلائی، جس کی مالی اعانت یورپی یونین نے کی ۔وسطی ایشیائی ممالک علاقائی اور عالمی تجارتی لبرلائزیشن کے نمایاں حامی ہیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40  CLICK HERE 

تمام ممالک آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ کے اندر علاقائی تجارت میں حصہ لیتے ہیں۔ خطے کی دو قومیں، قازقستان اور کرغیز جمہوریہ، یوریشین اکنامک یونین کے رکن ہیں۔ وسطی ایشیاء دنیا کے آخری خطوں میں سے ایک تھا جہاں نصف ممالک ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) کے رکن نہیں تھے۔ حالیہ برسوں میں، صورت حال بدلنا شروع ہوئی ہے خطے کے تین ممالک ڈبلیو ٹی او کے رکن ہیں، اور دو مزید ازبکستان اور ترکمانستان رکنیت کے لیے بات چیت کے عمل میں ہیں۔ڈبلیو ٹی او میں شمولیت کے ساتھ داخلی تجارتی اصلاحات، مارکیٹ تک رسائی میں بہتری، اور تمام رکن ممالک کیلئے وسطی ایشیائی خطے میں رکاوٹیں کم ہوئیں ہیں نتیجتاً ملکوں کی اندرونی تجارت عالمگیر ہو گئی ہے۔جغرافیائی سیاسی تناظر کے پیش نظر، خطہ سرحد پار تعاون کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے نقل و حمل کی نئی راہداریوں کی تلاش میں ہے۔وسطی ایشیا میں علاقائی کاری کے عمل کی شدت کے نتیجے میں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کیلئے نقل و حمل اور مواصلاتی نظام کی ترقی کیساتھ ساتھ باہمی ہم آہنگی �اور تعاون کی ضرورت بھی بڑھی ہے۔ قازقستان اور ازبکستان کے درمیان سرحد کے ساتھ ساتھ کرغیزـقازق صنعتی، تجارتی، اور لاجسٹکس کمپلیکس اک ٹیلک اور کاراسو چوکیوں کے قریب سینٹرل ایشیاء انٹرنیشنل سینٹر فار کراس بارڈر کوآپریشن کے قیام کا فیصلہ، ایک بہت ہی نمایاں قدم ہے۔ یہ راستہ یہ منصوبے علاقائی تجارتی تعلقات کو بڑھانے کیلئے مشترکہ منصوبوں کے قیام، باہمی سرمایہ کاری کو راغب کرنے، اور نمائشوں، میلوں اور دیگر تقریبات کی میزبانی کے ذریعے ملکوں کے درمیان بین الاقوامی تعاون کو فروغ دے رہے ہیں۔ اکتاو اور کوریک کی کیسپین بندرگاہوں کے ذریعے کاکیشین اور یورپی منڈیوں تک رسائی کے ساتھ، قازقستان میں نقل و حمل کی بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ قازقستان اقتصادی راہداریوں اور نقل و حمل کے مراکز کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جو مشرق اور مغرب کو جوڑتے ہیں، اور ملک اکتاؤ کنٹینر ہب بنانے کے ساتھ ساتھ اکتاؤ بندرگاہ اور کریک کی بندرگاہ کی صلاحیت کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ٹرانزٹ کے طریقہ کار کی ڈیجیٹلائزیشن سے وسطی ایشیائی کاروباروں کو کم وقت اور کم قیمت پر بین الاقوامی تجارت شروع کرنے میں بھی مدد مل رہی ہے۔قازقستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارتی روابط کو بہتر بنانے کا ایک نیا منصوبہ مئی 2022 میں وزارت تجارت اور انضمام اور اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے درمیان تعاون کے حصے کے طور پر شروع کیا گیا تھا۔ یہ وسطی ایشیائی نقل و حمل کے رابطے پر پہلے مکمل کیے گئے منصوبے کی منطقی توسیع ہے۔برآمدات کے فروغ کیلئے بنیادی ڈھانچہ تمام وسطی ایشیائی ممالک کیلئے اولین ترجیح ہے۔ خطے کا ہر ملک موجودہ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے یا نئے برآمدی امدادی ادارے قائم کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ازبکستان نے 2023 میں وسطی ایشیائی برآمدات کو فروغ دینے والی تنظیموں کی میزبانی کی تاکہ تجربے کے تبادلے اور خطے میں غیر ملکی تجارتی سرگرمیوں کے انعقاد میں مہارت پیدا کی جا سکے۔پاکستان کو چھوڑ کر پوری دنیا تجارتی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوشان ہیں اور پاکستان اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں کر رہا اس کی جگہ یہاں سمگلنگ کوفروغ دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ اور کمال دیکھیں کہ وسطیٰ ایشیائی ممالک بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط میں زیادہ دلچسپی نہیں دیکھا رہے جس کی وجہ یہاں کے حالات اور قانونی تجارت کی راہ میں حائل ہزاروں مشکلات ہیں ۔اگر حکومت پاکستان بھی دنیا کی دیگر ممالک کی طرح آسان شرائط اور رشوت سے پاک تجارتی اور اقتصادی سہولت کاری شروع کردے تو یہ ممالک پاکستان کے ساتھ بھی تجارتی روابط کا آغاز کرسکتے ہیں ۔ جس سے ہم چین کے مقابلے میں سستے اور پائیدار اشیاکی تجارت کرسکیں گے۔ورنہ دنیا ہم سے بہت آگے نکل جائے گی ۔اور ہمارے کرپٹ حکمران اور ہر سطح پر ان کے سہولت کار یورپ اور امریکہ سدھار جائیں گے ۔اور ہم بھوک اور افلاس سے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر مجبور ہوجائیں گے

my account of eleaver

my acount click here

live ENG VS IND CRICKET MATCH

 live cricket match ENG VS IND





Live England vs India, 1st Test England tour of India ENG 161/7 (50.2 ov) Ben Stokes* 15(49) Tom Hartley 4(5) Jasprit Bumrah 1/20 (6.2 ov) Day 1 - Session 2: England chose to bat. Click here to view more @espncricinfo : https://www.espncricinfo.com/series/england-in-india-2023-24-1389386/india-vs-england-1st-test-1389399/live-cricket-score 

قومی معیشت اور عوام National economy and people


ہمارا ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں



کچھ سال پہلے کی بات ہے 5 ہزار میں گھر کا ماہانہ راشن آجاتا تھا۔ اور آج اس 5 ہزار میں چند چیزیں آتی ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی ہے؟ وجہ ہماری معیشت کی تباہ حالی ہے۔


کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں ایسے حالات نہیں ہوتے جیسے یہاں ہیں۔ امیر اس قدر امیر ہے کہ جیسے وہ کسی ریاست کے گدی نشین ہوں اور غریب اس قدر غریب ہیں کہ جیسے وہ لاوارث ہوں۔ جو درمیان کا طبقہ ہے جسے ہم مڈل کلاس کہتے ہیں وہ تو ختم ہی ہوگئے ہیں یا ایسا کہہ سکتے ہیں کہ مڈل کلاس اب لوئر مڈل کلاس میں بدل چکی ہے کہ ان کو ضروریات زندگی کےلیے دن رات ایک کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے ہار جاتا ہے۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT   CLICK HERE 

ہمارا ملک اس وقت معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کو ہے، اور ہم ابھی تک ملکی معیشت پر سیاست کر رہے ہیں۔ حکومت کو دیکھیں تو وہ بھی ملکی معیشت پر سنجیدہ نہیں لگ رہی۔ جس میں پٹرول کی قیمتوں کو ایک مہینے میں متعدد بار بڑھانا معاشی طور پرایک غیر سنجیدہ عمل تھا کیونکہ ہمارے ملک میں معیشت اور سیاست کو ساتھ ساتھ چلایا جاتا ہے جس کا نقصان ہمارے ملک اور عوام کو ہی اٹھانا پڑتا ہے۔


بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکومت بس معیشت پر سیاست کرتی ہے، حالانکہ معیشت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ معیشت کو سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں حکومتیں معیشت کو سنجیدگی سے لے کر چلنے پر تیار نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبتا ہی چلا جاتا ہے۔ جو بھی حکومت آتی ہے وہ قرضے لیتی ہے اور ملک کو چلاتی ہے، جیسے ہم بھکاری ہوں۔ اور اس سے یہی لگتا ہے جیسے اقتدار میں تو آتے ہیں، پر ان کے پاس ملک کو چلانے کے لیے نہ تو کوئی پلان ہے نہ ہی روڑ میپ۔


جو بھی پارٹی کا لیڈر ہوتا ہے وہ ملک کی وزارت خزانہ کو اپنی کنیز سمجھتا ہے اور اپنی مرضی کا بندہ اس اہم پوسٹ پر لگا دیتا ہے۔ جتنے بھی اس ملک میں وزیر خزانہ آئے ہیں، سب کے سب کسی نہ کسی مقصد کے تحت لگائے جاتے ہیں۔ کوئی آئی ایم ایف کا نمائندہ بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے یا کوئی کسی کا منظور نظر بن کر اس ملک کا وزیرخزانہ لگتا ہے۔

حکومت میں کئی وزیر خزانہ آئے اور چلے گئے، لیکن ملک کا خزانہ ہمیشہ قرضوں کی زد میں رہا اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات میں دھنستا چلا گیا۔ ڈالر بڑھتا چلا گیا، چینی کی قیمت، پھر گندم، ہر چیز مہنگی ہوتی چلی گئی اور سب بس خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔


آئی ایم ایف کی شرائط پر ملک میں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی، پٹرول کی قیمتیں بڑھیں، بجلی کی قیمت آسمان سے باتیں کررہی ہے اور ساتھ میں روزمرہ کی ہر چیز مہنگی ہوتی رہی۔ دیکھا جائے تو گزشتہ دورِ حکومت میں بھی مہنگائی رہی تھی لیکن ساتھ میں معیشت بہتری کی طرف بھی چل پڑی تھی۔ اسٹیٹ بینک کو خودمختاری دی اور حکومت سے آزاد کیا، ملک میں ریکارڈ ریمی ٹینس آئے، یعنی بیرون پاکستان لوگوں نے ملک میں بہت پیسہ بھیجا، کورونا کی وبا کے باجود پوری دنیا نے اقتصادی سروے کے مطابق مہنگائی کا 8 فیصد ہدف پورا نہ ہوا۔ مہنگائی بڑھنے کی شرح 13 فیصد سے زیادہ رہی۔


اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ حکومت میں زراعت، انڈسٹری اور سروسز سیکٹر کے اہداف حاصل ہوئے، زراعت میں شرح نمو 4.4 فیصد رہی، صنعت میں شرح نمو 7.2 فیصد رہی اور خدمات کے شعبے میں شرح نمو 6.2 فیصد رہی، بڑی صنعتوں میں شرح نمو 10.5 فیصد رہی۔ اقتصادی سروے کے مطابق بجلی کی پیداوار اور تقسیم کی شرح نمو 7. فیصد رہی جبکہ مواصلات اور ٹرانسپورٹ میں ترقی کی شرح 5.4 فیصد رہی اور ساتھ میں اقتصادی سروے کے مطابق فی کس آمدن 2 لاکھ 46 ہزار 414 روپے رہی اور گیارہ ماہ میں ملکی برآمدات ریکارڈ 29 ارب ڈالر رہیں جبکہ تعلیمی شعبے میں شرح نمو 8.7 فیصد رہی۔


میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ یہ سب اگر ہوا ہے تو کہاں ہے؟ ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا؟ پھر ہر انسان پریشان کیوں ہے؟ مہنگائی کا جو جن پی ٹی آئی حکومت میں بے قابو ہوا تھا وہ ابھی تک قید نہیں ہوسکا۔ نہ تو اسے شہباز شریف قید کرسکے، نہ ہی نگران حکومت، تو آخر اس کا حل کیا ہے؟


غریب کی آواز سننے والا کون ہے یہاں؟ کبھی خیال آئے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ دن پہلے ایک سروے کرنے کا موقع ملا، اس دوران ایک ماں جی سے ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک بیوہ خاتون ہیں، کرائے پر رہتی ہیں، ایک بیٹا ہے لیکن اب وہ دماغی طور پر معذور ہے۔ وجہ صرف بے روزگاری۔ جب ایک جوان انسان کا جو اپنے گھر کا واحد کفیل ہو اچانک نوکری چلی جائے، کوئی کام نہ ملے تو وہ پاگل ہی ہوجائے گا۔ ماں جی اپنے پاگل بیٹے کو پالنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں لیکن مہنگائی کی وجہ سے اب دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتی۔ یہ سب بتاتے ہوئے ان کی انکھیں اشکبار ہوگئیں۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT   CLICK HERE 

میرا سوال ہے حکومت وقت سے کہ کیا ہماری معیشت اس قدر بدحال ہوگئی ہے جو کسی غریب کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتی؟ ایک روتی سسکتی ماں کے آنسو نظر نہیں آتے؟ کیا یہاں کوئی بھی ایسا حکمران نہیں جو اس ماں کو دو وقت کا کھانا دے سکے؟ کیا پاکستان میں رہنا ایک سزا بن گیا ہے؟ اس حد تک نوبت آگئی ہے یا تو غریب مرجائے یا ملک بدر ہوجائے۔ ایک سوال میں سب کےلیے چھوڑ رہی ہوں، ہماری اشرافیہ جو ہر ماہ ورلڈ ٹور پر کروڑوں خرچ کرسکتی ہے کیا کسی غریب کو دینے کےلیے چند ہزار بھی نہیں؟

زہریلی پولرائزیشن، کمزور جمہوریت Toxic Polarization, Weak Democracy



پشاور سے یہ افسوسناک خبر آئی ہے کہ سیاسی اختلاف کی وجہ سے باپ نے بیٹے کو گولی مار کے ہلاک کر دیا۔ معاملہ صرف اتنا سا تھا کہ بیٹے نے جو کچھ عرصہ پہلے ہی بیرون ملک سے آیا تھا، گھر پر اپنی پسند کی جماعت کا جھنڈا لگا دیا، باپ نے منع کیا، بحث و تکرار ہوئی تو والد نے طیش میں آکر بیٹے کو اپنے ریوالور سے گولی مار دی، اب بہت سے لوگ اسے ایک انفرادی واقعہ قرار دیں گے، لیکن صاحبو! یہ انفرادی واقعہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے سیاسی پولرائزیشن جس نے ہمیں اوپر سے لے کر نیچے گھر گھر تک تقسیم کر دیا ہے۔ پھر عدم برداشت اتنی ہے کہ دوسرے کو برداشت کرنا ایک گالی سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی اختلاف ہوتے ہیں، یہ جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ان اختلافات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت اور معاشرتی تقسیم بڑی خوفناک ہے، اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اسے روکا نہ گیا تو یہ چیز ہمارے داخلی سماج کو پارہ پارہ کر دے گی۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق بہت اچھی باتیں کر جاتے ہیں، مگر افسوس ان کی باتوں پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ اخبارات بھی ان کے بیان کو سنگل یا دو کالم سرخیوں کے ساتھ شائع کرتے ہیں، ان کے مقابلے میں جو سیاستدان اپنے بیانات سے نفرتیں پھیلاتے ہیں انہیں نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ سراج الحق نے لاہور میں خطاب کرتے ہوئے کہا  معاشرے میں زہریلی پولرائزیشن بہت بڑھ چکی ہے جس سے معاشرہ تقسیم ہو رہا ہے اس کے خاتمے کے لئے گرینڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، سیاسی قوتوں کو اس پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ بنیادی طور پر یہ بہت اہم بات ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے مگر آج کے سیاسی ماحول میں کہیں سے لگتا ہے کہ سیاسی قوتوں کی یہ ترجیح ہو سکتی ہے جس بھی جماعت کے قائدین کو دیکھیں وہ تقسیم کررہا ہے، متحد کرنے پر اس کا دھیان ہی نہیں۔ دنیا بھر میں انتخابی مہم ایشوز پر چلائی جاتی ہے۔ ہر جماعت اپنا مشن اور لائحہ عمل پیش کرتی ہے۔ مستقبل کے اہداف اور ترجیحات بتاتی ہے جن کی بنیاد پر عوام انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں جب تک دوسرے کو چور، ڈاکو، غدار اور کرپٹ نہ کہہ لیں بات نہیں بنتی۔

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

 سیاست بھی ایسے کی جاتی ہے جیسے گلی محلے کی دشمنی ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سے ملنا تو درکنار تمیز سے نام تک لینا انہونی بات سمجھی جاتی ہے جب سیاسی پولرائزیشن لیڈرشپ کی سطح پر شروع ہوئی ہے تو اس کا  اثر نیچے تک آتا۔ اوپر کی سطح پر تو چونکہ لیڈروں میں میل ملاقات نہیں ہوتی اس لئے معاملہ اس عمل کشیدگی تک نہیں جاتا، جتنا گلی محلے میں سیاسی اختلاف کی وجہ سے معاملات پر تشدد ہو جاتے ہیں۔

عوام جب دیکھتے ہیں اسمبلیوں کے اندر حتیٰ کہ ٹی وی پر گروپوں میں مار دھاڑ اور گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے تو وہ اپنی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہو جاتے ہیں سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کا رویہ ہماری زندگیوں میں کیوں در آیا ہے؟ اس سوال کا جواب سیاستدان ہی دے سکتے ہیں مگر وہ کبھی نہیں دیں گے جن کی سیاست کا دار و مدار ہی اس نکتے پر ہو کہ مخالفین پر ذاتی حملے کرکے، سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنی ہے، وہ بھلا کوئی شائستہ بات کیسے کر سکتے ہیں۔ آج کل الیکشن مہمات کا دور ہے۔ اتفاق سے میرا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں صوبائی اسمبلی کا ایک امیدوار ایک کارنر میٹنگ میں خطاب کررہا تھا۔ وہ اپنی بات کرنے کی بجائے مخالف امیدواروں کی کردارکشی کررہا تھا۔ کسی کو چوروں کا سرپرست، کسی کو جھوٹے مقدمات کا عادی اور کسی کو اجرتی قاتلوں کا حامی قرار دے کر باور کررہا تھا کہ اگر حلقے میں سکھ چین سے رہنا ہے تو اسے ووٹ دیں۔ یہ سن کر میں سوچ رہا تھا اس کے مخالف امیدوار بھی اپنے اپنے جلسوں میں یہی کہہ رہے ہوں گے اُن کی نظر میں تو یہ امیدوار بھی دو نمبر کا مجرم ہوگا۔ یہ نچلی سطح کی سیاست کا حال ہے۔ اوپر کی سطح پر دیکھیں تو الزامات کی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ تحریک انصاف کا اپنا بیانیہ ہے اور مسلم لیگ (ن) کا اپنا، پیپلزپارٹی اپنے تیرو تفنگ کے ساتھ میدان میں ہے۔ اس پر غضب سوشل میڈیا نے ڈھایا ہے۔ کسی کو پٹواری، کسی کو یوتھیا اور کسی کو جیالا کے خطاب دے کر نفرت بھرے تبصرے کئے جاتے ہیں۔ تقسیم اتنی زیادہ ہے کہ کسی شادی بیاہ کی تقریب میں دو جماعتوں کے لیڈر آپس میں رسماً ہاتھ بھی ملا لیں تو خبر بن جاتی ہے، یہ تبصرے ہوتے ہیں دیکھو اندر سے یہ سب ایک ہیں، اوپر سے ہمیں بے وقوف بنایا ہوا ہے، جب ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سطح اتنی بلند ہو جاتی ہے تو جمہوریت کی بنیادیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔ جمہوری معاشروں میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے جب ایک بار کوئی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو جاتی ہے تو وہ صرف اس جماعت کی نہیں پورے ملک کی نمائندہ ہوتی ہے اُسے پورے ملک کی سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور سیاسی قوتیں بھی اس کے آئینی حق کو تسلیم کرکے اس کے مینڈیٹ کا احترام کرتی ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی پولرائزیشن  الیکشن کے بعد بھی برقرار رہتی ہے، بلکہ پہلے دن سے نئی حکومت اور سیاسی قوتوں کے درمیان ٹھن جاتی ہے۔ افہام و تفہیم اور درگزر ایک ایسا خواب ہے، جو ہماری سیاسی تاریخ میں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔


اس سیاسی پولرائزیشن کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ہماری سیاست اور جمہوریت تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ سیاسی قوتیں اپنی طاقت نہ منوا سکیں اور کٹھ پتلی بن کر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے لگیں۔ آج بھی آپ دیکھیں ہر سیاسی جماعت عوام کی طرف دیکھنے کی بجائے غیبی اشارے کی طرف دیکھتی ہے۔ اس حوالے سے سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتی ہیں کسے اشارہ ملتا ہے اور وہ بھاگ کر اپنا کندھا پیش کرتی ہے جب اس ملک میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو ہی بڑی جماعتیں تھیں تو بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کو نجانے یہ خیال کیسے آ گیا کہ ایک میثاق جمہوریت ہونا چاہیے۔ یہ میثاق ہوا مگر خوئے غلامی نہ بدلی،جونہی موقع ملا پھر ایک دوسرے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کو کندھے پیش کئے گئے۔ تیسری جماعت تحریک انصاف اُبھری، اسے اقتدار ملا تو بدقسمتی سے عمران خان ایک ایسے نعرے میں پھنس گئے جس نے سیاسی قوتوں کو مضبوط کرنے کی بجائے مزید کمزور کر دیا۔ انہوں نے حلف اٹھاتے ہی کہا وہ سیاستدانوں سے نہیں ملیں گے انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس وقت کے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے ساتھ ہاتھ تک ملانے سے انکار کیا۔ یوں ایک ایسی خلیج پیدا ہوئی،جس نے سیاسی قوتوں کو کمزور اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کر دیا۔ آج وہی رویہ نوازشریف نے اپنایا ہوا ہے۔ 

IF YOU WANT TO EARN DAILY $40 WITHOUT ANY INVESTMENT    CLICK HERE 

وہ عمران خان کے حق میں ایک لفظ کہنے کو تیار نہیں۔ نفرت کی سیاست کا ڈنکا آج بھی بج رہا ہے۔ بات بلاول بھٹو تک آ گئی ہے، جو اپنا منشور پیش کرنے کی بجائے زور اس بات پر دے رہے ہیں کہ نوازشریف کو چوتھی مرتبہ ہرگز وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔ ایسی فضا میں عوام کیوں اثر قبول نہ کریں اور اس پولرائزیشن کا شکار نہ ہوں، جس میں عدم برداشت کا زہر گھل چکا